بیا کی نیند کو باہر ایک دم ہونے والے شور نے توڑا ہربڑا کر اٹھی پہلے تو کچھ نہ آیا پر پھر شور بڑھا تو باہر بھاگی
بھابھی بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا سعد بھائی کا فون آیا ابھی
اور بیا بے دم ہو کر پیچھے دیوار سے جا لگی ایسا لگ رہا تھا کے اگر وہ دیوار کا سہارا نہ لیتی تو دھرم سے گِر جاتی اظہر بھاگا آیااور اُسے سہارا دے کر صوفے پر بیٹھایا روبینہ بیگم جو بیا ہی طرف متوجہ تھی بیا کے دیکھنے پر منہ چھپا کر رونے لگی امی پلیز سنبھالے خود کوبھائی انشاءاللہ ٹھیک ہوں گے میں اور پاپا جا رہے ہیں نہ ہسپتال اطہر فون سے فری ہوا تو امی پاس آیا شدت غم سے اپنی آنکھیں لال تھی چلے پاپا
میں بھی جاؤگی
ہاں پاپا ہم لوگ بھی جائے گے
اظہر نے بیا کی بات آگے بڑھائی اور امید بھری نظروں سے باپ کو دیکھا
روبینہ بیگم بھی اُٹھ کھڑی ہوئی
ہسپتال پہنچنے پر سامنے کوریڈور میں سعد نظر آیا تو اطہر بھاگا
سعد بھائی، بھائی کیسے ہیں کیسے ہوا ایکسیڈنٹ
یار میں تو لوگوں کا ہجوم دیکھ کر روکا تو دیکھا اشعر تھا میں جلدی سے یہاں لے آیا مجھے تو خود نہیں پتہ کیسے ہوا وہاں کھڑے لوگوں کا کہنا تھا کسی ٹرک سے ٹکر ہوئی ہے اور کوئی بائیک بھی گزری ہے اُوپر سے شاید
پاس آتے سب نے سعد کی آخری بات سُنی روبینہ بیگم تو دل تھام کر رہ گئی جبکہ بیا تو ساکت ہو گئی
ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں
انکل ابھی تک کوئی باہر ہی نہیں آیا عظیم صاحب کے پوچھنے پر سعد نے جواب دیا
اتنی دیر میں ایک ڈاکٹر بابر آیا تو سب متوجہ ہوئے
ہمیں فوراً آپریشن کرنا پڑے گا کیونکہ ایک تو مریض کا خون بہت بہہ گیا اور سر کی چوٹ بھی شدید ہےدوسرا پیٹھ کی ہڈی بھی ڈیمج ہوئی ہے مریض کی حالت بہت نازک ہے
اطہر آگے بڑھا اور اپنا تعارف کروایا تو ڈاکٹر اُسے لیے اپنے روم کی طرف بڑھ گیا
پیچھے کھڑی بیا جو اتنی دیر سے خود کو سنبھالے ہوئے تھی بے جان ہو کر زمین پوش ہو گئی
_+_+_+_+_
کل نکاح کی تقریب تھی اور آج اسفی نے مہندی کا انتظام کر لیا پورے گھر کو اپنے دوستوں ساتھ مل کر دلہن کی طرح سجایا اور شام ہوتے ہی سب ڈھول پیٹنے لگے اور ایک دوسرے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوتی رہی
یار اسفی تمہاری کوئی کزنز نہیں ہے ایسے فنکشن میں لڑکیوں کے بنا خاک مزہ آتا ہے
اب نہیں ہیں تو کہاں سے لاؤں ندا کو کہا بھی تھا اپنے گروپ کو لے کر آ جانا پر وہ میڈم بھی غائب ہیں اب تک
چلے سکندر بھائی آپ ہی کچھ سُنا ہی دے اس اسفی کو سُن سُن کر تھک گئے اب تو ہادی نے کہا تو سکندر نے گھور کر چپکے رہنے کو کہا
