فرینکلن ڈی لیوس نے رومی کی کسی قدیمی سوانح کے نہ ہونے کا بیان کرتے ہوئے جن مآخذات کا ذکر کیا ہے، وہ خاصے اہم ہیں۔ مثال کے طور پر رومی کے مکتوبات جن کو قرونِ وسطی کے تاریخی اور سوانحی مسودات، ملفوظات کے ساتھ ملا کر پڑھا جاسکتا ہے۔ وقف کے دستاویزات، رومی کے بیٹے سلطان ولاد کا ’’یادنامہ‘‘، سپہ سالار کی کتاب اور افلاکی کی مرتبہ سوانح وغیرہ۔ ان کے علاوہ رومی کے ہم عصروں کے بارے میں لکھا ہوا مواد بھی چھانا پھٹکا جاسکتا ہے۔ لیوس کے اپنے زمانے میں رومی کی سوانح عمری لکھنے کے لیے مستحکم اساس کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے فرینکلن ڈی لیوس نے علامہ شبلی نعمانی کو اوّلیت دی ہے، اگرچہ ان کی سوانح اردو میں ہے۔ اس نے اس کو واضح طور پر پہلی کوشش قرار دیا ہے۔ البتہ اس کو ۱۹۳۷ء کی تصنیف لکھا ہے جب کہ وہ اس سے کافی پہلے یعنی ۱۹۰۶ء کی تصنیف ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماسوا لیوس کسی دوسرے مغربی محقق یا مؤرّخ نے رومی کی سوانح عمری کا ذکر کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی کی ’’سوانح مولانا رومی‘‘ کا ذکر نہیں کیا۔
فرینکلن ڈی لیوس نے فرون ظنفر (Forunzanfar) کی ’’سوانح رومی‘‘، اس کے علاوہ سلطان ولاد کے ’’ابتدا نامہ‘‘ پر جلال الدین ہما کے لکھے ہوئے تعارف سے بھی رومی کے سوانح نگاروں کو کافی مواد مہیا ہوجاتا ہے۔ فرون ظنفر کی تحریر کردہ سوانح کا نظرِثانی کردہ ایڈیشن جو ۱۹۵۴ء میں طبع ہوا، بھی اہمیت کا حامل ہے۔ گولپی نارلی کی ترکی زبان میں لکھی ہوئی سوانح میں بہت مواد ملتا ہے (۱۹۵۱ء) افضل اقبال نے رومی کے عہد کی تشکیل کرتے ہوئے اس زمانے کی معاشرتی، معاشی، ادبی اور سیاسی تصویر کشی کی ہے (۱۹۵۶ء)۔ یہ سوانح انگریزی زبان میں ہے۔ ہلمررٹر (Hellmur Retter) نے ’’انسائیکلوپیڈیا آف اسلام‘‘ دوسری اشاعت میں رومی کی زندگی کے واقعات کی اہم تاریخوں کو زیادہ مستند انداز میں درج کیا ہے۔
این میری شمل (Annemari Schimmel) نے رومی نے جیسی زندگی بسر کی اور وہ کیا تھے، کے بارے میں ایک واضح خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی، افلاکی سے اخذ کردہ معلومات اور رومی کی شاعری کے حوالوں کی مدد سے۔ روسی زبان میں راڈی فش (Radii Fish)نے کچھ ایسا ہی کیا۔ عبدالحسین زرین کوبAbdal Hussain Zarrinkub نے ایک ’’تاریخی ناول‘‘ لکھی جس سے رومی کی زندگی کا پورا احساس ملتا ہے۔ اس کے علاوہ رومی کی شخصیت کا سائیکوبیالوجیکل تجزیہ (Zrp) ملتا ہے۔