باہمی ربط کا حقیقت پسندانہ تجزیہ
رومی نے صلاح الدین زرکوب کو اپنے قریب آنے دیا یا صلاح الدین زرکوب، رومی کے قریب سے قریب تر ہوئے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ رومی نے شمس تبریزی کے چلے جانے کے باعث پیدا ہو جانے والے خلا کو صلا ح الدین زرکوب کی شخصیت سے پُر کیا، خارج ازقیاس ہے، لغو اور بے بنیاد اتّہام ہے، رومی اور شمس جیسے اکابرین کی شان میں گستاخانہ بے ادبی کے مترادف ہے۔ یہ سلسلہ اب قطعی طور پر بند ہو جانا چاہیے۔
رومی اور صلاح الدین زرکوب کے مابین ایک رشتہ تو پیر بھائیوں کا تھا۔ علامہ شبلی نعمانی کے موجب صلاح الدین زرکوب، سیّد برہان الدین محقق کے مرید تھے، رومی کی مانند، شیخوں، پیروں اور مرشدوں کے مرید آپس میں پیر بھائی ہوتے ہیں لیکن اس سے یہ سمجھ لینا کہ سارے پیر بھائی ہم رتبہ اور ہم مرتبہ ہوتے ہیں، غلط ہے۔
جیسا کہ میں نے اس سے قبل لکھا ہے، رومی اور شمس نے صلاح الدین زرکوب کے حجرے میں چلّہ کشی کی اور اس دوران صلاح الدین زرکوب کو شریکِ چلّہ نہیں کیا۔ صلاح الدین زرکوب از خود ان اکابرین کی خدمت پر مامور ہوگئے تھے۔ یہی ان کا مرتبہ تھا۔
جب رومی نے اپنی طریقت اور باطنی اسرار سے معمور معمولات شمس کی رفاقت کے بغیر شروع کیے تو اس دوران بھی صلاح الدین زرکوب نے ایک راز دار خدمت گار کے فرائض انجام دیے۔ شیوخِ سلاسلِ طریقت کے دو ایک خاص راز دار ضرور ہوتے ہیں۔ یہ دستور ہے۔ صلاح الدین زرکو ب کی صحیح شناخت رومی کے باطنی اور طریقتی اسرار و رموز کے ’’رازداں‘‘ کی بنتی ہے۔ رومی کے بارے میں یہ آگاہی ملتی ہے کہ رومی پر جذب و حال کی کیفیت اچانک طاری ہو جاتی تھی۔ کبھی کبھی وہ اس کیفیت میں رقصاں بھی ہو جاتے تھے۔ یہ سب ان کے اختیار میں نہیں تھا۔ وہ موقع محل کی مناسبت کا خیال رکھنے کی حالت میں نہیں ہوتے تھے۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ کسی عزیز دوست کی تجہیز و تکفین کے موقع پر وہ ’’حال‘‘ میں آگئے اور رقصاں ہوگئے۔ اس طرح ان کے مخالف عالمانِ شریعت کو ان کے خلاف زبان کھولنے کا موقع مل گیا۔ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ ایک مرتبہ نماز عشا یا تہجد کی نماز کے دوران وہ رات بھر بیٹھے رہے۔ ان کو یہ بھی ہوش نہ رہا کب فجر ہوگئی۔
مان لیا صلاح الدین زرکوب، رومی کے پیر بھائی تھے۔ جان لیا کہ خاندانی رشتے سے رومی کے سمدھی تھے۔ رومی کا بیٹا ان کا داماد تھا اور ان کی بیٹی رومی کی بہو تھی۔ استادی اور شاگردی کے رشتے سے رومی ان کی دو بیٹیوں کے استاد تھے۔ اتنے رشتوں کے ہونے سے صلاح الدین زرکوب، رومی یا شمس تبریزی کے ہم سر نہیں ہوگئے تھے۔ علم، دینی و دنیوی سے وہ خاصی حد تک محروم تھے۔ یہ فرض کر لیا جائے کہ ان میں ان کے شیخ (جو رومی کے بھی شیخ تھے) نے طریقت میں کچھ شدھ بدھ پیدا کر دی تھی، تب بھی وہ طریقت کا قابلِ ذکر علم نہیں رکھتے تھے۔
صلاح الدین زرکوب کے بارے میں یہ بھی تو سوچا جاسکتا ہے کہ انھوں نے حضرت شمس کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہو اور ان کے چلے جانے کے بعد وہ رومی سے بیعت ہوگئے ہوں یا براہِ راست رومی کے ہاتھ پر بیعت کی ہو۔ صلاح الدین زرکوب کے بارے میں یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ رومی کے:
(۱) عقیدت مند تھے۔
(۲) محبت کرتے تھے۔
(۳) مرید تھے۔
(۴) مریدِ خاص تھے۔
(۵) راز دار اور راز دانِ اسرار باطنی، طریقت تھے۔
(۶) اپنی دکان اور سب کچھ لٹا کر رومی کے ہوگئے تھے۔
(۷) رومی نے ان کی عقیدت اور محبت سے متأثر ہو کر ان کو اپنے حلقے میں مرتبۂ اعتبار سے سرفراز کیا ہو۔ (ہر کہ خدمت کرد، مخدوم شد)۔ ان معاملات میں اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کے بیان سے گریز کیا ہے ورنہ زیادہ آسانی سے وضاحت کر سکتا۔
قصہ کوتاہ کرکے نہایت ادب سے درخواست گزار ہوں کہ صلاح الدین زرکوب یا حسام الدین چلپی کو رومی کے عقیدت مندوں، مریدوں / نیم مر یدوں، شاگردوں، کاتبوں میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ دیا جائے لیکن شمس تبریزی کے خلا کو پُر کرنے والوں میں نہ شمار کیا جائے۔ رومی نے صاف واضح اور دو ٹوک الفاظ میں ارشاد فرما دیا ہے کہ انھیں جس کی تلاش تھی وہ خود ان میں موجود مل گئے۔
ہر کوئی ’’فرشتہ صید، پیر شکار ویزداں گیر‘‘ نہیں ہوسکتا۔ شمس تھے اور شمس کے بعد رومی—صلاح الدین زرکوب اور حسام الدین چلپی؟ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک!