اصل نام: حضرت محمد بن ملک داد
لقب: حضرت شیخ شمس الدین تبریزی
بسوزانیم سودا و جنوں را
در آشا میم ہر دم موجِ خوں را
تڑپ اور وارفتگی (دیوانگی) کو جلا دیا اور ہمہ وقت اپنے لہو کی امواج (لہروں، گھونٹوں) سے پیاس بجھائی۔
دیوانِ شمس تبریزکا پہلا شعر میرے اور آپ کے سامنے ہے۔ اس لفظیات کا پیرایہ، اظہار کے بجائے ابلاغ پر مائل ہے۔ اس ابلاغ کی نوعیت حسیاتی ہے۔ حسیاتی ہونے کے ساتھ یہ ابلاغ داخلی ہے۔ خارجیت سے اس کا کوئی سروکار نہیں۔
بادی النظر میں یہ شعر عشق کے موضوع پر ہے۔ ’’عشق‘‘ اور تغزل کی ہم آہنگی فطری ہے۔ چناں چہ مندرجہ بالا شعر خالص غزل کا شعر کہلایاجا سکتا ہے۔ درحقیقت مولانا رومی کا دیوان جو دیوانِ شمس تبریز کے نام سے منسوب ہے، ان کی تغزل سے بھرپور بے مثال غزلوں کا نادر الوجود خزینہ ہے جس کو فارسی شاعری میں مرتبۂ دوام حاصل ہو چکا ہے۔ میں نے ان غزلیات کو محض رسمی طور پر بے مثال نہیں کہا ہے، بلکہ یہ غزلیات درحقیقت بے مثال ہیں۔ ان کو روایتی انداز سے نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ سمجھایا جاسکتا ہے۔
ایک شارح نے مندرجہ بالا شعر کی تشریح مجاہدات کے بیان کے تحت کی ہے۔ ان کی تفصیلی تشریح سے قطعِ نظر کرتے ہوئے میں نے یہ مناسب خیال کیا کہ آپ کو چند ایک فقرے ان کی زبان میں پڑھنے کے لیے پیش کروں، ملاحظہ فرمائیے … ’’چناں چہ فرماتے ہیں کہ ہم ایسے دیوانے ہیں کہ خود سودا اور جنوں کو اپنی آتشِ محبت سے جلاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے عشاق اور مجاز پرست تو اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں اور عاشقانِ حق اپنی مرضی اور خواہش کو حق تعالیٰ کی مرضی اور خواہش کے تابع رکھنے اور نفس کو جنونِ آرزو پلانے میں ہر وقت مجاہدات اور دل پر جو غم برداشت کرتے ہیں، اس کے تحمل سے زمین و آسمان بھی کانپتے ہیں اور اس حالت میں ان کی دعا کا مقام نہ پوچھیے۔ (ص۔۱۱، ’’معارفِ شمس تبریزی‘‘، مولانا حکیم اختر)
محترم شارح کے خیال میں مولانا رومی اپنے آپ کو اس طرح کا دیوانہ قرار دیتے ہیں جو خود ہی اپنی محبت کی آگ میں سودا اور جنوں کو جلاتے ہیں۔ محترم شارح سے یہ پوچھنا لازم ہو رہا ہے کہ آیا مولانا رومی کی ذات اور شخصیت اور سودا اور جنون کی کیفیت ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ مولانا رومی سودا اور جنوں کو جلا رہے ہیں۔ جس آگ میں وہ سودا اور جنوں کو جلا رہے ہیں وہ (اُن کی) محبت کی آگ ہے۔ صورتِ حال یوں ہے کہ ایک جانب مولانا رومی ہیں، محبت کی آگ کے ہتھیار سے لیس اور دوسری جانب سودا اور جنون، دونوں میں ٹھنی ہوئی ہے۔ بالآخر مولانا رومی اس جہاں میں کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں اور سودا اور جنوں شکست کھا کر جلنے کی سزا سے دوچار ہوتے ہیں۔
مولانا رومی کی محبت کی آگ کے بارے میں محترم شارح یہ نہیں بتاتے کہ یہ آگ کس کی محبت کا عطیہ ہے۔ یہ محبت حضرت شمس تبریزی سے تعلق رکھتی ہے یا نہیں رکھتی اور اگر تعلق رکھتی ہے تو اس کو مجازی کہلائے جانے سے کس طرح محفوظ و مامون رکھا جاسکتا ہے؟
اس سوال کے جواب سے محترم شارح چشم پوشی کرکے دنیا کے عشاق اور مجاز پرستوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور ان کی مذمت کرتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔
آگے چل کر دعا کو اپنا موضوع بنا کر (محترم شارح) تشریح کو شعر کے حدودِ اربع سے خارج کر دیتے ہیں۔ اور ہاں شاعر کو اس مرحلے تک لے جاتے ہیں جہاں تک جانا وہ نہیں چاہتا ہوگا، میرا مطلب زمین و آسمان کے کانپنے کا مرحلہ!
