برات اور ولیمہ کی تقریب میں بیا اشعر کی نگاہوں سے چھپتی رہی دونوں فنکش بہت شاندار رہیں رخصتی پر ارم کے رونے سب کو رولا دیا اطہر تو گھر آتے ہی کمرے میں بند ہو گیا اور اگلے ولیمے پرارم کو خوش دیکھ کر سب دل سے مسکرا اُٹھے
زوباریہ آفس واپس جانے کی بجائے گھر آئی اور آتے ہی کمرہ بند کر کے دروازے کے پاس ہی نیچے بیٹھتی چلی گئی
اور سارے راستے جو آنسو روکتی آئی کمرے میں آتے ہی اُنہیں راستہ مل گیا
بیا بیا اس نام نے تو سارے زخم ہرے کر دیے اس نام سے بچنا چاہتی تھی اس نام کیا کیا یاد نہیں آیا وہ محبت سے بڑھی آنکھیں وہ شفقت سے اٹھنے والے ہاتھ وہ گلے لگانے والی لاڈ اٹھانے والی ہستیاں کچھ بھی نہیں بچا نہ وہ خود اُس نام والی بیا رہی پھر کیوں ولی نے اُسے اس نام سے پکارا کیوں کیوں اور آج دو سال بعد پھر سارے زخم رسنے لگے
_+_+_+_+_
بیا امی اور زاور بھائی ساتھ ہی واپس آ گئی. اور گھر آتے ہی جو خبر ملی وہ سُن ہر کر رہ گئی اُس کے بھا ئی جو اُس پر جان دیتے تھے وہ ٹیبل پر نا ہو تو کسی کے حلق سے نوالہ نہیں اترتا تھا بیا کے منہ سے نکلی بات کو جلد سے جلد پورا کیا جاتا زاور بھائی نے بیا کو کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی اور زمان بھائی وہ تو اس کے بیسٹ فرینڈ تھے ہا ں بھائیوں کی شادیوں بعد ہلکی سی دوریاں ضرور آئی لیکن محبت کی شدتیں کم نہ ہوئی تھی آج بھی دونوں بھائی کام سے واپسی پر امی اور بیا سے ضرور ملتے چاہے واپسی جتنی بھی لیٹ ہو کیونکہ وہ جانتے کے ماں بہن ان کے انتظار میں جاگتی ہوں گی
اور آج زمان بھائی اتنا دور جا رہے کہ وہ اُن کے لمس تک کو ترس جائے گی ہانیہ کے بنا وہ کیسے رہے گی ہانیہ اور علی میں تو جان تھی بیا کی علی اُْس سے تیرہ سال اور پندرہ سال چھوٹی تھی لیکن وہ دونوں بیا کو اپنا گینگ ماسٹر کہتے اور تینوں مل کر سب کے ناک میں دم کئے رکھتے - بھابھیوں کو بیا سے یہی مسلہ تھا کہ وہ ہر وقت بچی بنی رہتی سارا دن لان میں ادھم مچائے رکھتے
وہ امی کی گود میں سر رکھے آنسو بہا رہی تھی بیا اسی لئے میں شادی کی ڈیٹ جلدی رکھی تاکہ تم اپنے دونوں بھائیوں کی دعاؤں کے سائے میں رخصت ہو
تھی زمان بھائی کمرے میں آئے تو بیا اُن کے گلے لگ کے رونے لگی تو زمان کی آنکھوں میں بھی نمی آ گئ
ارے کیا ہو گیا ہے بیا ہم کوئی کل ہی تو نہیں جا رہے جو تم ایسے رو رہی ہوں شزا نے دونوں کے پاس آ کر کہا آ ج کل وہ زمان کو ایک منٹ کے لئے بھی اکیلا کسی کے پاس بیٹھنے نہیں دیتی تھی کہ کہیں وہ کسی کی باتوں میں آکر اپنا فیصلہ نہ بدل لے شزا خوش تھی بیا کے آنے بع ایک دھڑکا بھی لگا تھا کہ کہیں بیا کی محبت جوش ہی نہ مار دے کیونکہ وہ ان بہن بھائیوں کی محبت جانتی تھی اب بھی زمان کو بیا کے کمرے میں جاتا دیکھ کر فوراً پیچھے آئی
بھائی آپ مت جائیےنہ میں اپنی باتیں کس سے شئر کروں گی اور ہانی کے بغیر کیسے رہوں گی
تو بیا زمان تمہیں روز سکائی کریں گے نہ پھر تم جی بھر کر باتیں کر لیا کرنا اور ویسے بھی ہم تمہاری شادی کر کے جائے گے اور جب تمہارے خود کے بچے ہو جائے گے تو ہانیہ بھی یاد نہیں آئے گی
زمان کی بجائے شزا نے جواب دیا تو بیا غصے سے اُٹھی اور باہر بھاگ گئی
_+_+_
اسفند اور سکندر دوبھائی تھے اسفند سکندر سے دس سال چھوٹا تھا. اسفند ابھی دو سال کا تھا جب شہریار ہمدانی دنیا سے کوچ کر گئے
شہریار ہمدانی کی ایک بہن تھی جو دبئی مکین تھیں جبکہ مسز ہمدانی اپنے ماں باپ کی اکلوتی اور بڑھاپے کی اولاد تھی اور شہریار ہمدانی سے شادی کے بعد تین سال کے عرصے میں وہ ماں باپ دونوں کو کھو چکی تھی اور چودہ سالہ رفاقت کے بعد شوہر بھی جہانِ فانی سے کوچ کر گئے
بتیس سال کی میں بیوہ ہوئی اور دو بچوں کا ساتھ تھا جمع پونجی ہیں تو تھی پر وہ بھی اتنی نا تھی کہ ساری زندگی بیٹھ کر کھا سکتی
نند بھائی کی موت پر آئی اور دو ہفتے رہ کر واپس چلی گئی شکر تھا گھر اپنا تھا اب زندگی کی گاڑی کھینچنے کو کچھ تو کرنا تھا سکندر تو سکول جاتا تھا جبکہ دو سال کے اسفند کو کہاں چھوڑ کر جاتی
ایک دوست کے مشورے اور تعاون پر انہوں نے اپنی جمع پونجی لگا کر گھر کے پچھلے حصے میں تین خاتون ورکر کے ساتھ ایک اون لائن بوتیک سٹارٹ کیا اور اپنی محنت اور نیک نیتی سے کام کرنے لگی تو کچھ مہینوں میں ہی اللہ نے برکت ڈالی اور ساری مشکلیں آسان ہو گئی انہوں نے اپنے بیٹوں میں محبتیں پروان چڑھائی. جتنا بھی کام ہوتا بچوں کے لئے کھانا اپنے ہاتھوں سے بناتی اُن کے زیادہ سے زیادہ کام خود کرنے کی کوشش کرتی اور سکندر بڑا تھا اور ماں کو بوتیک میں محنت کرتے دیکھتا اور ان کے کام بھی کرتی تو وہ اپنے کام خود کرنے لگا اور آہستہ آہستہ اسفند کی بھی-سکندر نے اپنی ایجوکیشن پوری کی اور ماں کا ہاتھ بٹانے لگا اور مسز ہمدانی کی بوتیک کی برانچ شہر کے مین مال میں سٹارٹ کی اور ماں کے بزنس کو آگے بڑھانے لگا بچپن سے ماں کو کام کرتے دیکھا تھا اس لیے کوئی خاص مشکل نہیں ہوئی تھوڑے عرصے بعد ہی اُس نے ماں کو تمام زمداریوں سے فری کر دیا اسفند سکندر کی نسبت لاابالی سا تھا سکندر کی خواہش پر ایم کام کر رہا تھا پر آج بھی ماں اور بھائی پر انحصار کرتا تھا
_+_+_+_
بیا کی شادی جیسے جیسے قریب آ رہی تھی سب خوش تو تھے ہی پر زمان بندہ فیملی کے ملک چھوڑ کر جانے کا دکھ بھی تھا کیونکہ شادی کے چوتھے دن زمان کی فلائٹ تھی
آج بیا اپنا برائیڈل ڈریس لائی تھی اور اب سوچ رہی تھی کہ وہ اتنا بھاری جوڑا پہنے گی کیسے تبی بل ہونے پر موبائل کی طرف متوجہ ہوئی
اشعر کی کال تھی بیا نے جھجکتے ہوئے یس کا بٹن پریس کیا اور موبائل کان سے لگایا جیسے جیسے شادی کے دن قریب آ رہے تھے بیا کو اشعر سے حیا آنے لگی تھی
ہیلو
جی
کیسی ہو اشعر نے محبت سے پوچھا
اچھی ہوں
وہ تو تم ہو-
پھر بیا کی خاموشی محسوس کرتے ہوئے بولا-بیا ایک بات بتاؤ تم کیا ہماری شادی سے خوش نہیں ہو
