رضوان کی بابت غضنفر کا قیاس غلط تھا۔ رضوان خود اپنی زندگی میں آنے والی غیر معمولی تبدیلیوں پر حیرت زدہ تھا۔ وہ راستے بھر انہیں خیالات میں گم تھا۔ بنگلہ دیش بمان کا جہاز جس تیزی کے ساتھ ڈھاکہ کی جانب رواں دواں تھا اس سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ رضوان ماضی کے خلاؤں کی سیر کر رہا تھا وہ بذاتِ خود اپنے گذرے ہوئے حالات کو تصورِ خیال میں حیرت سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا یہ سب کیا ہو گیا؟ کیوں کرہو گیا؟ خود اس کے ساتھ جو کچھ رونما ہوا تھا وہ اس کے اپنے لئے ناقابل یقین تھا۔ اپنے خواب و خیال میں جن واقعات و حادثات کا گمان نہیں کر سکتا تھا وہ اس کے سامنے اس کا اپنا ماضی بن کر نمودار ہو رہے تھے ماضی کے اس انوکھے سفر میں اس کے ساتھ چمیلی نہیں بلکہ رضیہ تھی رضیہ سلطانہ۔
رضیہ سلطانہ جس نے برسوں تک اس کے دل کی دنیا پر حکمرانی کی تھی اور سلطانی بھی ایسی کے لوگ اسے رضیہ رضوانہ کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ رضیہ اور رضوان کی ہم آہنگی اپنی مثال آپ تھی ان دونوں کی ازدواجی زندگی پر سارا محلہ رشک کرتا تھا۔ رضوان کی شفقت اور رضیہ کی محبت اسر شتے کی مستحکم بنیادیں تھیں۔
رضوان چاٹگانگ کے ایک بڑے ہوٹل میں ملازمت کرتا تھا اور رضیہ وہاں سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر لال ماٹی نام کے قصبہ میں رہتی تھی۔ رضوان کی ہفتہ واری چھٹی بدھ کے دن ہوتی۔ وہ منگل کی شام میں جلد نکلتا اور رات ہوتے ہوتے گھر پہونچ جاتا۔ جمعرات کو علیٰ الصبح گھر سے نکلتا اور دس بجے تک ڈیوٹی پر حاضر ہو جاتا۔ اس کے ساتھی رضوان کا ہفتہ میں ایک دن جلد جانا اور تاخیر سے آنا برداشت کر لیتے تھے اس لئے کہ انہیں رضوان کی مجبوریوں کا احساس تھا۔
رضوان نے رضیہ کو شہر منتقل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا اس لئے کہ شہر کی جھگی جھونپڑی میں رہنا رضیہ کے بس کی بات نہیں تھی۔ رضوان کی قلیل تنخواہ اس کو اچھا مکان خریدنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اس لئے مجبوراً پانچ فراق اور دو وصال کے فارمولے پر مصالحت ہو گئی تھی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ دن سالوں میں بدلتے رہے بچے اسکول جانے لگے۔ گھر کی دیگر ذمہ داریوں میں اضافہ ہونے لگا۔ روز افزوں مہنگائی کے چلتے تنخواہ بڑھنے کے باوجود دن بدن کم محسوس ہونے لگی اور رضوان نے بادلِ ناخواستہ خلیج جانے کا من بنا لیا۔ خلیج کی زندگی نے وصال و فراق کی مساوات کو بدل کر رکھ دیا تھا اب وہ ۳۳۵ کے مقابلے ۳۰ دن ہو گیا تھا گو کہ فی صد میں قدرے کمی واقع ہو گئی تھی لیکن وصال کے لمحات یکمشت حاصل ہوتے تھے اور پھر طویل فراق سے سابقہ پیش آتا تھا۔
