مثنوی کے ممتاز مترجم رینالڈ اے نکلسن (Reynold A. Nicholson) کے بیان کے مطابق ۲۹؍ نومبر ۱۲۴۴ء کے دن قونیہ میں اچانک ایک پراسرار شخص کا ظہور ہوا جو سر سے پیر تک بھدے، موٹے، سیاہ اونی کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر ایسی درشتی اور شدت تھی کہ دیکھنے والا خوف زدہ ہو جائے۔ (یہ شخصیت شمس تبریزی کی تھی۔)
مؤرّخ گولپی نارلی (Golpinarli) کے خیال میں شمس ’’قلندر‘‘ تھے۔ اس نے یہ بھی لکھا ہے، مبادا وہ صوفیا کے اس گروہ سے تھے جس کو ’’ملامتیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
شمس کی اپنی تحریروں کے مطابق جو اُن کی کتاب ’’مقالات‘‘ میں شامل ہیں، وہ چھٹپن سے ہی غیر معمولی، عجیب (peculiar) کم آمیز (unsociable) تھے۔ بلوغت کی عمر سے قبل ہی وہ کثرت سے روزے رکھنے لگے تھے۔ دنیا میں وہ اس طرح رہتے جیسے کسی اور دنیا کے ہوں اور اس سبب سے وہ سب سے الگ رہتے۔ شمس نے اقرار کیا ہے کہ ان کے والدین ان سے محبت کرتے تھے لیکن شمس ان کی توجہ سے بیزار رہتے کیوں کہ وہ عام سے لوگ تھے اور اپنے بیٹے کی روحانیت سے ناواقف۔ اپنے بارے میں وہ لکھتے ہیں، ان کی حالت کسی بطخ کے انڈے کی مانند تھی جو مرغی کی نیچے ہو۔
ایک جگہ شمس اپنے والد کے تردد کو اس طرح موضوع بناتے ہیں:
’’میرے والد مجھ سے کہتے، ’افسوس میرے بیٹے، تم نے کچھ نہیں کھایا۔‘
میں کہتا، ’لیکن میں کم زور نہیں ہوا ہوں۔ میں اتنا توانا ہوں کہ آپ چاہیں تو میں اُس کھڑکی سے کسی پرندے کی مانند باہر اڑ جائوں گا۔‘ ہر چوتھے روز مجھ پر ایک کاہلی سی چھا جاتی اور غذا کا ایک لقمہ بھی میرے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ ’تمھیں کیا تکلیف ہے؟‘ میرے والد مجھ سے پوچھتے۔ میں جواباً کہتا، ’کوئی تکلیف نہیں۔ کیا میں پاگل ہو رہا ہوں؟ کیا میں نے کسی کے کپڑے پھاڑے ہیں؟
’کیا میں آپ پر گر پڑا ہوں؟ کیا آپ کا گریبان چاک کیا ہے؟‘
’کیا تم نہیں کھائو گے؟‘
’میں نہیں کھائوں گا۔ آج، کل اور بعد میں؟‘
(Franklin Lewis "Rumi: Past and Persent: East and West p-142)
حضرت شمس تبریزی کے والد کا نام علاء الدین تھا۔ وہ ایک بزرگ کے خاندان سے تھے جو فرقہ اسمٰعیلیہ سے تھے لیکن اپنا مسلک ترک کر دیا تھا۔
حضرت شمس الدین تبریزی کی تعلیم کے بارے میں اتنا معلوم ہے کہ انھوں نے اگرچہ حضرت رومی کے جیسی اعلیٰ تعلیم نہیں حاصل کی، لیکن دستور کے مطابق ضرور پڑھے لکھے۔ ان کو شریعت اور فقہ سے کامل آگاہی تھی۔ حضرت رومی حنفی مسلک سے اور حضرت شمس شافعی مسلک سے جڑے تھے۔ حضرت شمس کی تحریروں کی کوئی خاص تاریخی اہمیت نہیں ہے، لیکن انھوں نے جو کچھ لکھا وہ اختصار کے ساتھ سیدھے الفاظ میں لکھا۔ ان کی تحاریر معلوماتی ہوتی ہیں۔
’’مقالات‘‘ کے مطابق حضرت شمس نے یہ چاہا کہ وہ دمشق کے بڑے قاضی شمس الدین قویٔ کے ہاں پڑھانے پر مامور ہو جائیں لیکن ناکام رہے اور اپنے طور پر لڑکوں کو پڑھانے لگے۔
جہاں تک حضرت شمس کی خانگی زندگی کا تعلق ہے، کسی کسی نے لکھا ہے کہ تبریز میں جب وہ جواں تھے، انھوں نے شادی بھی کی تھی اور ان کے ہاں اولاد بھی ہوئی تھی لیکن نہ تو اس کے بارے میں شواہد ملتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور معلومات۔ شمس نے اپنی عمر کا زیادہ عرصہ شہروں شہروں گشت کرنے میں صرف کیا۔ افلاکی کے مطابق انھوں نے بغداد، دمشق، علیپو، میقری، اقصارا، سواز، ارزرم اور ازرنقاں کے چکر لگائے۔ اپنی اس سیاحت کے دوران حضرت شمس نے ان علاقوں کے نامی گرامی عالموں کے حلقۂ درس میں شرکت کی، وعظ سنے۔
۱۲۰۴ء۔۱۲۰۲ء کے درمیان سیاحتوں کے دوران عین ممکن ہے کہ حضرت شمس کی علیک سلیک رہی ہو۔ مشہور اندلسی مسٹک تھیاسوفسٹ (Mystical Theosophist) اور اس وقت کی مشہور و معروف تصنیف (Maccan Revelations) کے مطابق شمس کی ملاقات دیگر عالموں کے علاوہ حضرت محی الدین ابن العربی سے ہوئی ہو۔ حضرت شمس کی تحریروں میں یہ نام یا اس نام کے مماثل کوئی نام ملتا ہے۔ حضرت شمس سخت تنقیدی مزاج کے مالک تھے۔ ان کے مطابق حضرت ابن العربی نے اپنے مرتبے کو ختمی مرتبت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے بلند تر بتانے کی بھول کی تھی۔ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضرت شمس نے ایک بزرگ بنام شیخ محمد سے اکتسابِ علم کیا۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان سے بہت کچھ سیکھا، لیکن بالآخر ان سے ان کا دل میلا ہوگیا۔ ان کے بارے میں بھی حضرت شمس کو وہی شکایت رہی کہ وہ خود کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرتبے سے اونچے مرتبے پر فائز سمجھنے کے خیالِ خام میں مبتلا تھے۔
حضرت شمس خود اپنے بارے میں کوئی فیصلہ کن رائے نہیں رکھتے تھے۔ وہ شریعت اور قانون کی راہ پر چلنے والوں میں شامل رہے بعد میں اہلِ طریقت اور اہلِ فقر کے گروہ میں شامل ہوئے لیکن حقیقت میں وہ دونوں گروہوں سے مطمئن نہ تھے کیوں کہ انھیں دونوں میں خوبیاں بھی دکھائی دیتی تھیں اور خامیاں بھی۔ حضرت شمس خود کیا تھے، یہ کسی پر ظاہر نہیں ہوتا تھا کیوں کہ وہ اپنی شخصیت کی گہرائیوں میں اﷲ تعالیٰ کے عطا کردہ روحانی اسرار کو مخفی رکھنے کے قائل تھے۔ ان کی سیاحت کے عقب میں کسی ایسے بندے کی تلاش تھی جس پر ان کے اسرارِ مخفی کھل جائیں اور اس میں اتنا ضبط ہو کہ وہ ان کو سنبھال سکے۔ بالآخر حضرت رومی کی شخصیت میں انھیں ایسا بندہ مل گیا۔ حضرت رومی سے ملنے سے قبل انھیں جو اہلِ علم اور اہل اﷲ ملے، وہ ان کے لیے کنکر پتھر جیسے تھے جب کہ حضرت رومی ہیرا تھے۔
حضرت شمس کے پیر و مرشد کے بارے میں مستند معلومات نہیں ملتیں۔ اردو کتابوں میں جو معلومات ملتی ہیں وہ مشکوک لگتی ہیں۔
انھوں نے کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ اویسی صوفی ہیں۔ سپہ سالار نے صاف صاف لکھا ہے کہ شمس لوگوں سے اپنے روحانی مقام اور مرتبے کو بھی پوشیدہ رکھتے تھے۔ سپہ سالار کے مطابق شمس سیاحت کے دوران سوداگروں کے بھیس میں رہتے تھے اور سوداگروں کے ساتھ سرایوں میں قیام کرتے اور معمولی سا کمرہ لیتے تھے۔ اس کمرے میں بڑا سا قفل لگاتے تھے جب کہ ان کے ساتھ مال و اسباب میں پھٹا پرانا بوریا وغیرہ ہوتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پیر، فقیر، درویش، صوفی یا کسی روحانیت کے حامل کے طور پر خلقِ خدا کے سامنے نہیں آنا چاہتے تھے۔ سوداگر، دنیا دار کا روپ دھارے رہتے تھے۔
