رضوان الحق کو چھٹی جانا تھا۔ اس مختصر سے پردیسی خاندان سے جو کوئی بھی تعطیل جاتا اسے ہوائی اڈہ لے کر جانا اور وہاں سے واپس لانا غضنفر کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کرشنن بھی ان کے ساتھ رہتا تھا۔ غضنفر نے رضوان سے پوچھا کیوں بہت خوش نظر آ رہے ہو کوئی خاص بات ہے کیا؟
جی ہاں اس بار میری واپسی ہمیشہ سے مختلف ہو گی ان شاء اللہ۔
وہ کیسے؟
ایسے کہ اس بار میں اکیلے نہیں آؤں گا۔
اچھا؟
ہاں اس بار میں اپنی بیوی چمیلی کو بھی ساتھ لاؤں گا۔ صاحب نے ویزے کا بندوبست کر دیا ہے۔
بہت خوب۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔
جی ہاں جب سے سوژان آئی ہیں صاحب ہم لوگوں کے اہل خانہ کا خاص خیال رکھنے لگے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہیں۔
لیکن ہم بیوی بچوں کے ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں؟
کیوں نہیں رہ سکتے؟
تیری ایک بیوی ہے تو بچے نہیں ہیں۔ میری اور کرشنن کی بیوی بھی نہیں ہے۔
تواس میں کیا مشکل ہے بچے نہیں ہیں تو ہو جائیں گے۔ بیوی نہیں ہے تو آ جائے گی۔ دونوں دوست ہنسنے لگے۔
رضوان پھر خاموش ہو گیا۔ غضنفر نے پوچھا اب منہ کیوں لٹکا لیا؟
غضنفر! بات یہ ہے کہ ہر مرتبہ میں چھٹی کا انتظار کرتا تھا تاکہ اپنی زوجہ سے ملنے جاؤں۔ لیکن جب وہ یہاں آ جائے گی تو پھر انتظار ۰۰۰ اور انتظار کا لطف سب کچھ ختم ہو جائے گا؟
یار انتظار میں بھی کوئی مزہ ہوتا ہے بھلا؟ وہ تو تکلیف دہ چیز ہے۔
نہیں غضنفر ایسانہیں ہے مجبوری کا انتظار کلفت ہوتا ہے لیکن اگر اس میں محبت شامل ہو جائے تو اس کا ہر ہر لمحہ فرحت بخش ہو جاتا ہے کیونکہ انسان محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ ہر لمحہ اپنے محبوب سے ایک لمحہ قریب تر ہو گیا ہے۔
یار رضوان تیری یہ بنگالی منطق میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔
رضوان ہنس کر بولا تو ہے آخر پٹھان! تم لوگوں کے پاس نہ دماغ ہوتا ہے نہ دل، بات سمجھ میں آئے بھی تو کیسے؟ پھر سے دونوں دوست ہنسنے لگے۔ سامنے کھڑا بیلجیم کا رہنے والا البرٹ بھی بغیر سمجھے مسکرا رہا تھا۔
غضنفر نے سوچا اس بار رضوان قدرے ہلکا پھلکا جا رہا تھا سب سے زیادہ سامان وہ اپنی اہلیہ کے لئے خرید تا تھا لیکن اس مرتبہ خریداری معمولی تھی۔ چمیلی کو ساتھ جو آنا تھا کیا فائدہ یہاں سے سامان اٹھا کر لے جاؤ اور وہاں سے اٹھا کر واپس لاؤ۔ پھر یہاں آنے کے بعد چمیلی اپنی پسند سے ساری چیزیں خرید سکتی تھی۔ اپنی پسند تو آخر اپنی پسند ہوتی ہے۔ جس طرح رضوان کی پسند چمیلی اور چمیلی کی پسند رضوان۔
