افضل اقبال نے رومی کی سوانح عمری میں رومی کے والد حضرت بہاء الدین کی ڈائری ’’معارف‘‘ سے مندرجہ ذیل اقتباس پیش کیا ہے جس سے باپ بیٹے کے مابین رشتے کی گہرائی کا پتا چلتا ہے:
’’جس سمے بھی میں اپنے کسی بچے کی چیخ سنتا ہوں، غم زدہ ہو جاتا ہوں اور سوچتا ہوں، میرا بچہ اب کسی مصیبت میں پڑ گیا ہے؟ پر میں یہ بھی سوچتا ہوں اگر میں اپنی زندگی ان کی فکر میں گزاروں گا تو میں برباد ہو جائوں گا اور اگر میں اپنے آپ تک محدود رہوں تو کیا وہ برباد ہو جائیں گے؟‘‘
رومی کے دادا اور پردادا کا سرسری سا ذکر ملتا ہے۔ رومی کی ننھیال کا ذکر نہیں ملتا۔ لزلی وائنس نے بہاء الدین کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا ہے، وہ ایک اچھے بایوگرافک لکھاری کو زیب نہیں دیتا۔ خاص طور پر اس صورتِ حال میں جب کہ کتاب کے ٹائٹل پر یہ تحریر ہو:
Rumi: Spiritual Biography
بہاء الدین ولاد نہ تو کم علم تھے اور نہ ہی کم مرتبہ۔ رومی کے والد کی جو تحریریں ملتی ہیں اور ’’معارف‘‘ میں جو کچھ ملتا ہے، وہ بہاء الدین کی روحانی شخصیت کی قابلِ تعریف نہ بھی ہو تو قابلِ قبول شخصیت کے طور پر تصویر کشی کے لیے کافی ہے۔ وخش شہر کے قاضی کا ان سے اختلاف یا عناد جو کچھ بھی سامنے آیا، وہ اس کا ثبوت ہے کہ بہاء الدین اس کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔ اس اختلاف یا عناد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علمی قابلیت میں اس سے زیادہ نہ بھی تھے تو کم بھی نہ تھے۔ ان کو کم پڑھا لکھا قرار دے کر لزلی وائنس نے بھی ایک نوع کا مبالغہ ہی کیا ہے۔ Biography کے مقابلے میں عقیدت سے معمور بایو گرافی کو Hajiography کی اصطلاح کے تحت لے آنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن رومی کے والد کے خلاف اس طرح کے تعصب (Bias) کا رویہ سمجھ میں نہیں آتا۔ بہاء الدین کا اپنے آپ کو سلطان العلما لکھنا بھی اس حقیقت کا اظہار تھا کہ وہ وخش شہر کے مذکورہ قاضی سے بڑھ کر علمی قابلیت کے مالک تھے۔ سرکاری طور پر وہ ان سے برتر تھا کیوں کہ وہ ایک سرکاری بااختیار منصب پر فائز تھا۔ ان کا یہ مؤقف کہ خواب میں انھیں بشارت ہوئی تھی اور کسی روحانی شخصیت نے ان کو سلطان العلما کا خطاب عطا کیا تھا، اس پر شک کیا جاسکتا ہے اور وائنس کا رویہ اس طرح کے دعاوی کو مسترد کرنے کا رہا بھی ہے۔ بہاء الدین کی ڈائری ’’معارف‘‘ سے ایک جانب ان کی روحانیت سے معمور اور اسرارِ معرفتِ الٰہی سے دوچار شخصیت سامنے آتی ہے تو دوسری جانب ایسی جھلکیاں بھی ملتی ہیں کہ وہ حقیقت پسندانہ مزاج کے حامل تھے، خود شناس تھے۔ ان میں اتنی شخصی توانائی اور حوصلہ تھا کہ اپنی حدود اور اپنی کم زوریوں پر طنز بھی کرتے تھے۔ جہاں تک رومی کا تعلق ہے، انھوں نے علم اور روحانیت کی مد میں جو کچھ اسے خود دے سکتے تھے دیا، اور اپنے خاص شاگرد، محقق کو اس کا اتالیق مقرر کیا۔ ان کے اسی شاگرد کا علم و روحانیت میں خاصے اعلیٰ مرتبے کا حامل ہونا خود بہاء الدین کے مرتبے کی نشان دہی میں معاون ہوسکتا ہے۔
