اشعر آپ کو پتا ہے بیا اشعر کی الماری درست کرتے ہوئے بولی
اشعر جو آفس کا کام کر رہا تھا سر اٹھائے بغیر بولا کیا
آج انعم کی طبعیت خراب تھی
تو
مجھے لگتا وہ پریگنینٹ ہے
اشعر نے ایک دم سر اٹھا کر بیا کو دیکھا اور بیا کا دھیان بٹانے کو بولا
بیا کیا کر رہی ہو یار
اشعر نےلیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے کہا اور اٹھ کر بیا کے پیچھے آ رکا
آپ ہی کی الماری درست کر رہی ہوں پتہ نہیں اشعر آپ کو کیا ہو گیا ہے آپ تو اتنے آرگنائزڈ تھے اب ہر دوسرے دن الماری کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کسے دس سال کے بچے کی الماری ہے
جھنجھلاتے ہوئے کہا
تمہیں کیا پتہ بیا میں یہ سب جان بوجھ کر کرتا ہوں تاکہ تم مجھ میں اور میری چیزوں میں کھو جاؤ اور الٹا سیدھا نہ سوچو
بیا نے اشعر کی خاموشی کو محسوس کیا تو موڑتے ہوئے کہا
اب آپ کو کیا ہو گیا ہے
کاش بیا تم مجھے بھی میری الماری کی طرح سمیٹ سکتی بیا کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوچا
اشعر ُبت کیو ں بنے ہیں
سوچ رہا ہوں ہوں کہ میڈم نے کتنے دنوں سے نہیں نہایا دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے سر سے پاؤں تک دیکھ کر کہا
اچھا تو یہ بات میرے منہ پہ لکھی ہے ڈھٹائی سے پوچھا
نہیں منہ پر تو لکھا ہے کہ صبح سے دھلا ہوں اور بالوں کی لٹوں کو کان کے پیچھے کیا اور مزید بولا کہ برش بھی کل کا ہی کیا ہے
اب بیا نے شرمندہ ہو کر اپنے بال صحیح کرنے کی کوشش کی
اشعر قہقہہ لگاتے ہوئے بیا کی طرف جھکا اور قہقہے کا گلا گھونٹے ہوئے دھیمے لہجے میں بولا
ویسے آپس کی بات ہے اس حلیے میں ماسی ہی لگ رہی ہوں اور پھر ہنسنے لگا
بیا جو اشعر کے ایسے جھکنے پر کسی رومینٹک جملے کی توقع کر رہی تھی اشعر کی بات پر اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر پرے کیا اور آگے بڑھ کر اشعر کے جیل لگے بال بگاڑنے لگی
اشعر نے بیا کی اس حرکت کو انجوائے کیا اور بیاکے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اس کی کمر پر باندھا اور خود جھک کر بیا کے منہ پر کئی گستاخیاں کر دی
_+_+_+_
آ جاؤں اسفی مسز ہمدانی نے اسٹڈی میں آ کر کہا
آجائیں امی
ولی سو گیا امی
ہاں سو گیا
ایسے کیا دیکھ رہی ہیں امی اسفند جو ان کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا پر ان کے چپ چاپ دیکھنے پر بولا
بدلاؤ دیکھ رہی ہوں
کیسا بدلاؤ
میرا بیٹا خوش رہنے لگاہے
تو آپ کو اچھا نہیں لگ رہا یہ بدلاؤ مسکراتے ہوئے پوچھا
زوباریہ وہی لڑکی ہے نہ
ان کے اچانک کئے گئے سوال پر اسفی حیران رہ گیا اور پھر سر جھکاتے ہوئے بولا
جی
تو مجھے کیوں نہیں بتایا
کیونکہ بیا کو گھر بلاتے وقت مجھے علم تھا کہ آپ جھٹ سے پہچان لے گی
آپکو اچھی لگی نہ
بہت اچھی ہے بالکل ہما کی طرح سادہ اور سمجھدار پر اسفی
امی وہ ندا جیسی نہیں ہے اور اسکی اسی خوبی کی وجہ سے میرا دل نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے محبت کرنے لگا
آپکو ایک بات بتاؤں
ہاں بولو
اور پھر شروع سے اپنی فیلنگز اور زوباریہ کے انکار تک سب بتاتا چلا گیا
_+_+_+_
بھابھی میں اندر آ جاؤں
انعم نے دروازے سے سر نکال کر اجازت مانگی
ارے انعم تمہیں کب سے اجازت کی ضرورت پڑنے لگی
اندر اب بھی نہیں بلایا انعم نے منہ بناتے ہوئے کہا
حد ہے بھئ آ جاؤ کے مسجد میں اعلان کرواں کے ڈاکٹر انعم اطہر کو بیا اشعر کے کمرے میں آنے کی اجازت ہے
ویسے آئیڈیا بُرا نہیں انعم نے بیڈ پر گرتے ہوئے کہا
کوئی کام تھاکیا بیا نے پوچھا
کیوں میں بنا کام کے نہیں آ سکتی
آ سکتی ہو پر ابھی تم دیکھنے آئی ہو کہ میرا موڈ کیسا ہے میں رو تو نہیں رہی یا اپ سیٹ تو نہیں وغیرہ وغیرہ ہے نہ
جی انعم نے آنکھیں چراتے ہوئے کہا
انعم مجھے اب بُرا نہیں لگتا ارم نے جو کچھ کہا میری ہمدردی میں کہا وہ چاہتی ہیں کہ اسکا بھائی بھی صاحب اولاد ہو تو کیا بُرا ہے اس میں
بھابھی وہ آپک پرالزام لگا رہی تھی بقول اسکے پہلی زچگی کے دوران ایسا ضرور کچھ ہوا جو آپ سب سے چھپا رہیں ہیں تو آپ کیوں نہیں کچھ بولی اور مجھے تو حیرت ہوئی کہ آنٹی نے بھی اُنہیں نہیں روکااور جب آپ نے انکار کیا کہ ایسا کچھ نہیں تو کیسے آپکو پیروں فقیروں کے پیچھے لگنے کا کہہ رہی تھی
