پروین شاکر مسکراہٹوں کی چند کلیاں کھلا کر واپس جا چکی تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ کلیاں پھول بن کر مہکیں ساری پنکھڑیاں زرد ہو کر بکھر گئیں۔ اب ان میں نہ رنگ تھا اور نہ خوشبو۔ وہ سب رضیہ کی بے مصرف زندگی کی طرح تھیں۔ رضیہ نے بچوں کو پروین کا تیار کردہ کھانا کھلا کر سلا دیا اور خود غم و اندوہ کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن ہو گئی۔ اسے جلد ہی احساس ہو گیا کہ پانی دھیرے دھیرے سر سے اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ اسے ان موجوں سے لڑ کر ساحل تک پہونچنے کی سعی کرنی چاہئے ورنہ ننھے معصوم بچوں کی خوشیاں بھی طوفان کی نذر ہو جائیں گی۔
رضیہ کو اپنے ہنستے کھیلتے گھر سنسار کو غرقاب ہونے سے بچانے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی بس اتنا سمجھ میں آتا تھا کہ اس ساری مصیبت کی جڑ رضوان ہے اس لئے اگر رضوان سے پیچھا چھوٹ جائے تو کشتی کنارے لگ جائے گی۔ لیکن اس معاملے میں کون اس کی مدد کر سکتا ہے؟ یہ سوال بار بار اس کو ستا رہا تھا کہ اچانک ایک نام ذہن میں کوندا قاسم! سمرو!! قاسم سمرو!!! قاسم سمرو اس لال ماٹی نامی قصبہ کے سب سے مشہور و معروف وکیل کا نام تھا جنھیں عائلی معاملات کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ انتقام کے شعلے آسمان کو چھو رہے تھے رضیہ چاہتی تھی کہ رضوان الحق کو اس کے کئے کی سخت سے سخت سزا دلوائی جائے۔ اس کام کے لیے قاسم سمرو سے بہتر کوئی ہتھیار نہیں ہو سکتا تھا۔
رضیہ نے ٹیلی فون ایکسچینج سے قاسم سمرو کا نمبر حاصل کیا اور فون ملا دیا سامنے سے ہیلو کی آواز آئی۔ یہ قاسم کانجی سکریٹری تھا۔
رضیہ بولی کیا آپ جناب قاسم سمرو بول رہے ہیں؟
جی نہیں۔
کیا یہ قاسم سمروکے دفتر کا نمبر نہیں ہے۔
جی ہاں بالکل ہے؟
یہ کیا مذاق ہے؟ مجھے قاسم صاحب سے فوراً بات کرنی ہے۔
یہ ممکن نہیں ہے۔
کیوں ممکن نہیں ہے؟
اس لئے کہ وہ ابھی عدالت میں کسی مقدمہ کی پیروی کر رہے ہیں۔
وہ کب فارغ ہوں گے؟
شام میں۔
تو کیا شام میں بات ممکن ہے؟
جی نہیں اس لئے کہ آج شام وہ کل کے مقدمہ کی تیاری کریں گے۔
اچھا تو کل شا م؟
وہ بھی ممکن نہیں ہے اس لئے کہ وہ ہفتہ کے آخر میں چھٹی منانے کیلئے کسی نامعلوم مقام پر چلے جاتے ہیں؟
یہ کیا مذاق ہے؟ آخر کب ہو سکتی ہے ان سے ملاقات؟
پیر کی شام سے پہلے نہیں ہو۔ میں اس تاخیر کے لئے آپ سے معذرت چاہتا ہوں فون بند ہو گیا۔
رضوان کی طرح رضیہ کو قاسم پر بھی غصہ آ گیا۔ قاسم سمرو نہایت مصروف وکیل تھے دن بھر عدالت میں ہوتے شام مؤکل کے ساتھ گفت و شنید میں گذرتی۔ پتہ ہی نہ چلتا ہفتہ کہاں چلا گیا؟ ان کو اپنی ذات کیلئے اس دوران کو ئی وقت ہی نہیں ملتا تھا اس لئے انہوں نے آخرِ ہفتہ کو بڑی پابندی کے ساتھ خفیہ انداز میں گذارنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران ان کی ساری توجہات کا مرکز خود اپنی ذات اور اہل خانہ ہوتے تھے۔
