پروین حیرت سے رضیہ کو دیکھ رہی تھی قاسم ان سے اجازت لے کر دوسرے مقدمے کی تیاری کیلئے کمرے سے باہر جا چکے تھے۔ اس بیچ قاسم سمرو کی بہو شاہین اپنے بیٹے کے ساتھ چائے کی کشتی لے کر داخل ہوئی اور اس کا بچہ آ کر سیدھا رضیہ کی گود میں بیٹھ گیا۔ رضیہ ایک دم چونک پڑی ایک ننھا سا بچہ اسے اپنے وجود سے باہر پروین اور شاہین کے درمیان لے آیا۔
شاہین نے مسکرا کر سلام کیا اور رضیہ کے بغل میں بیٹھ کر بولی ابا جان ایک ساتھ کئی مقدمات کی تیاری کرتے ہیں اور وقفوں میں ان کے مؤکلوں سے ہم بھی شرف ملاقات حاصل کر لیتے ہیں۔
پروین بولی لیکن انہوں نے توکہا تھا کہ ان کا صرف ایک لڑکا ہے۔
جی ہاں صحیح کہا تھا اور ایک بہو بھی ہے جو میں ہوں ایک پوتا بھی ہے جو یہ ہے ہاشم سمرو بالکل اپنے دادا کی طرح شوخ و شنگ۔
پروین بولی در اصل مؤکلہ تو محترمہ رضیہ ہیں میں ان کی خادمہ ہوں۔ ان کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں۔
رضیہ مسکرائی اور بولی خادم اور مخدوم کا تعلق بڑا دلچسپ ہوتا ہے کب خادم مخدوم ہو جائے اور مخدوم خادم میں بدل جائے یہ کہنا مشکل ہی ہوتا ہے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ حبیب اور محبوب کا رشتہ ہو۔
شاہین بولی لیکن نام کے بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
پروین نے کہا فرق یہ ہے کہ خادم اور مخدوم کی سطح مختلف ہوتی ہے اور جب یہ رشتہ بدلتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے لیکن حبیب اور محبوب دونوں ایک ہی سطح پر ہوتے ہیں۔ رشتوں کی ادلا بدلی سے فرق نہیں پڑتا۔
شاہین بولی جی ہاں آپ نے صحیح کہا۔ زن و شو کے درمیان جب خادم و مخدوم کا تعلق ہوتا ہے تو شکایات پیدا ہوتی ہیں اور جب حبیب و محبوب کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو مسائل اپنے آپ حل ہونے لگتے ہیں۔
لیکن شاہین کیا محبت اور خدمت ایک دوسرے کے بغیر ممکن ہے۔
میرے خیال میں خدمت تو محبت کے بغیر ممکن ہے لیکن محبت! وہ خدمت کے بغیر نا ممکن ہے۔
رضیہ کو ایسا لگ رہا تھا کہ گویا یہ دونوں اشاروں اور کنایوں میں اس کے مقدمے پر بحث کر رہی ہیں۔
شاہین بولی آپ لوگ یہ کیک کھائیں نمکین بھی ہے میں چائے بناتی ہوں۔ نہایت اعلیٰ درجہ کی نمکین کلکتہ سے بن کر آئی تھی اور امریکن بیکری کے المونیم فوائل میں بند کیک تپائی پر سجے ہوئے تھے۔ شاہین کپ میں چائے انڈیل رہی تھی۔ رضیہ نے کیک اٹھا کر پہلے ہاشم کے ہاتھ میں دیا اور پھر دوسرا خود کھول کر کھانے لگی۔ اس دوران پروین کیک کے بعد نمکین کھا رہی تھی اور شاہین چائے کی چسکیاں لے رہی تھی۔
ہاشم کیک کھانے کے بجائے اس سے کھیل رہا تھا۔ شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ کیک کھیلنے کی نہیں کھانے کی چیز ہے یاوہ جانتے بوجھتے کھانے سے قبل اس سے کھیلنا چاہتا تھا۔ وہ کیا چاہتا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔ شاید وہ خود بھی نہیں جانتا تھا لیکن بہر حال وہ کیک سے کھیل رہا تھا۔ چائے کے دوران شاہین اور پروین مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے قاسم کیک سے کھیلتا رہا اور رضیہ ہاشم سے کھیلتے کھیلتے خود کو بھی ایک بچہ محسوس کرنے لگی۔
وہ اس کے ہاتھ سے کیک لے کر ادھر ادھر چھپا دیتی۔ ہاشم اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتا جب اپنا کھویا ہوا کیک دوبارہ حاصل کر لیتا تو خوشی سے تالیاں بجانے لگتا لیکن دورانِ تلاش جب وہ پریشان ہوتا تو اس کی جستجو اور شوق کو دیکھ کر رضیہ خوش ہوتی اور بالآخر اس کی خوشی میں شامل ہو کر اپنی خوشیوں کو دوبالا کر لیتی۔ اب وہ کیک رضیہ کے لئے بھی کھلونا بن گیا تھا ہاشم ہر مرتبہ کیک ڈھونڈ کر رضیہ کے ہاتھ میں تھما دیتا اور آنکھیں میچ لیتا تاکہ وہ اسے چھپا دے اور جب رضیہ کہتی چلو ڈھونڈو تو وہ آنکھیں کھول کر اس کی تلاش میں لگ جاتا۔
اس دوران یہ چھپا چھپی کا کھیل نہ جانے کتنی بار ہوا۔ یہاں تک کہ رضیہ بھی بھول گئی کہ اس کھلونے کو کھایا بھی جا سکتا ہے۔ ہاشم نے کیک رضیہ کے ہاتھ میں دے دیا اور اسے ایک ٹک گھورنے لگا۔ رضیہ نے کہا آنکھیں بند کرو۔ اس نے نفی میں سرہلایا۔ وہ پھر بولی بیٹے آنکھیں بند کرو لیکن ہاشم نے کیک اس کے ہاتھ سے لیا اور پھر اس کے منہ کے قریب کیا۔ رضیہ سمجھ گئی وہ کھیلنا نہیں چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ میں کیک کو کھاؤں۔ لیکن وہ تو کیک اپنا کھ اچکی تھی اس لئے اس نے کیک میز پر رکھ دیا۔
ہاشم نے کیک اٹھا لیا اور پھر ایک بار رضیہ کے منہ کے پاس لے گیا۔ رضیہ نے سمجھا کہ وہ کھانے پر اصرار کر رہا ہے۔ رضیہ کیک کی المونیم فوائل کھولنے لگی اور جیسے ہی اس نے کیک باہر نکالا۔ ہاشم نے اس کے ہاتھ سے کیک لیا اور خود کھانے لگا۔ رضیہ کو محسوس ہوا بڑا بدتمیز بچہ ہے۔ کیک اسے کھانے کیلئے دیا اور پھر اس کے ہاتھ سے چھین کر خود کھانے لگا۔ اس نے غور سے ہاشم کو دیکھا ہاشم کے چہرے پر نہ کوئی شرارت تھی اور نہ ندامت وہ چپ چاپ کیک کھا رہا تھا اپنی بھوک مٹا رہا تھا۔
رضیہ کو اچانک اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ ہاشم نے اس سے کب کہا تھا کہ وہ کیک کھائے؟ اور پھر وہ کیک رضیہ کا تھا ہی کب؟ وہ تو ہاشم کا کیک تھا جو اس نے کھولنے کی خاطر رضیہ کو دیا۔ رضیہ یہ سمجھ بیٹھی کہ وہ رضیہ کو کیک کھلانا چاہتا ہے۔ جب کہ ہاشم ہرگز یہ نہیں چاہتا تھا وہ تو کیک خود کھانا چاہتا تھا اس کا اپنا کیک وہ اطمینان سے کھا رہا تھا۔ رضیہ اس کیک کی مالک نہیں تھی۔ یہ کیک ہاشم کو دے کر اس نے کوئی احسان نہیں کیا تھا۔ وہ کیک ہاشم ہی کا تھا جو اسے مل گیا تھا۔ رضیہ تو بس ایک ذریعہ تھی اس کا کام صرف کیک کھول کر ہاشم کو دینا تھا۔ خود کو کیک کا مالک سمجھنا رضیہ کی اپنی غلطی تھی۔ ہاشم کی بدتمیزی نہیں تھی۔