اب آپ اور میں بہاء الدین ولاد کی شخصیت میں موجود اس کش مکش پر بات کریں گے کہ روحانی زندگی اور راہِ سلوک کی اساس حبِ الٰہی پر ہوتی ہے۔ آدمی کی روحانی زندگی مجاز سے حقیقت کی جانب منزل بہ منزل سفر کا نام ہے۔ دنیا اور دنیا سے جڑی ہوئی ساری نام نہاد حقیقتیں صرف اور صرف مجاز کے مظاہر سے ہم رشتہ ہیں۔ حقیقی وجودیت سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔ ان میں زن و شوہر، زر، زمین اور اولاد وغیرہ شامل ہیں۔ بہاء الدین ایک جانب اپنے کسی بچے کی چیخ سن کر بے چین ہو جاتے ہیں تو دوسری جانب وہ اس حقیقت سے کنارہ کش نہیں ہوتے کہ ان کی روحانی زندگی، معرفتِ الٰہی اور حبِ الٰہی جو اصل زندگی ہے اور اس کے تقاضے اولاد کی محبت سے کہیں زیادہ لائقِ ترجیح ہیں۔
بہاء الدین کا خواب، خواب میں کسی روحانی شخصیت کا آنا اور ان کو سلطان العلما کے خطاب سے نوازنا، آپ کے اور میرے فہم میں آسکتا ہے بشرطے کہ آپ اور میں روحانی معاملات کی شدھ بدھ رکھتے ہوں۔ یہ بھی قیاس کر لینا مناسب نہیں کہ اہلِ مغرب میں صد فی صد افراد کا ذہن، مادی، لادینی (سیکولر) ہوتا ہے۔ حضرت رومی کو پیدائش کے بعد اچھی تعلیم و تربیت کا ماحول میسر آیا۔ ایک جانب ان کے والد حضرت بہاء الدین ولاد ان کی پرورش اور دیکھ بھال میں دل چسپی لے رہے تھے، پڑھنے لکھنے میں رہبری کر رہے تھے تو دوسری جانب اس وقت کے رواج کے مطابق ان کے دو شاگرد اور مرید اس کام پر مامور ہوگئے تھے۔
۱۔ ان میں سے ایک تھے سمرقند کے شرف الدین لالہ جو آگے چل کر ان کے سسر بھی ہوگئے۔
۲۔ دوسرے استاد تھے حضرت رومی کے والد حضرت بہاء الدین ولاد کے خاص الخاص مرید اور شاگرد حضرت سیّد برہان الدین محقق۔ افلاکی کے مطابق حضرت رومی چھٹپن ہی میں حضرت سیّد برہان الدین محقق کی رفاقت میں آسمانوں کی سیاحت کرنے لگے تھے اور روحانیت کی بلندیوں کو چھونے لگے تھے۔
حضرت محمد بہاء الدین ولاد کی شخصیت، علمی تبحر کے بارے میں بھی متضاد بیانات ملتے ہیں۔ حضرت محمد بہاء الدین ولاد کا اپنے دستخط کے ساتھ اپنے آپ کو ’’سلطان العلما‘‘ تحریر کرنا یا مہر ثبت کرنا بھی موضوع بنا ہے۔ شہر کے قاضی کا اس کے خلاف آواز اٹھانا بھی بیانات میں آتا ہے۔ میں نے سیہان اوکیوکو کے بیانات کو زیادہ قابلِ قبول پایا۔ اُس کے مطابق حضرت رومی کا بچپن گزر رہا تھا کہ ان کے والد اور اس وقت کے خوارزمی سلطان کے مابین تنائو کا ماحول تشکیل پاگیا۔ اس کے عقب میں یہ معاملہ تھا کہ فخر الدین رازی اور حضرت بہاء الدین کے مابین خوش گوار تعلقات کا رشتہ نہ بن سکا۔ اس سے قبل صوفی مجدد الدین بغدادی اور رازی کے مابین رقابت اور تنائو رنگ لا چکا تھا۔ سلطان نے مجدد الدین کو دریائے امو میں غرق کروا دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت فخر الدین رازی اپنے وقت کے عظیم فلسفی اور عالم تھے۔ ان کا اپنا ایک اہم مقام تھا۔ اگر سلطان ان کے نام اور مقام سے متأثر تھا تو بات سمجھ میں آسکتی ہے۔ اور یہ بھی کہ حضرت رومی کے والد حضرت بہاء الدین ولاد نے بھی اس سچائی کو جان لیا تھا کہ وہ سلطان کو اس طرح متأثر کرنے کی صلاحیت کے حامل نہ تھے۔ ان حالات کے تحت حضرت بہاء الدین ولاد نے بلخ چھوڑنے اور مغرب کی جانب ہجرت کا فیصلہ کر لیا۔
یہ ہجرت کا واقعہ ۱۲۱۲ء یا ۱۲۲۱ء میں پیش آیا۔ افلاکی کے مطابق سلطان نے حضرت بہاء الدین ولاد کو شہر سے بدر کیا تھا۔
سپہ سالار کے مطابق بھی حضرت فخر الدین رازی نے سلطان کو بہاء الدین ولاد کے خلاف بھڑکایا تھا۔ یہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت فخر الدین رازی اس ہجرت سے تین برس قبل وفات پاچکے تھے۔
حضرت شبلی نعمانی اپنی تالیف سوانح مولانا رومی مطبوعہ نامی پریس کانپور ۱۹۰۶ء، ص ۲/۳ پر لکھتے ہیں: ایک دن خوارزم شاہ مولانا بہاء الدین کے پاس گیا تو ہزاروں، لاکھوں آدمیوں کا مجمع تھا۔ شخصی سلطنتوں میں جو لوگ مرجعِ عام ہوتے ہیں، سلاطینِ وقت کو ہمیشہ ان کی طرف سے بے اطمینانی رہتی ہے۔ مامون الرشید نے اسی بنا پر حضرت علی رضا کو عیدگاہ جانے سے روک دیا تھا، جہانگیر نے اسی بنا پر حضرت مجدد الف ثانی کو قید کر دیا تھا۔ بہرحال خوارزم شاہ نے حد سے زیادہ بھیڑ بھاڑ دیکھ کر امام رازی سے کہا کہ کس غضب کا مجمع ہے۔ امام صاحب اس قسم کے مواقع کے منتظر رہتے تھے، فرمایا، ہاں اور اگر ابھی سے تدارک نہ ہوا تو پھر مشکل پڑے گی۔ خوارزم شاہ نے امام صاحب کے اشارے سے خزانۂ شاہی اور قلعے کی کنجیاں حضرت بہاء الدین کے پاس بھیج دیں اور کہلا بھیجا کہ اسبابِ سلطنت میں سے صرف یہ کنجیاں میرے پاس رہ گئی ہیں، وہ بھی حاضر ہیں۔ مولانا بہاء الدین نے فرمایا کہ اچھا جمعہ کو وعظ کہہ کر یہاں سے چلا جائوں گا۔ جمعے کے دن شہر سے نکلے۔ مریدانِ خاص میں سے تین سو بزرگ ساتھ تھے۔ خوارزم شاہ کو خبر ہوئی تو بہت پچھتایا اور حاضر ہو کر بڑی منت سماجت کی، لیکن یہ اپنے ارادے سے باز نہ آئے۔ راہ میں جہاں سے گزر ہوتا تھا، تمام رئوسا اور امرا زیارت کو آتے تھے۔ ۶۱۰ھ میں نیشاپور پہنچے۔ حضرت خواجہ فرید الدین عطار ان سے ملنے آئے۔ اس وقت مولانا روم کی عمر چھہ برس تھے لیکن سعادت کا ستارہ پیشانی سے چمکتا تھا۔ خواجہ صاحب نے شیخ بہاء الدین سے کہا کہ اس جوہرِ قابل سے غافل نہ ہونا یہ کہہ کر اپنی مثنوی ’’اسرار نامہ‘‘ مولانا کو عنایت کی۔ (نوٹ: یہ واقعہ بقول مولانا شبلی نعمانی اور تمام تذکروں میں مذکور ہے لیکن سپہ سالار کے رسالے میں اس کا مطلق ذکر نہیں ہے۔)
مولانا رومی کے فرزند سلطان ولاد کے مطابق حضرت بہاء الدین کے خاندان کی ہجرت کے وقت مولانا رومی کی عمر چودہ سال تھی۔ افلاکی کے مطابق مولانا رومی کی عمر پانچ یا چھہ سال تھی۔