گاڑی کے پہیوں کی مانند غضنفر کا دماغ بھی گھوم رہا تھا پھر ایک موڑ ایسا آیا کہ چمیلی کی جگہ شہر بانو نے لے لی۔ شہر بانو اس کی اپنی پسند جسے وہ پسند تھا۔ کون جانے کہ شہر بانو کو وہ پسند تھا یا نہیں؟ ایک اندیشے نے سر اٹھایا لیکن غضنفر نے اسے فوراً کچل دیا یہ کیسے ممکن ہے کہ جسے وہ پسند کرے اسے وہ پسند نہ کرے؟ ایسا تو نہیں ہوتا۔
غضنفر کو محسوس ہوا رضوان صحیح کہتا ہے انتظار کا بھی اپنا مزہ ہے مدتِ وصال میں ہر لمحہ واقع ہونے والی کمی کا لطف وہ محسوس کرنے لگا تھا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا تو پٹھان ہے تو کیا ہوا۔ تیرے پاس اگر دماغ نہیں ہے تو کوئی بات نہیں لیکن تیرے پاس دل ضرور ہے یقیناً ً اس کے پاس بھی ایک دل ہے! اس کی اپنی شہر بانو کیلئے دھڑ کنے والا دل۔ اگلے موڑ پر اچانک غضنفر اپنے تخیل کی دنیا سے باہر نکل آیا اور ایف ایم ریڈیو کا بٹن دبا دیا۔ اتفاق سے اس وقت آر جے نوید ایک گھسا پٹا شعر اپنے منفرد انداز میں سنا رہا تھا ؎
میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا
سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے
غضنفر کے دماغ نے پھر سے یو ٹرن لے لیا اب گاڑی آگے جا رہی تھی اور غضنفر پیچھے ماضی کے دھندلکوں میں محو سفر تھا۔ پرانی یادوں کا وہ جھروکا کھل گیا تھا جب اس کی رضوان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ غضنفر ایک بنگالی بوفیہ میں بیٹھا چائے کے ساتھ کڑک پراٹھا کھا رہا تھا کہ اس نے دیکھا اک دبلا پتلا سہما سا بنگالی نوجوان ویٹر سے بنگالی میں باتیں کر رہا ہے۔ کچھ دیر بعد ویٹر نے دور سے آواز لگائی ایک سبزی سفری۔
اس بنگالی نے کہا سفری نہیں پارسل۔
ویٹر بولا پارسل کو عربی میں سفری کہتے ہیں؟
پوچھنے والے کو اچانک احساس ہوا کہ وہ عرب دنیا میں ہے اس لئے کہ یہاں عربوں جیسا کچھ بھی نہیں تھا کل شام سے وہ اِدھر اُدھر بھٹک رہا تھا کوئی بنگالی نظر آتا تو کوئی ہندوستانی، کوئی پاکستانی تو کوئی فلپائنی اِکا دُکّا عرب یا انگریز دکھائی پڑ جاتے اس طرح کے عرب اور انگریز تو اس نے ڈھاکہ میں بھی دیکھے تھے۔ لیکن پارسل کی عربی سفری نے اسے محسوس کرا دیا تھا کہ یہ بنگلہ دیش نہیں عرب دیش ہے یعنی ابو ظبی میں ہے۔
اب کی بار کچن میں کھڑے باورچی نے پوچھا بڑا یا چھوٹا۔
اس نے کہا گوشت نہیں سبزی۔ اس لئے کہ وہ گائے کے گوشت کو بڑا اور بکرے کے گوشت کو چھوٹا کہتا تھا لیکن یہ تو سبزی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔
ویٹر بولا ہاں ہاں سبزی کا بڑا ڈبہ یا چھوٹا ڈبہ۔
او ہو لیکن بڑے کی قیمت کیا ہے اور چھوٹا کتنے کا ہے؟
ویٹر نے بتلایا بڑے کی قیمت ہے تین درہم اور چھوٹے کی دو درہم۔