حضرت شمس نے اپنی تحریروں (مقالات) میں اپنے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور صاف لفظوں میں لکھا ہے، لیکن ان کی بات عام فہم سے بالاتر رہتی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ وہ اپنے آپ سے تھک چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو کسی دوسرے میں دیکھیں۔ اس مسئلے کو ہی لیجیے، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے کہ آسانی سے سمجھ میں آسکے؟ یہ سارا مسئلہ داخلی ہے۔ حضرت شمس کی تلاش کا مقصود خارج سے تعلق نہیں رکھتا۔ اپنے آپ کو باہر نکالنا اور دیکھنا اگر ممکن ہو بھی تو انتہائی دشوار ہے کیوں کہ جو آدمی اپنے اندر کے آدمی کو دیکھنے میں اور پہچاننے میں کامیاب ہوتا ہے، وہ اﷲ تعالیٰ کو بھی دیکھنے اور پہچاننے میں کامیاب ہوتا ہے۔ حضرت شمس کی تحریروں سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اﷲ تعالیٰ کی معرفت کا مرحلہ کبھی کا طے کر لیا ہے۔ (بعض کتابوں میں یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ حضرت شمس پیدائشی ولی تھے) لیکن وہ اس کے خواہش مند تھے کہ انھیں کوئی ایسا فرد ملے جو اُن جیسا ہو اور وہ اس کو دیکھیں یا دوسرے لفظوں میں اس میں خود کو دیکھیں۔ اس معاملے کو آپ اور ہم مل کر اس طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۱۔ حضرت شمس نے اپنے اندر کے آدمی کو جان لیا اور پہچان لیا تھا۔
۲۔ اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے (الف) وہ اپنے اندرون میں اترے تھے
(ب) اپنے اندرون میں پہنچنے اور اپنے آپ کو پہچاننے کے بعد جب وہ باہر کی دنیا سے واسطے میں آئے تو کسی کو بھی اپنا نہ سکے اور محی الدین ابن العربی جیسے بڑے عالم، مفکر اور صوفی سے بھی متأثر نہیں ہوسکے۔ ’’حقیقت‘‘ کو پایا ہوا آدمی اگر یہ چاہے کہ ’’مجاز‘‘ میں لوٹ جائے تو اس کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ حضرت شمس یہی چاہتے رہے اور شہر شہر اسی مراد کے حصول کی تڑپ لیے گھومتے پھرے تاآنکہ قونیہ میں چاول فروشوں کی سرائے میں ان کی ملاقات حضرت رومی سے ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شکر فروشوں کی سرائے تھی۔
(ج) حضرت رومی عالم تھے، مفتی تھے، واعظ تھے، مدرس تھے لیکن ساتھ ہی وہ حقیقت کی آنچ کی پہنچ میں تھے۔ انھوں نے اپنے والد کے شاگرد المعروف بہ محقق کی مدد سے والد کی تصنیف ’’معارف‘‘ کے رموز و اسرار تک رسائی پا لی تھی اور غالباً ان کی مریدی بھی اختیار کر لی تھی۔ اُن کے اندر چھپی ہوئی شخصیت بھی اپنے آپ کو اپنے باہر کسی شخصیت میں خود کو دیکھنے اور پہچاننے کی متلاشی تھی۔
(د) عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی، عشقِ فلاطونی اور عشقِ جسمانی، عشقِ نرگسی کی اصطلاحات قدرے عام ہو کر شاید قابلِ فہم بھی ہو چکی ہیں، عشقِ روحانی قدرے عام نہیں ہے کیوں کہ یہ نکتہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔
کسی انسان کی روح اپنے آپ کو منواتی بھی ہے اور کسی ایسے فرد کی تلاش میں مصروف کر دیتی ہے جس کی اپنی روح اندر ہی اندر کسی رفیق کی منتظر ہو۔ یہی وہ مرحلہ ہے جو حضرت شمس اور حضرت رومی کے مابین پیش آیا اور ایک دنیا کو سات سو برس بعد بھی پوری طرح سمجھ میں نہ آسکا۔
ہندوستان میں حضرت نظام الدین اولیا اور حضرت امیر خسرو کے مابین محبت کی مثال سامنے آتی ہے لیکن حضرت شمس اور حضرت رومی والی بات نہیں ملتی۔
حضرت شمس نے ایک جانب حضرت رومی کے لیے لکھا ہے اگر اس شخص کی جگہ مجھے میرے اپنے مرحوم والد کو لوٹایا جائے تو مجھے قبول نہ ہوگا تو دوسری جانب حضرت شمس یہ بھی اعتراف کرنے سے نہیں جھجکتے کہ یہ شخص بھی پوری طرح اس شخص کے معیار پر نہیں آتا جس کی مجھے تلاش تھی۔
جہاں تک حضرت رومی کا تعلق ہے، وہ حضرت شمس سے محبت میں والہانہ اظہار کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بہرحال حضرت شمس نے حضرت رومی کو اپنے مثالی شاگر/ مرید کا مرتبہ دیا بغیر خرقہ پہنائے۔ حضرت شمس اور حضرت رومی کا رشتہ غیر رسمی لیکن بے حد شدید رہا۔
افضل اقبال (Afzal Iqbal) کے مطابق ’’۲۹؍نومبر ۱۲۴۴ء سے (حضرت) رومی کے اصل کا م کا آغاز ہوتا ہے، وہ کام جس نے ان کو لافانی بنا دیا۔‘‘ (ص ۔ ۹۳ )
سلطان ولاد (حضرت رومی کے فرزند) کے الفاظ میں ’’حضرت رومی کے لیے حضرت شمس کی جانب نظر کرنا ایسا ہی تھا جیسے سورج کو دیکھنا یا اﷲ تعالیٰ کا دیدار کرنا۔‘‘ (ص۔۹۴)
افضل اقبال کے لفظوں میں ’’حضرت شمس کو جاننے کا انوکھا تجربہ ریزروائیر (Reservoir) میں بند طاقت ور توانائی کو آزاد کرنے کے مترادف تھا۔ (ص ۔۹۴)
حضرت شمس اور حضرت رومی کی پہلی ملاقات قیاس آرائیوں کا موضوع بنی، اس وجہ سے کہ وہ دھماکا خیز اور حیران کن واقعے کی اساس پر قائم ہے۔ یوں بھی دو محبت کرنے والوں کی پہلی ملاقات ہوتی ہی اتنی اہم ہے کہ اس کو بیان کرنے والا کسی نہ کسی قسم کی خصوصیت دینے پر فطری طور پر مائل ہو ہی جاتا ہے۔
مندرجہ ذیل ملاقات ملاحظہ کیجیے۔ اس ملاقات کے راوی سلطان ولاد کے ایک ہم عصر صوفی ہیں جن کا نام ہے محی الدین عبدالقادر۔
حضرت رومی اپنے گھر میں کسی موضوع پر تقریر کر رہے تھے۔ ان کے قریب کتابیں پڑی تھیں۔ اچانک حضرت شمس وارد ہوئے اور گستاخانہ انداز میں پوچھا، یہ کیا ہیں؟ حضرت رومی نے درشت انداز میں جواب دیا۔ تم نہیں جانتے؟ اچانک کتابوں کو آگ نے پکڑ لیا۔ حضرت رومی حیران ہوگئے اور حضرت شمس سے سوال کیا، یہ کیا ہے؟ حضرت شمس نے جواب دیا، تم نہیں جانتے اور باہر چلے گئے۔ حضرت رومی حضرت شمس کے تعاقب میں گئے لیکن باہر وہ نہ ملے سکے۔ (ص۔ ۹۶)
ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ حضرت شمس، حضرت رومی کے گھر میں پانی کا ریلا (سیلاب) لے آتے ہیں۔ (ص۔۹۶)
