"اندھیروں کی مسافر ہوں،
میرے چارہ گھر۔۔۔۔
"مجھے اجالوں سے اب ڈر لگتا ہے۔۔۔
مجھ میں میں بھی باقی نہ رہا ساقی۔۔۔،
تو خود اب کہیں تالاش نہ کر۔۔""
" پاکیزہ محبت کے نام"
" گاوں کے سرپنج خاص کر سرادر کی موت واقع ہو جائے تو جو عورت اس کے نکاح میں ہوتی ہے۔ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہیں کر سکتی یہ جائز ہی نہیں ہے۔۔ سوگراں خاتون نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔۔۔ رحیم خان نے ہاتھ جوڑے۔۔ بھابی میری ایک ہی بیٹی ہے میرے جگر کا ٹکڑا اور وہ ایک رات کی بیاہتا ہے۔۔۔ اور وہ تو سہاگن بھی نہیں ہے۔۔ شاہ کمال کے چھونے سے پہلے وہ بیوہ ہو گئی۔۔۔ رحیم خان کو کہتے شرم تو بہت آئی۔۔ مگر آج وہ یہ جنگ ہار جاتا تو اسکی لاڈو کی زندگی "زندان" بن جاتی اور وہ حویلی میں لوگوں کے انصاف کے فیصلے سناتے راج دھانی سنبھالتے بوڑھی ہو جاتی اور کسی کو فرق نہ پڑتا۔۔۔ ، رحیم خان تم اس گاوں کے اصولوں کو نہیں جانتے؟ یا حویلی کے قانون کو؟ دعا نے کرب سے باپ کے جوڑے ہاتھ اور آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھا۔۔۔ آج اسکی عدت ختم ہونے پر اسکا باپ اسے لینے آیا تھا۔۔۔ رحیم خان تمہیں تو ہمارا شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔۔ ہم نے تمہاری منحوس بیٹی کو عزت مان کر پناہ دی۔۔ نکاح کے دو گھنٹوں بعد-- محض دو گھنٹے بعد میرا گھبرو جوان بیٹا چلا گیا۔۔۔ ہم نے اف تک نہ کی۔۔۔ ہم کونسا اسکی نہوست کو سجا کر سر پر رکھنا چاہتے ہیں۔۔ مگر یہ ہماری مجبوری ہے اور ہمارے اباوج داد کی روایت ۔۔۔ ، ہم اسے توڑ نہیں سکتے۔۔۔ آپ اتنی سنگ دل کیسے ہو سکتی ہیں بجھائی ،، میری بیٹی بچپن سے شاہ کمال کی منگ تھی تب تک تو اسکی نہوست کا سایہ نہ پڑا شاہ کمال پر۔۔ کیا رخصتی پر ہی پڑنا تھا۔۔؟ رحیم کسی طور یہ جنگ ہارنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر سوگراں تائی نہیں ساس بن کر سوچ رہی تھی۔۔ اس کے خیال میں۔، "دعا شاہ کمال کو نگل گئی تھی۔۔"
اب اسکی سزا اس زندان میں جلنا تھا۔۔ میں اپنی بیٹی کا فیصلہ پنچایت سے لوں گا۔۔۔ آپ اگر اسے اس حویلی میں رکھنا چاہتی ہیں تو۔۔۔۔ لحظہ بھر کو رحیم رکا۔۔
اور سیڑھیاں اترتے یلماز کمال کو دیکھا۔۔۔ تو آپ کو اسے یلماز کمال کی دلہن بنانا ہوگا۔۔۔ دعا کے وجود کو جھٹکا سہ لگا۔۔۔۔۔ وہیں سوگراں کو سانپ سونگ گیا تو۔۔ یلماز کے چہرے پر شاطر سی مسکراہٹ ابھر کر مدم ہو گئی۔۔
ناممکن۔۔۔۔ سرادروں کی بیوائیں۔۔ کسی عام انسان کے نکاح میں نہیں جا سکتی۔۔ یہ اب سردارنی ہے۔۔ اس ریاست کے سیاہ و سفید کی مالک۔۔۔ یلماز کے تاثرات خود کو عام کہے جانے پر تن گئے۔۔۔ اماں شاہ کمال کے بعد اصولن اب میں سردار ہوں گا۔۔ اور سرپنج بھی۔۔ تو میں عام کیسے ہوا؟