رضیہ کیلئے صبر کرنا مشکل تھا اس لئے اس نے پروین شاکر کے ذریعہ قاسم کا موبائل نمبر حاصل کر لیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ کسی طرح شام میں اس کیلئے وقت نکالیں۔ اصرار کرنے پر قاسم سمرو نے اس شرط پر وقت دے دیا کہ وہ درمیان میں دوسرے مقدمہ کی تیاری کیلئے وقفہ لیں گے۔ اس لیے درمیان میں گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو جایا کرے گا اگر اس خلل پر اعتراض نہ ہو تو شام ۷ بجے ان کے گھر سے متصل دفتر میں آ جائے ورنہ آئندہ ہفتہ تک انتظار کرے۔
رضیہ کیلئے انتظار سوہانِ جان تھا اس لئے اس نے خلل سے مصالحت کر لی۔ رضیہ نے سوچا یہ زندگی بھی تو مصلحت اور مصالحت کے درمیان بندھی رسی ہے جس پر بڑے احتیاط سے توازن قائم رکھ کر چلنا پڑتا۔ رضیہ کیلئے یہ نئی مشق تھی اس لئے کہ اس سے پہلے وہ رضوان کے سہارے بلا خوف و خطر اس رسی پر دوڑتی پھرتی تھی۔ رضوان چونکہ اسے نازک آبگینے کی طرح اپنی آغوش میں سنبھالے رکھتا اس لئے رسی کے اوپر سے گر جانے کا مطلق ڈر نہ ہوتا تھا لیکن اب وہ سہارہ ٹوٹ چکا تھا۔ بغیر کسی بیساکھی کے زندگی کا پہلا قدم رکھنے سے وہ گھبرا رہی تھی۔ مختلف خدشات نے اسے اپنے پنجوں میں جکڑ لیا تھا اسے بار بار رسی کے ٹوٹنے کا خوف ستاتا اور توازن کے بگڑنے کے خیال سے وہ چونک پڑتی تھی۔ مصلحت کا تقاضہ رسی کو ٹوٹنے سے بچانا چاہتا تھا اور مصالحت توازن کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری تھی۔ اس معمولی سی رسی میں ایک خاندان بندھا ہوا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اس کے ٹوٹتے ہی سب کچھ بکھر جائے گا۔
قاسم سمرو کی کامیابی کا راز اس کی ذہانت و ذکاوت کے ساتھ ساتھ اس کی منفرد حکمتِ عملی تھی۔ وہ نہ تو مقدمہ لینے میں جلد بازی دکھلاتے اور نہ روا روی میں لڑتے تھے۔ ٹھوک بجا کر مقدمہ لینا اور خوب تیاری کے بعد اسے لڑنا ان کی عادتِ ثانیہ تھی۔ وہ تیاری کے دوران اچھا خاصہ وقت اپنے مؤکل کے ساتھ گذارتے اور اس سے ایسے تمام سوالات از خود پوچھ لیتے کہ جن کی وکیلِ مخالف سے توقع ہوتی تھی۔ ان کو قبل از وقت پتہ ہوتا کہ سرکاری وکیل یا جج کس وقت کون سا سوال کر سکتا ہے۔ اس لئے قاسم سمرو کو کسی نے عدالت میں حیرت زدہ ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے مقدمہ سے متعلق سابقہ فیصلوں اور بحثوں کا گہر مطالعہ کرنے کے بعد ہی میدان میں اترتے اور یہی محنت و مشقت ان کے کامیابی کی شاہِ کلید تھی۔
قاسم سمرو سے ملاقات کیلئے رضیہ نے اپنی سہیلی پروین شاکر کوساتھ لے لیا تھا اس لئے کہ وہ دونوں نہ صرف نہایت بے تکلف بلکہ ایک جان دو قالب تھیں۔ ان کے درمیان راز کا پردہ نہیں تھا۔ ان دونوں کے سامنے ایک دوسرے کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی۔ قاسم سمرو نے انہیں ملاقات کے کمرے میں بٹھانے کے بعد چائے منگوائی تاکہ گفتگو کیلئے سازگار ماحول تیار کیا جا سکے۔
چائے کے دوران قاسم نے پوچھا آپ لوگوں کی شادی کو کتنا عرصہ ہوا؟
رضیہ حساب لگانے لگی۔ سچ تو یہ ہے کہ شادی کے بعد کا وقفہ اس تیزی سے گذرا تھا کہ کچھ پتہ ہی نہ چل سکا۔ اس بیچ قاسم نے دوسرا سوال کر دیا۔ کیا آپ لوگوں کے درمیان کو ئی رشتہ داری تھی؟