رضیہ اس نئے انتظام پر بھی راضی ہو گئی تھی اس لئے کہ اس سے گھر میں خوشحالی کا وہ ننھا سا چراغ روشن ہو گیا تھاجس میں بچوں کا مستقبل تابناک نظر آتا تھا۔ رضیہ کی توجہات ہمیشہ ہی اپنے بچوں کی جانب مرکوز رہی تھیں اس کا گھر اور اس کے بچے اس کی کل کائنات تھے۔ وہ اپنے بچوں سے بے انتہا محبت کرتی تھی اور ان کی خوشی اور آرام کیلئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے میں دریغ نہ کرتی۔ رضیہ کی اس غیر معمولی محنت اور توجہ نے اس کے بچوں کو اسکول کے ہونہار ترین طلبا میں شامل کر دیا تھا۔ اسے اپنے بچوں پر فخر تھا وہ ان کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھ کر اس پر ناز کرتی تھی۔
رضوان الحق کیلئے ابو ظبی میں اس قدر طویل عرصہ تک رضیہ سلطانہ سے دور رہنا بہت ناگوار تھا۔ پہلا سال تو اس نے قرض کی ادائیگی کی خاطر کسی طرح گزار دیا لیکن دوسرے سال بیلجیم کے سفارتخانے کی کم تنخواہ والی ملازمت محض اس وجہ سے گوارہ کر لی تاکہ رہائش اور ویزہ کا بندوبست ہو جائے اور وہ رضیہ کو اپنے پاس بلوا سکے۔ اسے یقین تھا رضیہ اس خبر کو سن کر باغ باغ ہو جائے گی اور فوراً ابو ظبی کوچ کرنے کی تیاریوں میں جٹ جائے گی لیکن رضوان کو حیرت ہوئی جب رضیہ بچوں کو ساتھ لے کر چلنے پر اصرار کرنے لگی۔
رضوان کیلئے بچوں کو یہاں لانا اور تعلیم دلوانا نا ممکن تھا اس نے رضیہ کو سمجھایا کہ بچے ننہال یا ددیہال میں رہ لیں گے ان کے ماموں اور چاچا وغیرہ ان کا خیال رکھیں گے لیکن رضیہ کیلئے یہ تجویز قابل قبول نہیں تھی۔ اپنے بچوں کو غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا اسے گوارہ نہ تھا۔ اس کے خیال میں نوخیز کلیوں کو ماں اور باپ دونوں کی نگرانی مطلوب تھی اگرچہ معاشی مجبوریاں والد کو دور لے جائیں تو ماں کسی حد تک اس کمی کو پورا کر سکتی تھی۔ اس ذمہ داری کو بوڑھے ماں باپ یا ساس سسر کے کندھوں پر ڈال کر راہ فرار اختیار کرنا بچوں کی حق تلفی تھی۔ بزرگ اپنی تمام تر کوشش اور خواہش کے باوجود بچوں کے حقوق کما حقہ ادا کرنے سے قاصر تھے۔ اپنی ذاتی خوشی اور سہولت کی خاطر بچوں کو محروم کرنا رضیہ کے نزدیک جرم عظیم تھا۔
رضیہ نے رضوان کو اپنا موقف سمجھانے کی بہتیری کوشش کی اور اس کی خاموشی کو تائید سمجھ بیٹھی جو ایک فاش غلطی تھی۔ رضوان واپس ابو ظبی آ گیا اور اسے احساس ہو گیا کہ رضیہ یہاں آنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے پھر بھی اس کو راضی کرنے کی سعی کرتا رہا مگر کامیابی نہیں ملی کیونکہ رضوان جب بھی اس مسئلے پر رضیہ سے بات کرتا وہ فوراً جذباتی ہو جاتی اور مجبوراً اسے خاموش ہو جانا پڑتا۔