ہاں بھئی اچھا سا گانا ہو ہی جائے پھر سب کے اسرار پر سکندر کو ماننے ہی پڑی
گلا صاف کیا تو سب ان کی طرف متوجہ تھے
کیا یار سُنا بھی دے اسفی نے کہا
تم سب مجھے ایسے دیکھو گے تو کیسے سناؤں
سب اپنا سر پکڑ کر رہ گئے پھر یہ ڈیسایڈ ہوا کے کوئی بھی سکندر کی طرف نہیں دیکھے گا
ہمیں تم سے پیار کتنا
یہ ہم نہیں جانتے
مگر جی نہیں سکتے
تمہارے بنا
مسز ہمدانی جو کچن میں تھی سکندر کی آواز پر لاؤنج میں آگئی
سُنا غم جُدائی کا
اُٹھاتے ہیں لوگ
جانے زندگی کیسے
بِتاتے ہیں لوگ
دن بھی لگے یہاں
برس کے سماں
ہمیں انتظار کتنا
یہ ہم نہیں جانتے
مگر جی نہیں سکتے
تمہارے بنا
سب سانس روکے سُن رہے تھے
تمہیں کوئی اور دیکھے
تو جلتا ہے دل
بڑی مشکلوں سے پھر
سنبھالتا ہے دل
کیا کیا جتن کرتے ہیں
تمہیں کیا پتہ
یہ دل بےقرار کتنا
یہ ہم نہیں جانتے
مگر جی نہیں سکتے
تمہارے بنا
گانا ختم ہو گیا پر سب کھوئے ہوئے تھے واہ بھائی مان گئے
امی بھائی دو ملاقاتوں میں اتنے لٹو ہو گئے آگے کا سوچے
گانا تھا بدتمیز سکندر نے جھینپ کر اسفی کو مکا مارا
دیکھ لو دیکھ بھابھی آئی نہیں ابھی اور مجھ یتیم پر ظلم شروع ہو گیا
اسفی مسز ہمدانی نے تنبیہ کی تو چپ کر گیا ورنہ سکندر کا ریکارڈ لگانے کا پورا ارادہ تھا
تبی ندا اپنی دو چار فرینڈ کے ساتھ داخل ہوئی تو اسفی کے دوستوں نے ہوٹنگ شروع کر دی تو وہ جھینپ کر وہی رُک گئی
اسفی آداب میزبانی نبھاتے ہوئے سب کو لے کر آیا اور تعارف کروایا مسز ہمدانی تو جوش سے بڑھی اور ماتھا چوم کر دعائیں دینے لگی سکندر نے بھی سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دیا
ایک تو سب کی معنی خیز نظریں اوپر سے ایسے استقبال پر ندا شرما گئی
_+_+_+_+_
کوئی مجھے سُن رہاہے
کوئی مجھے سُن رہاہے تو چائے بنا دے
بھائی بھابھی کے علاوہ ہر بندے نے سُن لیا
لاؤنج میں بیٹھے اشعر نے جب تیسری بار بھی یہی الفاظ دوہراے تو اظہر بولا
مطلب کسی نے نہیں ُسُنا گہری سانس لیتے ہوئے کہا
دیکھ لے امی اب بیا ہی سب کچھ ہے ان کے لیے باقی ہم لوگ تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتے اطہر نے بھی لگائی بجائی کا کام کیا
ہاں تو اشعر نے شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی سے کہا
جورو کے غلام نہ ہو تو , امی میری شادی کروائے کبھی شکایت کا موقع نہ دوں گا
او تو تم اتنے بڑے ہو گئے کہ میرے مقابلے پر آ سکو اشعر کھڑا ہوا
امی دونوں کی باتوں پر مسکرا رہی تھی
میری بات بھی کان کھول کر سُن لو اطہر عظیم جب تک میرے چھ بچے نہیں ہو جاتے اپنی شادی کا سوچنا بھی نہ
