ترک شاعر، ادیب اور فکشن نگار احمت اُمیت کا شمار ترک زبان کے مقبول ترین مصنّفین میں ہوتا ہے۔ ان کے ناول پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے کر ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتے ہیں جو اسرار سے معمور اور تیز سے تیز تر وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس دنیا میں ہمہ وقت کچھ نہ کچھ نیا ہوتا رہتا ہے اور اس دنیا میں داخل ہونے والا ناول کے اختتام سے قبل اس کے حدودِ اربع سے باہر نہیں آتا۔ اس دنیا میں پیار، محبت، مروّت اور خوب صورتی کے ساتھ حسد، نفرت، استحصال، ظلم، جبر اور جرائم کی بدصورتی کے مظاہر سے متواتر اور مسلسل واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ یہ دنیا حقیقی دنیا سے مماثل ہے۔ بظاہر فکشن، بباطن حقیقت۔
میں نے احمت اُمیت کے ناول ’’دی درویش گیٹ‘‘ (The Dervish Gate) کو اپنی تازہ تصنیف ’’رومی کون‘‘ سے ہم رشتہ پایا، اگرچہ یہ رشتہ جزوی یگانگت پر منحصر ہے۔ اس ناول میں— شہر قونیہ ہے، ’’کیمیا‘‘ نام کا کردار ہے۔ یہ ایک لڑکی ہے جو مسلمان باپ اور انگریز (کرسچن) ماں کی اکلوتی اولاد ہے۔ اس لڑکی کو اس کے مسلمان باپ نے ’’کیمیا‘‘ کا نام دیا اور پیدائش کے رجسٹر میں درج کروایا۔ ماں اس کو ’’کیرن‘‘ کے نام سے پکارتی ہے۔ انگریز اسے کیرن گرین ووڈ کے نام سے جانتے تھے۔ ’’رومی کون؟‘‘ میں ’’کیمیا‘‘ نام کی لڑکی کا کردار موجود ہے۔ اگرچہ ’’رومی کون؟‘‘ اور ’’درویش گیٹ‘‘ کی ’’کیمیا‘‘ نام کی لڑکیوں کے مابین صدیوں کا زمانی بُعد ہے۔ شہر قوینہ بھی دونوں کتابوں میں ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قونیہ شہر کی سات ہزار سالہ تاریخ ہے۔ اس شہر کا نام ایکونین (Ikonion) ا ایکونیم سے نکلا ہے۔ اس شہر میں جگہ جگہ مجسمے تھے۔ اس ہیرو پرسیوس کے مجسمے جس نے میڈوسا جیسی عفریت کو قتل کیا تھا جو پہاڑوں میں رہتی اور اردگرد کے قصبات میں قتل و غارت گری کرتی۔ اس کو مارنا اس سبب سے دشوار تھا کہ جس کسی کو بھی وہ دیکھتی، وہ پتھر کا ہو جاتا تھا۔ اس کے سر میں بالوں کی جگہ سانپ تھے۔ مجسمے کو آئیکون کہا جاتا تھا۔
شہر کے نام کی توجیہہ اس طرح بھی کی جاتی ہے کہ پرانے وقتوں میں خراسان سے دو درویش اڑتے ہوئے اناطولیا کی طرف آئے۔ ایک مقام کو سرسبز و شاداب پایا تو جواں عمر درویش نے بوڑھے درویش سے کہا، کیوں نہ ہم یہاں اتر پڑیں۔ بڑی عمر والے درویش نے جواب دیا، ’’ ُکون یا‘‘ (Konya) جس کے معنیٰ ہوتے ہیں ’’اترجائو‘‘۔
ان دیومالائی کہانیوں سے ’’رومی کون؟‘‘ میں قونیہ شہر کی قدامت اور اس کے نام کی اصل صورت کا اضافہ ہو رہا ہے۔
’’درویش گیٹ‘‘ میں شمس تبریز کی موجودگی اس ناول کو ’’رومی کون؟‘‘ سے جوڑ رہی ہے، اور ساتھ ہی دونوں لڑکیوں ’’رومی کون؟‘‘ کی ’’کیمیا‘‘ اور ’’درویش گیٹ‘‘ کی کیمیا (کیرن گرین ووڈ) کو ایک دوسرے سے مربوط کر رہی ہے۔
شمس تبریز سے منسوب دعا جس میں وہ دعا کی قبولیت کے بدلے میں اپنا ’’سر‘‘ دینے کا عہد کرتے ہیں ’’درویش گیٹ‘‘ کو ’’رومی کون؟‘‘ کے مماثل بنا رہی ہے۔ دونوں میں زمانی بُعد کے باوجود غضب کی یگانگت ہے۔ یوں بھی شمس تبریز ’’دی درویش گیٹ‘‘ میں کسی نہ کسی روپ، بہروپ میں آغاز سے انجام تک اپنی موجودگی برقرار رکھتا ہے۔
