صلاح الدین زرکوب اپنے چھوٹے سے کارخانے میں کارندوں کے ساتھ سونا کوٹنے اور کٹوانے میں مشغول تھے۔ حضرت رومی کا اس جگہ سے گزر ہوا۔ سونے کے کوٹے جانے کی آواز اور اس کے تواتر کی موسیقی نے حضرت کے قدم روک لیے۔ ان پر جذب و وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ ان کا بدن حرکت میں آگیا اور وہ ایک طرح کے الوہی رقص کی گرفت میں آگئے۔ صلاح الدین زرکوب نے اپنے کارندوں کو اشارہ دیا کہ کوٹنے کا عمل اور اس کی ضربات میں قطعی فرق نہ آنے دیں۔ حضرت رومی کا رقص جاری رہا اور سونا بھی کوٹا جاتا رہا تاآنکہ وہ پتلے سے پتلے ورقوں اور پتروں کی شکل میں مبدل ہوگیا۔ وہ مرحلہ آگیا جب کوٹے جانے کے عمل کو روکنا لازم ہوگیا لیکن صلاح الدین نے کاریگروں کو سختی سے حکم دیا کہ وہ اپنا کوٹنا جاری رکھیں۔ جب حضرت رومی نے اپنے قدم روکے اور ہوش و حواس کی کیفیت میں واپس آئے تب جا کر کاریگروں کو بھی اپنے ہاتھ روکنے کی اجازت ملی۔ اس وقت تک کافی تاخیر ہوچکی تھی۔ کاریگر حیران تھے، کیوں کہ سفوف کی شکل میں آکر سونا گھاٹے کا سودا بن چکا تھا۔ دوسری جانب صلاح الدین زرکوب خوش تھے۔ ان کو حضرت رومی جیسے عظیم عالم اور جید، عالی مرتبہ شخصیت کی خوش نودی کی دولت حاصل ہوگئی تھی۔
نوٹ: علامہ شبلی نعمانی نے سونے کی جگہ چاندی لکھا ہے۔
حضرت رومی ظاہر ہے، صلاح الدین زرکوب کے اس غیر پیشہ ورانہ اقدام اور خصوصی قدر و منزلت کے رویے سے متأثر ہوئے ہوں گے۔ یقین کے ساتھ سوچا جاسکتا ہے کہ حضرت کے دل کی گہرائیوں میں کسی نہ کسی گوشے میں صلاح الدین زرکوب نے جگہ بنا لی ہوگی۔
صلاح الدین زرکوب جلد ہی حضرت رومی کے قریب آگئے۔ ان کے دو بیٹوں کو حضرت رومی نے اپنی شاگردی میں لیا اور ان کی ایک بیٹی کو اپنی بہو بنا لیا اور اپنے بیٹے سلطان ولاد سے اس کی شادی کر دی۔
صلاح الدین زرکوب کم تعلیم یافتہ تھے، چند ایک لفظوں کا تلفظ بھی درست نہیں کر پاتے تھے، لیکن تھے پابندِ شریعت۔ وہ تابعِ سنتِ نبوی تھے۔ مثال کے طور پر وہ سخت سے سخت سردی میں بھی جمعے کے دن غسل ضرور کرتے تھے اور نہانے کے بعد گیلے کپڑے پہن لیتے تھے۔
حضرت رومی کے بارے میں یہ سوچا گیا ہے کہ صلاح الدین زرکوب کو اپنے قریب کرکے حضرت اس خلا کو پُر کرنا چاہتے تھے جو حضرت شمس کی جدائی سے حضرت کی زندگی میں پیدا ہوگیا تھا۔ یہ سوچ میرے لیے اور یقینی طور پر آپ کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔ حضرت رومی کے ہر متلاشی، تلاش جماعت کے ہر شریک رکن کے پیشِ نظر رومی، شمس ملاقات ہے اور اس ملاقات کا ’’من توشدم تو من شدی‘‘ والا مزاج ہے۔ ہم سب اس فیصلے پر کامل اتفاق کے ساتھ پہنچ گئے ہوں گے کہ ان دونوں عالی مرتبہ ہستیوں، شخصیتوں اور وجودوں کا یہ ملاپ ابدی ہے۔ قدرت کو شاید یہ منظور تھا کہ دونوں ایک بار ملیں، بہم آمیز ہو کر دو سے ایک ہوں۔ اچانک جدائی دونوں کے درمیان حائل ہو۔ بار دیگر ملیں اور جدا ہوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاآنکہ ایک (رومی) دوسرے (شمس) کو خود اپنے اندر ڈھونڈ نکالے، پہچان لے اور ہمیشہ کے لیے ’’پا‘‘ لے۔
جب صورتِ حالات ایسی ہو تو آپ، میں یا کوئی اور یہ سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ حضرت رومی نے حضرت شمس کا کوئی نعم البدل مانگا، چاہا اور اپنایا۔
اس معاملے کی حد تک آپ کا میرا مؤقف حتمی صورت اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔ اس مرحلے پر میں نے اپنا فرض سمجھا ہے کہ میں اپنے قارئین سے معذرت کرتے ہوئے سلطان ولاد کی تصنیف ’’ابتدا نامہ‘‘ صفحہ ۸۸ سے مندرجہ ذیل اقتباس پیش کروں جس کو پڑھ کر مجھے تکلیف پہنچی تھی۔
’’ہم نے ایک سے نجات پالی لیکن اب دوسرا آگیا۔
بدتر۔ پہلے والا روشن تھا۔ یہ چنگاری ہے، شمس ایک آدمی تھا، اس لائق کہ اس کی بات سنی جائے۔ وہ کسی بھی موضوع کی اچھی طرح تفہیم کر سکتا تھا۔ وہ خوبیوں سے متصف اور پڑھا لکھا تھا۔ وہ تبریز کا تھا اور مہذب۔ اس کے برخلاف یہ قونیہ کا اجڈ اور غیر مہذب ہے۔ کیا یہی ہے وہ آدمی جو ہماری رہبری کرے گا اور رستہ دکھائے گا؟ یہ تو اس قابل بھی نہیں ہے کہ دو جملے قابلِ فہم ادا کر سکے اور یہ تو سورئہ فاتحہ بھی درست نہیں پڑھ سکتا۔ کیا واقعی— رومی جیسا بے مثل عالم اس جیسے جاہل کا عقیدت مند ہوگیا؟ یہ جوہری صلاح الدین دروازے کے پاس جہاں ہم اپنے جوتے چھوڑتے ہیں، بیٹھا کرتا تھا۔ اس کو اب کس طرح عزت کے مرتبے پر فائز کیا جاسکتا ہے اور ہم اس کو شیخ پکار سکتے ہیں؟‘‘
مندرجہ بالا اقتباس مجھے تو کسی کاتب کی کارستانی لگتا ہے کیوں کہ کاتب ایسا کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