پندرھویں صدی کے مصنف دولت شاہ لکھتے ہیں کہ دونوں کی ملاقات شکر فروشوں کی سرائے کے سامنے ہوئی جہاں حضرت شمس ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت شمس نے حضرت رومی سے یہ دیکھ کر کہ وہ اپنے کچھ طلبہ کے ساتھ وہاں سے گزر رہے ہیں، پوچھا، ’’دانش اور علم کا مقصود کیا ہے؟‘‘
’’نبیِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اتباع کرنا اور ان تک پہنچنا۔‘‘
’’یہ تو عام سی بات ہے۔‘‘ حضرت شمس نے کہا۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ حضرت رومی نے حضرت شمس سے علم کی ان کی اپنی تعریف دریافت کی جس پر حضرت شمس نے فرمایا، علم وہ ہے جو تمھیں اپنے مخزن (Source) تک لے جائے۔ آگے چل کر حضرت شمس نے سنائی کے حوالے سے کہا، ’’جہل اس علم سے بہت بہتر ہے جو تم کو اپنے آپ سے دور نہیں لے جاتا۔‘‘ دولت شاہ کے مطابق اس بات چیت نے حضرت رومی کو حضرت شمس کی شاگردی (مریدی) میں داخل کر دیا۔ (ص۔۹۶)
حضرت شمس کی مریدی/ شاگردی کا مطلب تھا کلّی طور پر مابعدالطبیعیاتی طور پر اپنے مرشد کا ہو جانا اور حضرت رومی نے یہ کر دکھایا۔
حضرت شمس کی ہر آزمائش پر حضرت رومی غالباً پورے اترے کیوں کہ ’’مقالات‘‘ میں حضرت شمس نے لکھا ہے کہ ماقبل قونیہ تلاش کے دوران ان کو ایک شیخ ملے تھے۔ ان کا نام احد الدین کرمانی تھا۔ حضرت شمس نے ان میں کچھ دیکھا اور ان کو قریب آنے دیا، لیکن وہ اپنے مریدوں اور شاگردوں سے بہت زیادہ جڑے ہوئے تھے۔ حضرت شمس نے ان کا امتحان لیا۔ ’’مقالات‘‘ میں تحریر ہے، احد الدین نے مجھ سے کہا کہ کیوں نہ میں اس کے گھر رہنے لگوں ۔ میں نے کہا، ’’اگر میں دو جام شراب منگوائوں ایک اپنے لیے اور ایک تمھارے لیے اور دورانِ سماع ان کو گردش میں لائوں جب کہ لوگوں کا مجمع ہو۔ اس نے کہا، ’میں یہ نہیں کر سکتا۔‘ اس کے جواب میں اس سے کہا، ’تم میری رفاقت کے لیے مناسب نہیں ہو ۔ تمھیں ایک ساغر کے لیے اپنے مریدوں اور شاگردوں، بلکہ پوری دنیا کو چھوڑ دینا پڑے گا۔‘ (ص۔۹۷)
Franklin Lewis -Rumi: Past and Persent, East and West p-155
یہ روایت بھی ملتی ہے کہ حضرت شمس نے حضرت رومی سے شراب طلب کی۔ حضرت رومی نے شراب منگوائی اور حضرت شمس کو پیش کر دی۔ انھوں نے شراب نہیں پی۔
حضرت شمس نے لکھا ہے کہ تابعداری تو ایک طفل سے بھی ممکن ہے، اس لیے وہ ظلم و زیادتی کے قائل ہیں۔ جس کو وہ اپنا بناتے اس کو آزار دیتے، جس کو اپناتے اس کو اپنی ملکیت بناتے۔ وہ (Possessive) بھی تھے اور چاہتے تھے جو ان کا ہو، وہ کسی اور کا نہ ہو، اپنے مریدوں کا بھی نہ ہو۔
قونیہ کے لوگوں کے لیے انتہائی مؤدب حضرت رومی اور انتہائی سخت گیر حضرت شمس کی جوڑی قطعی ناقابلِ فہم ہوگئی تھی۔ حضرت رومی کوئی طفلِ مکتب یا نوخیز نوجوان نہیں تھے۔ ان کی عمر سینتیس سال سے تجاوز کر گئی تھی۔ دوسری جانب حضرت شمس ساٹھ سے اوپر تھے۔ یہ کسی معمر استاد اور کم سن شاگرد کی رفاقت نہیں تھی جس سے ایک دنیا واقف تھی، اور ایک دنیا کے لیے قابلِ قبول بھی تھی۔ بقول افضل اقبال، حضرت رومی کی شاعری سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نظرو ں میں حضرت شمس کوئی مقدس وجود تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں ان کے سینے میں حضرت شمس کی محبت کی ایک چنگاری روشن ہوئی۔ حضرت شمس کی تحریروں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ خود وہ بھی حضرت رومی کی تابع داری سے حیران ہو جاتے تھے۔ مثال کے طور پر حضرت رومی جو اپنی جواں عمر زوجہ قرا خانم کو کسی سے ملنے جلنے نہیں دیتے تھے، حضرت شمس سے پردہ نہیں کرواتے تھے۔ وہ ان کے پاس کسی چھوٹی بچی کی مانند اس طرح بیٹھ جاتی تھیں جیسے کوئی بچی کھانا مانگنے اپنی ماں کے پاس آبیٹھتی ہے۔ (ص۔ ۹۹)
حضرت رومی کے بارے میں حضرت شمس کی تحریروں سے یہ حیران کن حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ حضرت شمس خود بھی واضح طور پر ظاہر کرنے کی حالت میں نہیں تھے کہ ان کے اور حضرت رومی کے معاملات کس نوعیت کے تھے اور وہ حضرت رومی کے لیے کیا کرنے میں مصروف تھے۔ کہیں وہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں کہ حضرت رومی ایسے ہی مذہبی اسکالر بن چکے ہیں جیسے ان کا مقام ہونا چاہیے یا ہونا ممکن تھا۔ کسی اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ وہ حضرت رومی کو ایک آدرشی روحانی شخصیت میں ڈھال رہے ہیں۔ ایسی جھلک بھی ملتی ہے کہ وہ مالک اور حضرت رومی ان کے ہاتھ میں کاٹھ کی پتلی ہیں۔
دونوں اصحاب کی تحریروں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت شمس آفتاب تھے اور حضرت رومی ماہتاب جو سورج کی تجلّی سے منوّر ہوتا ہے۔ دیکھنے والے آفتاب کو دیر تک دیکھنے کی تاب نہ لاسکتے۔ جب کہ چاند پر تادیر نگاہیں مرکوز کر سکتے تھے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ حضرت شمس، حضرت رومی کو خلقِ خدا تک اپنی روحانیت پہنچانے کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے اور اس نظریے کے مطابق ان کو ڈھالنے، بنانے اور برتنے میں مصروف تھے۔ یہی دونوں کے باہمی رشتے کی اساس اور کلید تھی۔ حضرت رومی کا ایک روایتی عالم سے اونچا اٹھ کر روایت شکن مسٹک کی صورت میں دنیا کے سامنے آنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا۔ اس کے عقب میں حضرت شمس کی روحانی عظمت، جلال و کمال اور اس کی مخفی و ظاہر توانائیاں کارفرما تھیں۔ حضرت شمس کی نظروں میں حضرت رومی کا علم اور قوانینِ شریعت، فقہ وغیرہ میں کمال ان کے نہ تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ بن رہا تھا۔ اس کے برعکس حضرت رومی کا یہ علم ان کے لیے روحانی سفر میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ حضرت شمس نے حضرت رومی کو اس رکاوٹ سے چھٹکارا دلا کر ان کی منزل آسان کی۔ جہاں تک حضرت رومی کا تعلق ہے، لگتا تو یہی ہے کہ وہ بھی علومِ ظاہری سے بیزار ہو چکے تھے اور اس کے علاوہ وہ اپنی ’’انا‘‘ کو بھی ختم کرنے کے درپے تھے۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ حضرت شمس، حضرت رومی کو عام مولانائوں کے رستے سے ہٹا کر ایک ایسے رستے پر لے گئے جو الگ ہی راستہ تھا اور ہنوز پامال نہ ہوسکا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حضرت شمس نے حضرت رومی کے ساتھ جو کیا اور کر رہے تھے، وہ بھی سرِمخفی بنا رہا اور آج تک ہے۔ البتہ باتیں بنانے والوں نے مثبت اور منفی دونوں انداز کی باتیں بنائیں اور بنارہے ہیں۔ حضرت شمس اور حضرت رومی ایک دوسرے میں ایسے گم ہوئے کہ جیسے دنیا میں صرف وہی وہ تھے، کوئی دوسرا نہ تھا۔ حقیقت اس سے مختلف تھی۔ دنیا موجود تھی۔ عصری سماج تھا، لوگ تھے اور حضرت رومی کے شاگرد تھے، مدرسہ تھا اور مدرسے کے معمولات تھے۔ حضرت رومی کا گھر تھا، خانوادہ تھا، اولاد تھی، ملنے جلنے والے تھے، دنیا تھی اور اپنے آپ کو منوانے میں ہمہ وقت مصروف تھی۔ دنیا کے طور طریقے میں منفی عوامل بھی ہوتے ہیں۔ ان منفی عوامل میں حسد، جلن، بغض، کینہ، نفرت، ظلم، جبر، شدت پسندی، ناپسندیدہ لوگوں کو راستے سے دور کرنا بھی شامل ہے۔ ان میں سے کیا کیا کچھ حضرت شمس اور حضرت رومی کے تعلقات کے خلاف متحرک ہوا اور ہو رہا تھا، اس کا قیاس کیا جاسکتا ہے۔
حضرت شمس کی نظروں میں سماع اور اس کی ساتھ شاعری اور ہلکی موسیقی اور حالتِ وجد اور حال میں جسمانی اعضا کی حرکات، ’’گردشِ ابدان‘‘ شرعاً ممنوع نہیں تھے جب کہ اس کا مقصود اپنی انا کو مٹانا اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کی قربت سے مشرف ہونا ہوگا۔ اپنے اس مؤقف کو وہ حضرت رومی تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ دیگر معاملات کے علاوہ سماع سے متعلق مؤقف عصر کے علمائے شریعت کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔ (ص۔ ۱۰۱، ۱۰۳)
ایک اور واقعے کا ذکر ملتا ہے جس سے علمائے وقت حضرت شمس سے متنفر اور مخالف ہوگئے ہوں گے۔ اس واقعے کا ذکر چند ایک سیرت نگاروں (Hagiographers) کی تحریروں میں ملتا ہے۔ ایک خاصے بڑے مذہبی نوعیت کے جلسے میں حضرت شمس بھی حضرت رومی کے ساتھ شریک ہوئے۔ اس جلسے میں علمائے وقت نے لمبی لمبی تقریریں کیں۔ اس جلسے میں علما (حسبِ رواج، آج بھی وہی دستور اور رواج جاری ہے) علمائے سابق اور اولیائے معروف کے اقوال سنا کر اپنی خطابت کا رنگ جما رہے تھے۔ جلسہ طول پکڑ گیا اور حضرت شمس جو اس طریقۂ کار سے بیزار رہتے تھے، اپنے آپ پر قابو نہ پاسکے، کھڑے ہوگئے اور بولے، یہ جو آپ لوگ مسلسل دوسروں کے اقوال سنائے جارہے ہیں، اپنی بات کب کہیں گے وغیرہ وغیرہ۔ حضرت شمس کا برسرِعام علما کو ٹوکنا اور جلسے کے نظم و ضبط کا خیال نہ رکھنا علما، منتظمینِ جلسہ اور حاضرینِ جلسہ کو سخت ناپسند ہوا۔ (ص۔۱۰۳)
حضرت شمس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہوا اور کرایا گیا کہ وہ طلبہ کو حضرت رومی سے اپنی اجازت لے کر ملنے پر مجبور کرتے تھے۔ ان کی اجازت لیے بغیر کوئی طالبِ علم حضرت رومی سے ملنے کا مجاز نہیں تھا۔ یہ بھی مشہور کرا دیا گیا تھا کہ وہ اس ضمن میں طلبہ سے نذرانے اور تحفے وصول کرتے تھے۔
طلبہ حضرت شمس سے بیزار ہونے میں حق بجانب تھے کہ حضرت شمس ان کے عزیز استاد اور ان کے درمیان حائل ہوگئے تھے۔ وہ ممکن ہے، اس سبب سے بھی ناراض ہوں کہ ان کے استاد جو پہلے سماع کے خلاف تھے، محض حضرت شمس کے زیرِ اثر ’سماع‘ کے عادی ہوتے جارہے تھے اور اس طرح ان کے استاد علمائے شریعت کی مخالفت مول لے رہے تھے۔ یہ بھی کسی کسی سیرت نگار نے لکھا ہے کہ طلبہ نے حضرت شمس کے خلاف درخواست بھی پیش کی تھی۔ البتہ حکومتِ وقت کا اس ضمن میں کوئی اقدام سامنے نہیں آتا۔ (ص۔ ۱۰۳)
حضرت شمس اور حضرت رومی کی رفاقت کے نامقبول ہونے کا سبب یہ بھی تھا کہ خود حضرت شمس ایک درویش اور عوامی مزاج کے آدمی تھے، دکان داروں میں جا بیٹھتے تھے، عوامی حماموں میں چلے جاتے تھے اور لباس بھی عالموں اور واعظوں جیسا زیب تن نہیں کرتے تھے۔ اس زمانے میں عالموں، واعظوں اور اساتذہ کا شمار طبقۂ اعلیٰ (اشرافیہ کہنے کو جی نہیں چاہتا) میں ہوتا تھا۔ چناں چہ حضرت شمس جو عوامی رنگ میں رنگے ہوئے تھے، ان کو اس طبقے میں شریک کرنا یا ان کی گنجائش پیدا کرنا حضرت رومی کے بس کی بات نہیں تھی۔ حضرت رومی کی نظروں میں حضرت شمس کا مرتبہ علمائے وقت میں سب سے ممتاز تھا لیکن ظاہر پرستوں کو قائل کرنا حضرت رومی کے لیے ممکن نہ تھا۔
Afzal Iqbal, The Life and Work of Jalaluddin Rumi p-115
حضرت شمس ۱۲۴۶ء کے موسم بہار میں قونیہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے اس طرح چلے جانے کے اسباب پردئہ اخفا میں رہے۔ حضرت رومی کا یہ فقرہ لکھا ملتا ہے، ’’آپ میرے گھر کی روشنی ہو۔ مجھے تنہا چھوڑ کر نہیں جائیے۔‘‘ (ص۔ ۱۰۵)
سپہ سالار کے مطابق حضرت شمس کے قونیہ سے جانے کا سبب حضرت رومی کے طلبہ کا ان سے اختلاف تھا۔ حضرت رومی کا خیال بھی قریب قریب یہی معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال حضرت شمس نے اپنا کام کر دکھایا تھا، ایک عظیم دانش ور کو عظیم مسٹک بنا دینے کا کام۔
حضرت شمس تبریزی کا قونیہ سے سیریا چلے جانا ایک موضوع ہے۔ اگر حضرت شمس کے جانے کے اسباب پر غور کریں تو مندرجہ ذیل نکات دعوتِ فکر دیتے ہوئے ملتے ہیں:
۱۔ حضرت رومی کے طلبہ کی حضرت شمس سے بیزاری اور مخالفانہ روش۔
۲۔ قونیہ کے مذہبی اور اہلِ شریعت علما کی حضرت شمس سے بیزاری اور مخالفانہ روش۔
۳۔ بھرے جلسے میں حضرت شمس کا عالموں کو ٹوکنا۔
۴۔ سماع، وجدانی رقص نما حرکات اور موسیقی و شاعری کے راستے پر حضرت رومی کو چلانے کا قصور۔
جب اس موضوع کو صرف اور صرف حضرت شمس کی ذات تک محدود کیا جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
۱۔ حضرت شمس نے حضرت رومی کی جانب اپنے قلبی، ذہنی اور روحانی جھکائو کو نامناسب حد تک یا غیر ضروری حد تک بڑھتا ہوا محسوس کیا۔
۲۔ حضرت شمس نے حضرت رومی کی وفاداری کو آزمانا چاہا۔
۳۔ حضرت شمس نے حضرت رومی سے جدا ہونے کو حضرت رومی کے لیے فائدہ مند محسوس کیا۔
۴۔ حضرت شمس نے اپنے قونیہ سے چلے جانے کو اپنے اور حضرت رومی دونوں کے حق میں مفید جانا۔
۵۔ بقول فرینکلن لیوس ’’شمسِ پارندہ اور شمسِ طیران‘‘، حضرت شمس تبریز کے القاب رہ چکے تھے۔ اس سبب سے ان کی سیلانی طبیعت نے ان کو قونیہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