جہاں تک آپ کا اور میرا معاملہ ہے تو صاف بات یہ ہے کہ حضرت خواجہ فرید الدین عطار اپنی مثنوی ’’اسرار نامہ‘‘ پانچ چھہ سال کی عمر کے بچے کو دیتے ہوئے اچھے نہیں لگتے البتہ چودہ، پندرہ سال کے نوجوان کو ’’اسرار نامہ‘‘ دینا تھوڑا بہت سمجھ میں آتا ہے۔ آخر نوجوان کسی ایسے ویسے گھرانے کا نہیں تھا۔
حضرت فخر الدین رازی کا سلطان کو بہکانا قطعیت کی حد تک ثابت نہ ہوسکا۔ کسی کسی مؤرخ نے یہ لکھا ہوا ہے، حضرت رازی کی وفات رومی کے والد حضرت بہاء الدین ولاد کے خانوادے کی ہجرت سے قبل ہوگئی تھی۔ الغرض دیگر اختلافی معاملات کے ساتھ اس معاملے کو بھی شامل کر لیجیے۔
جبرِ مشیت کے خلاف علمِ بغاوت اٹھایا جائے تو کس کے خلاف اٹھایا جائے؟ اس سوال کا جواب رومی کے ذہن میں (ان کی تعلیم و تربیت کے مطابق) بالآخر اس عقیدے کی صورت میں سامنے آتا ہے اور وہ ہے ’’بے شک (مخلوقات) اﷲ کی طرف سے ہیں (اﷲ کی بھیجی ہوئی ہیں) اور (ان کو) اﷲ کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ ساتھ ہی اٹل قانونِ قدرت کی جانب توجہ مبذول ہوتی ہے اور وہ ہے، ’’تمام نفوس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘
والدہ کی وفاتِ حسرت آیات سے جو خلا نوجوان رومی کی زندگی میں پیدا ہوا، اس کو ان کے والد نے ان کی شادی سے پُر کیا، لیکن خود ان کی اپنی زندگی میں جو خلا در آیا، اس کو شاید ان کی متحرک اور پابرکاب زندگی نے محسوس کرنے کی مہلت ہی نہیں دی۔
مولانا جلال الدین رومی نے اپنے والد کی زندگی میں یہ بھی دیکھا کہ ’’سلطان العلما‘‘ کے طور پر فتاویٰ لکھنے پر حرف گیری کا نشانہ بنائے جانے والے حضرت بہاء الدین ولاد کو سلجوقی شہزادے علاء الدین کیقباد نے وقت کے سب سے بڑے عالم کا درجہ اور مرتبہ عطا کیا اور ان کی وفات پر سرکاری طور پر سات یوم کا سوگ منایا گیا۔
۱۲۰۸ء میں ان کے والد کی سلطان العلما لکھنے پر گرفت ہوئی اور ۱۲۲۹ء میں وہ قونیہ میں درحقیقت ’’سلطان العلما‘‘ جیسے مرتبے پر متمکن ہوئے۔ مولانا رومی نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے والد نے خوابی حکم کے مطابق جو کام کیا (اپنے کو سلطان العلما لکھا) وہ ہزاروں مخالفتوں کے باوجود حقیقت بن کر رہا۔ مولانا رومی کی روحانیت کی منزل کی جانب ایک نوع کی پیش رفت والد کے اس خواب کی مرہونِ منت بھی ہوسکتی ہے۔
والد کی وفات کے بعد ان کی یادداشت ’’معارف‘‘ نے بھی رومی کو اندر ہی اندر ٹھیٹ شریعت سے، طریقت پر لگایا ہوگا گو اوپر کی سطح پر آنے میں کافی وقت لگا اور شمس تبریز کو اس کارِ خیر میں حصہ لینا پڑا۔
