قاسم سمرو نے کہا ہماری گزشتہ گفتگو ایک خاص سوال پر آئی اور پھر میں دوسرے مقدمے میں الجھ گیا۔ اس لئے بہتر ہے بات وہیں سے آگے بڑھائی جائے۔ آپ کہہ رہی تھیں کہ میں رضوان سے محبت نہیں کر سکتی اس لئے کہ اس کے دل میں آپ کے لئے محبت نہیں پائی جاتی۔
جی ہاں وہ مجھ سے محبت نہیں نفرت کرتے ہیں۔ رضیہ نے تائید کی۔
وہ نفرت کرتا ہے اور آپ کیا کرتی ہیں محبت یا نفرت؟
وکیل صاحب یہ کس طرح کا سوال آپ کر رہے ہیں؟ رضیہ نے پریشان ہو کر دریافت کیا۔
رضیہ بی بی سوال کے جواب میں سوال کرنے کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے آپ سے پوچھا ہے کہ آپ رضوان سے محبت کرتی ہیں یا نفرت؟ مجھے اس سوال کا جواب ہاں یا نہیں میں چاہئے۔
( تذبذب کے عالم میں ) در اصل اس کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔
یہ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح دن اور رات ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔ اندھیرا اور اجالا ایک ساتھ پائے نہیں جاتے اسی طرح یہ متضاد جذبات بھی۔۔ ۔
رضیہ نے پہلی مرتبہ جھنجھلا کر قاسم کا جملہ کاٹ دیا اور بولی ہو سکتا ہے۔ لیکن میرے پاس اس سوال کا دو ٹوک جواب نہیں ہے۔
قاسم نے کہا اس سوال کا جواب بہت ضروری ہے اس لئے کہ رشتوں کے بننے اور بگڑنے کا دارومدار اسی پر ہے خیر میں آپ سے ایک اور بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ وہ آپ سے علیٰحدگی اختیار کرنا چاہتا ہے یا آپ اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہیں؟
وہ مجھ سے علحٰدہ ہو چکے ہیں اب میں بھی ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی؟
لیکن یہ پیش قدمی آپ کی جانب سے ہے اس نے آپ سے الگ ہونے کی خاطر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں کی؟
جی ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں ہی اقدام کر رہی ہوں۔
تو گویا مجھے پہلے سوال کا جواب مل گیا جو محبت کرتا ہے وہ پاس رہنا چاہتا ہے اور نفرت کرتا ہے وہ دور جانا چاہتا ہے۔ رضوان آپ کو اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا اور پاس رہنا چاہتا ہے اس کے برخلاف آپ اس کو دور کرنا چاہتی ہیں اور دور جانا چاہتی ہیں؟
جی ہاں میں سمجھ گئی آپ الٹا مجھے موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی محبت کے جواب میں نفرت کرتی ہوں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نئی صورتحال کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ میں بھی ان سے محبت کرتی تھی لیکن اس محبت میں نفرت کا زہر کس نے گھولا؟ میں نے یا انہوں نے؟ اگر وہ نکاح ثانی نہ کرتے تو یہ محبت نفرت میں نہ بدلتی؟
صورتحال بدل چکی تھی رضیہ سوالات کر رہی تھی اور قاسم سمرو ان کا جواب دے رہے تھے اوہ بولے اگر نکاح ثانی محبت کو نفرت میں بدلتا ہے تو یہ حرکت رضوان نے کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کی محبت نفرت میں بدل جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