اماں نے سر مسلا اور اسے گھورتے بولی۔۔۔،
" شیر اگر مر جائے تب بھی شیر رہتا ہے۔۔ گدھا اسکی کھال پہن کر شیر نہیں بن جاتا۔۔۔ "،
یلماز خان سرخ چہرہ لئے توہین آمیز جملے پر باہر نکل گیا۔۔۔ جبکہ رحیم صاحب نے کانپتی دعا کو ساتھ لگا کر اسکی پیشانی چومی۔۔۔ اللہ میرے بیٹی کا نصیب سونے کی قلم سے لکھے۔۔۔ اور اپنی منتق کی دعا۔۔۔ "دعا" کو دے کر چلے گئے۔۔ کون جانے یہ دعا۔۔۔ اسے لگے ہی نہ۔۔ کون جانے دعا کا نصیب لکھا سونے کے قلم سے ہو۔۔ اور اسے ان دعاوں کی ضرورت ہی نہ ہو۔۔ کون جانتا ہے وہ واقع منحوس ہو۔ کیا معلوم یہ المیا اسے کہاں لے جائے۔ اسکی خوش بختی کی طرف۔۔؟ تو کیا خوش بختی ایسے آتی ہے؟ سورج نے آسمان کو گھورتے پوچھا۔۔ آسمان مسکرا کریا۔۔۔ اور سورج سے بچنے کو بادل اسکی طرف موڑنے لگا۔۔۔
*********
برستی بارش کی وجہ سے سب کبوتر بھیگ رہے تھے۔۔ دعا جلدی سے ان کو پنجرے میں ڈال کر پلاسٹک شیٹ پنجرے پر ڈالنے لگی۔۔ ازلان کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔۔۔۔ میں تمہارا خون پی جاوں گئی۔۔ ازو کے بچے میری مدد کرو۔۔۔ ازلان نے اسے پکڑ کر اونچا کر دیا۔۔ حسینہ کبوتر باز۔۔ جلدی کرو مجھ سے اٹھائی کوئی نہیں جا رہی۔۔ ازلان نے کہا۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔۔ ؟؟ شاہ کمال کی آواز پر دعا کے ہاتھ چھوٹے ساتھ ہی ازلان کرنٹ کھا کر پلٹا۔۔ اور تبھی اسکے ہاتھ سے دعا گر گئی۔۔ آوچ برستی بارش میں وہ زمین بوس ہوئی تھی۔۔۔ ہاہ۔۔ ازلان ڈر گیا۔۔ جس طرح شاہ کمال اسے گھور رہا تھا۔۔ وہ سر پر پیر رکھ کر نیچے بھاگا۔۔۔ پیر پکڑ کر روتی دعا کو جھک کر شاہ کمال نے دیکھا۔۔۔ پھر مسکراہٹ دبائی۔۔
بچ گیا ہے پاوں؟ یا اب لنگڑی دلہن بیاہنے آوں۔۔؟ شاہ کمال کے مزاق پر وہ خفگی سے اسے گھورنے لگی۔۔ اور غصے سے چھت کی زمین پر جمع پانی اسکے چہرے پر اچھالا۔۔۔ اوہ میری جاہل ڈنگر منگیتر۔۔۔ وہ اگلے ہی لمحے دعا کے بھیگے دوپٹے سے چہرہ پونچھ رہا تھا۔۔۔ دعا نے احتجاجن کھنچا تو وہ مسکرا کر دوپٹے کی جگہ اسکی روتی بسورتی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔۔ "چھوڑیں۔۔ شاہ جی کوئی آ جائے گا۔۔ وہ شرمندہ ہوئی اس وقت مزاق کیا ہی کیوں۔؟۔۔۔ آنے دو، کسی میں اتنی ہمت نہیں سردار شاہ کمال کے آگے نظر بھی اٹھائے۔۔۔ کتنا غرور ہے آپ کو۔۔ ہونہہ دیکھنا ایک دن منہ کے بل گریں گئے۔۔ دعا نے تڑخ کر کہا۔۔۔ بدعا دے رہی ہو؟۔ وہ حیرت سے پوچھنے لگا۔۔ اللہ ہی معاف کرئے۔۔ میں نے بدعا دے کر اپنا مستقبل سیاہ کرنا ہے۔۔
اچھا صرف اپنی فکر ہے۔۔ شاہ کمال نے دانت پیسے۔۔۔ اور سہارا دے کر دعا کو اٹھایا۔۔ بارش کے پانی سے اسکا لباس چپک گیا تھا۔۔۔ شاہ کمال کی نظر جھک گئی۔۔ وہ پلٹ کر اپنے گرد لپٹی چادر اتارنے لگا۔۔۔۔ نیچے جگہ جگہ پر پہرے دار تھے۔۔۔ اور یہ بات شاہ کے لئے ناگزیر تھی۔۔۔اس نے بنا مڑے چادر دعا کو دے دی۔۔ دعا نے شرمندہ ہوتے اپنے آپ کو چھپایا۔۔ وہ کب سے چھت پر اسی طرح پڑی تھی۔۔۔۔۔ اس کے سہارے نیچے جاتے دعا بار بار پھسلنے لگتی۔۔ خود تو مروگی مجھے بھی مرواؤگی۔۔ وہ بھی بھری جوانی میں۔۔۔ وہ دانت کچکچا کر بولا ، دعا کھسیانی ہنسی ہنس دی۔۔۔ جب تک میرے شاہ میرے ساتھ ہیں۔۔ مجھے ہوا بھی چھو کر نہیں گزر سکتی۔۔۔۔ وہ اٹھلائی اور رہی بات آپ کے مرنے کی تو۔۔ دعا نے ناک سکوڑی۔۔ جب تک میرے پانچ چھ بچے نہیں ہو جاتے مرنے کا سوچئے گا بھی مت۔۔ دعا نے جس طرح رک کر انگلی اٹھا کر کہا۔۔ شاہ کمال سے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔۔۔ دعا اسے گھورنے لگی۔۔ پانچ، چھ؟؟ بچے۔۔ تم پاگل ہو دعا۔۔۔ وہ اسے مصنوئی گھورنے لگا۔۔۔ ۔مردم شماری والے تم پر کیس کر دیں گئے۔۔۔۔۔ ہاں تو شاہ جی آپ بچانے آ جانا۔۔۔۔۔
بچانے آ جانا۔۔۔ دعا کے کانوں میں اپنی ہی آواز گونجی۔۔ اس نے لب شاہ کمال کی تصویر پر رکھ دیئے۔۔۔۔ اتنی جلدی کیوں چلے گئے۔۔ شاہ جی دیکھو میرا کیا حال ہو رہا ہے۔۔ سانس بھی لیتی ہوں تو لگتا ہے طوفان مچ رہا ہے۔۔۔ سانس روکتی ہوں تو لگتا ہے قیامت آ رہی ہے۔۔ میں کروں تو کیا کروں۔۔ اب میری زندگی کا مقصد آپ کے قاتل کو دنیا میں ذلیل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔ میرا آپ سے وعدہ ہے جب تک یہ سانس چل رہی ہے۔۔ میں آخری دم تک لڑوں گی۔۔ آخری دم تک۔۔۔
**********
اے دعا؛ شاہ نے اس کو کندھا مارا۔۔ ناراض کیوں ہے؟؟۔۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو شاہ نے اسکی لمبی چوٹی اپنے ہاتھ پر باندھ لی۔۔ اب اگر تم نے جواب نہ دیا تو میں نے یہ کھینچ دینے ہیں۔۔ گنجی ہو جائے گی۔۔۔ دعا نے خفگی سے شاہ کو دیکھا۔۔ خود تو سولہ جماعتیں پڑھ آئے ہو مجھے آٹھ سے آگے کوئی پڑھنے نہیں دیتا۔۔ اچھی لگوں گی شاہ جی تمہارے ساتھ چلتی؟۔۔ شاہ کمال نے سمجھداری سے سر ہلایا۔۔ اچھی تو نہیں لگو گی۔۔ گزارا ہی ہے۔۔ اب زبان دی ہے باؤ جی نے ، پوری تو کرنی پڑے گی۔۔۔
ہاہ۔۔۔۔۔ !! دعا کا منہ کھول گیا۔۔ مطلب شاہ جی تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ؟ صرف زبان پوری کر رہے ہو؟ تمہیں کیا لگتا ہے؟؟۔۔ وہ دعا کی کاجل سے لبریز آنکھوں میں دیکھتے بولا۔۔، ہٹو مجھے تم سے بات ہی نہیں کرنی۔۔ دعا نے خفگی سے کہا اور اٹھنے لگی۔۔ اسے روکنے کے چکر میں شاہ کمال سے دعا گر گئی۔۔ اوئی اماں۔۔ دعا اور وہ اس وقت باغ میں اکیلے تھے۔۔۔ گو کے باہر سیکورٹی گارڈز وغیرہ تھے۔۔ مگر اندر صرف وہی تھے۔۔۔ دعا کی فرمائش پر وہ اسے پیلیاں دیکھانے لایا تھا۔۔ جہاں موسمی پھل اور سبزیاں لگے تھے۔۔۔ دعا کی دونوں کلائیاں شاہ کمال کے ہاتھ میں تھی۔۔ اور وہ اس پر جھکا تھا۔۔۔ دونوں کے حواس گم ہو جاتے اور سب ختم ہو جاتا۔ اگر دعا کی ہری چوڑیاں اسکی گرفت سے نہ ٹوٹ جاتی۔۔۔ اللہ وہ کراہی شاہ نے فورا اسکی کلائی سے رستا خون دیکھا۔۔۔ دعا تو پاگل ہے جاہل--، شاہ کمال نے اسکی ساری چوڑیاں اتار کر کلائی پر رومال باندھا اور اسے گھورنے لگا۔۔۔ دعا سے نظر ملانا محال ہوا تو وہ نظر جھکا گی۔۔۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔۔۔ ورنہ شاہ کمال سے زیادہ اسکی عزت کا رکھوالا بھلا کون تھا۔۔۔ ؟؟
تو پڑھ کر کیا کرے گی۔۔ میرے لئے ہانڈی چولہا ہی کرنا ہے تو ایسے ہی کرلے۔۔۔ وہ کمال بے نیازی سے بولا۔۔۔ گھر چلیں۔۔ دعا نے بکھرے بالوں کی کچھ آوارہ لٹیں پیچھے کی جو تیز ہوا سے پھر آگے آ گئی۔۔۔ ہاں چلو شاہ نے اسے ہاتھ دیا۔۔۔ چلتے چلتے شاہ نے اسکا ہاتھ دبایا۔۔۔ تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ اس نے پوچھا؟۔۔۔ دعا کے قدم من من کے ہو گئے۔۔۔ دعا کرتی ہو؟؟ وہ رک کر سامنے آیا۔۔۔ دعا نے نفی میں سر ہلایا۔۔ اگر میں نے دوسری شادی کر لی تو؟ شاہ کمال کی بات پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔ دعا کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہو رہا تھا۔۔۔ تم کسی اور سے محبت کرتے ہو شاہ جی؟ اگر میں کہوں ہاں تو؟ دعا کو ایک جھٹکا سہ لگا۔۔ وہ گر جاتی اگر وہ اسے نہ سنبھالتا۔۔۔ شاہ کمال نے قہقہہ لگایا۔۔ او مائی گاڈ دعا تم مجھ سے اتنی محبت کرتی ہو؟ وہ چھیڑنے لگا تو دعا کو اسکی شرارت سمجھ آئی۔۔۔ مجھے گھر چھوڑ آئیں۔۔۔ دعا کی آنکھیں چھلک اٹھی۔۔۔
میری دیوانی رکو تو۔۔ مجھے نہیں رکنا-- وہ اسکا ہاتھ جھٹک کر خفگی سے بولی۔۔۔ اچھا نہیں کرتا دوسری شادی محبت بھی تم سے کروں گا۔۔۔ "اب گولہ کھلاوں؟ ہاں کھلا دو وہ احسان جتا کر بولی۔۔ کبھی نہ بھی کر دیا کرو۔۔ بلکل پینڈو لگتی ہو جب ہر چیز پر فورا مان لیتی ہو۔۔۔ وہ سر جھٹک کر باغ سے باہر نکلا تو دعا سمجھ نہ سکی وہ مزاق کر رہا تھا یا سنجیدہ تھا۔۔ پھر سر پر چادر درست کر کے خود بھی باہر نکل گئی۔۔۔۔
********
پنچایت میں لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔۔ تقریبا پورے گاوں کے لوگ بیٹھے سارا مسئلہ سن رہے تھے۔۔ تو آپ چاہتے ہیں دعا بٹیا کی شادی یلماز سے ہو جائے؟۔۔ ایک بزرگ نے کہا۔۔ مگر سردار کی بیوہ کا نکاح کسی عام مرد سے جائز نہیں۔۔ ایک دوسرے بزرگ نے کہا۔۔۔۔ اچھا قرآن کی کونسی حدیث میں لکھا ہے یہ؟؟ رحیم خان نے کہا۔۔۔ دیکھیں خان زادے صاحب ٹھنڈے دماغ سے سوچیں۔۔۔ قرآن کو بیچ میں مت لائیں ہم اس کی بات نہیں کر رہے۔۔ ہمارے پنڈ کا یہ قانون صدیوں سے چل رہا ہے۔۔۔ آپ جانتے ہیں؟
رحیم خان کا چہرہ ضبط سے سرخ تھا۔۔۔ میری بیٹی کی جگہ اگر آپ میں سے کسی کی بیٹی ہوتی تو؟ کیا آپ لوگ اس بچی کو اس طرح لاوراثوں کی طرح کسی ایک کے نام پر چھوڑ دیتے اللہ ہم سب کو معاف کرے کیا شاہ کمال کوئی نبی پیغمبر یا ولی اللہ لوگ تھا۔ جو اسکی بیوہ دوسری شادی نہیں کرسکتی۔۔ ایسا تو نبی پاک کے زمانے میں ہوتا تھا۔۔ اور صرف نبیوں کی بیویاں ہی دوسری شادی نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ وہ تب بھی انکی عزت رہتی تھیں۔۔ مگر شاہ کمال صرف پنڈ کا سردار تھا۔۔ کوئی پیر فقیر نہیں اور شاہ کمال کا رشتہ ہی کیا تھا۔۔ دعا سے صرف نکاح تک کا؟ رخصتی کے بیچ سرے عام اسکو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔۔۔ کیا بگڑ گیا میری بیٹی کا ان سب میں جو وہ اچھوت ہو گئی؟؟ رحیم خان کی آواز سے ساری پنچایت کو سکتہ ہو گیا۔۔۔ سوگراں خانم ناگواری سے بولی۔۔۔۔ بیسواں برس ہے میرے گھر والے کمال خان کو خدا رخصت ہوئے اسکے نام پر پڑی تھی۔۔۔ اسکی سرداری سنبھالی یہ آج کی چھوکری کیا یہ اتنا بھی نہیں کر سکتی صرف ایک زندگی نہیں وار سکتی زبان کی خاطر۔۔۔۔۔؟؟؟؟
آپ کے چار بچے تھے۔۔۔ اور کس نے روکا تھا بجھائی اگر دوسری شادی کا ارمان چار بچوں کے بعد بھی دل میں تھا۔۔۔ رحیم خان کی آواز پر کسی نوجوان نے قہقہہ لگایا۔۔۔ وہیں سوگراں شرم سے سرخ پڑ گئی۔۔۔ کسی اور نوجوان نے سیٹی بجائی۔۔۔۔ توے پر ہتھوڑی مار کر شور کو روکا گیا۔۔۔۔۔ یہاں سب گاؤں والوں کی مشترکہ رائے ضروری ہے۔۔ اگر دعا کی دوسری شادی کی پرچیاں زیادہ ہوئیں تو پنچایت دعا کے حق میں فیصلہ سنا دے گی۔۔۔۔" سوگراں خانم نے تمسخر اڑایا۔۔۔ اگر رحیم خان جیت بھی گیا تو بھی میں اس منحوس کو اپنا دوسرا بیٹا کبھی نہیں دوں گی۔۔۔ ٹھیک ہے پھر یہاں اسی پنڈال میں اسکا دوسرا نکاح پڑھوایا جائے گا۔۔ رحیم خان نے کمال بے نیازی سے کہا۔۔ سوگراں کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے۔۔۔