جواب نفی میں ملا تو قاسم نے مزید کرید کی اور پوچھا اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو کیا آپ یہ بتانے کی زحمت کریں گی کہ یہ رشتہ کیسے طے ہوا؟ کس نے طے کیا وغیرہ وغیرہ؟
رضیہ کے لئے ان سوالات نے بڑا مسئلہ پیدا کر دیا۔ اس کی ماضی کے سارے زخم ہرے ہو گئے۔ پروین کیلئے بھی یہ سوال نئے تھے۔ رضیہ اور رضوان سے اس کی ملاقات لال مائی میں آمد کے بعد ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کیا کچھ ہوا یہ سب جاننے کی ضرورت اس نے محسوس ہی نہیں کی تھی۔
رضیہ اپنے پیر کے انگوٹھے سے قالین کو کریدتے ہوئے بولی وکیل صاحب نکاح کا فیصلہ خود ہم لوگوں نے کیا تھا۔
کیا مطلب آپ کے ماں باپ۔۔ ۔۔
رضیہ نے بات کاٹ دی اور بولی جی ہاں وکیل صاحب میرے والدین کبھی بھی اس بات پر راضی نہ ہو سکتے تھے کہ میرا بیاہ ان کے ساتھ ہو جائے۔
اچھا؟ کیا میں اس کی وجہ جان سکتا ہوں؟
کیوں نہیں۔ در اصل میں ایک جاگیردار خاندان کی لڑکی تھی اور رضوان ہماری حویلی میں خانساماں تھا۔ میرا مطلب ہے باورچی۔
باورچی؟ ؟
جی ہاں وکیل صاحب یہی سچ ہے۔ لیکن اس کے ہاتھ میں جادو تھا۔ وہ جو کچھ بھی بناتا بہت خوب بن جاتا تھا۔ سارے گھر والے کھانے کے ذائقہ سے پتہ لگا لیتے کہ کون سا پکوان رضوان کے ہاتھ سے بنا ہے اور کس کو دوسروں نے تیار کیا ہے۔ اس کا تناسب، اس کی سجاوٹ اور اس کا انداز بلکہ اس کی ہر شئے منفرد و ممتاز تھی۔ ہمارے گھر کی دیگر لڑکیاں کھانا پکانے کو حقیر مشغلہ سمجھتی تھیں لیکن مجھے اس کا شوق تھا۔ میری دیگر بہنیں جو کبھی باورچی خانے کی جانب نہیں پھٹکتی تھیں مجھ سے الجھ جاتیں اور مجھے بھی باز رکھنے کی کوشش کرتیں لیکن میری دلیل یہ تھی کہ اگر کھانا کھانے میں کوئی خرابی نہیں تو بنانے میں کیوں ہے؟ اور اگر یہ معیوب فعل ہے تو ہم دوسروں کو اس کام پر مجبور کیوں کرتے ہیں؟
باورچی خانے کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی غرض سے میں نے نہ صرف کئی کتابیں بلکہ مختلف انواع اقسام کے اوزار خرید رکھے تھے۔ میں خوب پڑھ سمجھ کر حساب کتاب کے مطابق پکوان بناتی لیکن اس میں وہ ذائقہ نہیں ہوتا جو رضوان کے بغیر پڑھے لکھے اور روایتی برتنوں کے کھانے میں ہوتا تھا۔ میں جب بھی اپنی مہارت کا موازنہ رضوان سے کرتی تو پسپا ہو جاتی۔ یہ مسابقت کا عمل آگے جا کر حسد میں بدل گیا اور نہ جانے کب رشک۔ میں تبدیل ہو گیا۔ یہ اپنے آپ ہو گیا میری مرضی کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
اس دوران ہم لوگ ایک دوسرے سے کافی قریب آ گئے تھے۔ ہمارے گھر کی دیگر خواتین اپنا بہت سارا وقت ٹیلی ویژن دیکھنے میں سرف کرتی تھیں جبکہ میں طرح طرح کے پکوان بنانے میں لگی رہتی۔ رضوان کے اور میرے درمیان اب مسابقت کی جگہ موافقت نے لے لی تھی۔ میں اس کی مدد سے بہترین خانساماں بن گئی تھی۔ اس بیچ ایک دن اچانک رضوان کو اپنے گاؤں بندربن جانا پڑا اور اپنی زندگی میں پہلی بار میں نے تنہائی کا کرب محسوس کیا۔