(اطہر کی منگنی انعم سے ہو گئی تھی بیا نے سب کو منایا اصل مسئلہ انعم کے گھر والوں کا تھا وہاں بھی بیا نے اُس کے والدین کو منایا کیونکہ انعم کا رشتہ الموسٹ طے ہو گیا تھا اور وہ لوگ اطہر سے انکاری تھے پت بیا نے انہیں قائل کیا انکل آپ انعم کے والد ہیں اُس کیلئے بہتر فیصلہ کر سکتے لیکن انعم کی دل کی خوشی کو بھی مدِنظر رکھئیے گا کیونکہ کے وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے کے باوجود بھی عزت سے ایک دوسرے کی زندگی اور خاندان کا حصہ بننا چاہتے آپ کے فیصلے پر دونوں سر تو جھکا دے گے پر ایک خلش ایک خلا کے ساتھ جیے گے-بیا کی جزباتی فون کال کے بعد وہ اطہر کے لیے مان گئے تھے)
بیا شرم سے کٹ کر رہ گئی
کیا مطلب میں آپ کا میں چھ عدد چنو منو کا چچا بنوں پھر باپ بنوں گا تو خوش فہمی ہے آپکی میں کل ہی انعم سے نکاح کر رہا ہوں
بہت تیز جا رہے بچے ادھر آ تجھے بتاؤ اشعر پیچھے اور اطہر آگے اُسے چڑا رہا تھا
وارڈ بوائے کے ہاتھ سے ٹرے گرنے پر اطہر جو ڈاکٹر کے روم کے باہر کھڑا تھا اپنے خیالوں سے باہر آیا
_+_+_+_+_
ہسپتال کی شفاف راہداری میں موت کا سا سناٹا تھا رات کا تیسرا پہر اورکوریڈور میں اتنے لوگوں کی موجودگی کے باوجود آپریشن تھیٹر کے باہر ہو کا عالم تھا ڈاکٹر تین گھنٹے سے اندر تھےبس کسی تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی اسٹیچر گھسیٹنے یا کسی وارڈ بوائے کے قدموں کی آواز آتی
بیا یار کیوں پریشان ہو رہی ہو بھائی واپسی پر بالکل ٹھیک ہوں گے
بیا اشعر کی ضروری فائل رکھ کر بھول گئی تھی اور اشعر بیا پر شادی بعد پہلی بار چلایا اور غصہ ہوا اور جیسے ہی فائل ملی لے کر بیا کو اور ڈانٹا کے اتنی سی عمر میں یادداشت کا یہ حال ہے اگلے دو سال میں وہ اُسے بھی بھول جائے گی اور پتا نہیں کیا بولتا ہوا غصے میں چلا گیا اور بیا خوف سے کانپ رہی تھی کیونکہ اس طرح کی سچویشن سے سامنا پہلی بار ہوا تھا اپنے گھر تو کوئی غصہ کرنے بھی لگےتو بیا کی روتی شکل دیکھ کر چپ ہو جاتا
اور اسکے رونے اور کانپنے پر سب اسکو چپ کرا رہے تھے
لیکن اطہر وہ اتنے ناراض ہو کر گئے ہیں
بیٹا تمہیں پتا ہے وہ غصے کا تیز ہے تم پر ان ہونا بند کرو اٹھو ناشتا کرو آئے گا تو میں ڈانٹوں گی خالہ کے کہنے پر چپ تو ہو گئی پر اندر سے ابھی کانپ رہی تھی کیونکہ اشعر نے جاتے ہوئے ایک نگاہ غلط بھی بیا پہ نہیں ڈالی
شام تک بیا نے سوچ سوچ کر بخار ڈالا
اشعر گھر آیا خالہ نے پہلے کلاس لی پھر کمرے میں بھیجا
بیا تمہیں تو اتنا تیز بخار ہے کوئی دوا لی ہے
بیا نے آنکھیں کھول کر اشعر کو دیکھا اور پھر بند کر لی آنکھوں کے کناروں سے آنسو گرنے لگے