۶۔ حضرت شمس تبریز عام آدمی نہیں تھے، وہ ان لوگوں میں سے تھے جو Gnostics ناسٹک یا طائر کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی مقام پر تادیر قیام نہیں کرتے اور اچانک غائب ہو جاتے ہیں۔
۷۔ راہِ سلوک میں ’جدائی‘ اگلے اور بلند تر مرحلے تک پہنچنے کا زینہ ہے۔
۸۔ حضرت رومی کے ایک سوانح نگار محمد علی مواحد نے اوپر درج کیے ہوئے نکتہ نمبر دو پر زور دیا ہے اور لکھا ہے کہ شمس کو حضرت رومی کا امتحان مقصود تھا۔
"Life after Love:"
The Departure of Shmas p-107
حضرت شمس کا اچانک چھوڑ جانا، حضرت رومی کے لیے ایک سانحۂ عظیم سے کم نہ تھا۔ ان کی زندگی میں ایسا خلا پیدا ہوا جس کو طلبہ نے، اہلِ خانوادہ بلکہ دیکھا جائے تو قونیہ شہر کے ان سب لوگوں نے جو حضرت رومی سے کسی بھی طور سے وابستہ تھے، محسوس کیا۔ جہاں تک طلبہ کا معاملہ ہے، لزلی وائنس نے لکھا ہے کہ حضرت رومی کے احساسات میں شدت کی تلخی پیدا ہوگئی تھی۔ لزلی وائنس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ طلبہ حضرت شمس اور حضرت رومی کے ایک دوسرے سے وابستگی اور حضرت رومی کی سماع سے بڑھتی ہوئی دل چسپی کے مسئلے میں تقسیم ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود بادی النظر میں یہ ممکن نہ تھا کہ حضرت شمس قونیہ لوٹ آئیں گے، لیکن وہ آئے یا لائے گئے۔ ان کا شان دار استقبال بھی ہوا۔
ہوا یوں کہ حضرت رومی کو حضرت شمس کا ایک خط ملا جو سیریا سے بھیجا گیا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت رومی نے ایک سے زائد خطوط روانہ کیے لیکن حضرت شمس کا مزید کوئی خط نہیں آیا۔ حضرت رومی نے اپنے بیٹے سلطان ولاد کو حضرت شمس کو واپس لانے کے لیے روانہ کیا۔ چند طلبہ نے کچھ سونے، چاندی کے سکے حضرت شمس کے لیے بطورِ نذرانہ بھجوائے۔ دمشق میں حضرت شمس عام لوگوں کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے مل گئے (اس زمانے میں مسلمان ممالک میں لوک کلچر کے تحت شہروں میں چوک، چوک شطرنج کی بساط بچھی رہتی تھی۔ لوگ کچھ وقت ایک دو چالیں کھیل کر اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہو جاتے تھے)۔ حضرت شمس واپس قونیہ چلنے کے لیے راضی ہوگئے۔ البتہ سونے چاندی کے سکے یہ کہہ کر قبول نہیں کیے، ’’حضرت رومی سے ملنے جا رہا ہوں۔ ان کے آگے ان سکوں کی کیا حقیقت ہے۔‘‘ کسی سیرت نگار نے یہ لکھا ہے کہ وہ دونوں فوری روانہ نہیں ہوئے بلکہ کچھ عرصہ دمشق میں قیام کیا اور سماع کی محافل جمائیں۔ ایسا ممکن نہیں لگتا کیوں کہ سلطان ولاد فطری طور پر حضرت شمس کو جلد سے جلد قونیہ واپس لانا چاہیں گے نہ کہ وہاں سماع کی محفلوں کا انعقاد کرنا۔ طلبہ کا سکے بھجوانا بھی ان کی کوئی چال ہو جو ناکام رہی۔
سلطان ولاد کے اپنے بیان کے مطابق قونیہ واپسی کے سفر کے دوران حضرت شمس گھوڑے پر اور وہ خود پیدل تھے۔
اگرچہ کسی بھی لکھنے والے نے یہ سوال نہ اٹھا کر ہمیں حیران ہونے کا موقع دیا ہے کہ حضرت شمس نے قونیہ سے غائب ہونے کے بعد حضرت رومی کو خط کیوں لکھا؟ آئیے ہم خود ہی اس مسئلے پر تھوڑا لائوڈ تھنکنگ(Loud Thinking) کر لیں۔
۱۔ قونیہ چھوڑنے کے بعد انھیں اس شہر کی قدر آئی۔
۲۔ حضرت رومی سے کچھ کہے سنے بغیر قونیہ سے جانے پر ان کو ندامت ہوئی۔
۳۔ حضرت شمس خط بھیج کر حضرت رومی کا ردِعمل دیکھنا چاہتے ہوں گے۔
۴۔ وہ یہ بھی جانچنا چاہتے ہوں گے، آیا حضرت رومی ان سے کوئی سمبندھ رکھنے میں کس حد تک مخلص ہیں۔
۵۔ یہ بھی ممکن ہے وہ اپنی باوقار واپسی کی کوئی سبیل نکالنا چاہتے ہوں۔
۶۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت شمس نے یہ محسوس کر لیا ہو کہ حضرت رومی کے بغیر ان کی اپنی شخصیت ادھوری ہوگئی۔
ہمارے پیشِ نظر سیّد حسین نصر کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’Islamic Spiritulity اور اس کے علاوہ ولیم سی چٹک (William C. Chittick) کی تحاریر ہیں جن کے مطابق حضرت شمس، حضرت رومی کی جانب کسی خواب کی اساس پر گئے۔ ولیم سی چٹک نے ان کے ملنے کو دودھ اور شکر کا ملنا کہا ہے۔ اس نے مولانا رومی کے حوالے سے لکھا ہے کہ مولانا نے اپنے آپ کو وہ غواص سوداگر بتایا ہے جنھوں نے اپنے خواب میں ایک موتی دیکھا جو ان کے اور حضرت شمس کے درمیان ہے۔
ولیم سی چٹک نے حضرت شمس اور مولانا رومی کے مابین مرشد اور مرید کے رشتے کی نفی کی ہے۔ حضرت شمس نے لکھا ہے، ’’اﷲ تعالیٰ نے کوئی ایسا آدمی زمین پر نہیں اتارا جو مولانا کا شیخ بنے۔ نہ ہی میں ایسا ہوں جو مرید بنے۔ میں اس مرحلے سے آگے نکل چکا ہوں۔ (مقالات۔ ۳۳)
حضرت شمس نے یہ بھی تحریر کیا ہے، ’’میں اچھی طرح باتیں کرتا ہوں، اپنے اندر شیریں گفتاری سے۔ میں روشن ہوں اور دمکتا ہوں۔ میں پانی تھا، ساکت ٹھہرا ہوا، اپنے اندر چکر کھاتا ہوا اور قریب تھا کہ متعفن ہو جاتا کہ مولانا کی موجودگی مجھ سے ٹکرائی تب پانی مواج ہوا اور بہے جا رہا ہے۔ میٹھا، تازہ اور خوش گوار۔ (مقالات ۴۶۔۲۴۵)
"Rumi and the Mawlawiyah"
(Sub heading: Shams-i-Tabrizi)
By William C. Chittick
مجھے یقین ہے کہ ولیم سی چٹک یہ بات روانی میں لکھ گئے کہ حضرت شمس اور حضرت رومی دونوں ایک دوسرے کے زیرِ اثر ایک سی تبدیلیوں سے دوچار ہوئے۔ میں تو یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کروں گا کہ حضرت شمس سے ملاقات کے ساتھ ہی حضرت رومی کی قلبِ ماہیت ہوگئی۔ وہ ایک نوع کے ’میٹامورفوسس‘ (Metamorphosis) سے دوچار ہوئے— حضرت رومی کی روحانی شخصیت کی تشکیل اور تکمیل۔ اس ایک دُھن کے سوا حضرت شمس کے پیشِ نظر کوئی اور مقصد نہ تھا۔ اس مقصد کے تحت ایک جانب وہ زیادہ سے زیادہ وقت حضرت رومی کے ساتھ گزارتے تھے تو دوسری جانب ان سے گاہے گاہے جدا بھی ہونا چاہتے تھے۔ (حضرت شمس لکھتے ہیں، ’’میں اس حالت میں نہیں ہوں کہ تمھیں سفر پر جانے کا حکم دوں، لہٰذا میں ہی تم سے دور جانے پر مجبور ہوں گا، تمھاری ترقی کی خاطر کیوں کہ جدائی آدمی کو سمجھ دار بناتی ہے۔‘‘ (صفحہ ۱۶۹)
Lewis: Rumi: Past and Present, East and West
سپہ سالار کے مطابق حضرت شمس نے قونیہ واپس آنے کے بعد ۱۲۴۷ء کے موسمِ سرما میں حضرت رومی سے ’’کیمیا‘‘ سے نکاح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت رومی نے ان کی شادی کیمیا سے کروا دی۔ کیمیا کو حضرت رومی نے اپنی متبنٰی بیٹی بنا رکھا تھا۔ حضرت شمس اس طرح حضرت رومی کے رشتے دار بن گئے اور حضرت رومی کے گھر کے ایک حجرے میں رہنے لگے۔ یہ قرینِ قیاس نہیں ہے کہ حضرت شمس نے کیمیا کا ہاتھ مانگا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ حضرت رومی نے حضرت شمس کو ان کی سیلانی طبیعت سے نجات دلانے کے لیے حضرت شمس کا نکاح کیمیا سے کروایا ہوگا۔ کیمیا جلد ہی وفات پاگئی۔ اس کی بیماری کا پتا نہ چل سکا۔ مشہور ہوا کہ وہ کسی باغ میں تنہا گئی تھی اور باغ سے واپسی پر بیمار پڑی اور چل بسی۔
حضرت شمس کی قونیہ واپسی کے بعد حضرت شمس کے خلاف فضا اور ماحول مزید ہی نہیں بلکہ شدید تر ہونے لگا۔ حضرت رومی نے پروفیسرانہ (اس زمانے کے رواج کے مطابق) گائون پہننا یکسر ترک کر دیا۔ طلبہ کو سخت ناگوار ہوا۔ افضل اقبال کے مطابق حضرت شمس کے خلاف افواہیں اڑنے لگیں کہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق زندگی نہیں گزارتے۔ دوسری جانب طلبہ کو یہ محسوس ہوا کہ حضرت رومی، حضرت شمس کو اپنے ’آقا‘ کا درجہ دے رہے تھے۔ قونیہ واپسی کے بعد حضرت شمس بہت کم مدت قونیہ میں قیام کر سکے اور ایک دن اچانک غائب ہوگئے۔ قونیہ میں طلبہ ان کے خلاف تو تھے ہی، قونیہ کے اکابر علما بھی ان کے خلاف ہوگئے۔ افضل اقبال نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ حضرت شمس مذکورہ علما سے بہت زیادہ پڑھے لکھے دانش ور تھے لیکن وہ اپنے اظہار کو عالموں جیسا نہیں رکھتے تھے۔ قونیہ کے عالموں نے ان کی اس روش سے فائدہ اٹھایا اور ان کے خلاف مہم چلائی۔ حضرت شمس اپنی باطنی قوت، روحانی توانائی، اور پراسرار ودیعتوں کو مخفی رکھنے والے ملامتیہ صوفی تھے۔ وہ اگر چاہتے تو اپنی کوئی کرامت دکھا کر سب کو اپنا گرویدہ بنا لیتے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے ایک کو منتخب کیا اور اس ایک کی روحانی تعمیر، تشکیل اور ترقی کو اپنا نصب العین بنا لیا۔ کسی اور سے کوئی خاص تعلق نہیں رکھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اپنے باہر کسی ایسے کو پائیں جس کو وہ خود تسلیم کریں کہ یہ کوئی اور نہیں خود ان کا خارجی وجود ہے۔ افضل اقبال نے اس روایت کا بھی ذکر کیا ہے کہ غیب سے حضرت شمس سے سوال کیا گیا، ’’اگر کوئی ایسا پالو تو کیا دو گے؟‘‘ ان کے اندر والے نے جواب دیا ’’اپنا سر‘‘۔
یہ روایت کہ حضرت شمس کے پیرومرشد بابا کمال الدین جندی نے انھیں حکم دیا کہ روم جائو اور حضرت رومی کو گرما آئو، خاصی کم زور روایت لگتی ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملتے جن سے ثابت ہو کہ حضرت شمس کسی بابا کمال الدین جندی کے مرید تھے۔
حضرت شمس نے اپنی روحانیت کے ایک تھپیڑے سے اس بند میں چھوٹے بڑے رخنے ڈال دیے جس نے حضرت رومی کے اندر موجود ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا کو برسوں سے روک رکھا تھا۔ یہ سب انجام دینے کے بعد حضرت شمس منظر سے غائب ہوگئے۔ غائب ہونے سے قبل حضرت شمس نے ایک جانے مانے اور جید عالم ملاّ کو صوفی بزرگ، درویش بظاہر عشقِ مجازی میں گرفتار اور بباطن عشقِ حقیقی میں سرشار، سماع اور موسیقی کی صوتیاتی طہارت کو مابعد الطبیعیاتی رفعتوں سے ہم کنار کرنے والا عظیم شاعر بنا دیا، جس کی مثنوی کو جامی نے اپنے ’’ہست قران ور زبانِ پہلوی‘‘ کے فقرے سے الوہیت اور تقدیس کا تاج پہنایا۔ جس کی مثنوی اور دیوانِ غزلیات میں پچاس ہزار اشعار ہیں (شاعری کی دنیا میں شاید ہی کسی زبان میں، کسی شاعر نے اتنے اشعار تخلیق کیے ہوں گے)۔ شاعری بھی ایسی کہ آٹھ سو برس سے اپنے پڑھنے والوں کو پکڑے ہوئے ہے۔ پڑھنے والوں کا تعلق ملکوں ملکوں اور ان گنت لسانی اور تہذیبی، معاشرتی اکائیوں سے ہے۔
حضرت شمس کے قونیہ سے اچانک چلے جانے اور لاپتا ہو جانے کی ایک توجیہہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے طور پر یہ محسوس کر لیا کہ ان کا کام ختم ہوچکا ہے اور انھیں چپ چاپ چلے جانا چاہیے۔ ایک اور توجیہہ بھی ہمارے سامنے آتی ہے جو زیادہ مستحکم اور قرینِ قیاس بھی زیادہ ہے۔ وہ توجیہہ یہ ہے کہ خواب، الہام یا کسی غیبی اشارے کے بموجب حضرت شمس قونیہ سے غائب ہوگئے ہوں۔ اس مرتبہ کسی مختلف سمت انھوں نے اپنا سفر اختیار کیا ہو۔ جہاں تک دمشق اور اس کے اکناف کا تعلق ہے، حضرت رومی بذاتِ خود دو مرتبہ ان کی تلاش میں گئے اور ناکام واپس آئے۔
ممتاز نقاد فاطمہ کشوارز (Fatemah Keshawarz) کے مطابق ’’حضرت شمس نے حضرت رومی کے (اندر خوابیدہ) رہ نورد کو بیدار کر دیا، جس کو چھٹکارا پانا تھا عقلی اور قیاس اساسی علم سے، نئے افقوں کو تلاشنے۔ اگر حضرت شمس سے دوچار ہونا حضرت رومی کے لیے آزادی اور آگہی کا تجربہ تھا تو درویش سے محروم ہو جانا نقصانِ عظیم تھا، شکستگیِ قلب کی صورت میں جس کو شدید کر دیا تھا اس امکان نے کہ حضرت شمس کو قتل کیا تھا، ان کے اپنے ایک بیٹے نے۔‘‘
فرینکلن لیوس کا مؤقف یہ ہے کہ حضرت شمس اور علاء الدین عاشقی میں ایک دوسرے کے حریف تھے۔ ایسا سوچنا قیاس کو انتہا تک پہنچانے کے مترادف ہے لیکن علاء الدین کی (حضرت) شمس سے شدید نفرت کا نفسیاتی اور ڈرامائی اظہارمانا جاسکتا ہے۔ تاہم لیوس نے اس کا رشتہ (حضرت) شمس کے قونیہ سے چلے جانے سے جوڑا ہے۔
افلاکی اور گوپی نرلی دونوں اس نظریے کے حامی ہیں کہ حضرت شمس قونیہ سے کہیں نہیں گئے بلکہ مارے گئے۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ حضرت شمس کو قتل کیا گیا تو لازمی طور پر یہ سوال سامنے آئے گا کہ قاتل کون ہوسکتا ہے؟
فاطمہ کشوارز نے صاف صاف الزام لگا دیا ہے کہ حضرت شمس کو حضرت رومی کے بیٹے (علاء الدین) نے قتل کیا تھا۔
مختلف شواہد اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ حضرت شمس کے خلاف سازشی طالب علموں کے علاوہ ایک اور ٹولہ تھا جو حضرت شمس کے خوف ناک دشمنوں پر مشتمل تھا جس کی سرکردگی حضرت رومی کے اپنے بیٹے علاء الدین کے ہاتھوں میں تھی (علاء الدین، حضرت رومی کی پہلی بیگم کا چھوٹا بیٹا تھا)۔
