نہیں میں جانتا خود کو ؟ مسلمانو ! مجھ کو بتائو
یہودی ہوں نہ عیسائی نہ کافر نہ مسلماں ہوں
نہ شرقی ہوں نہ غربی ہوں ، نہ ّبری ہوں نہ بحری ہوں
نہ ہی کانِ طبیعی سے ہیں ، نہ ہی افلاک داماں ہوں
نہ مٹّی سے، ہوا سے اور نہ ہوں میں آگ ، پانی سے
نہ عرشی میں ، نہ فرشی میں نہ وقفِ کون اور کاں ہوں
نہ دنیا کا نہ عقبیٰ کا ، نہ جنت اور نہ دوزخ کا
نہ آدم کا نہ حوّا کا ، نہ ہی مطلوبِ رضواں ہوں
مکاں ہے لامکاں میرا ، نشاں ہے بے نشاں میرا
نہ تن میرا ، نہ جاں میری کہ محوِ جانِ جاناں ہوں
نکل کر ’’دو‘‘ کے چکر سے ، دو عالم ’’ ایک ‘‘ کر دیکھے
’’احد‘‘ ڈھو نڈوں، ’’احد‘‘ بولوں، ’’احد‘‘ داں ہوں’’احد‘‘ خواں ہوں
نشے میں عشق کے گم ہوں ، دو عالم ہاتھ سے کھو کر
گھرا ہوں فاقہ مستی میں ، میں رندِ تنگ داماں ہوں
بنا اس کی رفاقت کے مرا اک دم گزرتا ہے
میں خود محسوس کرتا ہوں کہ جینے سے پشیماں ہوں
ہے مجھ سا شمس تبریزی کوئی دنیا میں مستانہ
میں خود ہی درد ہوں اپنا ، خود ہی اپنا درماں ہوں
(فارسی سے ترجمہ)
ع ۔ ج