*******
ہر ووٹ دعا بیٹی کے حق میں ہے۔۔۔ پنچایت نے کہا۔۔۔ تو یہاں کوئی ہے جو دعا بیٹی سے نکاح کی ہامی بھر سکے۔۔۔ چاروں طرف اب کے خاموشی چھا گئی۔۔ سوگراں خانم کے چہرے پر شاطر مسکراہٹ تھی۔۔۔ کیا کوئی دعا سے نکاح کرنے کی ہامی بھرتا ہے۔۔ چاروں طرف اتنا سناٹا تھا جیسے یہاں کوئی موجود ہی نہ ہو۔۔۔ کوئی دعا رحیم خانم سے نکاح کی ہامی بھرتا ہے؟؟۔۔۔ یاد رہے وہ شاہ کمال کی چند گھنٹوں کی بیوہ ہے۔۔۔ اب کے وہ اس گاؤں کی سردارنی ہے اور شاہ کمال کی وارث بھی۔۔۔ کیا کوئی اسکا رکھوالا بننے کو راضی ہے؟؟؟ اب بھی خاموشی رہی تو سوگراں خانم نے ہنکارہ بھرا۔۔۔۔۔ دیکھ لیا۔۔ رحیم خانم کوئی بھی دعا کی نہوست اپنے سر لادنے کو تیار نہیں بولو کیا کہو گے اب کے۔۔۔۔ صرف ہم ہیں جو اس کی نہوست اپنے سر ڈال کے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
ایک منٹ--- دعا نے گھونگھٹ میں سے کہا۔۔۔ یہ میری زندگی کا فیصلہ ہے۔۔ سب سے زیادہ ضروری میری رائے ہے۔۔۔ سفید گھونگھٹ کی اوٹ سے آواز آئی۔۔۔۔ اب یہاں گز بھر کی چھوکریاں بھی پنڈال میں بولیں گیں۔۔ سوگراں خانم کو اسکی جرت ناگوار گزری۔۔۔۔ آپ سب نے تو کہا ہم سردار شاہ کمال کی بیوہ ہیں۔۔ اور اس حساب سے ہم اب اس سب کے ایک لوتے وارث اور سردارنی ہوئے۔۔۔۔ دعا کی آواز سے سب نے ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔ رحیم خانم جو زندگی ہار رہے تھے دعا کی اس بات سے انکی سوئی هوئی امید جاگ گئی۔۔۔ ہمارا حکم ہے کے دلاور خان کو اگلی پنچایت میں حاظر کیا جائے میری طرف سے ان کو رکا لکھ دیں۔۔ اگلی پنچایت ایک ہفتے بعد ٹھیک اسی جگہ ہوگی۔۔۔ اب ہمیں اجازت دیں ہماری نماز کا وقت ہو گیا ہے۔۔ دعا تفاخر سے بولتی چلی گئی۔۔۔۔۔ اور اس کے آداب میں سب کھڑے تھے اور سر جھکے تھے۔۔۔
*******
میں پوچھتی ہوں کیا کہنا ہے تجھے دلاور خان کو؟ معلوم ہے نا وہ تیرے گھر والے کا قاتل ہے۔۔۔۔۔۔ دعا نے بے تاثر چہرے سے گھونگھٹ اٹھایا۔۔۔ اس پر ضبط کی سرخیاں تھی۔۔۔۔ سردارنی بن کر اس پر گھونگھٹ فرض ہو گیا تھا۔۔۔ اسے ہر عام مرد اپنی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا تھا نہ ہی کوئی عام عورت یا باندھی۔۔۔ حتی کے اسکی کوئی بہن بھی دعا کا چہرہ نہ دیکھ سکتی۔۔۔۔ مجھے آرام کرنا ہے۔۔ وہ سنجیدگی سے بولی آپ جا سکتی ہیں۔۔ دعا خاموشی سے اپنے ریشمی بستر پر لیٹ گئی۔۔۔ بد بخت سبز قدم عورت میرا ہیرے جیسا بیٹا منوں مٹی تلے سو رہا ہے اور تم اس ریشم کے بستر پر سوگی؟ سوگراں خانم کی بات پر دعا نے کوئی احتجاج نہ کیا اور خود زمین پر آ گئی۔۔۔ وہ ربیر کارپٹ پر بنا تکیے پر لیٹ گئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔
*******
دعا تو سچ میں مجھ سے ہی شادی کرے گی؟ شاہ کمال نے پوچھا؟ اگر میں وہاں شہر میں کسی مومی گڑیا کو پسند کر لیتا تو؟ نہر میں جھولتے دعا کے پیر رک گئے۔۔۔ کر لیتا تو کر لیتا۔۔۔ وہ پانی اس پر اچھالنے لگی۔۔ اس کے بعد وڈی بیگم اور ابا تجھے چھترو چھتری کر کے مجھ سے نکاح پڑھواتے سارا عشق اتر جاتا۔۔۔
وہ جس طرح ناک سکوڑ کر غرور سے بولی شاہ کمال کا منہ کھلا رہ گیا۔۔ پھر یک دم ہنس دیا۔۔۔ دعا تم سچ میں پاگل ہو جھلی۔۔ وہ اسکی لمبی چوٹی کھنچنے لگا۔۔۔ تم ڈرتی نہیں مجھ سے کیسے بول لیتی ہو کچھ بھی؟ پتہ ہے نا میں سردار ہوں؟ شاہ کمال کی آواز میں شرارت نمایاں تھی۔۔ ہوگا سردار میں بھی مستقبل کی سردارنی ہوں۔۔ "اچھا" شاہ کمال نے سنجیدگی سے اسے دیکھا پھر نہر میں گرا دیا۔۔۔ ہائے اوے اماں شاہ جی بچاو۔۔۔ پہلے سردار جی بول۔۔ شاہ جی آپ کو سردار بولتی ہے میری جوتی۔۔۔ تو جوتی سے ہی کہو باہر نکالے۔۔ شاہ جی میں مرگئی۔۔ دعا نے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیئے۔۔۔ اور وہ پانی میں غائب ہونے لگی۔۔ دعا۔۔۔ دعا۔۔ دعا۔۔۔ دعا۔۔ شاہ کمال نے پریشانی سے آواز لگائی۔۔۔ تیرنا اسے بھی نہیں آتا تھا۔۔ دعا--، میں نے دعا کو کھو دیا۔۔ شاہ کمال وہی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رونے لگ گیا۔۔۔ دعا مر گئی۔۔ دعا۔۔۔۔۔ آدھے گھنٹے تک وہ رو کر نڈھال ہو گیا۔ مگر ابھی تک وہ صدمے سے وہی گھرا تھا۔۔ کچھ دیر بعد کسی نے پیچھے سے شاہ کمال کے کندھے پر ہاتھ رکھا کیا ہوا کیوں رو رہے ہو؟؟۔۔ وہاں پانی میں میری دعا گر گئی--، دعا مرگئی ہے۔۔ کہہ کر شاہ کمال نے ایک نظر پوچھنے والی کو دیکھا جو حیرت سے پانی دیکھ رہی تھی۔۔۔ پھر پانی دیکھ کر کرنٹ کھا کر پلٹا۔۔۔ دعا۔۔۔ تم ٹھیک ہو۔۔۔ شاہ کمال نے اسے کلائیوں سے پکڑ کر دیکھا۔۔۔ تم باہر کیسے آئی؟ دعا نے ہنسی دبائی اور اپنا دوپٹہ نچوڑتے بولی۔۔ نہر کی دوسری طرف سے-- اور راز کی بات ہے سردار جی۔۔ مجھے تیرنا آتا ہے کیونکہ میں الڑمٹیار(گاوں کی گوری) ہوں اور آپ شہری بابو۔۔۔ تم فتنی میں رو رہا تھا اور تیراکی کے مزے لوٹ رہی تھی۔۔ نا روتے ڈھونڈنے آ جاتے۔۔۔۔ مجھے تیرنا نہیں آتا۔۔۔ اچھا گرانا آتا ہے؟ دعا کے طنز پر وہ سر جھٹک کر رہ گیا۔۔۔۔
*****
دلاور کو اسی وقت کا انتظار تھا وہ جانتا تھا اسے دعا ضرور بلائے گی آخر وہ اسکا مجرم تھا۔۔ اور وہ سزا بھگتنے کے لئے بھی تیار تھا۔ مگر اپنی مرضی سنانے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ژثثژ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلاور خان نے ادینہ کا دروازہ کھٹکٹایا۔۔۔ اور کچھ منٹ رک کر اندر داخل ہوا۔۔۔ وہ بیڈ کے پاس زمین پر گھٹنوں میں چہرہ چھپائے بیٹھی تھی۔۔ دلاور خان چلتا ہوا اسکے پاس گیا۔۔ اور سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔ دعا خان ذادی نے بلایا ہے۔۔ ادینہ کے سر اٹھانے پر دلاور نظر چرا گیا۔۔ اور یہاں وہاں دیکھنے لگ گیا۔۔۔ آپ نہیں جائیں پلیز!! وہ یک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔۔، منہ چھپانے والا مرد نہیں ہوتا۔۔۔ دلاور نے کہا۔۔۔ تم فکر نہ کرو بلکل سہی سلامت واپس آوں گا۔۔۔ کیونکہ مجھے یقین ہے خان ذادی بہت سمجھدار ہے۔۔۔ آپ اسے سچ بتا دیں گے؟؟ وہ حیرت سے بولی مجھ پر یقین رکھو پنچایت میں تمہاری عزت رکھنا میری ذمےداری ہے کیونکہ میں تمہارا محافظ ہوں۔۔۔ دلاور نے اسے مان دینے کو سینے سے لگایا۔۔ اور اسکا گڑیا جیسا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اسکی پیشانی پر بوسہ لیا۔۔ بھائی مت جائیں۔۔ ادینہ نے اسکے سفید کلف دار سوٹ کا گریبان پکڑ لیا۔۔۔ دلاور کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔۔ اور اپنا گریبان اسکے نرم ہاتھوں سے نکال کر بولا تمہارا بھائی تمہارے سر کی قسم کھا کر کہتا ہے اس سفید بے داغ سوٹ پر کوئی شکن بھی ڈالے بنا گھر آؤں گا وہ اسکا سر تھپکتا ہوا روایتی خان بنا باہر نکل گیا۔۔ ادینہ اسکے پیچھے بھاگی۔۔ مگر دلاور کے بھاری قدموں کا مقابلہ اسکے ننگھے گلابی پیر دوڑتے بھی نہ کر سکے۔۔۔ اور جیپ دھول اڑاتی حویلی سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔
*********
دلاور سر جھکائے دعا کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ ہاتھ پیچھے باندھے تھے۔۔۔ دعا نے سفید گھونگھٹ سے نفرت سے اسے گھورا دل تو کیا تھوک دے پھر خود پر ضبط کیا۔۔۔ تم نے سردار شاہ کمال کا قتل کیا۔۔ کیا تم مانتے ہو دلاور خان؟؟؟ قبول کرتا ہوں۔ میں نے ذاتی عناد کا بدلہ لینے کے لئے اسکا قتل کیا۔۔ اور یہ بات میں لکھ کر بھی دے سکتا ہوں اگر اس سے بری موت میں اسے دے سکتا تو وہ بھی دیتا۔۔۔ کیا دشمنی تھی تمہاری ہمارے خان کے ساتھ؟ دعا نے پوچھا۔۔۔ پوچھ کیا رہی ہو ؟ گولی چلوا دو تم سردارنی ہو کوئی حساب بھی نہ مانگے گا۔۔۔۔ خاموشی اختیار کیجیئے دعا نے گرج دار آواز میں کہا۔ اور سوگراں خانم کی بولتی بند ہو گئی۔۔۔ خبردار جس نے ہماری اجازت کے بنا گولی چلائی۔۔ ہم اسکی سات پشتیں جلوا دیں گیں۔۔۔ دلاور خان ہمارے دشمن ہیں۔۔ انکو گولی مارنے کا حق صرف ہمارا ہے۔۔۔ دعا نے کہہ کر پستول اس پر تانی۔۔۔ دلاور کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔۔۔۔۔ بولو کیا دشمنی تھی تمہاری شاہ خان سے؟ وہ میں سب کے سامنے نہیں بتا سکتا-- بتایا تو حرف آپ کی انا پر آئے گا خان ذادی اس لئے زرا کونے میں مجھے سن لیں۔۔۔ دعا نے مٹھی ضبط سے بھنچی۔۔ جو دلاور نے دیکھ لی۔۔ وہ یقین سے کہہ سکتا تھا۔۔ دعا کی آنکھیں اس وقت ایکسرا مشین بن کر اسکا جائزہ لے رہی ہوں گی۔۔۔۔۔
*********