گاڑی کے پہیوں کی طرح وقت کی چکری چلتی رہی۔ ایک روز غضنفر نے پیچھے سے آواز سنی صاحب گاڑی دھوئے گا۔ اسے لگا کوئی اس سے گاڑی دھلوانا چاہتا ہے۔ غصے سے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رضوان کھڑا تھا۔ غضنفر نے ہاتھ بڑھایا او ہو رضوان یہ تم کیا کر رہا ہے؟
رضوان الحق نے اپنی بالٹی نیچے رکھی اپنے کپڑوں سے ہاتھ پونچھا ہاتھ ملایا اور خاموش کھڑا رہا۔ پہلی مرتبہ اسے احساس ہوا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ نہ جانے کب سے وہ جس کام کو صبح سے شام تک کرتا تھا اس کے بارے میں یہ آسان سوال اس کے لئے کس قدر اجنبی تھا۔ کسی نے اس سے یہ سوال پوچھنے کی زحمت نہیں کی تھی بلکہ اس نے اپنے آپ سے بھی کبھی نہیں پوچھا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ اور کیوں کر رہا ہے؟
غضنفر بولا آؤ چلو چائے پیتے ہیں دونوں چائے کی دوکان پر آئے اور باہر لگی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
رضوان نے پوچھا آپ کیسا ہے؟
غضنفر بولا اللہ کا شکر ہے۔ آپ کیسا ہے؟
اللہ کا بہت بہت احسان ہے بڑی مہربانی ہے میں اچھا ہوں۔
غضنفر سوچنے لگا یہ اچھا ہے۔ بالٹی لے کر کسی پھیری والے کی طرح آواز لگاتا ہے۔ سڑک کے کنارے اپنی خدمت بیچتا ہے اور شاید نہیں جانتا کہ ایسا کرنا اس ملک میں غیر قانونی ہے۔ اس جرمِ عظیم کیلئے اس کا کسی بھی وقت دیس نکالا ہو سکتا ہے اس کے باوجود کہتا ہے، اچھا ہے؟ ویٹر چائے لے آیا۔
رضوان تم تو بولا تھا کہ تم کوک ہے باورچی۔ تو کیا تم اپنا کام بدلی کر دیا؟
رضوان نے کہا ہم نے نہیں بدلا وقت بدل گیا۔
او ہو یار تم اپنے بیچ میں وقت کو کیوں لاتا ہے؟ بولو نا اس میں پیسہ زیادہ ہے اس لئے تم اپنا کام دھندہ بدلی کر دیا۔
غضنفر آپ کا آدھا بات سچ ہے۔ اس میں پیسہ زیادہ ہے۔ لیکن ہم نے اس کے لئے اپنا کام بدلی نہیں کیا۔ اس لئے کہ ہم کو تو اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا یہ لمبی داستان ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ جس طرح کی مجبوری ہم کو بنگلہ دیش سے یہاں پردیس میں لایا ہے اسی طرح کا مجبوری نے ہم کو کوک سے کار واشر بنا دیا۔
یہ کار واشر کیا ہوتا ہے؟
وہی گاڑی کا دھوبی اور کیا؟
لیکن ایک بات ماننا پڑے گا کہ تمہارا دونوں مجبوریوں نے پیسہ بڑھایا ہے؟ غضنفر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
آپ کا بات ساچ ہے۔ انسان کا ماجبوری بھی کبھی کبھی اس کے لئے خوش حالی بڑھاتا ہے۔ اب وہ بنگلہ لہجے میں اپنے دل کی بات کہہ رہا تھا وہ بھول گیا تھا اس کا مخاطب ایک پٹھان ہے۔
تب تو مجبوری اچھا ہے؟
اچھا نہیں ہے دوست ماجبوری تو ماجبوری ہے۔
کیوں پیسہ اچھا نہیں ہے؟
پیسہ تو اچّا ہے۔ لیکن ماجبوری اچّا نہیں ہے۔
اب غضنفر بھی اپنے پٹھانی لب و لہجے میں آ گیا دونوں اپنے اپنے انداز میں اردو بول رہے تھے لیکن یہ اچائی اور خرابی سات سات آتا ہے۔