دوسری جانب حضرت رومی کے بیٹے سلطان ولاد حضرت رومی کے وفادار طالب علموں کی قیادت کر رہے تھے۔
حضرت شمس کے غائب ہونے کے فوری بعد علاء الدین قونیہ سے باہر چلا گیا۔ جب قونیہ میں حضرت شمس کے قونیہ سے چلے جانے یا قتل کیے جانے پر تحقیقات کا آغاز ہوا تو حضرت رومی نے اپنے بیٹے کو خطوط لکھے۔ ان خطوط میں حضرت رومی نے بیٹے پر زور دیا کہ وہ قونیہ واپس آئے اور اپنے خلاف تحقیقات کا سامنا کرے۔ حضرت رومی نے اسے یقین دلایا کہ وہ بری ہو جائے گا لیکن علاء الدین نے اپنے والد کے کہنے پر عمل نہیں کیا۔
کیمیا حضرت رومی کی منہ بولی بیٹی ہونے کے ناتے علاء الدین کی بہن بن گئی تھی۔ اس کا نکاح اگر ازروئے شریعت جائز بھی ہو معاشرے کے لیے نامقبول تھا۔
حضرت شمس نے علاء الدین کو اس حرکت پر پھٹکارا تھا کہ وہ بغیر کسی مجبوری کے ان کے حجرے کے سامنے سے گزرا تھا۔ علاء الدین ایسی حرکت محض حضرت شمس اور کیمیا کے مابین تفاوت عمری کی اساس پر حضرت شمس سے چھیڑخانی کرنے کی نیت سے کر سکتا تھا کیوں کہ ایسا دستور بھی تھا (بڑی عمر کے دلھا کو چھکانے)۔ بہرحال علاء الدین معمولی سی پھٹکار پر حضرت شمس کو قتل کرنے کے لیے سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
افلاکی کے اس موضوع پر دو بیانات ملتے ہیں۔
۱۔ حضرت شمس، حضرت رومی کے گھر تشریف فرما تھے۔ دروازے کی کنڈی کھٹکھٹانے کی آواز آتی ہے۔ حضرت شمس، حضرت رومی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں، ’’وہ مجھے بلا رہے ہیں قتل کرنے کے لیے‘‘ اور باہر جاتے ہیں۔ سات طالب علم باہر کھڑے ہوئے ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت شمس کو چھرا گھونپ کر قتل کر دیتا ہے۔ اس واردات کے بعد ساتوں بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ جب ان کے اوسان بحال ہوتے ہیں تو انھیں خون کے چند قطرے پڑے ہوئے ملتے ہیں۔ افلاکی کے بیان کے مطابق ایک آدمی نے حضرت شمس کو گرتے پڑتے زخمی حالت میں وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس مرحلے پر یہ مسئلہ سامنے آتا ہے کہ اس دوران میں حضرت رومی گھر کے اندر لاتعلقی سے تشریف فرما رہے؟
افلاکی نے اپنا بیانیہ سلطان ولاد کے حوالے سے پیش کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ قاتلوں نے حضرت شمس کے جسدِ مبارک کو ایک قریبی اندھے کنویں میں پھینک دیا تھا۔
افلاکی کا متبادل نظریہ:
افلاکی نے سلطان ولاد کی بیگم فاطمہ خانم کے حوالے سے یہ نظریہ پیش کیا کہ حضرت شمس اس کے شوہر سلطان ولاد کے خواب میں تشریف لائے اور اپنے جسدِ خاکی کی جگہ بتائی (اس نشان دہی کے بعد حضرت شمس کے جسد کو کنویں سے باہر نکال کر کفن پہنا کر مدرسے کے احاطے میں خاموشی سے ایک گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔ ان معلومات کے سلسلے میں افلاکی نے فاطمہ خانم کے بیٹے حضرت ابوالعاف چلیپی کا حوالہ دیا ہے۔
حضرت رومی کو حضرت شمس کے قتل کیے جانے کا معاملہ معلوم ہوگیا تھا، اگرچہ بڑی تاخیر سے۔ انھوں نے بھی اس پر اظہارِ خیال نہ ہی کرنا مناسب خیال کیا۔ شاید حضرت کا اتباع کرتے ہوئے سپہ سالار اور سلطان ولاد نے اس واقعے کو لکھنے سے احتراز کیا۔ سلطان ولاد نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ حضرت شمس ممکن ہے کہ قتل کیے گئے ہوں۔ اس کا اشارہ زیادہ تر قونیہ سے چلے جانے کی جانب ہی رہا ہے۔ افضل اقبال اور فرینکلن لیوس کے خیال میں سلطان ولاد ہی وہ سوانح نگار ہے جن کا تعلق حضرت رومی کے عہد سے ہے۔ فرینکلن لیوس نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ قتل کے نظریے کو تسلیم کرنے کے لیے لاش کی ضرورت پڑتی ہے۔
این میری شمل کے مطابق قونیہ میں حضرت رومی کے مدرسے کے احاطے کی تازہ کھدائیوں کے دوران جو باقیات دریافت ہوئیں وہ ہو نہ ہو حضرت شمس کی ہیں۔
باقیات کی اس طویل مدتی دریافت نے بھی قیاسات کے در بند نہیں کیے۔ نہ تو حضرت شمس کے غائب ہونے کا معاملہ واضح ہوا اور نہ قتل کیے جانے کا۔ قاتل کون ہو سکتا ہے، جواب میں بھی الجھنیں دور ہونے کا نام نہیں لیتیں بلکہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ مدرسے کی انتظامیہ بھی تحقیقات کو کسی قابلِ تسلیم نتیجے تک پہنچانے میں ناکام رہتی ہے۔ حضرت رومی کے بلانے پر بھی ان کے صاحب زادے علاء الدین جو اس قتل کے سانحے کے فوری بعد قونیہ سے باہر چلے گئے تھے، واپس آکر تحقیقات کا سامنا کرنے سے گریز کرتے رہے۔
ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ حضرت رومی، علاء الدین کو حضرت شمس کا قاتل مان لیتے ہیں۔ وہ فوت ہوتا ہے تو اس کے جنازے میں شریک نہیں ہوتے اور اس کی قبر پر مذمت کا کتبہ نصب کروانے سے بدقت اپنے آپ کو بازر رکھتے ہیں۔
ترک مصنف اذن فردوسی دراز (Uzun Ferdowsi Deraz) حکایات کے ایک مجموعے کا حوالہ دیتا ہے جو اس نے یکتاش درویشوں کے بارے میں جمع کی تھیں۔ اس مجموعے کا تعلق ۱۵۰۰ء سے ہے۔ اس کی ایک حکایت کی رُو سے (اگر اس حکایت کو حضرت شمس کے قتل کے سانحے پر منطبق کیا جائے) علاء الدین کی جگہ سلطان ولاد کو قاتل گردانا گیا ہے جو ازحد حیران کن ہے۔ سلطان ولاد سے اپنے خاندان کی رسوائی برداشت نہیں ہوتی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوتا ہے کہ اس کے والد پر حضرت شمس کی رفاقت کے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سماع کی محفلوں میں خواتین کو شرکت کی اجازت دیے جانے سے وہ بے حد برہم تھا۔ لوگوں میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ جب سلطان ولاد حضرت شمس کا سر قلم کرتا ہے تو حضرت شمس اپنے سر کو اپنے ہاتھ میں لے کر سماع کے انداز میں رقص کرتے ہوئے تبریز کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔
حضرت شمس کے ممکنہ قاتلوں کی تعداد مزید بڑھتی ہے۔ جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
۱۔ مدرسے کے سات مخالف حضرت شمس طالب علموں کا ایک گروہ جن میں سے ایک حضرت شمس کے بدن میں چھرا گھونپتا ہے۔