تم غصہ نہ کرو اور دفع کرو بیا نے انعم کے غصے سے لال چہرے کو دیکھ کر کہا
بھابھی ایک بات کہوں تھوڑی دیر بعد پھر انعم نے پوچھا
ہاں پوچھو
بھابھی آپکی رپورٹس میں کوئی مسئلہ نہیں رائٹ
ہاں تو
اور اشعر بھائی نے کبھی چیک اپ نہیں کرایا
بیا نے نہ سمجھی سے پھر ہاں کہا
بھابھی فالٹ آپ میں نہیں اشعر بھائی میں ہے
ارے پاگل ہو میں ایک بار کنسیو کر چکی ہوں اگر اشعر کے ساتھ کوئی پرابلم ہوتا تو وہ سب بھی نہ ہوتا
میری مانے تو اشعر بھائی کا بھی چیک اپ کرا دیں کیا پتہ
اچھا بس ایویں نہ بولی جاؤ بیا نے انعم کی بات کاٹتے ہوئے کہا
پر بھابھی فرض کریں کہ اگر اشعر بھائی ساتھ ہی مسئلہ ہوتو
انعم مسئلہ کسی ساتھ بھی ہو نتیجہ تو یہ ہو گا نا کہ میں ماں نہیں بن سکتی
آپا مطلب ہے آپ ایسے شخص کے ساتھ ساری زندگی گزار دیں گی جو آپ کو اولاد کی خوشی تک نہیں دے سکتا
ہاں کیوں کے اگر پرابلم مجھ میں ہو تو اشعر بھی تو مجھ جیسی عورت ساتھ زندگی گزارے گے
بھول ہے آپکی آج اگر خدانخواستہ ڈاکٹر آپکو بانچھ کہہ دے تو اشعر بھائی آپکو چھوڑ کرکل دوسری شادی کر لیں
اشعر مجھے کبھی نہیں چھوڑ سکتے وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں
میں تو پھر بھی کہوں گی ایک بار چیک اپ کروا لے بھائی کا
اس سے کیا ہوگا
یہ ثابت کہ مسئلہ کس میں ہے
پھر آپکو یا انہیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی
مطلب اگراُن ساتھ مسئلہ تو آپ انہیں چھوڑ دیجیے گا
انعم کیا بکواس ہے یہ بیا چلا اٹھی
دیکھئے بھابھی
مجھے نہ کچھ دیکھنا نی سُننا تم جاؤ یہاں سے
بھابھی اولاد کے بغیر عورت ادھوری ہوتی اور آپ اس ادھورے پن ساتھ کتنی دیر رہ سکتی دو سال تین سال پھر جب آپ تھک جائیں گی تب بھی تو یہی فیصلہ کرنا تو کیوں نہ ابھی کر لیں عزئیت سہے بغیر اور باہر چلی گئی
_+_+_+_+_
اگلے دن اسفند خود آفس آگیا آدھا دن تو سب سے مل کر غیر حاضری کی وجہ اور پھر ولی کی خیروخبر دینے میں گزر گیا لیکن وہ دشمن جاں نظر نہیں آئی تو اسفند کو خودی بلانا پڑا کیونکہ اسکی غیر موجودگی میں سب کام اسی کے پاس تھا
جی مس زوباریہ آ جائیں دستک کی آواز پر اسفند نے کہا
جی سر
بیٹھ جائیں زوباریہ
زوباریہ حیران ہوتی ہوئی بیٹھ گئی کیونکہ آج دوسری بار اسفند نے بغیر کسی سابقے کے زوباریہ کہاتھا
کام ختم ہونے پر جب زوباریہ جانے لگی تو اسفند نے پھر پکارا
زوباریہ
جی سر
ولی سے بات کر لیجیے گا وہ مِستری کر رہا تھا آپکو
اینی پرابلم بات ختم ہونے کے بعد بھی جب زوباریہ گئی نہیں تو اسفند کو پوچھنا پڑا
وہ سر
جی میں سُنا رہا ہوں
وہ سر میرے پاس ولی کا نمبر نہیں ہے ہاتھ ملتے ہوئے استدعا پیش کی گئی
ولی کے پاس سیل نہیں ہے مس زوباریہ تو نمبر کہاں سے ہو گا
صاف لگ رہا تھا وہ تنگ کر رہا پھر بھی پوچھ بیٹھی آئی مین آپکے گھر کا نمبر نہیں ہے
اوہ تو ایسے کہیے کہ لینڈ لائن چاہیے
لینڈ لائن نہیں اسکا نمبر سر زوباریہ نے بھی دانت کچھاتے ہوئے کہا گویا بدلہ لیا
اسفند اسکا بدلہ لینے پر اپنی مسکراہٹ روکتے ہوئے بولا
ہمارے گھر لینڈ لائن بھی نہیں ہے
زوباریہ نے غصے سے اسفند کو گھورا زور سے دروازہ بند کیا کیونکہ کے اسفند کا قہقہہ بھی کانوں میں پڑ چکا تھا
سمجھتے کیا ہے خود کو اپنے کیبن میں آ کر با آواز بلند کہا
کس کی بات کر رہی ہو سارا جو اسی کے کیبن میں بیٹھی تھی بولی
تمہیں اپنے کیبن میں سکون نہیں ہے جب دیکھو ادھر ہی موجود ہوتی ہو
کس کا غصہ مجھ پر اْتار رہی ہو سارا نے بُرا مانے بغیر کہا
سارا ابھی یہاں سے چلی جاؤ میرا موڈ بہت خراب ہے پتا نہیں کیوں اتنا غصہ آ رہا تھا
تم جاتی ہو یا
نہیں جاتی کر لو جو کرنا وہ بھی سارا تھی اپنے نام کی ایک
سارا کانہ ہلنے کا موڈ دیکھ کر اپنی چیئر پر آئی اور ٹیبل پر سر رکھ کر رونے لگی
ارے ارے چلی جاتی ہوں اب رو تو نہ سارا نے قریب آ کر کہا
کافی دیر رونے کے بعد دل کا غبار نکلا تو سارا کے سامنے سر نہ اٹھا سکی
سارا نے اسکی شرمندگی محسوس کی تو بنا کوئی سوال پوچھے چپ چاپ باہر نکل گئی
کچھ دیر بعد آفس بوائے ایک وزٹنگ کارڈ دی کر گیا جو کے اسفند کا تھا جس پر اسفند کے سارے نمبر تھے لینڈلائن کا بھی
زوباریہ کو نئے سرے سے غصہ آیا تو کارڈ کو ڈسٹ بین میں پھینک دیا
_+_+_+_+_
