صلاح الدین زرکوب کی رفاقت کا معاملہ ہو یا حسام الدین چلپی کے ساتھ کا مصنّفین، مؤرخین اور محققین کے غیرواضح اور الجھے ہوئے مؤقف کا سبب رومی کا حد سے بڑھا ہوا عجز، انکسار اور مروت سے معمور مزاج ہے۔ رومی راہِ سلوک کی اس منزل پر پہنچ چکے تھے جو ’’فنا‘‘ کی وہ منزل ہے جس میں ’’انا‘‘ کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ایسی مزاجی کیفیت کے تحت رومی نے صلاح الدین زرکوب اور حسام الدین چلپی کے لیے تحسین اور حب سے مملو اشعار بھی کہے جس سے مبالغہ آمیز اور گم راہ کن نتائج اخذ کیے گئے۔
رومی اور مفتی صدر الدین قونوی کے باہمی روابط بھی زیادہ واضح نہیں ہیں۔ صدر الدین قونوی بھی رومی کے عجز و انکسار سے بدحواس ہو جاتے تھے۔ ’’نفحات الانس‘‘ تذکرہ نجم الدین رازی، جامی کے حوالے سے علامہ شبلی لکھتے ہیں: ’’نجم الدین رازی مشائخِ کبار میں سے تھے۔ ایک دفعہ وہ اور مولانا (رومی) اور شیخ صدر الدین شریکِ صحبت تھے۔ نماز کا وقت آیا تو انھی نے امامت کی اور دونوں رکعتوں میں ’’قل یا ایھالکافرون‘‘ پڑھی، چوں کہ دونوں میں ایک ہی سورہ پڑھنا غیر معمولی بات تھی، مولانا نے شیخ صدر الدین کی طرف خطاب کرکے کہا کہ ایک دفعہ میرے لیے اور ایک دفعہ آپ کے لیے۔‘‘ (ص:۳۱)
علامہ شبلی نعمانی نے مندرجہ ذیل واقعہ بھی درج کیا ہے۔ اس مروّت کو کیا کہا جائے گا۔ ’’ایک دفعہ بازار میں جار ہے تھے۔ لڑکوں نے دیکھا تو ہاتھ چومنے کے لیے بڑھے۔ آپ کھڑے ہوئے۔ لڑکے ہر طرف سے آتے اور ہاتھ چومتے جاتے۔ مولانا بھی ان کی دل داری کے لیے ان کے ہاتھ چومتے۔ ایک لڑکا کسی کام میں مشغول تھا۔ اس نے کہا، مولانا ذرا ٹھہر جائیے۔ میں کام سے فارغ ہو لوں۔ مولانا اس وقت تک وہیں کھڑے رہے کہ لڑکا فارغ ہو کر آیا اور دست بوسی کی عزت حاصل کی۔‘‘ (ص:۳۷)
مندرجہ ذیل واقعہ بھی علامہ نے درج کیا ہے، اس کا تعلق حسام الدین چلپی سے ہے۔ ’’ایک دفعہ جاڑوں کے دن میں حسام الدین چلپی کے پاس گئے چوں کہ رات کا وقت ہوچکا تھا، دروازے سب بند تھے۔ وہیں ٹھہر گئے۔ برف گر گر کر سر پر جمتی جاتی تھی لیکن اس خیال سے کہ لوگوں کو زحمت نہ ہو، نہ آواز دی، نہ دروازہ کھٹکھٹایا۔ صبح کو دروازہ کھلا تو یہ حالت دیکھی گئی۔ حسام الدین کو خبر کی، وہ آکر پائوں پر گر پڑے اور رونے لگے۔ مولانا نے گلے سے لگا لیا اور ان کی تسکین کی۔‘‘ (ص:۳۷)
علامہ نے دیگر واقعات کے ساتھ مندرجہ ذیل واقعہ بھی درج کیا ہے: ’’ایک دفعہ مریدوں کے ساتھ راہ میں جارہے تھے۔ ایک تنگ گلی میں ایک کتا سرِ راہ سو رہا تھا جس سے راستہ رک گیا تھا۔ مولانا وہیں رک گئے اور دیر تک کھڑے رہے۔ ادھر سے ایک شخص آرہا تھا اس نے کتے کو ہٹا دیا، مولانا نہایت آزردہ ہوئے اور فرمایا کہ ناحق اس کو تکلیف دی۔‘‘
رومی اپنے مریدوں سے بھی بے انتہا شفقت کا برتائو کرتے تھے۔ مریدانِ خاص کے ساتھ حسنِ سلوک بہت زیادہ بڑھا ہوا تھا۔ کہیں سے کچھ نذرانہ آتا تو صلاح الدین زرکوب یا حسام الدین چلپی کے ہاں بھیجوا دیتے۔ سلطان ولاد کے اصرار پر کبھی تھوڑا بہت رکھ لیتے۔