قاسم سمرو جب دوبارہ مقدمہ سے متعلق سوالات کی جانب آئے تو پھر وہی پرانا مسئلہ لوٹ آیا کہ ہر سوال کے جواب میں رضیہ جذباتی ہو جاتی اور شکایات و الزامات کا ایسا دفتر کھول دیتی کہ اس میں جواب کے ساتھ سوال بھی غائب ہو جاتا۔ اس کے باوجود قاسم سمرو بڑے صبر و سکون کے ساتھ رضیہ کو اپنی بات پورا کرنے کا موقع دیتے اور بنیادی سوال کی جانب لوٹ آتے وہ در اصل رضیہ کا ذہن پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے اور ان بے سر و پا باتوں سے انہیں اس میں مدد مل رہی تھی۔
پروین کو اس بات کا خوف ستا رہا تھا کہ کہیں قاسم سمرو کے تحمل کا بند ٹوٹ تو جائے وہ رضیہ کو ڈانٹ نہ دیں۔ وہ اپنی سہیلی کے غم و اندوہ میں اضافہ سے خوفزدہ تھی لیکن رضیہ کو ٹوکنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ قاسم سمرو نے رضیہ کو رضوان کے خلاف اپنے دل کی بڑھاس نکالنے کا پورا موقع دیا۔ وہ جانتے تھے کہ جب تک یہ غبار نہیں نکل جاتا اس وقت تک عقل ٹھکانے نہیں آئے گی۔ دماغ پر پڑی زنجیروں کا قفل دل ہے جب تک وہ نہیں کھلتا اس وقت تک عقل مقید رہتی ہے۔
قاسم سمرو نے جب محسوس کیا کہ رضیہ قدرے معمول پر آ گئی ہے تو پوچھا۔ بہت خوب محترمہ رضیہ اب آپ ٹھنڈے دل کے ساتھ یہ بتلائیں کہ مشکل کیا ہے؟
پروین جانتی تھی کہ قاسم کو اس حقیقت کا علم ہے اس کے باوجود انہوں نے رضیہ کی اس تک رسائی کی خاطر یہ سوال کیا ہے۔
رضیہ بولی۔ وکیل صاحب میں آپ کو بتلا چکی ہوں اور پھر بتلاتی ہوں کہ پہلی غلطی تو یہ ہے کہ انہوں نے دوسرا نکاح کیا۔ اور دوسرا قصور اسے مجھ سے پوشیدہ رکھنے کا ہے۔ ان کا تیسرا جرم یہ ہے کہ مجھے دھوکہ دیا۔ فریب کیا میرے ساتھ!
تو گو یا نکاحِ ثانی کی خبر کو صیغۂ راز میں رکھنا جرم ہے؟ لیکن اگر وہ اسے نہیں چھپاتا تو کیا آپ اسے برضا و رغبت اجازت دے دیتیں؟
جی نہیں تب بھی میں کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیتی۔
تو گویا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اگر یہ بات چھپائی نہ جاتی تو جو کچھ ابھی ہو رہا ہے وہ پہلے ہو چکا ہوتا؟ یہ قاسم سمرو کا اگلا سوال تھا۔
رضیہ نے تائید میں سر کو جنبش دی۔
اور اگر آپ کو اب بھی پتہ نہ چلتا تو اس وقت بھی یہ ہنگامہ برپا نہ ہوتا؟
رضیہ کا جی چاہا کہ ہنگامہ لفظ کے استعمال پر اعتراض کرے لیکن وہ با دلِ ناخواستہ خاموش رہی
قاسم سمرو نے اس کی خاموشی کو تائید کے خانے میں ڈال دیا اور بولے کیا اس عرصے میں رضوان کے رویہ کے اندر کو ئی تبدیلی واقع ہوئی؟ کیا اس نے تمہیں ابو ظبی سے خط لکھنا بند کر دیا یا فون کرنا چھوڑ دیا؟ کیا اس کے ذریعہ روانہ کی جانے والی رقم میں کوئی کمی بیشی ہوئی؟
رضیہ خاموش بت بنی بیٹھی رہی پروین بولی جی نہیں وکیل صاحب میرے خیال میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ آج کل تو فون کچھ زیادہ ہی آ رہے ہیں اس لئے کہ اکثر یہ رضوان کا فون درمیان ہی میں کاٹ دیتی ہے اور اس بیچارے کو دوبارہ فون ملانا پڑتا ہے اور تو اور میں اس کے بنک اکاؤنٹ سے بھی واقف ہوں جس میں اضافہ جوں کا توں ہے۔
رضیہ کو رضوان کیلئے بیچارہ لفظ کا استعمال ناگوار گذرا اور وہ بپھر کر بولی پروین تم سرکاری وکیل کی مانند مفت میں رضوان کی وکالت کیوں کر رہی ہو؟ میرا خیال ہے کہ میں نے تمہیں اپنے ساتھ یہاں لا کر غلطی کی ہے۔
قاسم سمرو نے مداخلت کرتے ہوئے کہا جی نہیں بہن جب تک مقدمہ سے متعلق سارے حقائق سامنے نہیں آ جاتے اس وقت تک مقدمہ لڑنا آسان نہیں ہوتا۔ خیر اس ساری گفتگو سے میں اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ سارے فساد کی جڑ آپ کو نکاحِ ثانی کی اطلاع کا ملنا ہے۔
رضیہ کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا وہ بگڑ کر بولی کیسی بچوں جیسی باتیں کرتے ہیں وکیل صاحب۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے نکاحِ ثانی کیا نہ کہ مجھے پتہ چلا۔ نہ وہ اس طرح کی حماقت کرتے اور نہ مجھ کو اطلاع ہوتی۔ نہ آگ ہوتی اور نہ دھواں اٹھتا۔
قاسم سمرو نے تعریفی نگاہوں سے رضیہ کی جانب دیکھا اور بولے آپ خود اپنے مقدمہ کی پیروی مجھ سے بہتر انداز میں کر سکتی ہیں۔ رضیہ جھینپ گئی اور پروین مسکرا دی۔ قاسم نے اپنی بات آگے بڑھائی۔ آپ کا ایک اور الزام یہ ہے کہ رضوان نے آپ کے ساتھ جھوٹ بولا۔ تو کیا کبھی آپ نے اس بارے میں اس سے استفسار کیا تھا اور اس نے انکار کر دیا تھا؟
جی نہیں میں مکمل تاریکی میں تھی اس لئے میں نے اس بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میں پوچھتی بھی تو وہ کبھی سچ نہ بولتے۔ وہ ہمیشہ سے جھوٹے انسان ہیں۔
اچھا آپ کی شادی کو کتنا عرصہ گذر چکا ہے؟
پندرہ سال۔
اس دوران کتنی مرتبہ رضوان نے آپ کے ساتھ کذب بیانی کی ہے؟
رضیہ اس سوال کا جواب فوراً نہ دے سکی وہ سوچ میں پڑ گئی۔ قاسم بولے یاد نہیں آ رہا؟ بہت خوب شاید اس نے کوئی ایسا قابلِ ذکر جھوٹ بولا ہی نہ ہو جو فوراً یاد آ جائے۔
رضیہ بولی جی ہاں لیکن اس وقت کی بات اور تھی لیکن اب وہ ضرور جھوٹ بولیں گے اور وہ سب کریں گے جو پہلے نہیں کرتے تھے اس لئے کہ دوسری شادی جو کر لی ہے؟
اچھا تو کیا نکاحِ ثانی کے بعد کا کوئی جھوٹ یا کوئی ایسی حرکت جو پہلے سے مختلف ہو تمہیں یاد پڑتی ہے؟
جی نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ آئندہ۔۔ ۔
قاسم نے جملہ کاٹ دیا اور کہا یقین نہیں بی بی یہ ایک اندیشہ ہے فقط اندیشۂ لولاک۔ رضوان اگر کاذب ہوتا تو نکاحِ ثانی کا اعتراف کرنے کے بجائے انکار بھی کر سکتا تھا۔
انکار؟ آپ کیسی بات کرتے ہیں وکیل صاحب۔ کیا حقائق سے فرار ممکن ہے۔ انسان آخر کب تک دوسروں کو دھوکہ میں رکھ سکتا ہے اور فریب دے سکتا ہے؟
اچھا تو عقدِ ثانی کو آپ دھوکہ یا فریب سمجھتی ہیں؟
جی نہیں لیکن اپنی پہلی بیوی کو اندھیرے میں رکھ کر اس سے چھپا کر دوسرا بیاہ رچا لینا کیا دھوکہ نہیں ہے؟
گویا آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ رضوان کو چاہئے تھا کہ وہ دوسرا نکاح کرنے سے قبل آپ کو اطلاع دیتا اور آپ سے توثیق لینے کے بعد ہی اس کی جرأت کرتا۔ لیکن اگر وہ ایسا کرتا لیکن آپ تو ابھی کہہ چکی ہیں کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیتیں؟
قاسم سمرو چہرے کے تاثرات سے تاڑ گئے کہ رضیہ کی خاموشی تائید میں نہیں بلکہ انکار میں ہے۔ وہ بولے جس طرح آپ کو یقین ہے کہ آپ اجازت نہیں دیتیں اسی طرح کا گمان اس نے کیا۔ اور ممکن ہے اسی خوف نے اسے اپنی حرکت کو صیغۂ راز میں رکھنے پر مجبور کیا ہو؟
رضیہ زچ ہو کر بولی میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر کوئی رضوان کی وکالت کیوں کرنے لگتا ہے؟ پہلے پروین اور اب آپ۔ آخر کوئی میرے دکھ درد اور تکلیف کو سمجھنے کی زحمت کیوں نہیں کرتا؟ رضیہ کا جارحانہ لہجہ التجا میں بدل چکا تھا۔
پروین شرمندہ ہو گئی۔ قاسم نے کہا بہن وکالت تو عدالت میں ہوتی ہے فی الحال آپ اپنے بھائی کے گھر میں ہیں جو آپ کے درد کا مداوا کرنا چاہتا ہے۔ قاسم کے اپنائیت بھرے لہجے نے رضیہ کے زخموں پر مرہم کا کام کیا۔
قاسم نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا بہن کیا کبھی آپ نے اس سوال پر غور کیا ہے انسان کسی بات کو کیوں چھپاتا ہے؟
انسان جب کوئی غلطی کرتا ہے یا کوئی معیوب حرکت اس سے سرزد ہوتی ہے تو وہ شرمندہ ہو جا تا ہے۔ ہر انسان کریہہ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اس کو چھپاتا ہے۔ رضیہ اپنے جملے کے ایک ایک لفظ پر زور دے رہی تھی۔
قاسم نے کہا آپ نے بجا فرمایا۔ یہ مختلف وجوہات ہیں لیکن ان سب کے ساتھ ایک مشترک شئے منسلک ہو تی ہے جس کا آپ نے ذکر نہیں کیا؟
وہ! وہ کیا دونوں ایک ساتھ بولیں؟
خوف! خوف کے باعث وہ اپنی حرکات کی پردہ پوشی کرتا ہے اور جب انسان بے خوف ہو جاتا ہے تو پھر اسے اپنی کسی بات کو صیغۂ راز میں رکھنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی قاسم نے قانون کے حصار سے نکل کر علم نفسیات کی دہلیز پر قدم رکھ دیا تھا۔
رضیہ بولی لیکن رضوان کو خو ف! انہیں کس سے خوف ہو سکتا ہے بھلا؟
آپ سے رضیہ۔۔ ۔۔ اپنی شریک حیات سے!
مجھ سے؟ میں چار ہزار کلو میٹر دورسے ان کا کیا بگاڑ سکتی ہوں؟
تم اس چار ہزار کلو میٹر کے فاصلے کو ایک لامتناہی دوری میں تبدیل کر سکتی ہو۔ ایک ایسی کھائی میں جسے وہ کبھی بھی عبور نہ کر سکے۔
آپ کیسی بات کرتے ہیں۔ رضوان نے خود مجھے غم و اندوہ کے اتھاہ گہرائیوں میں ڈھکیل دیا ہے جہاں مجھے اپنے آس پاس سوائے تاریکی کے کچھ اور نظر نہیں آتا اور اندھیرا ایسا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔
قاسم نے کہا بی بی اندھیرا نہ خود نظر آتا ہے اور اس کے ہوتے نہ کچھ اور نظر آتا ہے۔ ہماری ساری گفتگو در اصل اسی ظلمت کے خاتمہ کی جد و جہد ہے۔ جب یہ تاریکی دور ہو جائے گی آسمان صاف ہو جائے گا نہ صرف زمین بلکہ لاکھوں میل دوری پر چمکنے والے ستارے بھی نظر آنے لگیں گے قاسم اب فلسفہ کی منازل طے کر رہا تھا۔
آپ نے ٹھیک کہا وکیل صاحب اس اندھیرے سفر سے مجھے چند دنوں کے اندر تھکا دیا ہے میں ہر لمحہ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہی ہوں مجھے یقین ہے کہ میں بہت جلد اس ظلمت کا حصہ بن جاؤں گی میں اس سے نکلنا چاہتی ہوں آپ میری مدد کریں اس جنجال سے آزاد ہونے میں میرا تعاون فرمائیں۔ میں اس بندش سے خود کو آزاد کرنا چاہتی ہوں۔
قاسم نے پوچھا بی بی مسئلہ بندش ہے یا ظلمت؟ آپ کیا چاہتی ہیں؟ بندش ختم ہو اور ظلمت باقی رہے یا ظلمت ختم ہو اور بندش باقی رہے؟
میں دونوں باتیں چاہتی ہو نہ ظلمت نہ بندش۔ میں آزادی بھی چاہتی ہوں اور روشنی کی بھی طلبگار ہوں۔
پہلے مرحلہ میں کیا چاہتی ہیں روشنی یا آزادی؟
روشنی! اندھیرے میں آزادی لے کر میں دربدر کی ٹھوکر کھانا نہیں چاہتی۔
قاسم نے کہا آپ ایک نہایت ذہین خاتون ہیں میں آپ کی ترجیحات کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن مجھے آپ کی صورتحال سے ہمدردی ہے۔ آپ کے ایک زخم کا تریاق دوسرے پر نمک کا کام کرے گا۔ ظلمت کا خاتمہ محبت ہو گا لیکن یہ محبت آپ کی بندشوں کو مضبوط سے مضبوط تر کر دے گی۔
محبت؟ کیسی محبت؟ میں ایک ایسے شخص سے محبت کیسے کر سکتی ہوں جو مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ محبت کے درس کی حاجت تو ان کو ہے مگر آپ مجھے دے رہے ہیں۔ میں تو روزِ ازل سے ان کے ساتھ محبت کرتی رہی ہوں میں نے ان کیلئے کیا نہیں کیا؟ میں نے اپنا گھر بار۔ عیش و آرام۔ شان و شوکت بلکہ والدین و خاندان سب کچھ قربان کر دیا۔ لیکن رضوان احسان فراموش نکلا۔ اس نے میرے تمام احسانات کی ناقدری کی۔ احسان فراموش ہے وہ شخص۔ میں اس سے کیسے محبت کر سکتی ہوں؟
بی بی وہ تمام چیزیں جو تم نے رضوان پر قربان کیں وہ تمہیں کس نے دی تھیں؟ جس پروردگار نے تمہیں ان چیزوں سے نوازہ تھا کیا تم نے کبھی اس کے بے شمار احسانات کی قدر دانی کی؟
رضیہ سلطانہ کو اس سوال نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ ایک لمحہ کے لیے رضوان کو بھول گئی۔ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا اور اس سے پہلے کہ جواب موصول ہوتا قاسم سمرو نے ایک اور سوال کر دیا۔
کیا تم نے کبھی اپنے پاک پروردگار کا شکر ادا کیا جس نے تمہیں ان بیش بہا نعمتوں سے نہال کر رکھا ہے؟
رضیہ کی توجہ پہلی مرتبہ رضوان کے بجائے خود اپنی ذات کی جانب مبذول ہوئی تھی۔ وہ ان چیزوں کا حساب تو رکھ سکتی تھی جو اس نے رضوان پر نچھاور کی تھیں لیکن وہ نعمتیں جو خود اسے حاصل ہوئی تھیں ان بے شمار عنایتوں کا حساب کتاب اس کے لئے نا ممکن تھا اس کے رب نے اسے ہر اس چیز سے نوازہ تھا جس کی اس نے خواہش کی تھی اور جن چیزوں کی قربانی کی بات وہ کر رہی تھی وہ سب ان سے کمتر تھیں جنہیں حاصل کرنے کیلئے اس نے انہیں گنوایا تھا۔ وہ کمتر کے عوض بہتر اشیاء سے بہرہ ور ہوئی تھی۔
اس سے قبل رضیہ سلطانہ کو کمتر ین اشیاء کے گنوانے کا افسوس تودور احساس تک نہ ہوا تھا؟ لیکن آج! آج ایسا کیوں ہو رہا تھا؟ یہ سوال رضیہ خود اپنے آپ سے کر رہی تھی۔ شاید اس لئے کہ آج اس نے بہترین شئے کو گنوا دیا تھا۔ اور بہترین کی غیر موجودگی نے کمترین کو اہم بنا دیا تھا۔ لیکن آمد و خرچ کے اس بہی کھاتے کے آخر میں یہی لکھا تھا کہ اس نے ساری عمر نہ کم تر کی قدردانی کی اور نہ بہتر کا شکر ادا کیا۔ وہ رضوان سے تو احسانمندی کی توقع کر رہی تھی لیکن خود اپنے پروردگار کے تئیں احسان فراموشی کی روش اختیار کیے ہوئے تھی۔ شکر و احسان کے جذبات اس کے دل میں امڈے ہی نہیں تھے۔
٭٭٭