اشعر جو کل سیریسلی باس کی آفر کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ فیملی ساتھ باہر چلا جائے اور وہاں کا چارج سنبھال لیں اس طرح بیا بھی سارے ماحول سے دور ہو جائے گی اورکسی کی باتیں بھی نہیں سننی پڑے گی نہ کوئی ٹینشن ہوگی اور نہ کوئی ڈپریشن لیکن اچانک انعم کی باتیں سُننے کے بعد اشعر کا دماغ جھنجھلا گیا
دل کیا انعم کو شوٹ کر دے وہ سمجھتی کیا خود کو میری بیا کو میرے ہی خلاف بھڑکا رہی تھی اور یہ ارم اسکو تو میں چھوڑو گا نہیں اسکی ہمت کیسے ہوئی میری بیا کو الٹی سیدھی باتیں کرنے کی وہ بھی انعم کے سامنے جسے موقع مل گیا بیا کو بھڑکانے کا
غصہ اتنا تھا کہ مکا سٹیرنگ پہ دے مارا غصہ جھنجھلاہٹ اضطراب ختم ہی نہیں ہو رہا تھا یہاں تک کہ لیٹ ہونے پر بیا کی کالز آنی شروع ہو گئی پر اسے تو بیا پر بھی غصہ تھا کے اس نے انعم کی باتیں سنی کیوں
لیکن جب پانچویں سے چھٹی بار سیل گنگنایا تو رسیو کر لیا کیونکہ ایکسیڈنٹ کے بعد سے زرا سا ٹائم اوپر نیچے ہونے پر بیا گھبرا جاتی تھی
اشعر آپ کہاں ہیں سب ٹھیک ہے نہ
فون کان سے لگاتے ہی بیا کی پریشان آواز آئی اور نجانے کیوں اندر تک سکون اترا کہ کچھ بھی ہو جائے اسکی بیا اسے نہیں چھوڑے گی
اشعر آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے
میں ٹھیک ہوں بیا آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں تم پریشان نہ ہو
یا اللہ تیرا شکر ہے اور آپ میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے
بیا میں ڈرائیو کر رہا ہوں گھر آ کر بات کرتا اور کال ڈیسکنیکڈ کر دی جبکہ گاڑی روک کر کھڑا تھا
اسے تمہاری کتنی پروا ہے اور تم اسے جان بوجھ کر غم دے رہے ہو اندر سے کوئی نکل کر فرنٹ سیٹ پر آیا
پروا ہیں تو ان سب سے دور باہر لے کر جا رہا ہوں بیک سیٹ سے آواز آئی
یہ اسے دھوکا دے رہا ہے فرنٹ والے نے کہا
کیسا دھوکا بیک والے نے پوچھا
بیا سے یہ سب چھپا کر دھوکا دے رہا ہے
کیا بتائیں اور کیوں بتائے یہ مرد ہے مرد
ہاہاہاہا آگے والے نے جیسے پیچھے والے کی بات کو انجوائے کیا ہو یہ مرد ہے ہاہاہاہا
ہنس کیوں رہے ہو پیچھے والے نے غصے سے پوچھا
ہاہاہاہا یہ مرد ہیں آگے والے کی ہنسی روکنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور اس کی ہنسی اشعر کے دماغ میں ہتھوڑا برسا رہی تھی تھی چلا کر کانوں پر ہاتھ رکھ کر بولا
شٹ اپ جسٹ شٹ اپ جسٹ گو ٹو ہیل چھوڑ دو میرا پیچھا
پاس سے گزرتی گاڑی کی آواز پر اشعر ہوش کی دنیا میں واپس آیا اور ایک بار پھر سٹیرنگ پر ہاتھ مار کر رہ گیا
_+_+_+_+_+_
شام کا وقت تھا زوباریہ ٹیرس میں بیٹھی چائے پی رہی تھی کہ موبائل کی رنگ ٹون بجنے پر بھی نہ اٹھی کیونکہ اسکا کسی سے بات کرنے کا موڈ نہیں تھا اسفند کے صبح کے برتاؤ پر ابھی تک غصہ تھا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اسفند اسکا مذاق اڑا رہا ہے
تبی مسلسل بجتے موبائل کو پکڑے بوا ٹیرس تک آئی اور موبائل زوباریہ کے ہاتھ میں دے کر چلی گئی
اسفند کی کال تھی اور زوباریہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی یس کرنا پڑا کہ کہیں کوئی آفئشل کام نہ
ہیلو
کیسی ہیں آپ زوباریہ
میں ٹھیک ہوں سر
اس وقت میں نے آپکا باس بن کر کال نہیں کی
تو پھر
آپ نے جواب نہیں دیا تھا تو وہی جاننے کو کال کی
(زوباریہ نے فون کو سامنے کر کے گھورااور پھر کان سے لگا کر بولی) کس سوال کا
کیا آپ مجھ سے دوستی کرے گی
سر
پھر سر اسفند زوباریہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا
اسفند صاحب میں آپ کو ایسی لگتی ہوں زوباریہ نے زچ ہو کر کہا
صرف اسفند کہے گی تو زیادہ اچھا لگے گا خیر کیسی لڑکی سمجھ رہا ہوں میں مذاق اڑانے والے انداز میں کہا
زوباریہ نے فون بند کر دیا تو فون پھر بجنے لگا اس نے اٹھانا تو دور دیکھنے کی زحمت نہ کی
لیکن مسلسل بجتے فون کو چپ بھی تو کرانا تھا
جی بولے اب کیا رہ گیا ہے یس کرتے ہی غصے سے بولی
زوبی ولی بات کر رہا ہوں
ولی تم اور عصاب ڈھیلے چھوڑے
کیسی ہیں آپ اور آج آئی کیوں نہیں
کیونکہ کی آفس میں کام بہت تھا اور میں نے بتا بھی تھا کہ میں روز روز نہیں آ سکتی زوباریہ نے مسکراتے ہوئے کہا
آپ نے فون بھی نہیں کیا
میرے پاس تمہارا نمبر ہی نہیں تھا اور آنکھوں میں صبح والا منظر گھوم گیا