ہاشم کے رویہ پر غور کرتے کرتے نہ جانے کب وہ رضوان کے بارے میں سوچنے لگی رضوان پر کئے جانے والے احسانات کے بارے میں سوچنے لگی اور پھر اس نے جھنجھلا کر سوچنا بند کر دیا۔ وہ بھی شاہین اور پروین کی لایعنی باتوں میں شریک ہو گئی۔ ہاشم اپنا کام کر رہا تھا۔ کیک کھا بھی رہا تھا گرا بھی رہا تھا۔ فی الحال ہاشم کی تمام تر توجہ اس کی اپنی ذات پر مرکوز تھی۔ وہ رضیہ، شاہین اور پروین سے بے نیاز اپنے آپ میں مگن تھا کہ اچانک قاسم سمرو دوبارہ کمرے میں نمودار ہوئے اور سارے لوگ ان کی جانب متوجہ ہو گئے۔
قاسم نے کہا بہت اچھا ہوا جو آپ لوگوں میں دوستی ہو گئی مجھے یقین تھا کہ ایسا ہو گا۔ خیر پروین آپ شاہین کے ساتھ کچھ اور گفتگو کرو میں دوسرے کمرے میں رضیہ سے ذاتی نوعیت کے چند سوالات کروں گا۔ قاسم کمرے سے باہر نکل گئے رضیہ اور ہاشم ان کے پیچھے چل پڑے۔ قاسم نے میز کی دوسری جانب اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے ہاشم کو دیکھا تو کہا او ہو تو یہ جج صاحب بھی یہاں آ گئے۔
رضیہ مسکرائی اور بولی بڑا پیارا بچہ ہے۔
جی ہاں لیکن اسے دیکھو اپنی ماں کو چھوڑ کر آپ کے پیچھے چلا آیا۔
جی ہاں بات یہ ہے کہ ابھی وہ میرے ساتھ کھیل رہا تھا۔
وہ آپ کے ساتھ یا آپ اس کے ساتھ؟
ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
اچھا تو کھیل کھیل میں وہ اپنے ماں کی ممتا بھول گیا۔
بچہ ہے وکیل صاحب آپ اس کی حرکتوں کو اس قدر سنجیدگی سے لے رہے ہیں؟ مجھے حیرت ہے۔
جی ہاں آپ نے صحیح کہا غلطی تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن کسی کی غلطی پر درگذر کارویہ اختیار کیا جاتا ہے اور کسی کو سز ادینے کی ضد کی جاتی ہے۔
رضیہ نے تائید کی اور بولی ایسا اس لئے ہوتا ہے بچے کا قصور غیر شعوری ہوتا ہے۔ وہ سزا کا مستحق نہیں ہوتا۔ جان بوجھ کر غلطی کرنے والا ہی سزا کا حقدار ہوتا ہے۔ اس کی نیت جو دوسروں کو نقصان پہونچانے کی ہوتی ہے۔
جی ہاں بی بی آپ نے بجا فرمایا لیکن ایسی سزا تو وہی دے سکتا ہے جو نیتوں کا حال جانتا ہو۔ ہم لوگ تو وہی دیکھتے ہیں جود کھائی دیتا ہے۔ نیت اور ارادے تک بھلا ہماری رسائی کیونکر ممکن ہے؟
جی ہاں وکیل صاحب۔
اس لئے میرا مشورہ ہے کہ انسان کو فیصلہ کرنے میں احتیاط کرتے ہوئے بدگمانی سے بچنا چاہئے کیونکہ بہت زیادہ گمان گناہ ہوتا ہے۔ ان کی بے بنیاد عمارت ہوا کے معمولی جھونکے سے ڈھے جاتی ہے اور اس کے نیچے گمان کرنے والا خود کچل جاتا ہے۔
آپ نے درست فرمایا۔
٭٭٭