’’انسائیکلوپیڈیا آف اسلام اینڈ دی مسلم ورلڈ‘‘ میں یہ بھی لکھا ملتا ہے کہ اپنے اتالیق، معلم او رپیرو مرشد حضرت برہان الدین محقق کے زیرِ نگرانی مولانا رومی نے اعتکاف اور چلّے بھی کیے، روزے بھی رکھے۔ اس سے میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ حضرت محقق نے ان کو راہِ سلوک بھی طے کروائی جو اہلِ طریقت اور صوفیوں کے لیے لازمی قرار دی جاتی ہے۔ اس حقیقت کو بھی مولانا رومی کی شخصیت کی تشکیل اور ارتقا کے سلسلے میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
جب حضرت برہان الدین محقق کی وفات (۱۲۴۱ء) ہوئی، حضرت جلال الدین رومی نے ان کی اور اپنے والد کی گدی سنبھالی اور قونیہ میں ان کے حلقۂ ارادت کی پیشوائی اختیار کی۔ یہ اور بات کہ اس حلقۂ ارادت کے پیرو مرشد تو وہ تھے لیکن سماع سے پرہیز کرتے تھے۔
لیونارڈ لیوی سوہن (Leonard Lewisohn) کی مرتبہ کتاب ’’دی فلاسفی آف ایکسٹاسی‘‘ (The Philosophy of Ecstasy) کی رو سے حضرت برہان الدین محقق کا سنِ وفات ۱۲۴۰ء ہے (ص: x)
اس کے کوئی چار سال بعد مولانا رومی کی پہلی بیوی گوہر خانم نے وفات پائی اور انھوں نے قرا خاتون سے نکاح کر لیا۔ قرا خاتون بیوہ تھیں۔ قرا خاتون کے بطن سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا رومی نے تدریس میں (آج کے) پروفیسر کا مرتبہ حاصل کر لیا تھا اور قونیہ کے چار مختلف کالجوں (درس گاہوں) میں مختلف مضامین پڑھا رہے تھے۔
قریب قریب اسی زمانے میں حضرت جلال الدین رومی کی زندگی میں حضرت شمس تبریزی کا داخلہ ہوتا ہے۔
۱۲۴۴ء بتاریخ ۲؍ نومبر حضرت شمس الدین تبریزی قونیہ آتے ہیں اور مولانا جلال الدین رومی کی دینوی، دنیوی، ذہنی اور روحانی زندگی میں تغیر و تبدل اور انقلاب کا سبب بن جاتے ہیں۔ قاضی سجاد حسین مرتب ’’مثنوی مولوی معنوی‘‘ نے مولانا رومی اور شمس تبریزی کی پہلی ملاقات کو متعدد حوالہ جات کی مدد سے رقم کیا ہے۔ اس کے باوجود اس کا اعتراف بھی کیا ہے، ’’مولانا کی زندگی میں شمس تبریز کی ملاقات کا واقعہ جس قدر اہم ہے، اس قدر یہ واقعہ معرضِ اخفا میں ہے۔‘‘ (ص: ۸ تا ۱۰)
۱۔ جواہرِ مضیہ ۲۔ لوگوں کا کہا سنا۔ ’’حضرت شمس تبریز کو ان کے پیر بابا کمال الدین جندی نے یہ کہہ کر مولانا کے پاس بھیجا تھا کہ روم جائو وہاں ایک سوختہ دل ہے، اس کو گرما آئو۔
۳۔ ایک مشہور روایت۔ مولانا کسی حوض کے کنارے بیٹھے تھے اور کتب بینی میں مصروف تھے، وہاں حضرت شمس تبریزی آگئے اور کتابوں کی جانب اشارہ کرکے سوال کیا:
’’ایں چیست؟‘‘ مولانا نے جواب دیا، ’’ایں قیل و قال است۔‘‘ مولانا کا یہ جواب سن کر حضرت شمس تبریزی نے وہ کتابیں حوض میں پھینک دیں۔ مولانا کبیدہ خاطر ہوگئے اور حضرت شمس تبریزی سے بولے، ’’میاں درویش تم نے ایسی چیزیں ضائع کر دیں جن میں نادر نکتے تھے اور اب ان کا ملنا محال ہے۔ یہ سن کر حضرت شمس تبریزی نے وہ کتابیں حوض سے نکال کر مولانا کے سامنے رکھ دیں۔ مولانا نے دیکھا، وہ کتابیں بالکل خشک حالت میں تھیں۔ پانی کا ان پر کوئی اثر نہیں تھا۔ اس پر مولانا نے حضرت شمس تبریزی سے سوال کیا ’’ایں چیست؟‘‘ حضرت شمس تبریزی نے جواب میں فرمایا: ’’ایں مرتبۂ حال است۔‘‘
