شمس تبریزی اور جلال الدین رومی کے مابین پہلی ملاقات کے بارے میں ایک سے زائد روایات ملتی ہیں جن میںدو زیادہ اہم ہیں۔ پہلے میں اس روایت کو پیش کرنا چاہتا ہوں جو اردو ہندی والوں میں زیادہ مقبول ہے۔ آپ یوں تصور کیجیے، قاضی القضاۃ شیخ حضرت جلال الدین رومی (بلخی) دو تین بیش بہا قلمی کتابوں کے ساتھ اپنے باغ میں ایک حوض کے کنارے تشریف فرما ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فقیر اچانک ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ وہ تعجب سے اسے دیکھتے ہیں۔ اس کا حلیہ اور لباس ایسا نہیں کہ ان کے بنگلے کے دربان اس کو اندر آنے دیتے۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے کوئی سوال کرتے درویش نے کتابوں کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور پوچھا، ’’ایں چیست؟‘‘ (یہ کیا ہے؟) جلال الدین رومی نے ارشاد فرمایا، ’’ایں قیل و قال است۔‘‘ (یہ باتیں واتیں ہیں۔ ازراہِ انکسار اس طرح کہنے کا رواج تھا یا اس فقیر کو نرا جاہل سمجھ کر یہ کہا ہو ورنہ کتاب کو کتاب کے طور پر کون نہیں جانے گا اور کون یہ پوچھے گا، یہ کیا ہے؟) مولانا کا یہ جواب سن کر فقیر نے کتابیں حوض میں ڈال دیں۔ ان کتابوں میں ایک رومی کے والد کے روحانی اور قلبی وارداتوں کے روزنامچوں پر مشتمل کتاب ’’معارف‘‘ تھی۔ اس پر مولانا ناراض ہوئے۔ فقیر ہنسا اور بولا، قیل و قال کے لیے اتنا تردد اور حوض میں ہاتھ ڈال کر کتابیں برآمد کر لیں اور مولانا کو پیش کر دیں۔ مولانا نے دیکھا کہ کتابیں بالکل خشک تھیں۔ ان پر بوند بھر پانی بھی نہیں تھا۔ اب کی مرتبہ سوال کرنے والے مولانا تھے، ’’این چیست؟‘‘ (یہ کیا ہے؟) فقیر نے ان کو جواب دیا، ’’این مرتبۂ حال است۔‘‘ (یہ حال کا مرتبہ ہے۔)
اس ضمن میں دوسری روایت مغرب کے حوالوں سے ہم تک پہنچی ہے۔ اس کے مطابق ان کی ملاقات ایک کاروان سرائے میں ہوئی جہاں صلاح الدین زرکوب قیام پذیر تھے اور شاید ان ہی کے گھر ہوئی۔ اس ملاقات میں شمس تبریز نے مولانا رومی سے ایک عجیب سوال کیا جس کو سن کر وقت کا جید٭ّ عالم غش کھا کر زمین پر گر پڑا۔ سوال کے بارے میں کوئی باوثوق معلومات دستیاب نہیں۔ قیاس اغلب یہ ہے کہ شمس نے پوچھا تھا جن الفاظ میں حضرت بایزید بسطامیؒ نے اپنی شان اور بزرگی بیان کی ہے، اس کو نظر میں رکھتے ہوئے کس کو بزرگ اور مرتبے میں بلند تر مانا جائے گا، بسطامیؒ کو یا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو؟ مولانا جلال الدین رومی نے ہوش میں آنے کے بعد جواب دیا کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا مرتبہ بلند تر ہے کیوں کہ بسطامیؒ تو ایک جرعۂ الوہیت سے آگے نہ بڑھ سکے جب کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر اسرار و رموزِ کبریائی تواتر سے وا ہوتے رہے۔ روایتوں کی کثرت اور تنوع کے باوجود ایک حیران کن حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ پہلی ہی ملاقات کے ساتھ عالم اور درویش اس طرح ملے کہ ایک ہوگئے۔ زبانی روایات کے مطابق رومی کی شمس تبریز کے بارے میں سوچ اس انداز کی تھی، ’’میں خدا کے بارے میں سوچا کرتا تھا آج وہ انسان کے روپ میں مل گیا۔‘‘