اچھا کل میرا بازو کا پلاسٹر کھل رہا تب تو آئیں گی نہ
دیکھو گی وقت ملا تو ورنہ فون ضرور کروں گی اس نے ٹالتے ہوئے کہا
زوبی چاچو اور میری بیٹ لگی ہے اگر آپ نہ آئی تو میں ہار جاؤں گا اور اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں ہار جاؤں تو مت آنا
زوباریہ کو اسفند پہ بے شمار غصہ آیا لیکن ولی کے ایموشنل بلیک میلنگ پر ماننا پڑا
اچھا ٹھیک ہے میں ہسپتال آ جاؤں گی اور ادھر اُدھر کی کچھ باتوں بعد فون بند کر دیا
_+_+_+_
مجھے آفس والے جرمنی بھیج رہے ہیں 3 سال کے لئے اشعر نےسب کے ساتھ ڈنر کرتے ہوئے بم پھوڑا
لیکن آپ کو ہی کیوں
واؤ بھائی مجھے وہاں سے بہت کچھ بھیجنا
بھائی کب جانا ہے
سب اپنے اپنے سوال کر رہے تھے اور وہ سب کی اکساٹمینٹ دیکھ کر خوشی خوشی جواب دے رہا تھا
ایک دم سے بیا اٹھی اور منہ پہ ہاتھ رکھ کر اندر بھاگی
اسکو کیا ہو مسز عظیم نے کہا
عظیم صاحب نے بیا کے کمرے کے دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا
بیا بھی تمہارے ساتھ جا رہی ہیں
نہیں ابو 3 ماہ بعد بیا کو بلا لو گا
پھر اشعر نے منتوں طرلوں سے بیا کو منا ہی لیا
اور آج رات کی فلائٹ سے جرمنی جا رہا
جیسے ہی وہ ہسپتال میں داخل ہوئی سوچ میں پڑ گئی جائے تو جائے کہاں
کیونکہ وہ صرف ولی سے ہسپتال کا نام اور ٹائم پوچھ کر آ گئی تھی
نجانے ولی کس ڈاکٹر کے پاس آیا ہے اُف اب کیا کروں پھر اسفند کوکال کرنے لگی
اسفند جو ولی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس موجود تھا رنگ ٹون کی آواز پر حیرانی ساتھ یِس کرتے ہوئے فون کان سے لگایا
جی مس زوباریہ
وہ سر ولی کس ڈاکٹر کے روم میں ہے زوباریہ نے حجکجھاتے ہوئے کہا
آپ کہاں ہیں
میں ہسپتال کی ریسیپشن کے قریب کھڑی ہوں
آپ رُکے میں آ رہا ہوں
نہیں سر میں آ _- - - - لیکن اسفند نے بات سُنے بنا فون ڈیسکینکٹ کر دیا
زوباریہ پیر پھٹک کر رہ گئی
اسفند کو زوباریہ تک آنے میں چار سے پانچ منٹ لگے لیکن اتنی دیر میں سامنے بیٹھے دو لڑکوں نے گھور گھور کر اسے زچ کر دیا
تب ہی سامنے سے آتے اسفند کو دیکھ کر وہ اسکی طرف بڑھی اور غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے بولی
مجھے ڈاکٹر کا بتا دیتے آپ نے خوامخوہ زحمت کی
اسکے پیش نظر اسفند بھی ان لڑکوں کو دیکھ چکا تھا تب ہی بولا
آپ کو کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی منہ اٹھا کر ایک پبلک پلیس میں آ گئی ہیں
ایکسیوز می میں آپ سے نہیں ولی سے ملنے آئی ہوں زوباریہ نے راہداری کے بیچ رکتے ہوئے کہا
اسفند بھی رکا اور بولا مجھے پتہ ہے آپ ولی سے ملنے آئی ہیں میری ایسی قسمت کہاں اب چلے یا یہیں کھڑے رہنا ہے
زوباریہ جو اسفند کے موڈ سے ڈر رہی تھی پچھلے دنوں کے برعکس موڈ دیکھ کر پر سکون ہو گئی
آپ گھر بھی آ سکتی تھی ولی سے ملنے یہاں آنے کی ضرورت نہیں تھی ہم اب واپس جانے والے ہیں
آپ کی وجہ سے ہی نہیں گئی بڑبڑاتے ہوئے کہا
ہاں میں کھا جو جاؤں گا آپ کو اسفند نے اسکی بڑبڑاہٹ سَن کر کہا
_+_+_+_+_+_
آج اشعر کی فلائٹ تھی اور وہ وقفے وقفے سے آنسو بہا چکی تھی اور اب بھی پیکنگ کرتے ہوئے رو رہی تھی
اشعر جو خود اضطرابی کیفیت کا شکار تھا ڈنگ سے بیا کو تسلی بھی نہیں دے پا رہا تھا اب بھی بیا کو روتے دیکھ کر وہ بیا کے پاس آیا اور کچھ بھی کہے بیا کے گلے لگ گیا اور بچوں کی طرح رونے لگا
بیا مجھے معاف کر دو میں تمہیں چھوڑنا نہیں چاہتا لیکن تمہاری خوشیوں کے لیے یہ سب ضروری ہے اور تمہاری خوشی کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا کچھ بھی
بیا جو اشعر کے رونے پر اور پریشان ہو گئی تھی اشعر کی باتیں سن کر ساکت ہو گئی پھر مری مری آواز میں پرے دھکیلتے ہوئے بولی
اشعر یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں
اُس نے بیا کی اُڑتی ہوئی رنگت دیکھی تو اپنی غلطی کا احساس ہوا پھر بات کو سنبھالتے ہوئے بولا
پاگل ہو جرمنی جا رہا ہوں تو تین ماہ کے لیے چھوڑ ہی رہا ہوں تم رو سکتی ہو میرے جانے کے خیال سے تو کیا میں انسان نہیں مجھے رونا نہیں آ سکتا
پر آپ تو
آئی لو یو بیا آئی رئیلی لو یو بیا مجھے نہیں پتہ میں تمہارے بنا کیسے رہوں گا اشعر نے بیا کے کچھ اور کہنے سے پہلے ہی اسے خود میں چھپاتے ہوئے کہا