جی ہاں یہ درست ہے۔ میں ان قانونی موشگافیوں کو نہیں جانتی جس میں آپ مجھے پھنسارہے ہیں میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ رضوان احسان فراموش ہے اس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ مجھے فریب دیا ہے۔ میری توہین کی ہے۔ میں اس سے انتقام لینا چاہتی ہوں اس کو اس کے کئے کی قرار واقعی سزادلانا چاہتی ہوں اور اس مقصد کے لیے آپ کی قانونی مدد حاصل کرنے کی خاطر حاضر ہوئی ہوں۔
قاسم سمرو نے نہایت نرمی سے جواب دیا بی بی صاحبہ میں آپ کے جذبات کو سمجھتا ہوں لیکن انصاف کی دیوی نہ اسے دیکھ سکتی اور نہ محسوس کر سکتی ہے اس کے ہاتھ میں جو ترازو ہے اس پر جذبات و احساسات کو تولا نہیں جاتا۔ مابعد طبیعی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قانون کی نگاہ میں چونکہ رضوان نے کوئی غلطی نہیں کی اس لئے عدالت اس پر چارہ جوئی نہیں کر سکتی۔
(زچ ہو کر)گویا جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس کی تدارک کسی صورت ممکن نہیں ہے؟ عدلیہ ظالم کو اس کے کیے کی سزا دینے سے قاصر ہے؟
دیکھئے میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ظلم کیا ہے؟ وہ جس کا ارتکاب رضوان نے کیا ہے یا جسے آپ کرنے جا رہی ہیں لیکن آپ کو یہ بتلا دینا چاہتا ہوں کہ اب آپ کے سامنے صرف دو متبادل ہیں ایک مصالحت دوسرے بغاوت۔ آپ اگر مصالحت کر کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں تو آپ کو کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر آپ خلع حاصل کرنا چاہتی ہیں تو میں اس کے لئے قانونی کاروائی کر سکتا ہوں۔
جی ہاں آپ اپنا کام کیجئے میں اس عذاب سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہوں رضیہ سلطانہ نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
مناسب قاسم سمرو بولے۔ لیکن اس سے پہلے کہ آپ حتمی فیصلہ کریں میں آپ کی توجہ ایک خاص پہلو پر مبذول کرانا چاہتا ہوں؟
جی فرمائیے۔ آپ کا یہ فیصلہ اگر نافذ ہو جائے تو اس میں آپ کا اور بچوں کا جن سے آپ محبت کرتی ہیں نقصان ہے نیز رضوان اور اس کی دوسری بیوی کا جن سے آپ نفرت کرتی ہیں فائدہ ہے۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آپ ان لوگوں کا فائدہ کیوں کرنا چاہتی ہیں جن سے آپ کو نفرت ہے؟ بقول آپ کے اگر رضوان کو بھی آپ سے نفرت ہے تو وہ اس فیصلہ سے خوش ہو جائے گا اس کی نئی بیوی بھی پھولی نہیں سمائے گی کہ راستے کا کانٹا نکل گیا۔ اس کے برعکس آپ کے بچوں کے سر سے والد یا والدہ کا سایہ اٹھ جائے گا۔
جس شخص نے مجھے دھوکہ دیا ہے میں اس کے بچوں کی فکر کیوں کروں؟
اچھا تو ان بچوں سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے؟ کیا یہ صرف رضوان کے بچے ہیں تمہارے نہیں ہیں؟
آپ کیسی بات کرتے ہیں وکیل صاحب میرا ان سے تعلق نہیں ہے؟ وہ میری ذات کا حصہ ہیں۔ ان کا کسی اور سے کیا تعلق ان کا صرف اور صرف مجھ سے تعلق ہے؟ رضیہ متضاد باتیں بول رہی مگر غصے کے عالم میں سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