۴۔ ابنِ بطوطہ کا بیان۔ ایک حلوہ فروش مولانا کی درس گاہ میں آیا۔ مولانا نے بھی اس کے حلوے کی ایک قاش خرید کر کھائی جس سے مولانا کے احوال یکسر بدل گئے۔
۵۔ فریدوں سپہ سالار کی تحریر: حضرت شمس تبریز ولد علاء الدین ، ایک بزرگ خاندان سے تھے جو اسمٰعیلیہ فرقے کا امام تھا۔ حضرت شمس تبریز نے آبائی مذہب ترک کر دیا تھا۔ علومِ ظاہری حاصل کرنے کے بعد بابا کمال الدین کے مرید ہوگئے— کمربند بُن کر اپنا گزارا کرتے تھے۔ ایک روز انھوں نے دعا کی کہ کوئی ایسا شخص عطا فرمائیے جو میری صحبت کا متحمل ہوسکے۔ غیبی اشارہ ہوا کہ روم جائو وہاں ایک شخص مل جائے گا۔ حضرت شمس تبریز قونیہ پہنچ کر برنج فروشوں کی سرائے میں مقیم ہوگئے— (حضرت بایزید بسطامی کے خربوزہ نہ کھانے، ان کے اتباعِ سنت کے جذبے پر اور ان کے دعوے پر ’’سبحانی، اعظم شانی اور نبیِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر روز ستر بار مغفرت کی دعا مانگنے کے معمول پر بات ہوئی اور مولانا نے اس نکتے کی وضاحت کی۔)— اس کے بعد مولانا اور حضرت شمس تبریزی دونوں صلاح الدین زرکوب کے حجرے میں چالیس روز تک چلّہ کش رہے۔ اس عرصے میں کھانا، پینا بالکل ترک کر دیا تھا اور صلاح الدین زرکوب کے علاوہ حجرے میں کوئی داخل نہ ہوسکتا تھا۔
جواہرِ مضیہ
قاضی سجاد حسین نے اپنے ’’مقدمے‘‘ میں لکھا ہے:
’’جواہرِ مضیہ کے بیان کے مطابق تو واقعہ کی صورت یہ ہے کہ مولانا ایک روز اپنے شاگردوں کے حلقے میں رونق افروز تھے۔ چاروں طرف کتابوں کے ڈھیر تھے کہ اچانک حضرت شمس تبریز قلندرانہ انداز سے آ پہنچے اور کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ وہ چیز ہے جس سے تم واقف نہیں ہو۔ مولانا کا یہ فرمانا تھا کہ اچانک کتابوں میں آگ لگ گئی۔ مولانا نے شمس تبریز سے کہا کہ یہ کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ وہ چیز ہے جس سے تم واقف نہیں ہو اور یہ کہہ کر مجلس سے روانہ ہوگئے۔ اس واقعے سے مولانا کی حالت دگرگوں ہوگئی۔ تمام گھر بار اور شان و شوکت کو خیرباد کہا اور صحرا نوردی شروع کر دی۔ ملک کے گوشوں میں حضرت شمس تبریز کو تلاش کرتے پھرے لیکن ان کا کہیں پتا نہ چلا۔ مولانا کے مرید چوں کہ مولانا کی اس کیفیت سے سخت پریشان تھے۔ کہتے ہیں کہ مولانا کے کسی مرید نے حضرت شمس تبریز کو مار ڈالا۔
(ص ۸، مثنوی مولانا روم۔ مقدمہ، اسلامی کتب خانہ)