۲۔ حضرت رومی کا بیٹا علاء الدین جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت رومی کی متبنیٰ بیٹی کیمیا پر عاشق تھا لیکن حضرت رومی نے کیمیا کی شادی حضرت شمس سے کر دی (حضرت شمس کو قونیہ میں روکے رکھنے کی نیت سے)۔ حضرت شمس نے ایک مرتبہ علاء الدین کو اس سبب سے ڈانٹا تھا کہ وہ ان کے حجرے کے آگے سے گزر کر اپنے گھر گیا تھا۔ علاء الدین نے کیمیا کی وفات کا ذمہ دار حضرت شمس کو ٹھہرایا تھا۔ کیمیا ایک مرتبہ اکیلی قریبی باغ میں گئی اور باغ سے واپس آئی، بیمار پڑی اور فوری طور پر وفات پاگئی تھی۔
۳۔ سلطان ولاد نے حضرت شمس کو خاندان کی عزت و ناموس کی حفاظت کی خاطر قتل کیا۔
آئیے ہم ایک بار پھر روایات کے دھندلکوں میں قدم رکھیں۔ حضرت رومی کو جب اس واقعے کی اطلاع ملتی ہے کہ حضرت شمس اپنے کٹے ہوئے سر کو ہاتھ میں لے کر رقص کرتے ہوئے (سماع کا رقص) تبریز کی جانب گئے ہیں تو وہ بھی اپنی روحانی قوت سے تبریز پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں انھیں ایک سبز منارے کی چوٹی پر حضرت شمس رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت رومی بھی منارے پر جا پہنچتے ہیں لیکن حضرت شمس نیچے دوڑتے جاتے ہیں۔سبز منارے پر اوپر نیچے دوڑنے اور یک جا نہ ہو پانے کا سلسلہ سات مرتبہ دُہرایا جاتا ہے۔ حضرت رومی منارے کے اوپر سے چھلانگ لگا لیتے ہیں لیکن حضرت شمس ان کو گرنے نہیں دیتے۔ سنبھال لیتے ہیں۔ ہوا میں معلق حالت میں وہ حضرت رومی کو وصیت کرتے ہیں کہ ان کی تدفین اسی مقام پر کریں اور یکتاش سلسلے کی تکریم کرتے رہیں۔
جہاں تک معاصر معاشرے کا تعلق ہے، یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ حضرت رومی اور حضرت شمس کی غیر معمولی اور گہری رفاقت کو معاشرے نے برداشت نہیں کیا۔ بالآخر حضرت شمس کو حضرت رومی سے جدا ہونا پڑا۔ قونیہ سے اچانک غائب ہو کر نہ سہی تو اپنے سر کا نذرانہ دے کر۔
مولانا رومی کی حضرت شمس سے محبت ان کی روح میں مزید گہرائی اور گیرائی کی شدت کے ساتھ جاگزیں ہوتی چلی گئی۔ اس صورتِ حال کا ابلاغ کووان (Cowan) نے حضرت رومی کی زبان میں کچھ اس طرح کیا ہے:
’’کس کی جرأت ہو سکتی ہے یہ کہنے کی کہ وہ جو لافانی ہے، اپنی موت سے ہم کنار ہوا؟ کس کی جرأت ہو سکتی ہے یہ کہنے کی کہ امید کا شمس غروب ہوگیا، دیکھو شمس کا کوئی دشمن چھت پر آیا، اپنی دونوں آنکھیں میچ لیں اور چلایا، شمس غروب ہوگیا۔‘‘
Rumi's "Divan of Shams Tabrazi"
By: Cowan: page 10
حضرت شمس کی جدائی میں حضرت رومی کی حالت اور جذباتی کیفیت کا ایک انداز ہم نے مشاہدہ کیا۔ افضل اقبال کے مندرجہ ذیل بیانیے سے آپ کو اور مجھے حضرت رومی کی ایک اور حالت اور کیفیت کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ حضرت رومی نے باہر سے قونیہ آنے والے مسافروں اور سیاحوں سے دریافت کرنا شروع کر دیا تھا آیا انھوں نے اپنے سفر اور سیاحت کے دوران کسی جگہ حضرت شمس کو دیکھا؟ جب ایک مسافر نے انھیں یہ کہا کہ اس نے حضرت شمس کو دیکھا ہے تو حضرت رومی اپنی خوشی پر قابو نہ پاسکے اور اپنے چادر اس کو پیش کر دی۔ بعد میں جب کسی نے حضرت رومی سے کہا کہ وہ مسافر جھوٹ بھی تو بول سکتا تھا تو حضرت رومی نے جواب میں کہا:
’’اگر میں یہ سمجھتا کہ اس کی دی ہوئی خبر سچی ہے تو چادر پیش کرنے کی جگہ اپنی جان پیش کر دیتا۔‘‘
چند ایک سوانح اور سیرت نگاروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت رومی نے دوچار تلاش کرنے والے گروہ بھی چہار اکناف میں روانہ کیے تھے جو ناکام لوٹے۔ یہ ۱۲۵۰ء کا زمانہ ہے۔ بالآخر حضرت رومی کو خود احساس ہوگیا یا کوئی ثبوت ان کے سامنے آگیا اور وہ افسوس کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے کہ حضرت شمس حیات نہیں ہیں۔
سلطان ولاد کی تحریروں میں حضرت رومی کی حالتِ زار کا بیان تفصیل اور شواہد کے ساتھ ملتا ہے۔ ایک مقام پر اس نے لکھا، ’’وہ مسلسل تڑپتے رہتے۔ یوں لگتا تھا کہ وہ زمین پر آسمان کی مانند گردش میں رہتے (زمین گردش کرتی ہے نہ کہ آسمان)۔ سماع کی محفلوں میں سونے چاند کے سکے لٹاتے۔ روپے پیسے سے ان کا کوئی واسطہ نہ رہا تھا۔‘‘
افضل اقبال نے لکھا ہے کہ حضرت رومی، حضرت شمس سے اچانک جدائی کے سانحے کے زیرِ اثر اپنے معمول کی نرم مزاجی کو برقرار نہ رکھ سکے تھے۔ غصہ ور، زود رنج اور چڑچڑے اس حد تک ہوگئے تھے کہ لوگ ان کو پاگل، جنونی اور دیوانہ سمجھنے لگے تھے(صوفیا کی اصطلاح کے مطابق وہ مجذوب ہونے کی حد تک پہنچ گئے تھے)۔
حضرت رومی کے ’’دیوانِ شمس تبریز‘‘ کی کچھ غزلیں حضرت شمس سے پہلی جدائی کے دوران کہی ہوئی ہیں۔ بعض سیرت نگاروں کے مطابق ’’دیوانِ شمس تبریز‘‘ کا سارا کلام دوسری اور آخری جدائی کا شاخسانہ یا تحفہ ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت رومی کو ’’مثنوی‘‘ کی شاعری کے لیے اپنے آپ کو ذہنی، قلبی اور حسی طور پر تیار کرنا پڑا جس میں کچھ برس لگ گئے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ عالمی ادب میں کوئی اور شعری تخلیق ’’مثنوی‘‘ کے مقابل نہیں لائی جاسکتی ماسوا قرونِ وسطیٰ میں لکھی جانے والی دانتے کی ’’دی ڈیوائن کومیڈی‘‘ (Dante's Devine Comedy)۔ حضرت رومی کی ’’مثنوی‘‘ ضخامت میں اس سے قریباً دگنی ہے۔
میں حضرت رومی کی ’’مثنوی‘‘ کو دانتے کی ’’ڈیوائن کومیڈی‘‘ کے مقابل رکھنے کے حق میں نہیں ہوں، کوئی عجب نہیں آپ بھی میری مانند اس کے حق میں نہ ہوں۔ دونوں ادبی شہ پارے ہیں اور دونوں کی جدا جدا شان اور عظمت ہے۔
’’دیوانِ شمس تبریز‘‘کی شاعری خالص غزلیہ شاعری ہے۔ غزل کا فارم عربی، فارسی اور اردو، ہندی سے متعلق ہے۔ انگریزی شعر و ادب والوں نے انگریزی شاعری کی صنف ’’اوڈ‘ (Ode) کو اس کے مماثل بتایا ہے لیکن آپ اور میں شاید ہی قبول کریں۔ غزل کو لیریکل پوئٹری کہنے سے بھی مزہ نہیں آتا، بس کام چلایا جاتا ہے۔ ’’دیوانِ شمس تبریز‘‘ کی شاعری لگی بندھی مثنوی کی شاعری نہیں اور نہ ہی غزلیہ شاعری ہے۔ اس کی انفرادیت نے اس کو کسی صنفی سانچے میں ٹھیک ٹھیک بٹھانے کے لائق نہیں رکھا۔ یوں بھی اعلیٰ شعر و ادب حد بندیوں کی شکست و ریخت کرنے سے باز نہیں آتا۔