ہوائی اڈہ پہنچنے کے بعد غضنفر نے وہاں موجود ایک بنگالی حمال سے اسی کے لہجے میں پوچھا کیوں بندھو تمہارا ڈھاکہ سے آنے والا جہاز آ گیا کیا؟
وہ بولا ابھی نہیں آیا۔ دو گھونٹا لیٹ چول رہا ہے۔ حمال نے اپنے روایتی انداز میں جواب دیا۔
دو گھنٹہ! اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا جیسی سست یہ بنگالی قوم ہے ویسی ہی ان کی قومی ہوائی کمپنی بمان ہے۔
یہ سن کر حمال کی قومی حمیت بیدار ہو گئی اور وہ خونخوار نظروں سے غضنفر کر دیکھنے لگا لیکن اس بیچ ایک اعلان نشر ہونے لگا جس میں کہا جا رہا تھا کہ لاہور سے آنے والی پی آئی اے فلائیٹ اپنے وقت مقر رہ سے ۵ گھنٹے تاخیر سے متوقع ہے۔
حمال بولا سنا تم نے کیا بولتا پانچ گھونٹا جیادہ ہائے کہ دو گھونٹا۔
غضنفر کھسیا کر بولا بھائی غلطی ہو گئی معافی چاہتا ہوں نہ جانے ان ہوائی جہازوں کو آخر کیا ہو گیا ہے۔ ان سے اچھی ریل گاڑی ہے۔
کیا تمارا پاکستان میں سب ریل گاڑی بوقت پہ چولتا ہے؟ ہمارا بونگلہ دیش میں تو وہ بھی دیری سے چولتا ہے۔
جی تم صحیح بولتا ہے ریل گاڑی بھی کہاں وقت پر چلتی ہے خیر۔ اب کیا کیا جائے۔ چلو انتظار کرتے ہیں یہ کہہ کر اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو سامنے ایک اخبارات کی الماری نظر آئی جہاں اخبارات کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور لوگ مفت میں اخبار اٹھا اٹھا کر لے جا رہے تھے۔ غضنفر بھی وہیں پہنچ گیا لیکن اس میں تو صرف عربی اور انگریزی اخبارات و رسائل تھے۔ ان کے درمیان ایک چینی اخبار بھی تھا لیکن کوئی اردو اخبار یا جریدہ نہیں تھا۔
غضنفر سوچنے لگا اس ہوائی اڈے پر چینی زبان سمجھنے والوں کی بہ نسبت اردو پڑھنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن ان کا اپنا اخبار موجود نہیں ہے۔ دور ایک بنچ پر اس کو ایک پٹھان نظر آیا تو وہ بات چیت کی غرض سے وہاں پہنچ گیا۔ وہ نوجوان اردو اخبار پڑھ رہا تھا۔ غضنفر نے اسے سلام کیا تو اس نے جواب تو دیا مگر پھر اخبار منہمک رہا۔ غضنفر نے اس سے خیریت دریافت کی تو وہ رکھائی سے ہاں بولا پھر اخبار میں کھو گیا۔ غضنفر نے پوچھا کیا میں ۰۰۰۰؟
اس نے غضنفر کی جانب دیکھے بغیر پاس پڑا دائجسٹ غضنفر کی طرف بڑھا دیا۔ اس نوجوان کی بے اعتنائی پر غضنفر کو بہت غصہ آیا لیکن پھر بھی اس نے وقت گذاری کے لئے ڈائجسٹ لے لیا اور دبئی کی کہانی میں کھو گیا۔ جبل نور نامی داستان تھی ہی کچھ ایسی کہ اس نے غضنفر کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا۔
واجد علی شاہ کو اس دارِ فانی سے کوچ کئے ہوئے کئی صدیاں بیت چکی تھیں مگر ان کی تہذیب و روایات اب بھی سرزمین لکھنو پر زندہ و تابندہ تھیں۔ میر مسعود علی خان اور مرزا صفدر حسین بیگ جیسے نہ جانے کتنے خانوادے تھے جن کے اندر اب بھی وہی پرانی شان کے ساتھ لکھنو کی آن قائم و دائم تھی۔ میر صاحب اور مرزا صاحب بہت اچھے دوست تھے۔ ان کے فکرو مزاج میں بلا کی یکسانیت تھی۔ گومتی ندی کے ایک کنارے پر میر صاحب کی شاندار حویلی تھی اور دوسری جانب اتنی ہی پر وقار مرزا صاحب کی کوٹھی تھی۔ ان دونوں نے معاشی میدان میں اپنے آپ کو زمانے سے ہم آہنگ کر لیا تھا۔ اپنی رہائش کے علاوہ دیگر کوٹھیوں کو ہوٹلوں اور تجارتی مراکز میں تبدیل کر دیا تھا جس سے کافی آمدنی ہو جاتی تھی۔