شعر:۲
دید از در شمس دیں را
شاہ تبریز فخرِ دیں را
شعر: ۳
آں چشم و چراغ آسماں را
واں زندہ کنندئہ زمیں را
حضرت رومی، شمس تبریزی کو اوّلین شعر میں ’’اخفا‘‘ کے پردے میں رکھنے کے بعد ’’اظہار‘‘ کی روشنی میں لے آتے ہیں۔ لیکن داخلیت کا تأثر قائم رکھتے ہیں۔ خارجیت سے بدستور کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ آسمان اور زمین کا ذکر ملتا ہے لیکن ایسے آسمان اور زمین کا ذکر ہے جو شمس تبریزی کی وساطت سے اپنے ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ یہ حضرت شمس تبریزی ہی تو ہیں جو آسمان کے چشم و چراغ ہیں اور آسمان کی روشنی ان کی مرہونِ منت ہے اور زمین میں حیات کا باعث بھی وہ ہیں۔
محترم شارح کی تشریح شعر: ۲ کی مندرجہ ذیل ہے۔
’’معلوم ہوتا ہے مولانا نے اپنے مرشد کو کہیں دور سے دیکھا اور بے تابانہ فرطِ محبت سے یہ اشعار ہوگئے، چناں چہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت شمس الدین کو دیکھا اور وہ شاہ تبریز ہیں اور فخرِ دین ہیں۔ (یہ کلمات محبت و عقیدت سے ناشی ہیں)۔
تیسرے شعر کی تشریف ملاحظہ فرمائیے۔
وہ شریعت و طریقت کے آسمان کے چشم و چراغ ہیں اور زمین کے زندہ کرنے والے ہیں۔ یعنی اﷲ والوں کی طاعت کا نور، آسمان اور زمین کو منور اور زندہ کرتا ہے۔
پہلے شعر کی تشریح میں محترم، شاعر سے آگے بڑھ کر شعر کے حدودِ اربع سے باہر نکل کر دعا کے موضوع میں الجھ گئے تھے۔ دوسرے اور تیسرے شعر کی تشریح کے دوران اشعار کے حدودِ اربع سے باہر نکل کر قیامت اور بقائے عالم کے موضوعات میں الجھتے اور قارئین کو الجھا دیتے ہیں۔ ’’فائدے‘‘ کے تحت موضوع کو مزید وسیع کرکے، اﷲ ’والوں کی قدر‘ اور اﷲ تعالیٰ کی طلب‘‘ کے درد تک پہنچاتے ہیں۔
شعر : ۴
کنارے ندارد بیابانِ ما
قرارے ندارد دل و جانِ ما
مندرجہ بالا شعر بھی خارجی دنیا سے سروکار نہیں رکھتا۔ مصرع اوّل میں ’’بیابان‘‘ ضرور موجود ہے لیکن اس سے آپ اور میں یہ مراد نہیں لے سکتے کہ شاعر کسی ایسے بیابان میں ہے جس کا پھیلائو کناروں کی موجودگی سے محدود ہے۔ میں اور آپ اس لفظ ’’بیابان‘‘ کو استعارے کی صورت میں دیکھیں گے او رجان جائیں گے کہ شاعر اس ’’بیابان‘‘ کی بات کر رہا ہی جو اس کے دل و جان اور ان کے حسیاتی اتار چڑھائو پر مشتمل ہے۔ ’’کنارے‘‘ کے مقابل ’’قرارے‘‘ دونوں مصرعوں کو ایک دوسرے سے پیوست کرکے فکری، حسّی اور معنوی ہم آہنگی بہم کر رہا ہے۔ شارحِ محترم نے اس شعر کی تشریح میں یہ ارشاد فرمایا ہے۔ ’’ہمارا بیاباں (مراد جو لاں گہِ عشق و محبت و معرفت ہے) کنارہ نہیں رکھتا۔‘‘
اس تشریح کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں، جیسا کہ خواجہ صاحب نے فرمایا اور مجذوب کا ایک شعر پیش کرتے ہیں اور آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں، ’’اور ہمارے دل و جان طلب اور وصولِ حق میں بے قرار رہتے ہیں اور یہ وہ نعمتِ عظمیٰ ہے کہ حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ اس کے متعلق اپنے آخری وِصایا میں فرماتے ہیں:
اور خدائے تعالیٰ کے لیے ہر وقت بے چین رہتے۔
احقر اختر علی عنہ (محترم شارح اور مؤلفِ کتاب) عرض کرتا ہے کہ یہ بے چینی صرف اﷲ تعالیٰ کے خاص مقبول اور محبوب بندوں کی صحبت و تعلق سے عطا ہوتی ہے جن کے قلوب حق تعالیٰ کے لیے بے چین ہیں کہ ہر شے کے لیے معدن ہے اور تقویٰ کا معدن عارفین کے قلوب ہیں۔ اس کے بعد ایک شعر اور آگے ’’اور یہ کہنا کہ اب اس زمانے میں ایسے لوگ کہاں مسلمانی درکتاب اور مسلمان، مسلمانان درگور تو یہ محض شیطانی دھوکا ہے…‘‘ قیامت تک اہل اﷲ پیدا ہوتے رہیں گے۔ ہاں ان کی پہچان سب کو نہیں ہوتی۔ ماحول کے نیک بندوں سے معلوم کرنے سے ان کا پتا چل جائے گا.....
