مولانا جلال الدین رومی کی ذاتی زندگی کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں، ان کے مطابق ان کی پہلی بیگم گوہر خانم تھیں جو ۱۲۴۲ء میں فوت ہوئیں۔ ان کے بطن سے علاء الدین اور سلطان ولاد پیدا ہوئے۔ گوہر خانم کے بعد رومی نے قرا خانم سے شادی کی جن کے بطن سے ایک لڑکا مظفر اور لڑکی ملکہ پیدا ہوئے۔
قرا خانم سے منسوب ایک روایت کو کولمن بارکس اپنی کتاب ’’رومی، دی بگ ریڈ بک‘‘ (Rumi: the Big Red Book by Coleman Barks) میں ’’ونڈر فل ہیجینو گرافگ اسٹوری‘‘ کا نام دیتے ہوئے بیان کرتا ہے:
’’ایک دن انھوں نے دروازے کی ایک سن، درز (Slit) سے اس کمرے کے اندر جھانکا جس میں رومی اور شمس ’صحبت‘ میں بیٹھے تھے (باطنی اسرار سے معمور بات چیت)۔ اس نے دیکھا کہ ایک دیوار شق ہوئی اور چھہ ذی شان وجود اندر آگئے۔ وہ اجنبی تعظیماً جھکے اور رومی کے قدموں میں پھول رکھے، اگرچہ وسطِ سرما تھا۔ وہ فجر کی نماز تک رُکے۔ انھوں نے نمازِ فجر کی امامت کرنے کے لیے شمس تبریز کو اشارہ کیا۔ انھوں نے معذرت چاہی اور رومی نے وہ فریضہ انجام دیا۔ جب نماز ادا ہوگئی اور وہ چھہ وجود دیوار سے باہر ہوگئے، مولانا روم حجرے سے باہر آئے اور اپنی بیگم کو ہال میں دیکھ کر پھول ان کو دیے اور کہا، ’کچھ ملاقاتی تمھارے لیے پھول لائے تھے۔‘ اگلے دن بیگم نے اس گل دستے سے کچھ پتے اور پھول دے کر اپنے ملازم کو عطر فروشوں اور گل فروشوں کے بازار روانہ کیا۔ عطر فروش اور گل فروش ان کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور شناخت نہ کر سکے۔ البتہ مصالحہ جات کے ایک ہندوستانی تاجر نے ان کو شناخت کر لیا جس کے مطابق اس طرح کے پھول صرف سیلون (سری لنکا) میں پیدا ہوتے ہیں۔ ملازم اس حیران کن اطلاع کے ساتھ واپس آیا۔ جب وہ بات بتا رہا تھا، رومی وہاں آگئے، اور بیگم سے کہا، ان پھولوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنا کیوں کہ ہندوستان کے اولیا اﷲ ان کو جنت سے لے کر آئے ہیں۔ اس جنت سے جس کو آدمیوں نے گنوا دیا۔ جب تک قرا خانم حیات رہیں (ان کی وفات مولانا روم کے وصال کے انیس سال بعد ہوئی) پھول تازہ اور مہکتے رہے۔ ان کی صرف ایک پتی/ پنکھڑی سے بیمار آنکھ کو یا کسی زخمی یا مائوف عضو کو چھوا گیا تو فوری علاج ہوگیا۔ (ص: انٹروڈکشن۔ رومی: ’’دی بگ ریڈ بک‘‘)
مولانا روم شریعت سے منہ موڑے بغیر طریقت کے راستے پر آئے تھے لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے تدریس اور فتویٰ نویسی قریب قریب ترک کر دی تھی۔ انھوں نے طبقۂ امرا سے بھی تعلق توڑ لیا تھا۔ وہ معاشرے کے ان طبقات کی جانب متوجہ ہوگئے تھے جو مادّی سہولیات سے محروم، تنگ دست اور محکوم تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ روحانی تعلیمات کے دائرے کو وسیع کریں۔ انھوں نے عوامی اجتماعات میں وعظ دیے۔
The Soul Essence of Shams Tabriz
کولمن بارکس (The Big Red book) کے مطابق دیوانِ شمس تبریز میں تین ہزار نظمیں ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کے مطابق کم و بیش پچاس ہزار شعر ہیں۔ مولانا رومی نے اکثر لکھا ہے اور طور طور سے بیان کیا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ زبان کہاں سے آئی ہے اور کس سے اس کا رشتہ ہے۔ شمس تبریز نے اپنے مقالات میں بیان کیا ہے کہ یہ مولانا جانتا ہے کہ لکھنے والے نے تین اسکرپٹس (Scripts) میں لکھا ہے۔
One that he could read and only he,
One that he and others could read,
and one that neither he nor any one else could read
I am that third script.