مرزا صاحب حصص بازار کے بھی کھلاڑی تھے۔ شاذونادر ہی ان کے اندازے غلط ہوتے تھے۔ شاید ہی کسی کمپنی کے شیئر انہوں نے خریدے ہوں اور وہ آگے چل کر ڈوب گئی ہو۔ اس کے برعکس میر صاحب کو زمین جائیداد کی خریدو فروخت میں ملکہ حاصل تھا۔ نہ جانے ان کو کیسے اندازہ ہو جاتا تھا کہ کس علاقہ میں آگے چل کر ترقی ہونے والی ہے۔ ان کا حال یہ تھا کہ کوڑیوں کے بھاؤ میں زمین خریدتے اور سونے کے مول فروخت کر دیتے لیکن معاشرتی معاملات میں وہ دونوں کسی مصالحت کے قائل نہیں تھے۔ جدید مغربی انداز میں تجارت کرنے والے یہ دونوں دوست جب گھر کے اندر داخل تو پلک جھپکتے صدیوں پیچھے لوٹ جاتے تھے۔
میر صاحب کا معمول یہ تھا کہ وہ اپنی کوٹھی میں آنے کے بعد دیوان خانے کے ایک مخصوص دیوان پر بیٹھ جاتے۔ اس دوران گھر کے سارے بچے ایک ایک کر کے ان کی خدمت میں سلام بجا لاتے اور ان کے ہاتھ کا بوسہ لیتے۔ وہ بڑی شفقت کے ساتھ جواب دیتے اور ان کی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر دعاؤں کے ساتھ روانہ کر دیتے۔ اس کے بعد حاضر نہ ہو سکنے والوں کی وجہ اور خیریت معلوم کرتے۔ ان میں سے اگر خدانخواستہ کوئی بیمار ہوتا تو اپنی آرام گاہ میں داخل ہونے سے قبل اس کی مزاج پرسی کرتے۔ ان کے لاکھ تھکے ہونے کے باوجود اس طرز عمل میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہوتی۔
مرزا صاحب کو بھی اپنے بچوں، پوتوں اور نواسوں سے بے حد محبت تھی۔ ان کے اپنے اور بھائیوں کی اولاد در اولاد کی جملہ تعداد ۵۰ سے تجاوز کر گئی تھی لیکن وہ ہر ایک کو اس کے نام سے پکارتے۔ ان سب کی تعلیم، امتحانات اور دیگر مشاغل سے واقف رہتے۔ اسکول کی مختلف نشستوں میں بہ نفسِ نفیس شرکت فرماتے بلکہ کھیل کود کے مقابلوں میں بھی اگر کوئی شریک ہوتا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے پہنچ جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے پوتوں اور نواسوں میں وہ دونوں بے حد مقبول تھے۔
صدیوں سے ان دو خاندانوں کے درمیان قریبی مراسم پائے جاتے تھے جس کا سبب ایک عجیب و غریب روایت تھی جو شاید ہی کہیں اور پائی جاتی ہو۔ روایت یہ تھی کہ ہر نسل میں ایک خاندان کے لڑکے کی شادی دوسرے خاندان کی لڑکی سے کر دی جاتی عام طور پر اگر ایک بار کوئی بہو بیاہ کر لائی جاتی تو اگلی بار بیٹی بیاہ کر روانہ کر دی جاتی۔ یہ سلسلہ نہ جانے کتنے نسلوں سے جاری تھا اور اسی سلسلے کی ایک کڑی نازنین اور ناظم کی شادی بھی تھی۔
میر صاحب اور مرزا صاحب کے یہاں دولہا اور دولہن سے ان کی رائے معلوم کرنے کا رواج نہیں تھا۔ والدین اپنے بچوں کا جوڑا طے کرتے اور اولاد اطاعت و فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے قبول کر لیتے۔ اس معاملے کی نزاکت یہ تھی کہ نازنین اپنے ہی خاندان کے ایک دور کے رشتے دار سے نکاح کی خواہشمند تھی مگر اس سے سننا تو درکنار پوچھا تک نہیں گیا اور اس کی شادی ناظم سے کر دی گئی۔