بیا پاگل ہو اشعر بیا کے آنسو بے بسی سے
صاف کرتے ہوئے بولا
آپ ناراض ہو کر گئے تھے
یالیٹ ہو رہا تھا اوپر فائل بھی نہیں مل رہی تھی تو غصہ آ گیا
آپ نے سارا دن ایک کال بھی نہیں کی
یار میٹنگ تھی اتنی اہم تبی صبح بھی غصہ ہوا تھا
ایک کال کا بھی ٹائم نہیں ملا روزانہ دس دس کرتے تھے بیا نے روتے ہوئے کہا آنسو تھے کے رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے
بیا بیا کیوں کر رہی ہوں یہ سب اچھا دیکھو کان پکڑتا ہوں آج کے بعد کبھی نہیں غصہ نہیں کروں گا اشعر نے جھنجلاہٹ سے کہا بیا کے آنسو تکلیف دے رہے تھے
اور جتنی بھی مصروفیت ہو ایک کال ضرور کریں گے
اچھا بابا لیکن ایک شرط پر
کیا بیا نے آنسو پوبچتے ہوئے کہا
تم رو گی نہیں کبھی تمہیں نہیں پتا بیا تمہارے آنسو مجھے کتنی تکلیف دیتے ہیں اشعر نے بیا کو ساتھ لگاتے ہوئے کہا
آپ ناراض نہیں ہوں گے نہ ڈانٹے گے تو نہیں رو گی آپ کو پتا آپ ناراض ہو کر گئے تھے مجھے لگ رہا تھا میری جان نکل رہی ہیں آنسو پھر چمکنے لگے
یار اب رونا نہیں میری توبہ آج کے بعد تم سے ناراض ہوں
بیا چائےبیا نے چونک کر دیکھا اطہر ہاتھ بڑھائے کھڑا تھا جو ستے چہرے پر التجایہ نظروں سے دیکھ رہا تھا
بیا نے چائےلی اور سائیڈ پر رکھ دی اور دل ہی دل میں اشعر سے مخاطب ہوئی اشعر آپ نے وعدہ کیا تھا آپ کبھی ناراض نہیں ہوں گے پلیز اُٹھ جائے اورہاتھوں میں منہ چھپا کے رونے لگی میں مر جاؤں گی اشعر پلیز
_+_+_+_
آج نکاح تھا اور گھر میں افراتفری مچی تھی حالانکہ نکاح کی تقریب بہت سادہ تھی اور گھر کے افراد بھی زیادہ نہیں تھے پر پھر بھی ہربڑی مچی تھی کیونکہ اسفی کے سارے دوست رات بھر جاگے تھے اور اب ناشتے کا دور چل رہا تھا
ناشتے بعد تیاری کا مرحلہ آیا تو سب آدھے گھنٹے میں تیار تھے نکاح میں صرف سکندر کے دو دوست گھر کے لوگ اور ندا جا رہے تھے
جب یہ چھوٹا سا قافلہ آفریدی ہاؤس پہنچا تو سکندر اسفی کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر کیا گیا
تھوڑی دیر بعد نکاح کی رسم ادا ہوئی اسفی نے ہر پل کی فوٹو لے کر فوٹوگرافر کی کمی پوری کی
نکاح بعد جب ہما کو سکندر کے برابر بٹھایا گیا تو سکندر پُرسکون ہو گیا
رخصتی بعد گھر پہنچتے ہی ندا ہما کو لے کر کمرے میں چلی گئی
بیوٹیشن جو کمرے میں دونوں کاانتظار کر رہی تھی ہما کے پہنچتے ہی جلدی سے ہاتھ چلانے لگی
سکندر کو بھی وائٹ شروانی پہنا کر باقاعدہ دولہا بنایا گیا پھر باہرلاؤنج میں بنائے گئے اسٹیج پر بٹھایا گیا
پھر مسز آفریدی اور ندا ہما کو پکڑے لاؤنج میں آئی تو سکندر بیٹھے سے کھڑا ہو کر کھو گیا