آپ کو ایسا کیوں لگا
اتنی چُپ چُپ کیوں ہوپھر پورے ہفتے سے نوٹ کر رہا ہوں ہوں ہاں کے علاوہ کچھ بولتی بھی نہیں ہو
بیا جواب دینے کی بجائے رونے لگی
بیا کیا ہوا ہے روکیوں رہی ہو
بیا کیوں رو رہی ہو اشعر نے تڑپ کر پوچھا
اشعر وہ---
بیا میری جان کیا ہوا ہے اپنے اشعر کو نہیں بتاؤ گی
اشعر سب کہتے ہیں آپ شادی بعد بدل جاؤ گے
اشعر نے تحمل سے بیا کی بات سُنی اور بولا ورنہ غصہ تو بہت آ رہا تھا
اور یہ سب میں کون کون شامل ہیں
میں کچھ پوچھ رہا ہوں بیا-بیا کی خاموشی پر غصے سے بولا
وہ---وہ شزا بھابھی کہہ رہی تھی کے جس طرح آپ روز مجھے فون کرتے ہیں اور مجھ سے محبت کا دم بھرتے ہیں شادی بعد سب ختم ہو جائے گا اُن کی کزن کی لو میرج ہوئی تھی اور دوسال بعد اُسے طلاق ہو گئی اور ہچکیوں سے رونے لگی
تمہیں مجھ پربھروسہ ہی نہیں بیا تو میں کیا کہوں پر اتنا جان لو تم میری زندگی میں آنے والی پہلی اور آخری لڑکی ہو اور ہاں اب عملی طور پر ہی اپنی محبت ثابت کروں گا خدا حافظ اشعر کو غصہ تو بہت آیا پر اتنا کہہ کر کال ڈسکنیکٹ کر دی
آج کل تو ویسے ہی بات بات پر اور بلاوجہ رونا آ رہا تھا اور اب تو اشعر کے غصے سے فون بند کرنے پر اور تیزی سے رونے لگی
_+_+_+_+_
امی امی میری سرمئی شرٹ کہاں ہے اسفند مسز ہمدانی کو آوازیں دیتاہوا کچن میں آیا
کیوں اس وقت کیا ضرورت پڑ گئی
امی وہ _ _وہ دوست کی سالگرہ میں جانا ہے اسفند نے سر کھجاتے ہوئے کہا
مسز ہمدانی موڑیں اور اسفند کو گھرانے لگیاور پھر بولی کس کی اجازت سے
اسلام وعلیکم
اس سے پہلے کے اسفند کچھ کہتا لاؤنج کا دروازہ کھولنے اور بند ہونے کی آواز ساتھ سکندر آیا اور سلام کرتا صوفے پر بیٹھ گیا
سکی بھائی سے پوچھا میں پوچھ لیں سارا ملبہ سکندر پہ ڈالتے ہوئے باہر جانے لگا
ایک منٹ تم روکو میں پوچھ لیتی ہوں چولہا بند کیا اور پانی کا گلاس لے کر باہر آئیں
سکی اسفی نے کہیں جانا تھا آج
سکندر نے پانی کا گلاس پکڑتے ہوئے حیرانی سے ماں کو دیکھا اور ماں سے ہوتی ہوئی نظر کچن کے دروازے پر کھڑے اسفند پر پڑی جو ہاتھ جوڑے کوئی اشارہ کر رہا تھا
اُسے نہیں مجھے دیکھو اور بتاؤ مسز ہمدانی نے کہا
سکندر نے پانی پیتے ہوئے ماں کے تاثرات جانچنے لگا
امی مجھے نہیں پتہ پر کہیں جانا چاہ رہا تو جانے دےاسفند کو اپنی طرف بُلاتے ہوئے کہا
کیوں جانے دوں اسے پتہ کے یہ وقت ہم سب کے مل بیٹھنے کا اور اوپر سے جھوٹ بھی بول رہا کہ سکی بھائی سے پوچھا مسز ہمدانی نے اسفی کی نقل اُتارتے ہوئے کہا
سوری امی اسفند نے فوراً معافی مانگی
اب تو معاف کر دے امی اور یار تم نے بتایا نہیں جانا کہاں ہیں
وہ بھی سرمئی شرٹ پہن کر امی نے بھی لُقمہ دیا
وہ دوست کی سالگرہ ہے اسفند نے نظریں جھکا کر کہا اور سکندر کا چھوڑا ہوا پانی کا گلاس پکڑا اور منہ سے لگا لیا