تو پھر کیا آپ چاہتی ہیں کہ آپ انہیں غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں؟
جی نہیں۔ میں کسی کو ان کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے نہیں دوں گی؟
وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا بچے اپنے والد کے بغیر خوش رہ سکیں گے؟
کیوں نہیں؟ نہیں نہیں! شاید نہیں؟
اور کیا تم ان بچوں کے بغیر خوش رہ سکو گی؟
نہیں! ہرگز نہیں!! ہرگز نہیں ہرگز نہیں!!! رضیہ خاموش ہو گئی اور پھر اپنے آپ سے کہنے لگی یہ کیسی گلیاں جو اچانک بند ہو جاتی ہیں۔ یہ کیسے راستہ ہیں جن پر چل انسان وہیں پہونچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا؟
قاسم سمرو پھر ایک بار کسی اور مقدمہ کی تیاری کی خاطراجازت لے کر باہر جا چکے تھے۔ رضیہ کی گود میں ہاشم اس گرما گرم گفتگو سے بے نیاز نہایت پرسکون نیندسو رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ محبت کیا ہے؟ نفرت کیا ہے؟ مصلحت کیا ہے؟ بغاوت کیا ہے؟ فائدہ کیا ہے اور خسارہ کیا ہے؟ خوشی کیا ہے اور غم کیا ہے؟ ان تمام بکھیڑوں سے آزاد یہ ننھا فرشتہ کچھ دیر کھیلا تھوڑا سا کھایا اور پھر گہری نیند میں سو گیا۔ وہ نیند جو رضیہ کی آنکھوں کا کانٹا بن چکی تھی۔ وہ نیند جو رضیہ کو بھیانک خواب دکھلاتی تھی۔ وہ نیند جو سکون کے بجائے عذاب بنی ہوئی تھی۔
رضیہ سوچ رہی تھی کہ وہ ہاشم کی طرح کیوں نہیں سو سکتی؟ شاید اس لئے کہ وہ سوچتی ہے اور ہاشم نہیں سوچتا۔ وہ کھیلتا ہے کھاتا پیتا ہے اور سو جاتا ہے۔ ہاشم جاگتا ہے اور جیتا ہے لیکن سوچتا نہیں ہے۔ رضیہ سوچ رہی تھی کہ وہ کیوں سوچتی ہے وہ اپنے سوچ بچار میں غرق تھی کہ شاہین کی آوازاس کے کانوں سے ٹکرائی او ہو یہ تو سو گیا؟ لاؤ بہن میں اسے بستر پر سلادوں اور یہا باجی کب چلے گئے؟ آپ نے ہمیں بتایا کیوں نہیں؟ خیر میں ابھی آتی ہوں یہ کہہ شاہین ہاشم کو اٹھا کر لے گئی۔ پروین رضیہ کے پاس بیٹھ گئی اور قاسم سمرو کمرے میں پھر سے داخل ہو گئے۔
پروین نے کھڑے ہو کر باہر جانے کی اجازت طلب کی رضیہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔ اسے سہارے کی ضرورت محسوس ہو رہی اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ قاسم سمرو نے آتے ہی سوال کیا میں آپ سے ایک بات پوچھنا بھول گیا۔ کہ آخر اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد آپ کو اس بات کا علم کیسے ہوا؟
رضیہ خاموش رہی پروین بولی بات در اصل یہ ہے رضوان ابو ظبی میں رہتے ہیں اور اپنی سالانہ چھٹی میں ایک ماہ کیلئے یہاں آتے ہیں۔ ویسے تو گیارہ ماہ بعد ہی رضیہ کو اس بات کا علم ہوتا لیکن اتفاق سے رضیہ کے ایک پڑوسی کی ملاقات ابو ظبی میں رضوان سے ہو گئی اور اسے پتہ چل گیا سو اس نے رضیہ کو فون پر اطلاع دے دی۔
او ہو ایسی بات ہے تو گو یا وہ سال میں صرف ایک ماہ ان کے ساتھ گذارتا ہے۔
جی ہاں رضوان ان سے کہتے کہتے تھک گیا کہ میرے ساتھ ابو ظبی چلو لیکن بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر رضیہ نے از خود منع کر دیا تھا۔ اس لئے یہ سال میں ایک ماہ کا نظام قائم ہو گیا۔
اب آئندہ چھٹیوں میں جب رضوان آئے گا تو کیا کرے گا؟
رضیہ نے جب ان کا فون لینا بند کر دیا تو انہوں نے نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور رضیہ کو سمجھانے کیلئے کہا۔ انہوں نے مجھ سے کہا وہ چاہتے ہیں ایک سال کے گیارہ مہینے چمیلی یعنی نئی بیوی ان کے پاس ابو ظبی میں رہے دوسرے سال کے گیارہ مہینہ رضیہ وہاں رہے اسی طرح ایک سال بچوں کے ساتھ رضیہ رہے گی اور دوسرے سال چمیلی
پھر کیا ہوا؟ قاسم نے پروین سے پوچھا۔
میں نے یہ تجویز رضیہ کے سامنے ڈرتے ڈرتے رکھی اس لئے کہ مجھے یقین تھا وہ اسے ٹھکرا دے گی اور یہی ہوا رضیہ نے کہا ایک سال تو درکنا رمیں ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے بچوں پر اس چڑیل کا سایہ پڑنے نہ دوں گی۔
پھر آپ نے یہ بات اسے بتائی۔
جی ہاں جب دوبارہ فون آیا تو میں نے رضیہ کے جواب سے انہیں آگاہ کر دیا۔
اس پر رضوان کا رد عمل کیا تھا؟
رضوان پریشان تھا اس نے کہا ٹھیک ہے اگر وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے تو میں چھٹیوں کے دوران چمیلی کو اپنے میکے روانہ کر دوں گا اور ساری تعطیلات حسب معمول رضیہ کے ساتھ گذاروں گا۔
قاسم سمرو نے کہا رضوان تجویز نہایت معقول ہے۔ رضیہ اس ساری گفتگو میں بے جان بت کی مانند بیٹھی ہوئی تھی ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اس کا اپنا مسئلہ زیرِ بحث ہے یا کسی غیر کے مسائل پر بات ہو رہی ہے؟
قاسم سمرو نے ایک اور سوال کیا؟ پروین اس نئی صورتحال کے اثرات کیا پڑیں گے؟ کیا ان کے گھر میں معاشی مسائل پیدا ہو جائیں گے؟
پروین بولی میں ایسا نہیں سمجھتی۔ اس لیے کہ رضوان اپنے بچوں سے ہر گز غافل نہیں ہوں گے اور ان کی کفالت جاری رکھیں گے۔ رضیہ خود قناعت پسند ہے؟ فضول اخراجات سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ تمام بچوں کو امتیازی نمبرات کے باعث تعلیمی وظائف ملتے ہیں اور ویسے بھی یہ اپنی آمدنی کا اچھا خاصہ حصہ غریب پڑوسیوں اور رضوان کے رشتہ داروں پر خرچ کر دیتی ہے۔ ایسے میں ہو سکتا ہے دوسروں پر اس کا تھوڑا بہت اثر پڑے لیکن ان کے اپنے اخراجات پر یقیناً کوئی خاص اثر نہیں ہو گا۔
قاسم سمروکا اگلا سوال رضیہ سے تھا لیکن مخاطب پروین تھی وہ بولے اگر مادی اثرات نہیں پڑتے؟ اوقات اور توجہات میں کمی واقع نہیں ہوتی تو آخر مسئلہ کیا ہے؟ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا؟
اس بار رضیہ نے اپنی چپی ّ توڑی وہ بولی یہ آپ نہیں سمجھ سکتے یہ بات ان کی سمجھ میں کبھی نہیں آ سکتی یہ اس کا ادراک مردوں کے بس میں نہیں ہے۔ اس کو تو صرف ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے وہ عورت جس کی زندگی کو۔ خوشیوں کو۔ محبتوں کو تقسیم کر دیا گیا ہو۔ وہ عورت جو بلا شرکت غیرے اپنی کائنات پر مکمل حکمرانی چاہتی ہو۔ وکیل صاحب کوئی ایسی صورت نکالیں کہ ان کی زندگی سے وہ نکل جائے۔
قاسم سمرو نے جواب دیا رضیہ بہن انسان صرف اپنے بارے میں فیصلے کر سکتا ہے اپنے رشتوں کو سنوار سکتا ہے اور ان کو بگاڑ بھی سکتا ہے۔ لیکن دوسروں کے بارے میں ایساکچھ بھی نہیں کر سکتا۔ وہ خود چاہے تو نفرت بھی کر سکتا ہے اور محبت بھی لیکن دوسروں کو محبت یا نفرت کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
کیوں؟ کیوں؟ آخر کیوں؟ انسان اس قدر مجبور کیوں ہے؟ وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟
دیکھو رضیہ بی بی محبت اور نفرت میں زبر دستی کی بھی جاتی ہے اور اسے برداشت بھی کیا جاتا ہے لیکن زبردستی نہ تو محبت کو نفرت میں اور نہ نفرت کو محبت میں بدلا جا سکتا ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی قانون یا کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو دو محبت کرنے والے دلوں میں نفرت ڈال دے۔
آپ اس قدر وثوق سے یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟
اس کی وجہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ مجھے اپنی بیوی سے بے حد محبت تھی۔ والدین نے اس کا بیاہ میرے ساتھ کر دیا۔ ایک سال کے اندر ہاشم کے باپ ابراہیم کی ولادت ہوئی لیکن میری اور ابراہیم کی محبت میری بیوی نازنین کو روک نہ سکی۔ وہ دوسالہ ابراہیم کو چھوڑ کر چلی گئی اور مجھ سے خلع حاصل کر لیا۔
لیکن وہ کہاں گئی؟
وہ اس شخص کے پاس چلی گئی جس سے اس کو محبت تھی اور آج بھی وہ دونوں نہایت خوشگوار ازدواجی زندگی گذار رہے ہیں۔
رضیہ حیرت سے قاسم کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ رہی تھی وہ بولی وہ آپ کو چھوڑ کر چلی گئی باوجود اس کے کہ آپ اس سے محبت کرتے تھے۔
جی ہاں نازنین مجھ کو اسی طرح چھوڑ گئی جس طرح آپ رضوان کو چھوڑ دینا چاہتی ہیں جبکہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے۔
رضیہ نے کہا وکیل صاحب محبتوں کے یہ سلسلے شاید کبھی ہماری سمجھ نہیں آ سکتے۔ شاید اسی لئے دنیا محبت کو اندھا کہتی ہے۔
لیکن رضیہ بی بی ایسا صرف وہی لوگ کہتے ہیں جو محبت میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ آپ جیسے اور مجھ جیسے لوگ۔ جو کامیاب ہوتے ہیں وہ نہیں کہتے بلکہ وہ تو اس دنیا کو اندھا کہتے ہیں جسے محبت نظر نہیں آتی۔
پروین شاکر نے بے ساختہ قاسم سمرو کی تائید کی۔
قاسم سمرو بولے دیکھو یہ محبت کے میدان میں کامیاب ہیں اس لئے اس قدر پر جوش تائید کر رہی ہیں آپ کو اپنی ازدواجی زندگی کامیاب بنانے کی خاطر میری نہیں بلکہ ان کی ضرورت ہے۔
پروین نے کہا جی نہیں ڈاکٹر صاحب میں تو بس اس شعر پر عمل کرتی ہوں کہ؎
محبت کی عدالت میں شکایت کر نہیں سکتی
گلے شکوے مقابل ہوں تو چاہت ہار جاتی ہے
قاسم سمرو نے کہا یہ شعر میرے لیے اس قضیہ کا حاصل ہے۔ میں آپ سب کی خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے دعا گو ہوں۔ اللہ حافظ۔
رضیہ سلطانہ بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے گھر سنسار میں لوٹ رہی تھی جہاں رضوان بانہیں کھولے اس کا منتظر تھا۔
٭٭٭