ایک وہ جسے وہ پڑھ سکے، صرف وہ
ایک وہ جسے وہ اور دوسرے پڑھ سکیں
اور ایک وہ جسے نہ تو وہ، نہ ہی کوئی دوسرا پڑھ سکے
میں وہ تیسری تحریر ہوں۔
————
کولمن بارکس نے رومی کی شاعری کا مقصود یہ بتایا ہے:
۱۔ مولانا رومی ہمیں، ہماری روحوں کو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔
۲۔ وہ ہمیں ہماری نیند سے بیدار کرنا چاہتے ہیں۔
۳۔ وہ ہمیں ہمارے جمال سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم آئینے میں اور ایک دوسرے میں اپنا عکس دیکھیں۔
مولانا رومی کی شخصیت
محمد مولانا /مولوی /میلوی (ترکی زبان میں) جلال الدین رومی کی شخصیت کی تشکیل کے سلسلے میں پہلے اہم بات یہ ذہن میں رکھی جانی چاہیے کہ وہ ایسے گھرانے میں جنم لیتے ہیں جو خالص علمی اور دینی گھرانا کہلایا جاسکتا ہے۔ علم، دین، تدریس، تبلیغ، وعظ و پندکے علاوہ اسرارِ معرفتِ الٰہی اور شریعت سے مربوط طریقت اور تصوف محمد جلال الدین رومی کی گھٹی میں پڑے۔ یہ منصب اس لیے میسر آیا اور ممکن ہوا کہ ان کے والدِ ماجد محمد بہاء الدین ولاد (۱۲۳۱ء۔۱۱۵۰ء) ایک معروف (سنّی، حنفی مسلک کے) مدرس، واعظ، تھیالوجین، عالمِ باشریعت، صوفی اہلِ طریقت تھے۔ جس وقت رومی کوئی پانچ برس کے تھے، ولاد خانوادہ وخش سے بلخ چلا گیا۔ اس کے ایک آدھ برس بعد وہ لوگ سمرقند (آج کے ازبکستان) پہنچے۔ ۱۲۱۶ء کے آس پاس انھوں نے اس علاقے سے بھی ہجرت کی اور خراسان پر منگولوں کے حملے (۱۲۲۱ء) سے پیشتر پہلے نیشا پور، شمالی ایران گئے اور پھر بغداد، بغداد سے وہ کوفے گئے پھر عرب پہنچے اور حج کیا۔ حج کے بعد سفر کرتے ہوئے وہ شمال مغرب کی سمت میں دمشق (شام) بالآخر ۱۲۱۷ء میں جنوب مشرقی ترکستان کے قصباتی شہر ملاطیہ میں آباد ہوگئے۔ ۱۲۱۸ء میں محمد بہاء الدین ولاد نے ارزنکان کی شہزادی کو اس امر پر راضی کر لیا کہ اخشار (مشرقی اناطولیہ کا قریبی قصباتی شہر) میں صوفی خانقاہ تعمیر کروا دے اور وہ کنبے کے ساتھ اس خانقاہ میں سکونت اختیار کر گئے جہاں محمد بہاء الدین ولاد نے قریباً چار برس شریعت پڑھائی۔ پھر یہ ہوا کہ وہ خاندان لارندے (آج کا کرمان) چلا گیا۔ (کرمان) لارندے جنوبی ترکستان میں واقع ہے۔ وہاں محمد بہاء الدین ولاد کو ایک بار پھر مدرسی مل گئی۔ ان دنوں محمد جلال الدین رومی سترہ برس کے تھے۔
(۱۲۲۴ء میں) ان کی گوہر خانم سے شادی ہوئی (گوہر خانم کے بطن سے جلال الدین رومی کے دو لڑکے پیدا ہوئے سلطان ولاد اور علاء الدین)۔
سلجوقی شہزادے علاء الدین کیقباد اوّل (۳۷۔۱۲۱۹ء) کی دعوت پر یہ خانوادہ قونیہ (۱۲۲۹ء) میں آباد ہوا۔ قونیہ میں محمد بہاء الدین ولاد کو مقامی مدرسے میں مدرس کی جگہ مل گئی اور بہت جلد ان کو شہر کے سب سے بڑے عالم کا مقام اور مرتبہ حاصل ہوگیا۔ ۱۲۳۱ء میں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کا سرکاری سطح پر سات روزہ سوگ منایا گیا۔