شعر: ۵
صلاحِ حق و دیں نماید ترا
جمالِ شہنشاہ سلطانِ ما
مندرجہ بالا شعر بھی سابقہ اشعار ۱، ۲، ۳، ۴ کے علاوہ ۶، ۷، ۸، صرف اور صرف حضرت شمس تبریزی سے متعلق ہیں۔ اگلے اشعار کا بھی موضوع وہی ہیں۔ حضرت صلاح الدین زرکوب سے دور کا واسطہ نہیں ملتا۔ یوں بھی زیرِ تذکرہ شعر کا دوسرا مصرع براہِ راست حضرت شمس کو پیشِ نظر لے آتا ہے۔ شہنشاہ، سلطان کی لفظیات حضرت شمس کو ساجھتے ہیں۔
محترم شارح لکھتے ہیں۔ ’’شعر :۵ ۔ حضرت سلطان صلاح الدین زرکوبؒ، حضرت جلال الدین رومیؒ کے بڑے مخلص اور خاص دوست تھے۔‘‘ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ محترم شارح اس پیار کو سمجھ نہ پائے جو حضرت رومی، حضرت صلاح الدین زرکوب سے کرتے تھے۔
جیسا کہ محترم شارح نے بیان کیا ہے حضرت صلاح الدین زرکوب نے حضرت رومی کی حالتِ جذب میں رقص کی سی کیفیت میں خلل پیدا کرنے سے احتراز کیا اور سونے (بعض محققین نے چاندی لکھا ہے) کے ورقوں کے کوٹے جانے کے عمل کو (اپنے کاریگروں کو حکم دے کر) جاری رکھا تاآنکہ ورق سفوف میں بدل گئے۔ مولانا رومی نے ہوش میں آنے کے بعد ان کو اپنے قریب کر لیا۔ ]ان کے دو بیٹوں کو اپنی شاگردی میں لیا۔ ایک بیٹی کو اپنی بہو بنا لیا۔[
محترم شارح نے اس تعلق کو ’’مخلص دوست‘‘ کے رشتے سے خلط ملط کر دیا ہے۔
اس مرحلے پر میں ایک روایت کا حوالہ دے رہا ہوں جو درجِ ذیل ہے:
حضرت صلاح الدین زرکوب چند ایک الفاظ کو صحیح تلفظ میں ادا کرنے سے قاصر تھے۔ ’’قفل‘‘ کو ’’قلف‘‘ اور ’’مبتلا‘‘ کو ’’مفتلا‘‘ کہتے تھے۔ ایک دن حضرت رومی کی موجودگی میں حضرت زرکوب نے ’’خم‘‘ کو ’’خمب‘‘ کہا تو حاضرین میں سے کسی نے ان کی تصحیح کی اور بتایا کہ اس کا دوست تلفظ ’’خم‘‘ ہے۔ حضرت رومی نے موقع پر ہی کہا، ’’میں جانتا ہوں کہ درست تلفظ خم ہے لیکن چوں کہ یہ ہمیشہ ’’خمب‘‘ کہتے ہیں، میں دوسروں کے، صحیح تلفظ کے مقابلے میں ان کے غلط تلفظ کو پسند کرنے لگا ہوں۔ (Sefic Can: p-65)
اس مرحلے پر میں اور آپ یوں بھی تو سوچ سکتے ہیں کہ حضرت صلاح الدین زرکوب کی تلفظ کی کم زوری حضرت رومی کو حضور نبیِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں حضرت بلال حبشیؓ کے چند لفظوں کے غلط تلفظ کرنے کی یاد دلاتی ہو۔
پانچویں شعر سے محترم شارح (مؤلفِ کتاب) حضرت مولانا حکیم اختر ادبی تنقید، تبصرہ، تحقیق اور تشریح کی حد بندیوں کو یکسر نظر انداز کرکے ایک باکمال خطیب، واعظ اور مبلّغِ اسلام کے فرائض انجام دینے لگتے ہیں۔ آخری شعر: ۷۷۷ تک یہی صورتِ حال برقرار رہتی ہے۔ البتہ زورِ بیاں اور حسنِ اظہار کی خاطر تشریح کا کام اشعار سے زیادہ سے زیادہ لیا جاتا ہے۔ مؤلف نے اپنے اشعار سے بھی کام لیا ہے۔ مجذوب کے اشعار بھی کثیر تعداد میں موجود ملتے ہیں۔ ان اشعار کو کتاب سے باہر شعری انتخابوں اور مجموعوں کی صورت میں، دونوں صاحبان اگر پسند کریں تو اپنے اپنے دیوان شائع کروا سکتے ہیں۔