یہ ملاقاتیں کیسی تھیں، پردئہ راز میں رہا۔ دونوں کیا باتیں کرتے تھے، یہ بھی کوئی نہیں بتاتا۔ یہ بات صاف ہے کہ دونوں ہستیاں دنیا و مافیا سے بے خبر ہو کر گھنٹوں باتوں میں گم رہتی تھیں۔ کچھ عرصہ اس طرح گزرا۔ ایسی روایت بھی ملتی ہیں کہ یہ عرصہ مہینوں کی رفاقتوں پر محیط ہے۔ یہ بھی لکھا ملتا ہے کہ ان باطنی خلوتوں کے دوران دونوں معمول کی انسانی حاجات سے بے نیاز رہتے تھے۔ اس کو ایک نوع کی چلہ کشی بھی خیال کیا جاسکتا ہے۔ چلّے بھی جاری رہے اور معمول کی رفاقتیں بھی، جن کا عرصہ مہینوں کی نہیں بلکہ ساڑھے تین برسوں کی رفاقتوں پر محیط ہے۔ اس وقت جلال الدین رومی کی عمر سینتیس برس کے قریب اور شمس تبریری کی ساٹھ اور پچپن کے آس پاس تھی۔ بڑی عمر والے نے یہ محسوس کیا کہ لوگوں، خاص طور پر مولانا رومی کے شاگردوں کو یہ صورتِ حال ناگوار گزر رہی تھی۔ چناں چہ وہ (شمس) جس طرح اچانک آئے تھے اسی طرح اچانک چلے گئے یا دوسرے الفاظ میں غائب ہوگئے۔ این میری شمل کا اصرار ہے کہ شمس کے یوں غائب ہو جانے نے مولانا روم کو ’’جدائی‘‘ کے کرب سے آشنا کیا اور وہ شاعر ہوگئے۔ شاعری کے علاوہ جذب، حال، بے خودی، وجد اور استغراق کے روحانی اور باطنی تجربوں سے بھی دوچار ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ عالمِ وجد میں وہ اشعار پڑھتے اور حالتِ اضطراب میں چکر لگاتے۔ ترکی میں اس کو ’’درویشوں کا رقص‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ رقص مولانا روم کے رقص سے ہم رشتہ ہے یا ایک نوع کا ثقافتی ورثہ ہے۔ مولانا روم نے ضرور یہ محسوس کیا ہوگا کہ جو غزلیات اور رُباعیات ان کے لبوں پر ایک عالمِ بے خودی یا استغراق میں آرہے ہیں اور اشعار زبان سے ادا ہو رہے ہیں، ان کا خالق ان کا درویش دوست شمس ہے، وہ نہیں ہیں۔ بعد میں جب ان کو ترتیب دیا ہوگا تو اس کو ’’دیوانِ شمس تبریز‘‘ کا نام دیا ہوگا۔ کچھ عرصے بعد یہ خبر ملی کہ شمس دمشق اور اس کے گرد و نواح میں دیکھے گئے۔ مولانا روم نے اپنے بیٹے سلطان ولاد کو شام کی جانب روانہ کیا۔ سلطان ولاد شمس کو اپنے ساتھ واپس لانے میں کامیاب ہوگئے۔