سکندر نے ماں کوآنکھ اشارہ کیا اور بولا اچھا اچھا وہی دوست جس کے ساتھ کل کے ایف سی میں برگر کھا رہے تھے
یہ سُنتے ہی اسفی کو اچھو لگ گیا اور کھانستے لگا
امی اور سکندر دونوں اُسکی کمر سہلانے لگے
جب زرا نارمل ہواتو مسز ہمدانی بولی
چلو بیٹا شروع ہو جاؤ
الف سے ے تک ایک ایک بات بتاؤ سکندر نے بھی کہا
وہ میری جونیئر ہے ندا مجھے اچھی لگتی ہے میری آفر پر میرے ساتھ کے ایف سی گئی تھی کیونکہ آج اس کا برتھ ڈے تھا اور مجھے پتا تھا اول تو آٹھ کے بعد گھر سے نہیں نکل سکتا اور نکلو بھی تو نو تک گھر واپس آنا ہے تبی کل اس کا گفٹ دینے کو لے کر گیا پر اس نے لیا نہیں کے خود آ کر دینا
اپنی بات پوری کر کے آنکھیں اٹھائیں اور ڈر کر پھر جھکا لی کیونکہ وہ دونوں اُسی کو گھور رہیے تھے
سوری امی سوری بھائی میں یہ سب بتانا چاہتا تھا پر مجھے لگا کہ آپ کی شادی سے پہلے میں ایسی کوئی بات کر کے آپ کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا
پاگل اے تو سکندر نے اس کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے اسفند کو ساتھ لگایا
امی ایم سوری ماں کو خامو ش دیکھ کر بولا تو وہ مسکرا گئی
اچھا چلو جانا نہیں ندا کی سالگرہ پر سکندرکے کہنے پر پھر ماں کو دیکھا
اچھا جاؤ چلے جاؤ
اور وہ ہو ہا مچاتا اوپر بھاگا
- +-+-+-
بیا مایوں کے لئے لگائے گئے پنڈال میں پیلے جوڑے میں گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی کیونکہ آج اسکی سسرال مہندی کا جوڑا اور دوسری چیزیں لے کر آئے تھے سفینہ بیگم نے کہا بھی کہ اتنی دور سے آؤ گے پھر جاؤگے اور ایک دن بعد پھر بتاتے کر آؤ گے کوئی ضرورت نہیں تھکنے کی - لیکن ارم نہ مانی اسی بہانے وہ بیا کے بھی کسی فنکشن میں شامل ہونا چاہتی تھی
اور اب ساری ینگ پارٹی آئی تھیں تو بیا کی کزنز نے بیا کا گھونگھٹ نکال دیا اور خود اس کے آس پاس کھڑی ہو گئی کے جی ہمارے ہاں مایوں کی دلہن کو اُس کے سسرالی نہیں دیکھتے
بیا کی ایک نک چڑھی سی کزن کے کہنے پر اطہر میدان میں آیا
او ہیلو آپ سے کس نے کہا ہم بیا کے سسرالی ہیں
تو کیا ہیں وہ پھر بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے بولی
ہم تو اپنی کزن کا مایوں اٹینڈ کرنے آئے
اچھا تو اشعر بھائی کیوں نہیں آئے اپنی کزن کے مایوں پر
پیچھے سے کسی منچلی نے اطہر کے ہی سٹائل کو کاپی کرتے ہوئے کہا
ارم بجو آپ کو اشعر بھائی بُلا رہے ہیں اطہر کے ایک کزن نے آ کر اونچی آواز میں ارم کو آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا
ارم جو پہلے اشعر کا نام سن کر حیران ہوئی اشارہ سمجھتے ہوئے بولی تم چلو میں آتی ہوں
اطہر نے بھی اس منچلی کو گھوتے ہوئے اشارہ کیا کہ اور کچھ کہتے ہوئے آگے بڑھا اور بیا کا گھونگھٹ الٹ دیا
بیا جو ہنستے ہوئے گفتگو سن رہی تھی اشعر کا سن کر پہلے کنفیوز ہوئی اور اطہر کے گھونگھٹ الٹنے پر پہلے حیران پھر اطہر کے ہاتھ آگے کرنے پر اسکی چال سمجھتے ہوئے اسکے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کر ہنس پڑی