رضوان ایک عجیب و غریب مخمصہ میں گرفتار ہو چکا تھا جس سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس نے جب اپنے قریبی دوستوں سے مشورہ کیا تو کچھ لوگوں نے نکاح ثانی کی صلاح دی۔ ابتدا میں یہ تجویز رضوان کیلئے قابل قبول نہیں تھی اس لئے کہ رضیہ کی ناراضگی کا اندیشہ تھا۔ وہ اپنی بیوی بچوں سے بے انتہا محبت کرتا تھا اور ان کی دلآزاری اسے کسی صورت گوارہ نہیں تھی لیکن اس کی اپنی ازدواجی ضرورت تھی جس کے بغیر اس کا گذارا نہیں تھا وقت کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو ایک سخت فیصلے پر راضی کر لیا۔
رضوان اگلی مرتبہ اس ارادے کے ساتھ بنگلہ دیش روانہ ہوا کہ رضیہ کو منانے کی ایک آخری کوشش کرے گا اور اگر وہ پھر بھی تیار نہ ہوئی تو دوسرا نکاح کر کے اپنے نئی بیوی کو ابو ظبی بلا لے گا۔ رضیہ اس بار بھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اس نے اپنے دوستوں کی مدد سے نکاح ثانی کی جانب پیش قدمی کی۔ جو رشتے آئے ان میں بہارلاسلام کی بیٹی چمیلی کی بھی تجویز تھی۔ رضوان نے خاموشی کے ساتھ چمیلی سے نکاح کیا اور یہ وعدہ کر کے لوٹ آیا کہ آئند و جب چھٹی پر آئے گا تو چمیلی کا ویزا ساتھ لائے گا تاکہ اسے اپنے ساتھ ابو ظبی لے کر جا سکے۔
رضوان کا نکاح ثانی صیغۂ راز میں تھا۔ چند افراد کے علاوہ کسی کو اس کی خبر نہ تھی۔ رضیہ سلطانہ بھی اس سے یکسر بے خبر تھی لیکن یہ راز آخر فاش ہو گیا۔ رضوان کے ابو ظبی لوٹنے کے چند روز بعد رضیہ کو سب کچھ پتہ چل گیا۔ اس کیلئے یہ زلزلے کا زبردست جھٹکا تھا اس نے محسوس کیا گویا اس کا تخت طاؤس اچانک ہچکولے کھانے لگا ہے۔
رضیہ سلطانہ نے اپنی سلطانی کو قائم رکھنے کیلئے نہ جانے کتنوں کو ناراض کیا اور پھر راضی بھی کر لیا۔ نہ جانے خود کتنی بار ناراض ہوئی اور پھر راضی بھی ہو گئی لیکن بہر صورت اپنے اقتدار پر آنچ نہ آنے دی۔ ننھی سی اس سلطنت کی سرحدیں گھر کی دہلیز تک سمٹی ہوئی تھیں وہ اس مملکت کی لاشریک ملکہ تھی اس کے اندر پائی جانے والی ہر شئے بشمول رضوان کے صرف اور صرف اس کی اپنی رعایا اور ملکیت تھیں۔ اس مختصر سی کائنات پر اس کی مکمل حکمرانی تھی۔ رضوان کے نکاح ثانی کی اطلاع سے قبل وہ اپنے آپ سے نہایت مطمئن اور خوش تھی لیکن پھر اچانک اس کا آشیانہ شعلوں کی نذر ہو گیا تھا۔
رضیہ سلطانہ کا سراپہ وجود بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ایسا لگتا تھا کسی بھی لمحہ وہ ایک خود کش دھماکے سے پارہ پارہ ہو کر بکھر جائے گی۔ وہ اپنے ساتھ اپنے جہان کو بھسم کر دینا چاہتی تھی لیکن معصوم بچوں کا خیال اس کے پیروں کی زنجیر بن گیا۔ ان خود ساختہ بیڑیوں کو وہ کبھی اپنے پاؤں کی پائل سمجھتی تھی۔ اس پائل کی جھنک جو اس کے کانوں میں رس گھولتی تھی اب صور اسرافیل بن گئی تھی۔ ویسے تو وہ اپنے بچوں کی خاطر بکھرنا نہیں بلکہ سنبھلنا چاہتی تھی لیکن اپنے آپ پر قابو رکھنا اس کے لئے مشکل ہو رہا تھا۔