باورچی خانے میں رضوان کے علاوہ سب کچھ موجود تھا اس کے باوجود وہ خالی خالی سا لگتا تھا۔ مجھے وہاں جانے میں الجھن ہونے لگی۔ میں بھی گھبرا کر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھنے لگی لیکن وہاں بھی میرا دل نہ لگتا تھا۔ مجھے مختلف ڈراموں میں رضوان نظر آنے لگا تھا۔ مختلف کردار اس سے مشابہ دکھائی دینے لگے تھے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے رضیہ یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم بیٹھے بیٹھے کہاں کھو جاتی ہو؟
ان سوالات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا بس ایک خوف تھا کہ کہیں استفسار کرنے والوں کو پتہ نہ چل جائے کہ میں کسے دیکھ رہی ہوں؟ کس کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے؟ اور میں کیا سوچ رہی ہوں؟ کبھی کبھی میں اپنے آپ سے پوچھتی کہ آخر اس بے وقوف کو تین ہفتوں کی طویل چھٹی لینے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر کوئی مجبوری تھی تو جاتا لیکن ایک آدھ ہفتے بعد لوٹ آتا؟ تین ہفتہ کا وقفہ پہاڑ بن گیا تھا۔
ایک ہفتہ بعد میں یونہی بالکنی میں بیٹھی تھی تو کیا دیکھتی ہوں کہ رضوان سامان سے لدا پھندا چلا آ رہا ہے۔ پہلے تو مجھے خیال ہوا کہ یہ میرا گمان ہے۔ لیکن یہ حقیقت تھی۔ رضوان واپس آ چکا تھا۔ رضوان کے آتے ہی سب کچھ بدل گیا۔ فراق کا طویل سفرتمام ہو گیا۔ میں اس قدر خوش ہوئی کہ میں نے رضوان سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ وہ جلد کیوں کر آ گیا؟ مجھے اس سوال میں کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ اگر میرے لئے ممکن ہوتا تو میں پوچھتی کہ وہ آخر گیا ہی کیوں تھا؟ لیکن مجھے یہ سوال کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ میں خوش تھی بلکہ سارا گھر بے حد خوش تھا اس لئے کہ میری بڑی بہن فوزیہ کی شادی قریب آ لگی تھی۔
مہمانوں کی گہما گہمی شروع ہو گئی۔ ایسے میں رضوان کی مصروفیت و اہمیت کافی بڑھ گئی تھی۔ اس کے باوجود رضوان اداس تھا۔ وہ چپ چاپ اپنے کام میں لگا رہتا۔ رضوان چھٹی سے واپس آنے کے بعد یکسر بدل گیا تھا۔ ایک دن موقع نکال کر میں نے پوچھا رضوان تمہارے گھر پر سب خیریت تو ہے؟ تعطیلات سے لوٹنے کے بعد کسی نے تمہیں ہنستے مسکراتے نہیں دیکھا۔ تم کیوں کھوئے کھوئے رہتے ہو؟ میرا جی چاہا کہ میں بولوں جیسی کہ میں تمہاری غیر موجودگی میں رہتی تھی لیکن یہ مناسب نہیں تھا۔
رضوان بولا سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اسی لئے میں تین کے بجائے ایک ہفتہ میں لوٹ آیا۔ لیکن۔۔ ۔
لیکن کیا؟ میں نے پوچھا تمہیں واپس آنے کا دکھ ہے؟
نہیں، لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں!
یہ سچ نہیں ہے رضوان۔ بات کچھ اور ہے جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو۔ تم مجھے اپنا دوست نہیں سمجھتے تو میں اپنی سہیلیوں کے پاس جا رہی ہوں۔ میں نے بناوٹی ناراضگی جتاتے ہوئے کہا تو وہ بولا کاش کہ میں تمہیں اپنا دوست نہیں سمجھتا تب تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا لیکن افسوس!!
افسوس! کیسا افسوس؟ ؟
کچھ نہیں۔۔ ۔ کچھ بھی نہیں۔
رضوان میرا جواب ٹال رہا تھا۔ میں نے کہا رضوان بولو اصل بات کیا ہے؟ اگر تم مجھے اپنا دوست سمجھتے ہو تو اپنے دل کی بات مجھے بتاؤ۔
دل کی بات؟ میں ایک باورچی ہوں رضیہ ایک معمولی باورچی۔ میرا کام تو صرف مویشیوں کے اعضا کو پکوان بنا کرسجا دینا ہے تاکہ لوگ انہیں مزہ لے کر کھا سکیں۔ میرا کام نہ غمِ دل ہے اور نہ دردِ جگر کی جانب توجہ دینا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے دل کو نہ کچھ محسوس کرنا چاہئے اور زبان کو نہ ہی کچھ بولنا چاہئے۔ لیکن میں وہی سب کر رہا ہوں جو مجھے نہیں کرنا چاہیے۔
میں رضوان کے ان بے ربط جملوں کا مفہوم سمجھ گئی اور بولی رضوان بہت سارے ایسے کام بھی انسان سے سرزد ہو جاتے ہیں جن پر اس کا اختیار نہیں ہوتا۔
جی ہاں رضیہ تمہاری بات صد فی صد درست ہے لیکن یہ بے اختیاری میرے لئے مہلک ثابت ہو گی۔ میں تو ایک ہفتہ بھی تم سے دور نہ رہ سکا اور اب فوزیہ کے بعد تم بھی بیاہ کر کے چلی جاؤ گی دور کہیں دور دیس نکل جاؤ گی۔ اس وقت میں کیا کروں گا؟ میں تو مر جاؤں گا رضیہ! میں مر جاؤں گا۔
رضوان کا جواب سن کر میں خاموش ہو گئی۔ دیر تک خاموشی کے گھٹا ٹوپ بادل چھائے رہے۔ پھر میں بولی کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ساتھ چلے جائیں؟
کیا۰۰۰۰۰؟ تم نہیں جانتیں کہ تم کیا کہہ رہی ہو رضیہ؟ تمہارے گھر والے ہمارا سر قلم کر کے گاؤں کے چورا ہے پر موجود پیڑ سے لٹکا دیں گے تاکہ آنے والی نسلیں عبرت پکڑیں۔
موت تو موت ہے رضوان میں بولی انسان گھٹ گھٹ کر مرے یا یکلخت سولی چڑھا دیا جائے۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ میں ابھی تک نہیں جان پائی کی یہ جملہ میں نے کیسے ادا کر دیا تھا۔ چولہے پر چڑھی ہوئی ہانڈی سے جلنے کی بو آ رہی تھی، رضوان نے اس پر پانی سے بھرا گلاس انڈیل دیا۔ ایک چھناکے دار آواز کے ساتھ آنچ سرد ہو گئی۔
فوزیہ کی ڈولی اٹھی اور رضیہ، رضوان کے ساتھ بھاگ کر چٹاگانگ آ گئی۔ شہر پہنچ کرسب سے پہلے ہم نے نکاح کیا اور پھر جھگی جھونپڑی کی بستی میں اپنا ایک ننھا سا گھر بسا لیا۔ چند ماہ کی دوڑ دھوپ کے بعد رضوان کو شہر کے ایک ہوٹل میں باورچی کی نوکری مل گئی۔ رضوان کے رزق میں برکت ہونے لگی وہ چھوٹے ہوٹل سے بڑے ہوٹل میں ملازم ہو گیا۔ بچوں کی آمد نے گھر کی تنگی کا احساس دلایا ہم لوگوں نے شہر کے دور قصبہ لال ماٹی میں ایک کشادہ سا مکان بنا لیا۔ بچے تعلیم حاصل کرنے لگے اور میری تمام توجہ کا مرکز بن گئے
قاسم سمرو اور پروین شاکر رضوان اور رضیہ کی داستانِ محبت میں کھو چکے تھے۔ رضیہ رکی تو پروین بولی میں تو سمجھتی تھی یہ سب پردۂ سیمیں پر ہی ہوتا ہے لیکن آج مجھے پتہ چلا۔۔ ۔۔
قاسم سمرو نے بات کاٹ دی اور بولے پروین صاحبہ سچ تو یہ ہے کہ جہاں فسانے کی انتہا ہوتی وہیں سے حقیقت کی ابتدا ہوتی ہے۔
٭٭٭