اب وہ گاہک سوچ میں ڈوب گیا غضنفر بھی نووارد ہی تھا اس لئے نوجوان کی کیفیت کو بھانپ گیا۔ پاکستانی روپئے کو تو صرف بیس سے تقسیم کرنا پڑتا تھا مگر وہاں بنگلہ دیشی ٹاکا کو درہم میں بدلنے کے لئے پچیس سے تقسیم کرنا ضروری تھا گویا اس کی مشکل پچیس فی صد زیادہ تھی تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد اس نے پوچھا چائے کتنے کی ہے؟
جواب ملا پچاس پیسے کی وہ پھر سوچنے لگا تھا۔ غضنفر سمجھ گیا کہ اب یہ کیا سوچ رہا ہے اس لئے کہ پچاس فلس سے کم یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔
پھر اس نے کہا ٹھیک مجھے چائے دے دو پارسل میرا مطلب سفری۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ پچاس فلس میں ملنے والی چائے تھرما کول کے گلاس والی سفری نہیں بلکہ چینی کے کپ والی ٹیبل چائے ہوتی ہے اور اسے یہیں بیٹھ کر پیا جاتا ہے۔ پارسل چائے کپ کی قیمت سمیت۷۵ فلس ہو جاتی ہے۔ کسی نئے آدمی کی سمجھ میں یہ فرق مشکل سے ہی آتا ہو گا۔ اس کے گاؤں میں جو چائے ایک ٹکہ میں ملتی ہے اس کی قیمت یہاں ۱۰ ٹکہ ہے اور اس کے گلاس کی قیمت ۵ ٹکہ ہے۔ ۵ ٹکہ بہت ہوتا ہے ۵ ٹکہ میں تو آدمی پیٹ بھر کھانا کھا لیتا ہے لیکن وہ بھول رہا تھا کہ یہ سب اس کے اپنے گاؤں میں ہوتا ہے اور وہ فی الحال ابو ظبی میں ہے۔ لیکن چائے منگانے کے بعد اسے احساس ہوا؟ کہ صرف چائے سے کام چلنے والا نہیں ہے۔ اس نے شیشے کے فریم لگی ہوئی اشیاء پر نظر ڈالی اور پوچھا یہ سب بھی پچاس پچاس پیسے کی ہیں؟
ہوٹل کے مالک نے کہا نہیں اوپر والی پچاس فلس کی اور نیچے والی ایک درہم کی اس گاہک کی نظر اوپر والی الماری پر ٹک گئی اور وہ دیکھنے لگا مختلف اقسام کے بسکٹ اور ڈبل روٹی کے ٹکڑے رکھے تھے اس نے سب سے بڑی ڈبل روٹی کی طرف اشارہ کیا۔ غضنفر کو اس سے یہی توقع تھی۔ غضنفر کا ناشتہ ختم ہو چکا تھا پھر بھی وہ بیٹھا رہا تاکہ اس نووارد کی حرکات سے لطف اندوز ہو سکے بلکہ اب اسے رحم آنے لگا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس کے پاس صرف ایک درہم ہو اور ہوٹل والا ۲۵ فلس کے لئے اس سے لڑنے لگے تو کیا ہو گا؟ غضنفر نے ارادہ کر لیا کہ وہ اپنی جیب سے ادا کر دے گا۔
نیا گاہک ڈبل روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے چائے میں ڈبو کر کھاتا جاتا تھا۔ اس کی نظریں نہ روٹی کو دیکھ پا رہی تھیں اور نہ چائے کو۔ نہ جانے خلاء میں وہ کیا دیکھ رہا تھا۔ یہ ڈرا سہما سا شخص کسی انجانے خوف و اندیشہ کا شکار تھا۔ غضنفراسے دیکھ رہا تھا۔ اپنا ناشتہ ختم کر کے اس اجنبی نے جیب سے بٹوا نکالا۔ غضنفر نے دیکھا کہ بٹوے میں کچھ نوٹ تھے۔ وہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ درہم ہیں یا ٹکہ۔ لیکن گاہک نے بٹوے کے اندر کی جیب کو کھولا اس میں سے ایک درہم کا سکہ نکالا اسے دو تین بار الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر بٹوہ بند کیا اس بار اس نے بٹوہ جیب میں رکھنے کے بجائے کندھے سے لٹکے جھولے میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔
جھولے میں گلف ایر کا بلّا لگا ہوا تھا غضنفر کا اندازہ صحیح نکلا یہ بالکل نیا رنگروٹ ابھی تازہ دم کارزارِ خلیج میں وارد ہوا تھا۔ بیگ میں ہوائی جہاز کا ٹیگ تھوڑے ہی دن کا مہمان ہوتا ہے جیسے جیسے سفر کی ہوا دماغ سے نکلتی جاتی ہے یہ ٹیگ اپنے آپ ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے اس نے اپنا بٹوہ بیگ کے اندر کی جیب میں رکھا اس پر چین لگا ئی پھر بیگ بند کیا اور بوفیہ کے مالک کو ایک درہم دے دیا۔ ہوٹل کے مالک نے کہا پچیس فلس اور دو۔
نوجوان بولا پچیس؟ کیسے پچیس فلس، ۵۰ فلس کی ڈبل روٹی اور پچاس فلس کی چائے میں نے پہلے ہی پوچھ لیا تھا میں بنگلہ دیشی ہوں۔
بوفیہ کے مالک نے کہا چائے کے ۷۵ فلس۔
وہ بولا نہیں میرا تعلق بنگلہ دیش سے ہے مجھے ۵۰ فلس بتلائے گئے تھے میں آپ کے یہاں کھانے کے لئے آنا چاہتا ہوں کیا یہاں کھانے کا بھی انتظام ہے۔
دوکان کے مالک نے بغیر کوئی جواب دیئے بے رخی کے ساتھ ایک درہم گلے ّ میں ڈالا اور دوسرے گاہکوں کی جانب متوجہ ہو گیا۔
اس نے پھر پوچھا کیا یہاں کھانے کا انتظام ہے؟ میں بنگلہ دیشی ہوں۔
ہوٹل کے مالک نے اس کی بات ان سنی کر دی اسے تعجب ہو رہا تھا ایسا کیوں ہے؟ ایک بنگلہ دیشی آدمی اس کی جانب بے توجہی کیوں برت رہا ہے؟ جب کہ وہ اس کا گاہک بھی ہے وہ اس کے یہاں کھانا بھی کھانا چاہتا ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ درہم و دینار کی دنیا ہے یہاں کوئی کسی کا نہیں ہے ہر کوئی دولت کا بندہ ہے جس کے پاس درہم ہے ہر کوئی اس کا ہے جس کے پاس نہیں ہے اس کا کوئی نہیں۔ اس مایا نگری میں ملک، زبان، دین دھرم سب ثانوی اقدار ہیں اصل قدر و قیمت بس مال و دولت کی ہے۔
وہ باہر آیا تو غضنفر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کیا نام ہے؟ اور کب آئے ہو؟
م۰۰ م۰۰ میرا نام رضوان ہے رضوان الحق میں بنگلہ دیش سے آیا ہوں کل آیا ہوں، میں کل ہی۔ رضوان الحق غور سے غضنفر کو دیکھ رہا تھا اسے بتلایا گیا تھا ابو ظبی میں پاکستانیوں کا بہت بڑا مافیہ ہے۔ اس سے بچ کر رہنا اور پٹھان بڑی ہی اُجڈ اور مغرور قوم ہے لڑائی جھگڑے کے علاوہ یہ لوگ کچھ جانتے ہی نہیں۔ ان سے تو بس دور ہی سے سلام کلام رکھنا پردیس میں ویسے ہی انسان کو سنبھل کر رہنا چاہئے صرف اپنے لوگوں میں رہے اسی میں عافیت ہے۔ لیکن یہ کیا اس کا اپنا ہم وطن تو اسے جواب تک نہیں دے رہا تھا اور یہ پٹھان اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی خیریت پوچھ رہا تھا۔
غضنفر نے کہا کیا کام جانتے ہو۔
میں کوک ہوں۔
کوک؟ یہ کوک کیا ہوتا ہے۔
ارے وہی کھانا بنانے والا کوک تم کوک نہیں جانتے؟
ہاں ہاں تو باورچی بولو نا ہم تو صرف ریل گاڑی کی کوک جانتا ہے۔
رضوان کو ہنسی آ گئی وہ بولا اچھا تو تم کوئل کی کوک بھی نہیں جانتے۔
غضنفر جھینپ گیا وہ بولا ہاں دوست کوئل کی بھی کوک ہوتی ہے لیکن اس صحرا میں کوئل تو کیا کوا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں کوئی پرندہ نہیں پایا جاتا بس مشینی پرندہ ہوتا ہے جسے ہوائی جہاز کہتے ہیں اس کے روح نہیں ہوتی صرف پیٹ ہوتا ہے یہ اپنے پیٹ میں ہم جیسے بھوکے لوگوں کو بھر کر یہاں لے آتا ہے۔ ان بھوکوں کی مدد سے ہوائی جہاز والے اپنا پیٹ بھرتے ہیں سب پیٹ پانی کاچکر ہے۔ پاپی پیٹ کا سوال؟
رضوان بولا تمہارا کیا نام ہے بندھو تم باتیں بہت اچھی کرتے ہو؟
میرا نام غضنفر ہے۔ غضنفر کا مطلب جانتے ہو شیر۔ تم نئے نئے آئے ہو۔ میرا نمبر اپنے پاس رکھ لو اگر کوئی ضرورت ہو تو مجھے فون کرنا میری گاڑی میں بیٹھو میں تمہیں اپنے کام کی جگہ چھوڑ دیتا ہوں۔ غضنفر نے سامنے کھڑی شاندار بی ایم ڈبلو کی جانب اشارہ کیا۔
رضوان ٹھٹک گیا یہ تمہاری گاڑی ہے۔
ہاں میری ہی سمجھو۔ میں ہی اسے چلاتا ہوں۔ نہلاتا ہوں دھلاتا ہوں۔ بہلاتا ہوں پھسلاتا ہوں۔
او ہو میں سمجھ گیا۔ رضوان بولا تم اس کے ڈرائیور ہو؟ میں تو سمجھا تھا کہ۔۔ ۔۔
غضنفر نے جملہ پورا کیا، مالک؟ لیکن دوست مالک تو وہ بھی نہیں ہے جو اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھتا ہے اور جسے لوگ اس کا مالک سمجھتے ہیں۔
رضوان نے تائید میں سر ہلایا۔ اور کہا ہاں دوست تم صحیح کہتے ہو۔ دنیا کی اس بساط کا ہر مہرہ اپنے بارے میں بہت ساری غلط فہمیوں کا شکار ہے کوئی اپنے آپ کو پیادہ سمجھتا ہے تو وزیر اور کوئی بادشاہ حالانکہ بادشاہ تو وہ ہے جس کا یہ کھیل ہے یہ دنیا کھیل تماشہ ہے گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ کبھی شئے کبھی مات کبھی جیت کبھی ہار۔ کبھی پیار کبھی وار۔
غضنفر بولا یار تم تو شاعر لگتے ہو۔ جانا کہاں ہے۔
جانا تو مجھے یہیں اس بلڈنگ کے عقب میں ہے۔ لیکن میں تمہیں فون کروں گا۔ اگر کام نہ بھی ہو تب بھی فون کروں گا۔ تم اچھے آدمی ہو اچھے دوست۔
اچھا دوست غضنفر نے ہاتھ ملایا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔
٭٭٭