رضیہ کے پاس بیٹھی اس کی خاص سہیلی پروین شاکر اسے سمجھانے کی کئی ناکام کوششیں کر چکی تھی لیکن رضیہ کا حال یہ تھا کہ وہ ہر بات پر بپھر جاتی تھی کبھی کبھی تو ایسا معلوم ہوتا کہ یہ پروین شاکر نہیں بلکہ رضیہ کا نامراد شوہر ہے جو اسے سمجھانے منانے میں مصروف ہے جو بار بار اپنے گناہ کبیرہ یعنی نکاح ثانی کا اعتراف کر کے گڑ گ ڑا رہا ہے۔
رضیہ کے غیر عقلی رویہ کے باوجود پروین اس کا غم بانٹنے کی اپنی سعی میں لگی ہوئی تھی۔ اسے احساس تھا اگر یہی معاملہ خود اس کے ساتھ بھی رونما ہو گیا ہوتا تو کیفیت مختلف نہ ہوتی۔ ویسے تو عورت ذات کو اللہ رب العزت نے ایک ایسا درد مند دل عنایت فرمایا ہے کہ وہ اپنے دوست تو کجا دشمن کا در دبھی محسوس کر لیتا ہے۔ رضیہ کی بابت پروین شاکر اس حقیقت کی معترف تھی مگر انا اس کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑی ہو گئی تھی۔ کاش کہ وہ رضوان سے اس قدر محبت نہ کرتی۔ کاش کے اسے رضوان اور چمیلی کی مجبوریوں کا خیال ہوتا لیکن اس صورتحال میں ایسی توقع محال تھی۔
اپنی سہیلی سے ایک ہی گھسی پٹی کہانی کئی بار سننے کے بعد پروین اٹھی اور باورچی خانے کی جانب چائے بنانے کی خاطر چل پڑی درمیان میں اسے خیال آیا کہ بچوں کے اسکول سے آنے کا وقت ہو رہا ہے اس نے فریج سے گوشت نکال کر دھویا اور اسے ابلنے کیلئے دوسرے چولہے پر چڑھا دیا۔ تیسرے پر چاول رکھ دیا لیکن چوتھا اب بھی خالی تھا وہ سوچنے لگی وقت وقت کی بات ہے کسی زمانے میں اس باورچی خانے کے اندر ایک چولہا تھا اور اس پر کھانا باری باری بنتا تھا اب تین چولہے ایک ساتھ کام کر رہے ہیں اور پھر بھی چوتھا خالی ہے زمانہ بدل گیا ہے۔ آخر یہ آسان سی بات رضیہ کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟
چائے کی دو پیالیاں کشتی میں رکھ کر پروین لوٹ آئی۔ رضیہ نے اسے دیکھا تو آنکھوں کے گنگ و جمن پھر بہنے لگے۔ اس نے نئے سرے سے حکایات کا دفتر کھول دیا اس درد بھری داستان میں شکایت کے علاوہ رکھا ہی کیا تھا؟
آخر کیا غلطی ہے میری؟
اس نے مجھے یہ سزا کیوں دی؟
اس بے وفا نے مجھ پر یہ ظلم کیوں کیا؟
میں نے اس کیلئے کیا نہیں کیا؟
اس چڑیل میں آخر کیا نظر آ گیا جو اس نے مجھ سے آنکھیں پھیر لیں؟
کون سا جادو کر دیا اس کلموہی نے اس پر؟
کس قدر جھوٹا ہے یہ شخص؟
آخر وہ اتنا جھوٹ کیوں بولتا ہے؟
اس نے مجھ سے یہ سب کیوں چھپایا؟