رضوان نے تائید کی اور بولاجیسا رات اچا ّنہیں ہے لیکن دن کے سات ہے۔ نہ رات کے بغیر دن ہے اور نہ دن کے بغیر رات ہے۔
رات اچھا نہیں ہے؟ رات کیوں اچھا نہیں ہے؟
رات کو کوئی گاڑی دھلانے والا نہیں ملتا ہے دھندہ بند ہو جاتا ہے اس لئے اچھا نہیں ہے؟
او ہو ایسا بات ہے۔ اگر رات کو بھی گاڑی دھلانے والا ملے گا تو تم رات کو بھی گاڑی دھوئے گا؟
کیوں نہیں دھوئے گا ضرور دھوئے گا۔
آرام نہیں کرے گا؟
نہیں کورے گا پیسہ کمائے گا۔
اچھا پیسہ کما کر کیا کرے گا؟
بنگلہ دیش جائے گا۔
بنگلہ دیش جا کر کیا کرے گا؟ پھر دن رات کام کرے گا؟
کام نہیں آرام کرے گا صرف آرام کرے گا؟
تو یہیں آرام کر لو۔ آرام تو آرام ہے یہاں کرو یا وہاں کرو کیا فرق ہے؟
بہت بڑا فرق ہے یہاں ماجبوری کا ساتھ ہے وہاں ماجبوری کا بغیر ہے۔
غضنفر بولا تم صحیح بولتا ہے یہاں کام کرنا مجبوری ہے وہاں آرام کرنا مجبوری ہے۔ بولو صحیح بات ہے کہ نہیں؟
رضوان سوچ میں پڑ گیا بات تو صحیح ہے یہ مجبوری کم بخت کہیں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔ چائے ختم ہو چکی تھی غضنفر نے رضوان سے پوچھا یہ بتاؤ تم کو یہاں کتنا دن ہو گیا؟
دن کہاں؟ ہم کو یہاں آٹھ مہینہ ہو گیا۔
آٹھ مہینہ! توہم لوگ آٹھ مہینہ پہلے ملا تھا۔
ہاں غضنفر ہم لوگ آٹھ مہینہ پہلے ملا تھا۔
یار سمجھ میں نہیں آتا کہ ٹائم اتنا جلدی کدھر جاتا ہے ہم گاڑی تیز چلاتا ہے تو صاحب بولتا ہے دھیرے چلاؤ جلدی نہیں ہے لیکن ٹائم کو کوئی دھیما نہیں کر سکتا ہے وہ تو بس بھاگا ہی چلا جا تا ہے۔
نہیں غضنفر میرے لئے تو وقت ٹھہر اہوا ہے۔ جب سے میں یہاں آیا ہوں گھڑی کا کانٹا گھومتا ہی نہیں ہے۔
تو زور لگا کے گھماؤ اس کو۔
بندھو ہم کوڈر لگتا ہے زور لگائے گا تو یہ کانٹا ٹوٹ جائے گا۔ نہیں نہیں ہم کو لگتا ہے اب یہ کبھی بھی گھومنے والا نہیں ہے۔ رضوان حسرت و یاس کے گہرے سمندر میں ڈوب گیا۔
دیکھو رضوان ہم پٹھان ہے ہماری سمجھ میں تمہارا مشکل بات نہیں آتا ہے۔ یہ بتاؤ یہ آٹھ مہینہ میں تم نے کیا کیا دیکھا؟
ہم کیا دیکھا؟ کچھ نہیں؟ کچھ نہیں دیکھا۔ یہاں ہے ہی کیا دیکھنے کے لئے نہ دریا ہے نہ کھیت ہے نہ جنگل ہے نہ پہاڑ ہے نہ چرند نہ پرند کچھ بھی تو نہیں کہ جس کو دیکھا جائے؟
رضوان پھر تم ایسی بات بولتا ہے جو ہمارا عقل میں نہیں جاتا ہے خیر چلو آج ہمارے پاس ٹائم ہے ہم تم کو کارنش کی سیر کراتا ہے۔
کارنش۔ یہ کارنش کیا ہوتا ہے؟ رضوان نے حیرت سے پوچھا
اب غضنفر کیلئے بڑی الجھن کھڑی ہو گئی تھی کہ اس احمق کو کارنش کیسے سمجھائے وہ بولا کارنش! نہیں جانتے؟ کارنش۔۔ ۔۔ کارنش ہوتا ہے۔
یار تم نے کتنا مرتبہ کارنش کارنش دوہرا دیا پر یہ نہیں بتلایا کہ آخر وہ ہوتا کیا ہے؟
ابھی تم کو کیسے بتائے گا؟ چلو ہمارے ساتھ خود ہی دیکھ لینا کارنش کیا ہوتا ہے۔