ہما اورنج اور ریڈ امتراج کا شرارہ سوٹ پہنے نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی
ندا نے کھانس کر سکندر کی محویت کو توڑا اور سکندر کے برابر صوفے پر بیٹھا دیا
پرفیکٹ کپل بھائی
ندا نے دودھ پلائی کی رسم کی تو سب نے خوب ہا ہو کی
_+_+_+_+_
سکندر نے کمرے میں داخل ہوتے ہی چاروں طرف دیکھا تواسفی اور اُس کے دوستوں کی محنت کو داد دئیے بنا نہ رہ سکا ہر طرف گلاب کے پھول تھے
بیڈ پر گھونگھٹ نکالے بیٹھی ہما کے پاس آیا اور ہاتھ بڑھا کر ہاتھ پکڑا تو ہما کے آنسوؤں نے سکندر کو بے چین کر دیا جو ہما ک ہاتھ پر رکھے اُس کے ہاتھ پر تواتر سے گر رہے تھے
سکندر بے گھونگھٹ اٹھایا اور بے قراری سے پوچھا کیا ہو ہے
آپ اس شادی سے خوش تو ہیں نہ ہما کے جواب نہ دینے پر مری ہوئی آواز میں پوچھا
ج جی ہما نے جلدی سے سر ہلایا مباداً سکندر کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے
پھر یہ آنسو
میں ان سب کے قابل نہیں ہوں آپ اور آپکی فیملی جیسے مجھے عزت دے رہی
ارے بس آپ نے تو مجھے ڈرا دیا محترمہ اب آپ اس گھر کی بہو ہیں اور یہ سب آپ کا حق ہے اور آپ کس قابل ہیں ہم سے پوچھے سکندر نے دونوں ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے ہوئے کہا تو وہ جھینپ کر سر جھکا گئی
_+_+_+_
ڈاکٹر کے باہر آنے پر سب لپک کر ڈاکٹر تک پہنچے پر بیا دو قدم پیچھے ہوگئی
اللہ کا بڑا کرم ہوا ہے آپریشن کامیاب ہوا ہے پیشنٹ کی حالت بھی خطرے سے باہر ہے لیکن
لیکن کیا سب تو ڈاکٹر کی پہلی بات سُنا کر ہی شکر بجا لائے پر اطہر نے ڈاکٹر کے لیکن کو سُِنا تو پوچھا
نہیں کچھ نہیں ڈاکٹر نے اطہر کی شکل دیکھی اور ٹال گیا
بیا وہاں ہی سجدے میں گر گئی وہ جتنا شکرادا کرتی کم تھا
روبینہ بیگم جو پہلے ہی جائے نماز بچھائے بیٹھی تھی پھر سجدے میں جا کر رونے لگی اور اس بار انہیں کسی نے نہیں روکا کیوں یہ خوشی کے آنسو تھے جو عظیم صاحب اطہر اظہر کی آنکھوں میں بھی چمک رہے تھے
اشعر خطرے سے باہر ضرور تھا لیکن اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ بات کر سکتا بیا نے اشعر کو دیکھا تو آنکھیں جھپکنا بھول گئی سر پٹیوں میں جکڑا تھا ایک بازو اور ٹانگ پر پلاسٹر لگے تھے اور جو چھوٹی چھوٹی چوٹ تھی وہ چادر کی وجہ سے چھپی ہوئی تھی
بیا بمشکل قدم اُٹھ کر بیڈ تک آئی اور ایک ایک زخم کو چھو کر روتی رہی تو دماغ میں ڈاکٹر کی آواز گونج گئی کہ ٹانگوں کا ماس بھی پھٹ گیا ہے اور وہ اگلے کئی ماہ تک چل پھر نہیں سکے گا تو اشعر کی ٹانگوں پر چادر ہونے کے باوجود ہاتھ پھیرتی رہی اور سسکتی رہی
_+_+_+_+_