پھر بیا کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر بولا بیا
جی
تم مجھ پر یقین کرتی ہوں نہ مجھ پر میری محبت پر
اشعر آپ کو کیا ہوا ہے
بیا نے اشعر کے ہاتھوں میں اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
تم بتاؤ نہ مجھ پر میری محبت پر یقین ہیں نہ
جی بیا نے سر ہلا کر کہا
تمہیں پتہ نہ میں تمہاری خوشی کے لیے کچھ بھی کر سکتا بیا
اس نے پھر سر ہلا کر جواب دیا اشعر کے رویے اور باتوں ایسا کچھ تھا جو اسے کٹھک رہا تھا پر کیا وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی
بیا مجھے کبھی غلط نہ سمجھنا میں غلط ہو سکتا ہوں پر کبھی بھی تمہارے لیے تمہارے حق میں غلط نہیں کروں گا کبھی نہیں مجھ پر یقین رکھنا ہر حال میں
کہوں رکھو گی نہ یقین
جی اشعر مجھے یقین ہے آپ پر آپ کیوں کہہ رہے ایسے
بیا مجھے لگ رہا ہے تم بد گمان ہو جاؤ گی مجھ سے
میں کیوں ہوں گی
اشعر نے رُخ بدلتے ہوئے کہا
کیونکہ کیونکہ
اشعر بولے بھی میرا دل بیٹھا جا رہا ہے
کیونکہ میں تم سے دور جو جا رہا ہوں
تو خدانخواستہ ساری زندگی کے لیے تھوڑی جا رہے ہیں 3ماہ بعد میں آپ کے پاس ہوں گی
بیا نےاشعرکا موڈ صحیح کرنے کے لیے اسکے بال بگاڑ کر شوخی سے کہا
اشعر مسکرا بھی نہ سکا اور بیا کے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
رہ لو گی 3 مہینے میرے بغیر
مشکل ہو گا پر رہ لو گی اگر آپ وہاں خوش ہونگے تو میں بھی یہاں یہ سوچ کر مطمئن ہو جاؤں گی
بیا اپنا بہت خیال رکھنا اور خوش رہنا اور مجھ پر یقین رکھناپلیز
اچھا ٹھیک ہے پر ایک بار مسکرا تو دے بیا نے منہ بسور کر کہا تو بیا کی خاطر اوپری دل سے ہنس دیا اور اندر کہیں دل گہری کھائی میں گرنے لگی
_+_+_+_+_
زوباریہ مجھے آپ سے بات کرنی ہیں کام ختم ہونے پر وہ جانے لگی تھی جب پیچھے سے اسفند نے کہا
وہ ٹھٹھک کر رکی اور موڑی اور کہا جی سرکہیے
یہاں نہیں
تو - - -
میں آپ کوگھر ڈراپ کر دیتا ہوں راستے میں بات بھی ہو جائے گی
اوکے سر
اسفند کی گاڑی میں جیسے ہی وہ بیٹھی اس نے سوچ لیا کہ وہ اسے سچائی بتا دیں گی وہ مزید اس بھلے انسان کو خوار ہوتے نہیں دیکھ سکتی وہ بھی اس جیسی لڑکی کے لیے
اسفند نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اسکی محویت توڑنے کو تھوڑا آگے جھک کر پکارا تو ایک دم ڈر گئی
سوری آئی ایم رئیلی سوری میرا مقصد آپ کو متوجہ کرنا تھا بس اسفند نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا
اٹس اوکے سر
زوباریہ آپ کو نہیں لگتا آپ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے
کس فیصلے پر آنکھیں اچکا کر پوچھا گیا
اسفند نے نظر بھر کر دیکھا تواس نے چہرہ موڑ لیا
میرے پرپوزل کے بارے میں
آپ نے جواب نہیں دیا زوباریہ کے چپ رہنے پر اسفند نے پھر سوال دھرایا
سر آپ بہت اچھے ہیں اور آپ ایک اچھی لڑکی ڈیزرو کرتےہیں ایسا لگا جیسے بہت سوچ سمجھ کر الفاظ کا چناؤ کیا ہو جیسے وہ دریا کو کوزے میں بند کرنا چاہتی ہوں
پھر ہاتھ کے اشارے ے کے اشارے ٹرن بتایا
اسفند نے اسکا گریز پا لیا پھر بھی بولا
آپ اچھی نہیں ہے کیا
نہیں زوباریہ نے بلا توقف کہا
آپ اس ٹاپک سے بھاگ رہی ہیں یا مجھ سے
دونوں سے سر کیوں کہ مجھے دونوں میں انٹرسٹ نہیں
زوباریہ میں اتنا بھی بُرا نہیں کے آپ میرے لیے ایک بار سوچ بھی نہ سکے اسفند کو زوباریہ کے جواب نے ہرٹ کیا تھا تب ہی بے چارگی سے بولا
سر میں کیا سوچو جب مجھے پتہ ہر سوچ کا اینڈ یہی ہو گا
زوباریہ میرے گھر کو مجھے ولی کو آپ کی ضرورت ہے بس ایک بار تھوڑی سی گنجائش نکال کر سوچیے گا
زوباریہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی پر ولی کے نام پر چپ ہو گئی
پھر باقی راستے دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی سوائے ایڈریس پوچھنے بتانےکے
گاڑی سے اترتے وقت بھی اسفند نے کہا کہ وہ ایک بار اسکے بارے میں سوچے ضرور وہ محض سر ہلا کر اتر گئی
_+_+_+_
بھابھی بھابھی آ گیا آپ کے پتی کا لو لیٹر
اظہر گیٹ سے ہی آوازیں لگاتا آ رہا تھا
اور کچن میں کام کرتی بیا کے کان پر جوں تک نہ رنگی کیونکہ آج اشعر کو گئےپانچ دن ہو گئے تھے اور سوائے پہنچنے کی اطلاع کے کوئی خبر نہ دی تھی تو وہ ہر فون بیل اور ڈوربیل پر کہتا بھابھی بھائی کا فون ہےبھابھی بھائی کاخط ہے اور وہ سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگی آتی تو اظہر بیاکو بیوقوف بنانے پرقہقے لگاتا مقصد صرف بیا کو ہنسانا ہوتا
تب ہی آج بیا اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں بھابھی سچ کہہ رہا ہوں اظہر نے کچن میں آ کر بیا کے وہ لفافہ رکھا جو ڈاکیا دے کر گیا تھا
اظہر تمہارا حال بھی گڈریے والا ہوا انعم چھیڑ رہی تھی پر وہ بھی ڈھیٹ تھا
بیا اس لفافے کو پکڑ کرایسے گھوما کر دیکھ رہی تھی جیسے ابھی یقین نہ ہو کہ یہ اشعر نے بھیجا ہے
آپ کو تو یقین نہیں آنا میں خودی کھول لیتا ہوں
تب ہی اظہر نے لفافہ بیا کے ہاتھ سے جھپٹتے ہوئے کہا
اظہر واپس کرو
نہ اظہر نے باہر دوڈ لگا دی اور بیا بھی پیچھے بھاگتی بول رہی تھی
میرا نام لکھاہے میرے لیے ہیں واپس کرو اظہر
اب سین یہ تھا اظہر آگے آگے اور بیا پیچھے پیچھے سارے گھر میں دوڈ رہے تھے
اظہر اندر سے آتی روبینہ بیگم سے ٹکرتے رہ گیا تو بیا نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لفافہ لینا چاہا پر وہ بھی اظہر تھا فوراً ہاتھ اوپر کر دیا اور بیا اچھل اچھل کر لفافہ پکڑ رہی تھی پر کہاں چھ فٹ کا وہ اور پانچ فٹ چار انچ کی بیا
کوئی مجھ بتائے گا کیا ہو رہا ہے ناخواری سے پوچھا کیونکہ یہ سب روبینہ بیگم کو بیا کو اچھلنا کودنا ایک آنکھ نہ بایا
خالہ اشعر نے میرے لیے لیٹر بھیجا ہے پر یہ دے نہیں رہا
تمہارے لیے
جی بیا نے سر جھکا کر کہا جیسے یہ کوئی جرم ہو
بھابھی ایک شرط پر دوں گا رات کو ڈنر آپکی طرف سے
اظہر نے ماں کے مزید کچھ کہنے سے پہلے بول دیا
ٹھیک ہے دے دوں گی ڈنر اور لیٹر لے کر کھولنے لگی
لیکن اندر سے نکلنے والے پیپر پر نظر ڈال کر وہ ساکت ہو گئی اور پھر کسی کے کچھ کہنے سُننے سے پہلے زمین پر ڈھیر ہوگئی
ڈاکٹر کے مطابق ذہنی صدمے کی وجہ سے بے ہوش ہوئی تھی ہوش میں آئی تو کمرے میں اکیلی تھی
مجھے معاف کر دو بیا میں تمہاری خوشی کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں مجھ سے بد گمان نہ ہونا کبھی
بیا کو اب اشعر کے ان جملوں کی سمجھ آئی اور پاگلوں کی طرح اونچی آواز میں رونے لگی
انعم اسکی آواز پر اندر آئی اور اسے سنبھالنے لگی جب وہ رو رو کر تھک گئی تو اٹھی اور جوتا پہن کر باہر نکل آئی انعم کے بہت روکنے کے باوجود بھی
باہر بیٹھے سب لوگ بیا کو باہر آتا دیکھ کر کھڑے ہو گئے پر وہ کسی پر بھی نگاہ غلط ڈالے بنا مین گیٹ کی طرف بڑھی
بیا کہاں جا رہی ہو اطہر نے بیا کے سامنے آ کر پوچھا
مجھے امی پاس جانا ہے بیا نے سپاٹ انداز میں کہا
ٹھیک ہے میں تمہیں لاہور لے جاؤں گا لیکن یہ کوئی وقت تو نہیں ہے نا چلواندر پر وہ ایک قدم بھی ہلے بنا بولی مجھے ابھی جانا ہے چھوڑ کر آ سکتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ میں خود چلی جاؤں گی
اچھا اچھا میں چھوڑ آتا ہوں ابھی پھر وہ گاڑی کی چابی لیے باہر نکل گیا کیونکہ اس کے بنا کوئی چارہ نہیں تھااور بیا اسکے پیچھے نکل گئی
_+_+_+_
سر آپ میرے گھر آ سکتے ہیں زوباریہ نے اسفند کو کال کر کے کہا
خیریت زوباریہ اسفند نے جی بھر کر حیران ہوتے ہوئے کہا
جی سر مجھے آپ کے سوال کا جواب دیناہے
اوکے میں آتا ہوں اسفند خوش ہونے کی بجائے پریشان ہو رہا تھا کیونکہ کیونکہ اسے اسے زوباریہ کے لہجے میں کوئی خوش آئند بات محسوس نہیں ہوئی تھی
وہ چینج کر کے آیا تو سامنے بیڈ پر ولی کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے اس کے پاس آیا
ولی تم کس کے ساتھ آئے ہو
ولی نے اسفند کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے اوپر سے نیچے تک گھورا اور پھر بولا
چاچو آپ پھر کہیں جا رہے ہیں
جی چاچو کی جان آپکی زوبی نے بلایا ہے
میں بھی چلو ولی نے جوش ہو کر کہا
نہیں یار اس نے صرف مجھے بلایا ہے اگلی بار آپ کو بھی لے جاؤں گا
ٹھیک ہولی نے منہ بسور کر کہا
چلو آؤ تمہیں تمہارے کمرے تک چھوڑ آؤ اسفند نے ولی کو اُٹھایا اور باہر نکل گیا
_+_+_+_
بیا جب سے آئی تھی ماں کے گلے لگ کر روئی جا رہی تھی کسی کے بھی کچھ پوچھنے پر بھی بتا نہیں رہی تھی اطہر بھی کسی کا سامنا کیے بنا بیا کو چھوڑ کر باہر سے ہی چلا گیا تھا
سب پریشان تھے ایک تو اطہر اسے باہر سے چھوڑ کر چلا گیا دوسرا وہ چپ ہونے کا بام نہیں لے رہی تھی اور نہ کچھ بتا رہی تھی
آخر کار زاور نے کہا
بیا میں اسلام آباد فون کر کے خودی پوچھ لیتا ہوں
نہیں بھائی آپ وہاں کال نہیں کریں گے
تو تم بتا دو تم یہاں خالی ہاتھ کیوں آئی ہو اور رو کیوں رہی ہو
بھائی وہ - - - وہ اشعر نے مجھے طلاق دے دی ہے
پہلے تو کوئی کچھ بول نہ سکا پر زاور نے ہی بیا کو جھنجھوڑ تے ہوئے کہا
بیا تم ہوش میں تو ہو کیا کہہ رہی ہو
ہاں میں ہوش میں ہوں بلکہ اب ہی تو ہوش میں آئی ہوں اشعر نے جرمنی سے مجھے طلاق بھیج دی ہے بھائی اشعر نے مجھے چھوڑ دیا
بیا نے چلاتے ہوئے کہا پھر زاور کے گلے لگ کر رونے لگی
عائشہ بھابھی بھی بیا کے پاس آ گئی
اس دوران کسی نے دیکھا ہی نہیں کی سفینہ بیگم دل پر ہاتھ رکھ کر صوفے پر گری تھی
وہ بیٹی جس کی آنکھوں میں آنسو وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی اب عمر بھر اس کے آنسو کیسے برداشت کرتی
ان کے گرنے کی آواز پر عائشہ نے دیکھا اور موڑ کر ان تک گئی اور چلائی
زاور امی کو دیکھے
زاور نے آگے بڑھ کر چیک کیا دل کی دھڑکن بند تھی وہ لوگ پھر بھی انہیں ہسپتال لے کر گئے پر ڈاکٹر نے بھی ان کی موت کی تصدیق کر کے بیا کے تبوک میں آخری کیل ٹھونک دیا
بیا ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر ٹھنڈی ہو کر گر گئی
_+_+_+_
زوباریہ جو ڈور بیل کی آواز پر اسفند کو ایکسپیکٹ کرتے ہوئے دروازہ کھولنے بھاگی تھی اور دروازہ کھول کر سامنے موجود شخص کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ پر منجمد ہو گئ اسے پہچاننے میں مشکل ضرور ہوئی پر وہ پہچان گئی تھی اور سامنے موجود بندے کے پکارنے پر بھی اس میں کوئی حرکت نہ ہوئی ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اسے ہمیشہ کے لئے سٹیچو بنا دیا ہو اور وہ بھی نظر یں جھپکائے بنا ایسے دیکھ رہا تھا جیسے نظروں کی پیاس بجھا رہا ہوں
_+_+_+_+_
بیا کو نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا
ڈاکٹر کے مطابق اگر اگلے اڑتالیس گھنٹے میں وہ ہوش میں نہ آئی تو کچھ بھی ہو سکتا تھا
اور زاور سمجھ نہیں پارہاتھا وہ بیا کے پاس ہسپتال میں رکے یا ماں کی باڈی گھر لے کر جا ئے اور زمان نے بھی آنے سے معذرت کر لی کیونکہ اسے چھٹی نہیں مل رہی تھی
دوسرے دن بیا کو ہوش آیا تو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ کیسے ری ایکٹ کرے کیونکہ وہ اپنی ماں کا آخری دیدار بھی نہ کر سکیں زمان بھائی بھی نہیں آئے اس کے ماں جائے اس کی اتنی بڑی تکلیف میں نہیں آئے وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی
ہسپتال میں تو اس نے جیسے تیسے خود پر قابو پا لیا لیکن گھر میں قدم رکھتے وہ ایسے بکھری کے بیا کے رونے پر ہر آنکھ نم ہو گئی وہ کسی کے بھی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی بیا کے دکھ پر ہر آنکھ نم تھی زاور جو اس دن سے چپ تھا بیا کو گلے لگا کر وہ بھی رو دیا
_+_+_+_
دن پر لگا کر اڑنے لگے عائشہ بھابھی اور زاور بھائی کا اسرار بڑھنے لگا کیونکہ وہ بیا کی پھر شادی کرنا چاہتے تھے پر بیا مان کر نہیں دے رہی تھی
خالہ کی فیملی سے اب ان کا کوئی رابطہ نہیں تھا اطہر نے رابطہ رکھنا چاہا تھا پر زاور بھائی نے اس کے بڑھتے قدموں کو وہیں یہ کہہ کر روک دیا امی کی وجہ سے جو تم لوگوں سے رشتہ داری تھی ان کی موت بعد وہ بھی ختم ہو گئی
بیا نے بھائی بھابھی کی ایک ہی رٹ سے بچنے کے لیے جاب شروع کر دی اور جلد ہی ٹرانسفر کرا کر کراچی آگئی یہاں بھائی نے اسے ایک فلیٹ لے دیا اور اپنی دور پرے کی رشتہ دار بوا کو بھی بیا کے ساتھ بھیجا
کبھی بیا اور کبھی وہ جود بیا سے مل جاتے
_+_+_+_+_+_
زوباریہ کا دل کیا کہ سامنے کھڑے شخص کا گریبان پکڑ کر پوچھے کہ اس کا کیا قصور تھایا اس کے چوڑے سینے میں منہ چھپا کر اتنا روئے اور رو کر اپنے سارے دکھ بہا دے جس کو وہ ساڑھے تین سال بعد دیکھ رہی تھی
بیا اشعر نے پھر پکارا
زوباریہ جو بھی سوچ رہی تھی پر اس کے برعکس بولی تو صرف اتنا
آپ یہاں کیوں آئے ہیں
بیا مجھے تم سے بات کرنی ہے
لیکن مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی چلے جائیں یہاں سے
بیا میں تمہارا غصہ سمجھتا ہوں پر تم ایک بار مجھے بھی سُنو نہ