کیوں مجھ کو اندھیرے میں رکھا؟
کیوں اس نے مجھے بے یارو مددگار چھوڑ دیا آخر کیوں؟
ان سوالات کے جوابات پروین کئی بار دے چکی تھی۔ اور اکثر و بیشتر جوابات میں اس نے جانتے بوجھتے حقیقت بیانی سے گریز کیا تھا۔ وہ اپنی سہیلی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے اس کے بیجا الزامات کی تائید کئے چلی جاتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ رضیہ کی ذہنی حالت غیر معتدل ہے یہ ایک عارضی مرحلہ جو جلد ہی گذر جائے گا اور پھر سب کچھ پہلے کی طرح معمول پر آ جائے گا۔ پروین کے خیال میں نہ تو رضوان نے رضیہ کو چھوڑا تھا اور نہ ہی اس سے کوئی جھوٹ بولا تھا۔ اس کے برعکس رضیہ کئی باراسے چھوڑنے کی دھمکی دے چکی تھی۔ رضوان نے دھمکیوں کے جواب میں کمال صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا تھا۔
وہ جسے چڑیل کہہ رہی تھی اس سے واقف تک نہ تھی رضوان نے کوئی دھوکہ دہی نہیں کی تھی اس نے باقاعدہ نکاح کیا تھا اور شادی اگر جرم تھا تو وہ پہلی بار نہیں ہوئی تھی۔ نکاح نہ تو جرم ہے اور نہ جادو۔ رضوان تو ویسے ہی برسوں رضیہ کے سحر میں گرفتار رہا تھا۔ پروین جانتی تھی کہ رضیہ کی غلطی نہیں تھی لیکن اسے کوئی سزا بھی نہیں ملی تھی۔ رضیہ نے یقیناً اپنے شوہر رضوان سے بہترین حسن سلوک کیا تھا لیکن جواب میں رضوان نے بھی کوئی کسرنہ اٹھا رکھی تھی۔ اس نے کبھی بھی رضیہ کو شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔ وہ ایک دوجے کے ساتھ احسان کا بدلہ بہترین احسان کے سنہری اصول پر کاربند رہے تھے۔
رضوان نہایت نرم گفتار، وفا شعار اور اطاعت گزار شوہر تھا۔ اسی سبب سے رضیہ کی سہیلیاں اس پر رشک کرتی تھیں۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی ابھی تک رضوان کی حمایت میں ایک حرف اپنی زبان پر لانے کی جرأت پروین نہیں کر سکی تھی۔ وہ رضیہ کا غم غلط کرنے کے لیے بحث و اختلاف سے گریز کرتے ہوئے رضیہ کے خود ساختہ زخموں پر مرہم رکھ دیتی تھی۔
پروین نے بات بدلنے کیلئے کہا رضیہ ایک بات بتاؤ یہ رضوان کیسا نام ہے؟ ہمارے یہاں تو اس قسم کے نام نہیں پائے جاتے؟
رضیہ بولی جی ہاں تم صحیح کہتی ہو مجھے بھی یہ نام ابتداء میں کچھ عجیب سا لگا تھا لیکن میں نے سوچا ہمارے یہاں نام کچھ زیادہ غور و خوض کے بعد تو رکھے نہیں جاتے اس لئے نظر انداز کر دیا۔
اچھا تو تم نے کبھی وجہ تسمیہ دریافت کرنے کی زحمت نہیں کی؟
ویسے ایک مرتبہ میں نے پوچھ لیا تھا کہ آپ کا نام رضوان کیوں ہے؟ یہ کچھ مختلف سا معلوم ہوتا ہے؟
اچھا بہت خوب تو انہوں نے کیا جواب دیا؟
وہ بولے میرے والد صاحب کو شاعری کا شوق تھا اس لئے وہ اپنے بچوں کے نام ردیف قافیہ کے لحاظ سے رکھتے تھے۔ سب سے بڑے کا نام ریحان رکھا، پھر عفان اور تیسرا میں تھا اس لئے رضوان رکھ دیا۔