ایک مرتبہ پھر شمس تبریز اور جلال الدین رومی ملے۔ معانقہ ہوا اور نہ مصافحہ، آمنا سامنا ہوتے ہی دونوں ایک دوسرے کے قدموں میں گر پڑے۔ پتا ہی نہ چل سکا دونوں میں کون چھوٹا ہے اور کون بڑا؟ کون محب ہے، کون محبوب، کون مرید ہے کون مرشد؟ یہ بھی کون وثوق سے بتا سکتا ہے کہ یہ دو جسموں کا ملاپ تھا یا دو روحوں کا؟ اس مرتبہ جلال الدین رومی نے شمس تبریز کو اپنی ساتھ ہی ٹھہرا لیا۔ ان کی سیلانی فطرت کے پیشِ نظر ان کا نکاح ایک لڑکی سے پڑھوا دیا تاکہ ان کے پیروں میں بیڑیاں پڑ جائیں اور وہ قونیہ میں مستقل قیام کر لیں لیکن دوسری جانب وہ، دونوں کے مابین ہونے والی طویل ملاقاتوں کے دورانیوں میں مناسب اختصار لانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ شاید وہ شمس تبریزی سے اس سربستہ علمِ طریقت کا حصول چاہتے تھے جو کتابوں میں نہیں ملتا، صرف سینہ بہ سینہ منتقل کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب شمس اپنا سب کچھ کسی ایسے عالمِ بے بدل کے سپرد کرنا چاہتے تھے جو اس کا متحمل ہوسکے۔ اس کے بدلے میں وہ پہلے ہی ایک پراسرار آواز کو اپنے سر کی پیش کش کر چکے تھے۔ اس دوسری ملاقات کے بعد کی طویل طویل بات چیت کی نشستیں رنگ لائیں۔ ممکن ہے کہ شمس تبریز نے اپنا سب سرِنہاں جلال الدین رومی پر عیاں کر دیا ہو، لیکن ان ملاقاتوں سے جلنے والوں کا اور توجہ میں کمی سے شاکی شاگردوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا۔ ایک رات بتاریخ ۵؍ دسمبر ۱۲۴۸ء شمس تبریز اور جلال الدین رومی مصروفِ گفتگو تھے۔ کسی نے عقبی دروازے سے شمس تبریز کو طلب کیا۔ شمس اٹھ کر گئے کبھی نہ لوٹنے کے لیے۔ کہا جاتا ہے کہ جلال الدین رومی کے بیٹے علاء الدین کے اشارے پر ان کو ختم کر دیا گیا تھا۔ دیگر روایت کے مطابق رومی کے شاگردوں کے ایک گروہ نے، جس میں علاء الدین بھی شامل تھا، شمس کو قتل کر دیا۔ مزید روایت یہ بھی ہے کہ شمس تبریزی علاء الدین کے خواب میں آئے اور اپنے قتل سے اس کو آگاہ کیا لیکن علاء الدین نے اس خواب کا ذکر اپنے والد سے نہیں کیا جب کہ رومی، شمس کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ مشہور محقق فرینکلن لیوس (Franklin Lewis) کا اصرار ہے کہ شمس تبریزاز خود غائب ہوئے تھے۔ ان کا مزار قونیہ میں نہیں بلکہ تبریز کے قریب چھوٹے سے شہر قوی میں ہے جہاں ایک مینار ان کے نام سے منسوب ہے۔ اس کی برخلاف مولانا رومی کے پرستار مصنف کولمین بارکس (Colman Barks) مصر ہے کہ شمس تبریز قتل کیے گئے تھے۔
اصل معاملہ یہ ہے شمس تبریز کا باطنی فریضہ ادا ہوچکا تھا۔ سر دینے کا وعدہ باقی رہتا تھا۔ وہ بھی پورا ہوگیا۔ یہ اور بات مولانا رومی نے شمس تبریز کی ’’جدائی‘‘ کو آسانی سے قبول نہیں کیا۔ اس مرتبہ وہ خود شمس کی تلاش میں نکلے۔ دمشق بھی گئے جہاں کسی گلی میں بحالتِ وجد اُن کے ذہن و دل کو کشف کی صورت میں شمس کی موجودگی کا ادراک ہوا۔ جس کی تلاش میں وہ سرگرداں تھے، ان کے اپنے اندر تھا۔ جس کو وہ دوری خیال کرتے تھے، وہ انتہائے قرب کی حالت تھی۔ جس کو وہ فنا کا نام دے رہے تھے، وہ وصال تھا۔ ایک کامل فنا سے ہم کنار ہوچکا تھا اور اپنے دوست کے وصال سے شمس تبریز کے اسرار ہائے مخفی جلال الدین رومی میں منتقل ہوچکے تھے۔ وہی ان سے شعر کہلوا رہے تھے۔