لیکن یہ بالٹی اور یہ برش، یہ کپڑا؟
اس کو میری گاڑی میں رکھ دو ٹھیک ہے۔
لیکن ہم واپس کیسا آئے گا ہم کو تو آنے کے لئے راستہ بھی معلوم نہیں ہے۔
ارے بھائی ہم لے کر جائے گا تو لا کر بھی چھوڑے گا اتنا کیوں ڈرتا ہے چلو گاڑی میں بیٹھو۔
(گاڑی میں ) یار تم نے یہ نہیں بتایا کہ اپنا کوک کا پیشہ کیوں بدل دیا؟
یار بات یہ ہے کہ میں ایک بڑی سی ہوٹل میں کام کرنے کے لئے آیا تھا اس ہوٹل میں زیبائش و آرائش کا بڑا اہتمام تھا۔ نہایت خوبصورت میز کرسیاں جھومر روشنی گلاس رکابیاں ہر چیز اعلیٰ معیار کی تھیں۔ کام کرنے والے لوگوں کو لباس بھی بہترین فراہم کئے گئے تھے، لیکن اس وردی کے اندر وہی کم تعلیم یافتہ نا تجربہ کار لوگوں کو سجادیا گیا تھا۔ ان غیر تربیت یافتہ لوگوں کے لانے مقصد یہ تھا کہ کم تنخواہ کے ذریعہ زیادہ منافع کمایا جا سکے لیکن دوست ہوٹل میں پہلی مرتبہ تو لوگ آرائش و زیبائش دیکھ کر آ جاتے ہیں اور اگر ان کی خدمت ٹھیک سے نہ کی جائے۔ صفائی ستھرائی کا اچھا انتظام نہ ہو۔ تہذیب سے پیش نہ آیا جائے تو دوسری مرتبہ نہیں آتے نیز دوسرے آنے والوں کو بھی منع کر دیتے ہیں۔ رضوان نے بہترین اردو میں بولا۔
اچھا تو میں سمجھ گیا۔ تم جیسے لوگوں کو اس نے باورچی رکھ لیا تھا تو کھانا ٹھیک سے نہیں بنا ہو گا اب اگر کھانا اچھا نہ ہو گا تو گاہک دوبارہ کیسے آئے گا؟ غضنفر نے مذاق میں کہا
رضوان بولا نہیں دوست معاملہ صرف کھانے کا نہیں ہے آپ کتنا بھی اچھا کھانا بنائیں اگر اسے سلیقے سے نہ پروسیں، صاف ستھرے برتن نہ ہوں، خوشگوار ماحول نہ ہو تو کھانے کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ اس لئے دعوت کے ساتھ حکمت و موعظت بھی ضروری ہے۔ حکمت کے بغیر دعوت بدمزہ اور موعظت کے بغیر بے اثر ہو جاتی ہے۔ کیا سمجھے؟
چھوڑو تمہارا بات ہماری سمجھ میں نہیں آئے گا۔ یہ دیکھو سامنے کارنش ہے اس کو کارنش بولتا ہے۔
ارے یہ تو سمندر کا ساحل ہے۔ اس کو ساحل بولتا ہے رضوان نے کہا۔
ہاں ہاں یہ ساحل واحل تمہارا ہمارا ملک میں بولتا ہے یہاں پر اس کو کارنش بولتا ہے جیسا کہ باورچی کو کوک بولتا ہے۔
رضوان نے کہا ہاں خان تم صحیح بولتا ہے۔ ایک ہی چیز کو لوگ الگ الگ نام سے بلاتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ الگ الگ چیزیں ہیں۔
غضنفر رضوان کے اس جملے پر غور کر رہا تھا کہ سامنے سے اسے رضوان کوٹ پتلون میں آتا ہوا دکھائی دیا۔ ارے یہ رضوان ہے وہی رضوان جسے وہ دو ماہ قبل یہاں ائیر پورٹ پر چھوڑ کر گیا تھا؟ نہیں یہ تو رضوان الحق ہے۔ فائی اسٹار کوک رضوان الحق جو چمیلی بیگم کے آگے آگے چلا آ رہا تھا۔
ایک ہی چیز کے الگ الگ نام،
الگ حلیہ، الگ لباس۔
سب کچھ بدل گیا تھا۔
غضنفر کے اندر سے آواز آئی بظاہر تو بہت کچھ بدل گیا لیکن اندر سے کچھ نہیں بدلا۔ اس لیے کہ رضوان وقت کے ساتھ بدلنے والوں میں سے نہیں تھا۔
٭٭٭