شہر قونیہ کے ہوٹل یاقوت میں لگنے والی آگ ’’دی درویش گیٹ‘‘ ناول کی اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ مذکورہ ہوٹل کی انشورنس پالیسی تین ملین پائونڈ کی مالیت کی تھی۔ انشورنس کمپنی کے ڈائریکٹر سائمن (Simon) نے اس معاملے کی تحقیقات کے فرائض انجام دینے کے لیے مس کیرن (کیمیا) گرین ووڈ کا انتخاب کیا اور اس سبب سے کیا کہ وہ ترک زبان جاننے کے علاوہ ترک کلچر سے بھی آگاہ تھی۔ یہی نہیں، وہ بچپن میں کچھ عرصہ اپنے والد کے ساتھ (وہ ترک مسلمان تھے) قونیہ میں رہ چکی تھی۔ یہ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ڈائریکٹر سائمن کو یہ بھی علم تھا کہ مس کیرن (کیمیا) گرین ووڈ کی والدہ قونیہ آئی تھیں۔ انھوں نے کیمیا (کیرن) کے والد کو ’’رقصِ درویشاں‘‘ کے دوران دیکھا، پسند کیا، چاہا، شادی کی اور اپنے ساتھ انگلستان لے گئیں۔ جب دونوں قونیہ واپس آئے تو لڑکی قونیہ میں پیدا ہوئی۔ والد نے پیدائش کے رجسٹر میں لڑکی کا نام ’’کیمیا‘‘ درج کرایا، لیکن لڑکی کی والدہ سوسن نے لڑکی کا نام کیرن رکھا۔ لڑکی کی والدہ اپنے خاوند کے ساتھ انگلستان سے قونیہ آئی لیکن مستقل طور پر آباد نہ ہوسکی۔ لڑکی نے بھی والد کے ساتھ بچپن گزارا۔ والد نے اس کی تربیت کی، اور ترک کلچر اور اسلامی فکر سے آشنا کیا۔ لڑکی نے کچھ سمجھا اور کچھ نہیں سمجھ پائی۔ لڑکی کی والدہ کے نظریات کی اساس یہ تھی کہ ہر مذہب توجہ کے لائق ہے۔ وہ راسخ العقیدہ عیسائی کبھی نہیں رہی اور نہ ہی مسلمان ہوئی۔ رنگ و نسل کے معاملے میں بھی وہ ’’لبرل‘‘ آزاد خیال تھی۔ کیرن (کیمیا) نے ایک سیاہ فام ماہرِ قلب سرجن سے محبت کا رشتہ جوڑ لیا اور بنا شادی کے اس سے حاملہ ہوگئی۔اس کے محبوب نے حمل گرانے پر اصرار کیا۔ کیرن (کیمیا) نے فیصلہ لٹکائے رکھا۔ اس کی والدہ نے حمل گرانے کی مخالفت کی اور بیٹی کو سمجھایا کہ اس کی عمر بڑھتی جارہی ہے۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ دوبارہ وہ اولاد پیدا کرنے سے محروم رہے۔ ناول میں کیرن (کیمیا) اپنے پیٹ میں پرورش پانے والے بچے کے پیار میں کھوئی رہنے کے ساتھ جرائم سے نبرد آزما رہتی ہے۔ نت نئے سانحات سے دوچار ہوتی ہے۔ ان سانحات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ آخری سانحے میں اس کو اغوا کیا جا رہا ہوتا ہے لیکن وہ بچ جاتی ہے۔ اس کے اغوا کرنے والے گاڑی کے الٹنے سے انتہائی بھیانک موت سے دوچار ہوتے ہیں۔
قارئینِ کرام یہ تو قیاس کر چکے ہوں گے کہ ہوٹل یاقوت کی آتش زدگی ہی وہ وقوعہ ہے جو احمت امیت کے ناول ’’دی درویش گیٹ‘‘ کے اصل محرک کے طور پر سامنے آتا ہے اور فکشن کو حقیقت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ناول کے اچھے، برے، چھوٹے بڑے سارے کردار اس سے ہم رشتہ اور وابستہ رہتے ہیں۔ ناول جب اپنے اختتام تک پہنچتی ہے تو آگ لگوانے والا— ضیاء قیوم جو زادے (اکونین ٹور ازم کا چیئرمین) اور آگ لگانے والے اس کے دو کارندے انتہائی بھیانک اور عبرت ناک موت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اسی موت کی گاڑی میں اغوا کی جانے والی کیرن (کیمیا) گرین ووڈ ہسپتال میں زیرِ علاج رہ کر مرنے سے بچ جاتی ہے۔ اس طرح شاعرانہ انصاف (Poetic Justice) کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔
ضیاء قیوم جوزادے کے والد اپنے اکلوتے بیٹے کی موت سے نڈھال ہو جاتے ہیں لیکن علاج معالجے سے ٹھیک ہو کر اپنا سب کچھ مولانا رومی سے منسوب عجائب گھر اور یادگار پر وقف کر دیتے ہیں۔
کیرن (کیمیا) گرین ووڈ کے بابا پاکستان میں اپنے مرشد شاہ نسیم کے ساتھ شمالی وزیرستان (پاکستان) کے کسی گائوں کی خانقاہ میں رہ رہے تھے۔ اس خانقاہ پر امریکی حملہ ہوا۔ خانقاہ تباہ ہوگئی۔ سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں کیرن (کیمیا) گرین ووڈ کے بابا بھی تھے۔ پیراز (بابا) ایک ماہ ہسپتال میں زیرِ علاج رہ کر وفات پاگئے۔ شاہ نسیم نے ماں کو اطلاع دی اور ماں نے بیٹی کو اس سانحۂ عظیم سے باخبر کیا۔ شاہ نسیم نے فوری اطلاع اس لیے نہیں دی ہوگی کہ پیراز نے منع کر رکھا ہوگا۔ شاہ نسیم نے کہا تھا، ’’ایک سرد ہوا شمالی جانب اوپر اٹھی۔ پیراز نے اس ہوا کا شور سنا اور کہا جو ہوا مجھے یہاں لائی تھی وہی لے بھی جائے گی۔ جس وقت اس نے آخری سانس لیا تو اس کی لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ وہ خوش تھا۔‘‘ شاہ نسیم نے باتوں کے دوران یہ بھی کہا کہ مرنے والے کی یہ خواہش ہے کہ کسی کو اس کی قبر کا پتا نہ چلنے دیا جائے۔
ماں اور بیٹی نے پاکستان جاکر متوفی کا جسد انگلستان لانے کے بارے میں بات چیت کی لیکن دونوں نے اس فیصلے پر اتفاق کیا کہ ’’جسد‘‘ کو جہاں دفن ہے، وہاں رہنے دیا جائے۔ ’’بابا ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ جسم کی کوئی اہمیت نہیں۔ روح اصل وجود ہے۔ ان کی روح ہمارے ساتھ رہے گی۔‘‘
’’مجھے ان کی روح کا کچھ علم نہیں— البتہ ان کی یاد باقی رہے گی۔‘‘ ماں نے کہا۔
احمت اُمیت نے محبت کا ایک حسین روپ بھی چھوٹی چھوٹی جھلکیوں کی شکل میں دکھایا ہے۔ اس کردار کی تخلیق سے ناول ’’دی درویش گیٹ‘‘ اعلیٰ ادب کی بلندیوں کو چھوتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے۔ ترک نوجوان منان، مس کیرن (کیمیا) سے محبت کرنے لگتا ہے۔ ایسی محبت جو بے اختیار ہے، باوقار ہے اور دل کے اندرون میں آپ ہی آپ آ بیٹھی ہے اور جب جب باہر آتی ہے تو اس کا چہرہ لال لال ہو جاتا ہے۔ احمت اُمیت نے ’’اخفا اور اظہار‘‘ کی فن کارانہ نزاکت سے مسٹر فیڈ اِن عرف منان کی اس محبت کو مس کیرن (کیمیا) گرین ووڈ کے دل تک پہنچا دیا ہے۔ وہ سب کچھ جان کر بھی اَن جان بنی رہتی ہے۔ وہ اپنے ماہرِ امراضِ قلب محبوب سے کسی طرح کی بے وفائی کا ارتکاب نہیں کرسکتی تھی جس کا بچہ اس کے شکم میں پرورش پا رہا ہے۔
ناول بچے اور ماں کے موضوع پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے آخری باب کا عنوان بھی ’’بچہ‘‘ ہے جو امید ہے۔
زندگی خواہ کیسی بھی ہو، اچھی، بُری— یہ بچے ہی ہیں جو اس کو امیدوں سے معمور کرتے ہیں۔