اچھا یہ تو دلچسپ بات ہے کیا ان سے چھوٹے بھائی بھی ہیں؟
جی ہاں ان سے چھوٹے کا نام فیضان ہے اور پھر سلطان۔
پروین خوش ہو رہی تھی کہ موضوع بدل گیا تھا وہ بولی خیر یہ تو اچھا ہوا کہ سلسلہ بند ہو گیا ورنہ حیوان اور شیطان کی نوبت آ جاتی تو مسئلہ کھڑا ہو جاتا؟
دیکھو پروین اگر حیوان حیوانی کرے یا شیطان شیطانی کرے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے لیکن اگر انسان شیطان یا حیوان بن جائے تو بات بگڑ جاتی ہے جیسا کہ رضوان فی الحال نہ صرف حیوان بلکہ شیطان بن چکا تھا۔
پروین نے اپنا سرپیٹ لیا اس لئے کہ بات گھوم پھر کر وہیں پہونچ گئی جہاں سے وہ اسے دور لے جانا چاہتی تھی۔ یہ ایک بڑی مشکل تھی کہ بات جہاں سے شروع ہوتی تھی تان بالآخر وہیں جا کر ٹوٹتی تھی۔ پروین نے پھر نئے سرے سے اپنی کوشش کا آغاز کیا اور بولی میں نے تو یہاں تک سن رکھا ہے کہ رضوان جنت کے دربان کا بھی نام ہے؟
جنت کا دربان رضوان؟
جی ہاں میں نے ایسا ہی سنا ہے کہ رضوان وہ دربان ہے کہ جس کو پسند کرے اس کیلئے جنت کا دروازہ کھول دے اور جس کسی سے ناراض ہو جائے اسے دروازے سے باہر کر دے؟
وہ تو کسی فرشتے کا کام ہے لیکن ایک یہ ہیں رضوان! ان کے کرتوت دیکھ کر تو ابلیس بھی شرما جائے، پہلے تو مجھے حور بنا کر اپنی جنت میں داخل کر لیا اور پھر کسی چڑیل کی خاطر مجھے جہنم میں جھونک دیا۔
او ہو تو معلوم ہوا کہ آپ حور بھی ہیں اور جنت میں بھی رہتی تھیں؟
رضیہ کے ہونٹوں پر آخر ہنسی آ ہی گئی پروین بھی مسکرائی۔
رضیہ نے کہا تم بڑی عجیب عورت ہو روتے کو ہنسا دیتی ہو اور ہنستے کو رلا دیتی ہو اسی لئے تو میں نے تمہیں اپنی سہیلی بنا رکھا ہے۔
اچھا ورنہ؟
ورنہ بھی میں تجھے اپنی سہیلی بنائے رکھتی، لیکن دیکھ تو اب ایک کام کرجس طرح مجھے ہنسایا ہے اسی طرح انہیں رلا کر دکھا تب جا کر میں اپنا استاد مانوں گی۔
پروین بولی تیرے وہ تو پہلے ہی سے رورہے ہیں اب روتے ہوئے کو کیا رلانا؟ اور اگر مزید رلانا بھی ہے تواس خدمت کیلئے تو کافی ہے اس معاملے میں مجھے زحمت اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
دونوں سہیلیاں پھر سے ہنس پڑیں رضیہ بولی میں جانتی تھی تم یہی جواب دو گی تم سب ان کے ساتھ ہو۔ سارا جہان ان کا ہمنوا ہے میں دنیا میں اکیلی ہوں۔ تنہا بالکل تنہا اور پھر منہ بسور کر بیٹھ گئی۔
پروین نے جواب دیا دیکھو میں جاتے جاتے تمہارے پاس صابر ظفر کا ایک شعر چھوڑ جاتی ہوں شاید کے یہ تمہارے غم کا مداوا بن جائے۔
بکھرتا پھول جیسے شاخ پر اچھا نہیں لگتا
محبت میں کو ئی بھی عمر بھر اچھا نہیں لگتا
٭٭٭