اور پھر سب کی ایک دوسرے کی طرف گولا بھاری محفل کو زعفران بنا گئی
مسز ہمدانی اور اسفی مل کر سکندر کی ٹانگ کھینچ رہے تھے کیونکہ سکندر کی شادی کی بات چلی تو مسز ہمدانی کے پوچھنے پر کہ سکی تمہاری کوئی پسند ہے تو بتا دو تو موصوف نے بڑے مصومانہ انداز میں اپنے دوست کی بہن کا نام لے کر اسفی اور مسز ہمدانی کو حیران کر دیا
واہ بھائی بڑے چھپے رستم نکلے اسفی نے اپنی حیرت پر قابو پا کر کہا
امی بہو پسند کرنے کی آپکی خواہش صد افسوس خواہش ہی رہ گئی
نہیں امی اگر آپ نے کوئی پسند کر لی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہما سے میں بس دوبار ملا ہوں اور مجھے لگا کے وہ میری اچھی شریکِ حیات ثابت ہو سکتی آپ نے پوچھا تومیں بتا دیا ورنہ یقین کریں میری کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے سکندر نے ماں کے گھٹنوں میں بیٹھ کر ان کے ہاتھوں میں زور ڈالتے ہوئے کہا
میرے بچے میری کوئی پسند نہیں ہے آج مسز شاہ نے ایک دو رشتے بتائے تھے بس اور کوئی بات نہیں اور اگر ہوتی بھی تو وہ میرے شہزادے کی جوشی سے بڑی نہیں تھی جسے مل کر میرا بیٹا شادی کا سوچنے لگا ضرور کوئی نہ کوئی بات تو ہو نہ اس میں
بھائی اپنا موبائل دینا
کیوں تمہارے کوکیا ہوا سکندر نے موبائل دیتے ہوئے کہا
اسفند نے موبائل پکڑا اور بولا میرے موبائل میں بھابھی کی تصویر تھوڑی ہو گی نہ
میرے میں بھی نہیں ہے سکندر نی اطمینان سے کہا
کیا- - - - - -
آپ کے پاس کوئی تصویر نہیں ہے
نہیں
سکندر کے کندھے پر بازو پھیلا کر کہا بھائی یار آپ نہ میری شاگردی میں آ جائے اور نہیں تو دو چار تصویریں ہی حاصل کر لیں گے
مجھے تم معاف ہی رکھیں اسفند شہریار ہمدانی
بھائی جب بھابھی کو دیکھنے کا دل کرتا ہے تو کیا کرتے ہیں
او یار میں تیری طرح ابھی مجنوں نہیں بنا
بھائی مجھے بھابھی کو دیکھنا ہے
اسفی دیکھنا تو مجھے بھی ہے ہما کو تو کیا خیال ہے کل چلے پھر
بالکل ٹھیک کہاامی چلتے ہیں کل ہی
سکندر بھائی آپ مجھے ایڈریس سمجھا دیں
امی یہ کچھ زیادہ جلدی نہیں کر رہی آپ سکندر نے کہا
بتیس کے ہو گئے ہیں ابھی بھی جلدی ہے یہ مسز ہمدانی کی بجائے اسفی نے کہا
امی کیا میں بتیس کا لگتا ہوں سکندر نے ماں سے پوچھا
بیٹے لگتے تو نہیں ہو پر ہو تو نہ مسز ہمدانی نے بیٹے کے بال بگاڑتے ہوئے کہا
امی ڈن کرے اب کے کل ہم جا رہے ہیں میں گھر میں دو بندوں سے لاڈ اُٹھوا اُٹھوا کر تھک گیا ہوں بلکہ سچ تو یہ آپ دونوں تھک گئے ہو بھائی آپ میرے روم جھانکتے تک نہیں ہو جا کے دیکھیں سارا روم بکھڑا ہوا ہے اور آپ کو بھابھی کے خیالوں سے فرصت نہیں ااائی
سکندر کی فراٹے بھرتی زبان کو مسز ہمدانی کے تھپڑ نے روکا
اُسے تمہارے لیے نہیں لا رہے سمجھے اور خبردار جو کل وہاں کوئی الٹی سیدھی ہانکی ہو تو
اسی طرح کل کی پلاننگ کرتے رہے
_+_+_+_+_+_