زوباریہ جھنجھاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہوئی اور چلا کر بولی نہیں سُننا مجھے آپ کو چلے جائے یہاں سے ورنہ میں کچھ کر بیٹھو گی
بیا سمجھنے کی کوشش کرو
کیا سمجھو کیا کہ آپ نے مجھے اس لیے چھوڑا کیونکہ کہ میں بانجھ تھی یا یہ سمجھو کہ آپ کا دل بھر گیا تھا یا کچھ اور سمجھا نا رہ گیا ہے
اشعر نے اندر آ کر دروازہ بند کیا اور بڑے تحمل سے بولا
بیا بانجھ تم نہیں میں ہوں تم نارمل ہو قدرت نے مجھ سے میرے ایکسیڈنٹ میں یہ صلاحیت چھین لی تھی میں چاہتا تو تمام عمر تمہیں اپنے ساتھ باندھے رکھتا پر میں تمہیں مکمل دیکھنا چاہتاتھا اور میں مکمل نہیں کر سکتا تھا
اشعر نے آج یہ سچائی چھ سالوں میں پہلی بار اپنی زبان پر لائی تھی تب نڈھال ہو کردیوار کے سہارے صوفے پر گر گیا
اور بیا اشعر کے منہ سے سب سن کر کچھ بول نہ سکی
دونوں کےبیچ خاموشی کا راج تھا اور اس خاموشی کو اشعر نے توڑا
بیا جس مقصد کے لیے میں نے تمہیں خود سے دور کیا تم کیوں اسے پورا نہیں کر رہی ہوں
بیا میں تمہیں مکمل اور خوش و خرم دیکھنا چاہتا ہوں مرنے سے پہلے
اورآخری بات پر اس نےغورسے اشعر کا چہرہ دیکھا آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھی اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑے تھے چہرے کی ہڈیاں نکلی ہوئی تھی اور صحت بھی پہلے جیسی نہیں تھی سامنے تو ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اسی وجہ سے بیا کو پہچاننے میں دقت ہوئی تھی
بے قراری سے اشعر کی طرف بڑھی اور اشعر کے پہلو میں بیٹھتے ہوئے بولی
اشعر آپ کو کیا ہوا ہے آپ کی صحت اشعر کیا ہوا ہے بتائے
کچھ نہیں ہوا بس تمہاری جدائی یہ دل و دماغ قبول ہی نہیں کرپا رہا ہے(اس نے بیا کو یہ نہیں بتایا کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو چکا ہے اور دوائیاں نہ کھا کھا کر اب کچھ مہینوں کا مہمان ہے) بیا پلیز شادی کر لو تا کہ میں سکون سے مر سکوں میری آخری خواہش پوری کر دو بیا
ڈور بیل کی آواز پر بیا کچھ کہتے کہتے رہ گئی
دروازہ کھولنے پر اسفند کو دیکھ کر زوباریہ سمجھ نہیں سکی کیا کریں گویا اندر بلائے یا نہ
بیا کو سٹل دیکھ کر اشعر آگے بڑھا اور بولا آئیں اسفند صاحب اندر آئیں نہ
اور اسفند اشعر کو زوباریہ کے گھر دیکھ کر حیران رہ گیا
آپ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں بیا نے حیرانی سے خودکلامی کی
ہاں بیا تمہیں سوا تین سا بعد ان کے ساتھ ہوٹل لابی میں دیکھ کر میں نا چاہتے ہوئے بھی جوش ہوا کہ تم نے اپنے لیے کسی کو چن لیا ہے پر تم دونوں کی باتیں سُننے کے بعد مجھے علم ہوا کہ تم تو آج بھی وہیں کھڑی ہو اسی لئے میں آج تمکو منانے یہاں یا ہوں تم فکر نہ کرو بیا میں انہیں سب بتا چکا ہوں
اور بیا نے بے اختیار اسفند کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
_+_+_+_
ایک سال بعد
مسٹر اینڈ مسز اسفند قبرستان میں ایک قبر کے سامنے کھڑے تھے مسز اسفند قبر کے پاس بیٹھ کر آنسو بہا رہی تھی جبکہ اسفند قبر پر پھول نچھاور کر رہا تھا قبر کی ساخت بتاتی تھی کہ وہ زیادہ دن پرانی نہیں ہے
قبر کے خطبے پراشعرعظیم لکھا تھا
وہ دونوں گاڑی میں واپس آئے تو بھی دونوں کے بیچ خاموشی تھی بس اسفند نے اپنی بیوی کے گرد بازو پھیلا کر خاموش تسلی دی
گاڑی گھر کے پورچ میں رکی تھی اور مسز اسفند نے باہر آ کر ولی کو آواز دی جو کہ لان میں کھیل رہا تھا بھاگ کر زوبی ماں کہتے ہوئے اس کے کھلے بازوں میں سمایاجو کہ گھٹنوں کے بل زمین پر بازو پھیلائے بیٹھی تھی زوبی ماں اشعر نے دادو کو بہت تنگ کیا ہے ولی نے زوباریہ سے الگ ہوتے ہوئے کہا
چلو اندر ہم ابھی خبر لیتے ہیں اشعر کی
اور اسفند اس منظر کو دیکھ کر پورے دل سے مسکرا دیا
اشعر اسکا اور زوباریہ کا بیٹا تھا جس کا نام زوباریہ کی خواہش پر اشعر رکھا گیا تھا اسے ڈر تھا کہ اشعر بعد زوباریہ ولی کو بھول جائے گی پر وہ آج بھی اشعر پر ولی کو ترجیح دیتی ہے
زوباریہ نے اسکا گھر مکمل کر دیا امی کی بیٹی بن کر خدمت کرتی اور میرے سب کام ایسے کرتی کہ اب میں اُٹھ کر پانی بھی نہیں پی سکتا تھا اور امی کہتی تھی میں دنیا کا جوش قسمت انسان ہوں
اور آج زوباریہ کو اپنے گھر میں چلتے پھرتے دیکھ کر مجھے بھی اپنی خوش قسمتی پر یقین آ گیا ہے
the end