مولانا رومی کے والد حضرت بہاء الدین ولاد کی روزنامچہ نما یادداشتوں، تبصروں اور وعظوں، خطبوں کے علاوہ ایسے حیران کن روحانی مشاہدے اور کشف و کرامت کے تجربات کے تذکرے ملتے ہیں جو روایتی عالموں کے فہم و ادراک میں نہ سما سکیں۔ ان تذکروں میں حضرت بہاء الدین ولاد نے رموزِ بے خودی میں اس لمحے اور مرحلے کا کھل کر بیان لکھ دیا ہے جب ان کی خودی وجودِ کبریائی میں گم ہو کر وصالِ باریِ تعالیٰ سے بہرہ یاب ہوئی۔ مولانا جلال الدین بلخی جو اناطولیہ سے متعلق ہو جانے کی وجہ سے رومی کہلاتے ہیں، علومِ شریعت اور دوسرے علوم کی تحصیل میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے باطنی علوم و مکاشفات سے بھی آگاہی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس سلسلے میں ان کے والدِ مرحوم کے ایک شاگرد برہان الدین محقق نے ان کی مدد کی۔ برہان الدین محقق کی رفاقت میں انھوں نے سنائی اور عطار کو پڑھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ طریقت کے رموز و اسرار سے نابلد نہیں تھے یہ اور بات کہ شریعت کے امور میں الجھے رہنے کی وجہ سے عملی طور پر ان کی روز کی مصروفیات اور فرائضِ منصبی کی ادائیگی کا دائرہ شریعت تک محدود اور طریقت سے دور ہوتا گیا۔ والد کی وفات کے بعد انھوں نے شیخ کا منصب سنبھال لیا اور عالم اور مفتی کی روایتی زندگی گزارنے لگے۔ سماج میں ان کا ایک اعلیٰ مرتبہ تھا۔ عالموں میں ان کو فضیلت کا مقام حاصل تھا۔ ان کے درسوں میں حاضرین کی تعداد خاصی ہوتی تھی۔ ان کے شاگرد اُن سے محبت کرتے اور عزیز رکھتے تھے۔ ہر شاگرد یہ چاہتا تھا کہ ان کی تمام تر توجہ کا مرکز بن جائے۔ دوسری جانب حکومت اور عما٭ّلانِ حکومت ان سے مرعوب تھے۔ ان کی حکومتی مراعات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ اچانک ان کی زندگی میں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک درویش وارد ہوئے اور سب کچھ بدل گیا۔ زمانہ تھا اواخرِ موسمِ خزاں ۱۲۴۴ء اور اس درویش کا نام تھا شمس، حضرت شمس تبریزی۔
ان درویش کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کے شرقِ وسطیٰ میں سرگرداں پھرنے کے شواہد دستیاب ہوئے ہیں۔ روایت کے مطابق ان کی تلاش اور جستجو کا مقصد اس کو ڈھونڈ نکالنا تھا ’جو میرا ساتھ برداشت کرسکے۔‘ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ملتان بھی تشریف لائے اور وہاں ان سے سرزد ہونے والی ایک دو کرامات بھی مشہور ہوئی ہیں لیکن کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔ شہر شہر گھومتے وقت ان کی زبان پر یہی کلمہ ہوتا: ’کوئی ہے جو میرا ساتھ برداشت کرے۔‘ کبھی کبھی وہ دعائیں بھی اس نوع کی مانگتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ ندائے غیب اندر کی آواز سنائی دی، ’اس کے بدلے میں تم کیا دو گے؟‘
’اپنا سر!‘ شمس تبریزی نے جواب میں کہا۔
’تم جس کی تلاش میں ہو وہ قونیہ کا جلال الدین ہے۔‘
لکھا ہو املتا ہے کہ ۲۹؍ نومبر ۱۲۴۴ء کو شمس تبریزی قونیہ میں وارد ہوئے اور شکر فروشوں کی سرائے میں کوٹھری لی۔ انھوں نے خود کو شکر کا سوداگر ظاہر کیا، اگرچہ ان کا لباس بوسیدہ تھا۔ ان کے سامان میں ایک ٹوٹا ہوا کاسہ، ایک پھٹی پرانی دری اور نیم پختہ مٹی کا سرہانہ تھا۔