قاضی سجاد حسین کی رومی شناسی
قاضی سجاد حسین مثنوی مولانا روم دفتر اوّل اسلامی کتب خانہ، لاہور کے مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’محمد نام جلال الدین لقب اور شہرت مولانائے روم کے عنوان سے ہے (میں ادب و احترام کے ساتھ یہ عرض کروں گا کہ نام کے ساتھ محمد آغاز میں لانا مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کا دستور تھا جو اب بھی مروّج ہے۔) یوں نام ہوا محمد جلال الدین اور والد کا نام بہاء الدین، ان کا سلسلۂ نسب حضرت ابوبکر صدیقؓ سے جاملتا ہے۔ شاہِ خراسان محمد خوارزم شاہ (بادشاہ) شیخ امام فخر الدین رازی کی معیت میں بیٹے بہاء الدین کے حلقۂ ارادت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ شیخ بہاء الدین کی مقبولیت جب حد سے بڑھی تو بادشاہ پر اور امام رازی کی طبیعتوں پر گراں گزرنے لگی۔ شیخ نے اس کو محسوس کیا۔ ۶۱۰ھ میں شیخ وطن ترک کرکے نیشا پور چلے گئے۔ خواجہ فرید الدین عطار، شیخ بہاء الدین سے نیشا پور میں ملے۔ اس وقت مولانائے روم کی تقریباً چھہ سال کی عمر تھی— اور اپنی مثنوی ’’اسرار نامہ‘‘ مولانا کو پڑھنے کے لیے عنایت کی۔ شیخ (بہاء الدین) نیشاپور سے بغداد پہنچے، وہاں کچھ دن قیام کرکے حجاز اور شام ہوتے ہوئی زنجان پہنچے اور وہاں سے لارندہ کا رُخ کیا۔ لارندہ کے دورانِ قیام شیخ نے جب کہ مولانا کی عمر اٹھارہ برس کی تھی، مولانا کی شادی کر دی اور یہیں مولانا کے فرزندِ رشید سلطان ولاد پیدا ہوئے— لارندہ کے قیام کے دوران علاء الدین کیقباد (شاہِ روم) نے درخواست کی تو شیخ قونیہ میں اس کے پاس تشریف لے آئے اور اپنی بقیہ زندگی قونیہ ہی میں گزار کر جمعہ کے دن ۱۸؍ ربیع الثانی ۶۲۸ھ میں واصل بحق ہوگئے۔ مولانائے روم کی ولادت ۶۰۴ھ میں بلخ میں ہوئی تھی۔ تعلیم کے ابتدائی مراحل شیخ بہاء الدین نے طے کرا دیے تھے اور پھر اپنے مرید سیّد برہان الدین محقق کو جو اپنے زمانے کے بہت بڑے فاضل علما میں سے تھے، مولانا کا معلم اور اتالیق بنا دیا تھا۔ مولانا نے اکثر علوم و فنون انھی سے حاصل کیے اور اپنے والد کی حیات تک اپنے والد ہی کی خدمت میں حاضر رہے۔ والد کے انتقال کے بعد ۶۲۹ھ میں شام کا قصد کیا۔ حلب کے مدرسہ علاویہ میں رہ کر مولانا کمال الدین مصنف ’تاریخِ حلب‘ سے تلمذ کیا۔
اپنے والد صاحب کے وصال کے بعد مولانا نے اپنا روحانی تعلق سیّد برہان الدین محقق سے پیدا کر لیا تھا۔ چناں چہ ’’مثنوی‘‘ میں مولانا نے ان کا تذکرہ اپنے پیر کی حیثیت سے کیا ہے۔ مولانا کا یہ وہ دور ہے جس میں مولانا پر ظاہری علوم ہی کا غلبہ تھا۔ سماع سے احتراز کرتے تھے۔ درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں مشغول رہتے تھے۔
(ص:۸، مقدمہ ’مثنوی مولانا روم‘، اسلام کتب خانہ)
قاضی سجاد حسین کے بیان کے برخلاف لیونارڈ لیوی سوہن (Leonard Lewisohn) (ص: x، دی فلاسفی آف ایکسی ٹاسی) کے مطابق مولانا جلال الدین رومی نے بعمر چوبیس سال اسی مدرسے میں جہاں والد پڑھاتے تھے، اپنے والد کی جگہ لے لی اور مذہب، ادب اور تھیالوجی (دینیات) پڑھانے لگے۔ کوئی ایک برس بعد (۱۲۳۲ء) میں مولانا برہان الدین محقق (مولانا بہاء الدین ولاد کے خاص شاگرد و مرید) ترمذ سے قونیہ آگئے اور مولانا رومی کو پڑھایا اور ساتھ ہی بطور پیرو مرشد ان کی روحانی تربیت کی۔ اس دوران مولانا رومی نے چند ایک سال دمشق اور علیپو کی (کالج معیار کی) بڑی درس گاہوں میں اسلامی علوم اور سائنس کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۲۴۰ء میں مولانا برہان الدین محقق نے وفات پائی۔ مولانا رومی ان کی شاگردی اور مریدی میں قریباً آٹھ برس رہے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ ان کے آٹھ برسوں میں مولانا رومی نے مقامات اور مراحلِ راہِ سلوک بھی طے کیے ہوں گے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ مولانا رومی نے اپنے وقت پر دستیاب علم و حکمت، سارے کا سارا بہ مرتبۂ فضیلت و کمال حاصل کر لیا تھا اور مولانا (ترکی زبان میں مولوی) کے لقب کے سچے حق دار بن گئے تھے۔ اس عہد میں مولانا رومی کے بارے میں وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سما ع سے پرہیز کرتے تھے۔ میں اور آپ اس پر حیران بھی ہوسکتے ہیں کہ انھوں نے راہِ شریعت سے خود کو کسی طرح سختی سے وابستہ رکھا اور راہِ طریقت سے اجتناب کیا۔ اور کیوں؟
لیونارڈ لیوی سوہن نے مولانا رومی کے سات وعظوں کا ذکر کیا ہے اور ان کی مدت کو ۱۲۳۰ء سے ۱۲۴۵ء بتایا ہے اور اس ضمن میں Lewis (لیوز) کی تصنیف Rumi: Past and Present ص: ۲۹۳ کا حوالہ بھی دیا ہے۔
قاضی سجاد حسین نے ’’مجالسِ سبعہ‘‘ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
مجھ کو ان سات وعظوں کی مدت کو ۱۲۳۰ء سے شروع کرنے میں تأمل ہو رہا ہے۔ میں یہ کیسے تسلیم کر لوں کہ مولانا رومی نے اپنے والد کی زندگی ہی میں ان کا ممبر سنبھال لیا تھا اور باقاعدہ وعظ ارشاد فرمایا تھا۔
جہاں تک ان سات مجالس اور وعظوں پر مشتمل فکری مواد کا تعلق ہے، وہ واعظوں کے وعظوں کی پند و نصائح سے معمور ہیں، مطابقِ دستور اور رسمی ہیں۔ تاہم مولانا رومی کے مزاج کے مطابق ان میں بھی تشریح، توضیح کے بہانے گہرے علمی و مذہبی مباحث موجود ملتے ہیں۔
بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مولانا کے یہ ’’سات وعظ‘‘ ان کی شخصیت کو ایک فیصلہ کن موڑ دینے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
مولانا نے ساری عمر وعظ دیے۔ ان کو کسی نے جمع کیا اور ’’فیہ مافیہ‘‘ کے عنوان کے تحت شائع بھی کیا ہے۔ ’’فیہ مافیہ‘‘ میں آپ کی ملاقات اس رومی سے ہوتی ہے جو شاعری کے بجائے نثر کی زبان میں اسلامی تھیالوجی کے چھوٹے بڑے مسائل پر گاہے زورِ خطابت کے ساتھ اور گاہے عام بول چال کے پیرایے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
مولانا کی زندگی درس اور فتاویٰ دینے میں گزری لیکن یہ لکھا ہو املتا ہے کہ عملی تصوف میں قدم رکھنے کے بعد انھوں نے یہ سب ترک کر دیا تھا۔ البتہ عوام سے خطاب کرنے اور مجلس کا سا سماں کبھی کسی، کبھی کسی مقام پر قائم کر لیتے تھے۔ ایسی ہی اچانک قائم ہو جانے والی مجالس میں وہ شعر گوئی پر آجاتے تھے۔ فی البدیہہ شعر کہتے تھے۔ کوئی نہ کوئی لکھنے والا ان کے ساتھ ہوا کرتا تھا جو کاغذ پر درج کرتا جاتا تھا۔
مولانا کی شخصیت کے یہ دونوں رُخ جب سامنے آتے ہیں تو ان کے ذہنی ارتقا پر سوچنا بھی لازم ہو جاتا ہے۔ آپ سوچیے میں بھی سوچتا ہوں۔
مولانا رومی نے نوجوانی میں اپنی شادی سے قبل اپنی والدہ کو موت کے ہاتھوں دائمی طور پر جدا ہوتے دیکھا۔ موت اور زندگی سے آدمی عہدِ طفلی میں واقف ہو جاتا ہے لیکن موت ایک خیال سی رہتی ہے۔ موت اس وقت حقیقی روپ اختیار کرتی ہے جب کسی قریبی رشتے دار یا عزیز دوست کو چھین لے جاتی ہے۔ مولانا رومی کی شخصیت کی تشکیل اور ذہنی ارتقا کے ضمن میں ان کی والدہ مومنہ خانم کی لارندے (کرمان) میں قیام کے دوران وفات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ موت وہ واقعہ ہے جو انسانی ذہن کو زندگی کی ’’جبریت‘‘ سے آگاہ کرتا ہے اور ماں کی موت جس کے بطن سے زندگی جنم لیتی ہے، انسانی ذہن کو ایسا دھچکا لگاتی ہے کہ وہ متضاد اور شدید جذبات کی زد میں آجاتا ہے۔ فوری ردِ عمل باغیانہ ہوتا ہے۔