اس کے برعکس ناظم کا حال یہ تھا کہ وہ فی الحال ازدواجی زندگی کے بکھیڑے میں پڑنے کے بجائے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے پر توجہ دینا چاہتا تھا لیکن اس کی بھی ایک نہ چلی اور اس پر نازنین کی ذمہ داری ڈال دی گئی۔ خیر ان دونوں نے علم بغاوت بلند کرنے کے بجائے چپ چاپ سرِ خم تسلیم کرنے میں عافیت سمجھی۔ وہ جانتے تھے کہ ایک بار والدین کی بات مان لینے کے بعد گھر بسا لینے پر وہ آزاد ہو جائیں گے اور اپنے مستقبل کا جو چاہیں گے فیصلہ کریں گے۔ دونوں کو یقین تھا کہ وہ بہت جلد ایک دوسرے سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ناظم نے اپنے خفیہ منصوبے پر عمل درآمد کرنے کیلئے دوبئی نکل جانے کا فیصلہ تھا۔ اس کا خیال تھا اگر نازنین اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا کام آسان ہو جائے گا۔ وہ اگر ناراض ہو کر میکے جانے کی دھمکی دیتی ہے تو دباو میں آنے بجائے از خود اس کو میر صاحب کے گھر چھوڑ کر دبئی کی راہ لے گا لیکن نازنین جانتی تھی دبئی میں جا کر ناظم سے جان چھڑانا سہل تر ہے۔ وہاں خاندان والوں کا دباو نہیں ہو گا اس لیے اپنی مرضی کا فیصلہ وہ بہ آسانی کر سکے گی۔ نازنین اپنے رشتے داروں سے ملنے کئی بار دبئی جا چکی تھی اور اس کو پتہ تھا کہ وہاں ملازمت کا حصول یا خود اپنا کاروبار کرنا ہندوستان کے مقابلے سہل تر ہے۔ اس نے ناظم کا فیصلہ بسروچشم قبول کر لیا۔ اس طرح ناظم کا پہلا وار تو خالی گیا اس کے باوجود وہ آئندہ کے مراحل سے متعلق پر امید تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ اپنی منزل مقصود سے ایک قدم نزدیک ہو گیا ہے۔
دبئی میں پہلے تو کچھ دن وہ لوگ ایک ہوٹل میں رہے اور اس کے بعد گھر کرائے پر لے لیا۔ گھر کے انتخاب میں ناظم نے نازنین کا مکمل خیال رکھا اس لیے کہ وہ جانتا تھا یہ چند دنوں کی مہمان ہے اس لیے کیوں بلاوجہ جھک جھک کی جائے؟ نازنین بھی بڑی آسانی سے راضی ہو گئی اس لیے کہ اس کو بھی اس گھر مستقل رہنا نہیں تھا۔ وہ دن بھر اخبار میں ملازمت تلاش کرتی تھی یا مختلف کاروباری مواقع کا مطالعہ کرتی رہتی تھی۔
رشتے داروں کی دعوتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ہر کوئی ان کی خوب خاطر مدارات کرتا اور خوشگوار ازدواجی زندگی کی دعاؤں سے نوازتا لیکن وہ دونوں کبھی بھی اس آمین نہیں کہتے۔ ان دونوں کی چونکہ ایک دوسرے توقعات نہیں کے برابر تھیں اس لیے شکایات بھی بالکل نہیں تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ توقع کے بغیر شکایات کا تو دفتر ہی نہیں کھلتا۔
ناظم کی کاروباری پیش رفت تیز ہونے لگی تھی۔ اپنے ایک دوست کے کپڑوں کی تجارت میں اس نے سرمایہ کاری کرنے کا من بنا لیا تھا۔ اس کے لیے وہ اپنے والد صاحب کو راضی کرنے لگا تھا۔ گھر کے اندر کسی شئے کی کمی نہیں تھی اس کے والد چاہتے تھے کہ بیٹا کچھ اور دن بے فکری کے ساتھ عیش کرے اور ناظم یہی کرتا لیکن نازنین کے ساتھ نکاح نے سارا منظر نامہ بدل دیا تھا۔
نازنین نے ایک دن باتوں باتوں میں ناظم کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ گھر میں پڑی پڑی بور ہو رہی ہے اس لیے اپنے آپ کو مصروف کرنے کے لیے ملازمت کرنا چاہتی ہے۔ نازنین کو توقع تھی کہ ناظم اسے اپنے خاندان کی توہین سمجھ کر ناراض ہو جائے گا اور یہ خیال اپنے دل سے نکالنے کی دہائی دے گا۔ وہ اپنے ارادے پر اڑ جائے گی اور بالآخر بات اس قدر بڑھے گی کہ دونوں الگ ہو جائیں گے لیکن خلاف توقع بغیر تفصیل جانے ناظم نے اجازت دے دی۔ اس بار نازنین کا تیر خطا ہوا تھا۔ دونوں اندر ہی اندر اس فکر میں تھے کہ کسی طرح تعلقات بگاڑے جائیں لیکن ہنوز کامیابی سے محروم تھے۔ برف بردار آتش فشاں پہاڑوں کے سینے میں ایک لاوہ پک رہا تھا جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا۔
٭٭٭