رومی کی زندگی (سوانح، سیرت) کے بارے میں وثوق کے ساتھ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اسی تاریخ کو پیدا ہوئے تھے جو عام طور پر درج ملتی ہے۔ یہ بھی وثوق کے ساتھ نہیں ثابت کیا جاسکتا کہ ان کے رہائشی علاقے کا جب خوارزمیوں نے محاصرہ کیا ہوا تھا، وہ واقعی پانچ برس کے تھے۔ ان کے مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ وہ قدرے بڑی عمر کے ہوں گے اور درج شدہ سال سے قدرے قبل ان کی ولادت ہوئی ہوگی۔ اسی طرح ان کے جائے ولادت کے بارے میں ایک سے زائد بیانات ملتے ہیں۔ قطعیت کے ساتھ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی ولادت قصبانی شہر وخش میں ہوئی تھی یا شہر بلخ میں ہوئی تھی۔ اس دعوے کو تسلیم کرنے میں تأمل ہوتا ہے کہ رومی کی ولادت کے وقت ان کے والد بہاء الدین کی عمر ساٹھ برس کی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی خاصا ناقابلِ فہم معلوم ہوتا ہے کہ ستر سال کے ضعیف العمر بہاء الدین نے اپنے پورے خاندان کو ساتھ لے کر اندازاً بلخ سے اناطولیہ کا پندرہ سو میل کا صعوبتوں سے معمور سفرِ ہجرت طے کیا۔ حالات اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ رومی کی پیدائش اور ان کے والد بہاء الدین کی اہلِ خانوادہ کے ساتھ ہجرت دونوں قدرے پہلے واقع ہوئے ہوں گے۔
رومی کے دادا یعنی بہاء الدین کے والد کے بارے میں یہ تحریر ملتی ہے کہ وہ یعنی حسین خاطبی بلخ کے رہنے والے تھے۔ بہاء الدین کچھ سال ان کے ساتھ بلخ میں رہے ہوں گے۔ بہاء الدین کی تین یا چار بیویاں تھیں۔ رومی کی والدہ کا نام مومنہ خاتون تھا۔ ہجرت کے دوران ان کی وفات ہوئی۔ یہ خاندان چند ماہ یا قریباً ایک سال اناطولیہ کے شہر لارندے میں قیام پذیر رہا۔ اسی شہر میں رومی کی والدہ نے وفات پائی اور دفن ہوئیں۔ اسی سفر اور گھر بدری کے دوران رومی کے بھائی علاء الدین کی وفات بھی ہوئی۔ رومی نے اپنی پہلی بیوی سے پیدا ہونے والے دو بچوں کا نام اس بھائی کے نام پر علاء الدین رکھا۔ رومی کے ایک لڑکا اور لڑکی دوسری بیگم کے بطن سے ہوئے۔
رومی کو جب وہ بہت چھوٹی عمر کا بچہ تھا، ساتھی بچوں نے اکسایا کہ وہ ایک عمارت کی چھت سے قریب کی دوسری عمارت پر چھلانگ لگائے۔ رومی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور ان سے کہا، یہ کام بلیوں اور کتوں کا ہے، آئو ہم تم اوپر اﷲ تعالیٰ کے گھر کی طرف چھلانگ لگائیں۔
رومی کی شخصیت سے متعلق ایک واقعہ جو اساسی اہمیت کا حامل ہے، لیکن اس کو مغربی سیرت نگاروں نے مشکوک قرار دیا، وہ یہ ہے کہ رومی نے ہجرت کے دوران وفات پانے والے بھائی علاء الدین کی یاد میں اپنے دو لڑکوں کا نام علاء الدین رکھا۔ رومی کے والد نے ایک ڈائری (یادداشت) سی چھوڑی جس کا نام تھا ’’معارف‘‘۔ اس ڈائری میں (یہ کہا جاتا ہے کہ) ان کی باطنی شخصیت، طریقت اور تصوف کے اسرار ہائے مخفی درج تھے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بہاء الدین ولاد کی معمول کی مصروفیات میں مسائل اور معاملاتِ شریعت کی تدریس و تعلیم شامل تھی لیکن وہ اپنے طور پر سالکِ راہِ طریقت بھی تھے۔ اگر ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آدمی کی شخصیت کی تشکیل میں بہت زیادہ نہ بھی ہو کچھ نہ کچھ نسلی ورثہ بھی ’’حصہ‘‘ لیتا ہے، یہ نسلی ورثہ والدین سے، اور بعض اوقات ددھیال اور ننھیال کے سلسلے سے، بہت پیچھے سے بھی منتقل ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر آپ اور میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مولانا جلال الدین رومی کی شخصیت کے اندرون میں طریقت اور تصوف تو کھلے طور پر حضرت بہاء الدین ولاد (والد) سے بطور نسلی ورثہ منتقل ہوتا دکھائی دیتا ہے، اگرچہ وہ خوابیدہ حالت میں ان کے اندر سال ہا سال مناسب محرک کے انتظار میں موجود رہا۔ اگر ہم یہ سوچنے پر آجائیں حضرت بہاء الدین ولاد (والد) اور (صاحب زادے) حضرت جلال الدین رومی دونوں لائقِ صد احترام بزرگ شریعت اور طریقت، معاملات و مسائلِ دینیات (اسلامی تھیالوجی) اور اسلامی تصوف و روحانیت کے زیرِ اثر شخصیتوں کے مالک تھے۔ اس خیال کو رد کرنے کے لیے ’’مثنوی‘‘ کو سامنے کرنا غلط ہوگا کیوں کہ ’’مثنوی‘‘ کا خالق اس مرحلۂ عمری میں اپنی شخصیت کو ایک مناسب حد تک مجتمع کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
مولانا رومی کے شخصی ارتقا پر سوچتے ہوئے آپ اور میں اس حقیقت کو بھی نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے کہ رومی نے اپنے والدِ ماجد کو قبولِ عام، شہرت اور دینوی قدر و منزلت سے مالا مال ہوتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ ساری عمر پابرکاب رہے۔ حصولِ علم کے ساتھ کسبِ حلال اور توکل کے ساتھ جہدِ مسلسل سے، ان کی زندگی کو تعبیر پاتے ہوئے محسوس بھی کیا۔ ان حالات میں اگر یہ نہ بھی کہا جائے کہ رومی کے لیے ان کے والد کی شخصیت ایک آئیڈیل، ایک آدرش اور رول ماڈل کی سی تھی، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ رومی کی شخصیت کی تعمیر وتشکیل میں ان کے والد کی شخصیت ’’پہلی اینٹ‘‘ کا درجہ اور مرتبہ رکھتی ہے جو جیسی بھی تھی، ٹیڑھی نہیں رکھی گئی تھی۔
مولانا رومی اور ان کے والدِ ماجد مرحوم سے باہم جڑی ہوئی ایک اور حقیقت کی جانب توجہ کا طالب ہونا پڑ رہا ہے، وہ ہے سفر، ہجرت، سیاحت اور مسلسل تبدل، تغیر اور حرکت جس سے مولانا رومی کے والد کی زندگی عبارت تھی۔ صوفی درویشوں کے بارے میں یہ روایت عام ہے کہ صوفی سفر اور سیاحت کی زندگی اختیار کرتا ہے اور اس طرح مشاہدئہ حیات سے فیض یاب ہوتا ہے۔ آخرِ عمر میں تکیہ کرتا ہے۔ حضرت محمد بہاء الدین ولاد وخش (تاجکستان) سے اپنے خاندان کے ساتھ پہلے بلخ میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ ان دنوں رومی کی عمر قریباً پانچ برس کی ہوتی ہے۔ گویا ان کی سفر اور سیاحت کی زندگی والدِ ماجد کی ہمراہی میں، اس کم عمری میں شروع ہو جاتی ہے اور والد کے ساتھ وہ موجود ہوتے ہیں جب والد مقدونیہ میں تکیہ کرکے وفات پاتے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی نے بچپن سے لے کر جوانی تک کا عرصہ اپنے والدِ ماجد، اپنے استاد، اپنے مربی، اپنے اوّلین پیرو مرشد کے ساتھ گزارا۔ ہمہ وقت ان کو اپنی نگاہ میں رکھا، ہر دم ان کی نظروں میں رہے۔ ان ہی کی ہم سفری میں اس عہد میں موجود نصف سے زائد مسلم دنیا کی سیاحت کی۔ افغانستان، ایران، توران، عربستان اور آج کے شام اور ترکستان کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کو دیکھا بھالا، کسی کسی میں رہائش اختیار کی، کسی کسی سے ہو کر گزرے۔ قوم قوم، نسل نسل کے، جدا جدا ثقافتوں، جدا جدا لسانی رشتوں کے عوام اور خواص سے ربط ضبط پیدا کیا۔ کسی شہزادے، کسی شہزادی، کسی فرماں روا سے تو کسی بڑے ہم عصر عالم، شاعر اور صوفی سے علیک سلیک کی، ہر کسی کو کچھ دیا اور ہر کسی سے کچھ لیا۔ روشنی سے حصہ بٹایا، تیرگی کو منور کیا۔ باپ بیٹا جہاں بھی گئے، جہاں بھی رہے عبادت، ریاضت، زہد اور علم، رختِ سفر رہے یا اسبابِ خانہ بنے اور جب باپ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا تو اپنے فرزند اور اہلِ خانہ کے لیے بطورِ ترکہ یہی کچھ چھوڑا اور اس وقت کی مسلم دنیا کے لیے اپنی مثالی زندگی کی یاد۔
باپ بیٹے کی ہم سفری اور ہم قیامی کا عالم دیکھیے کہ دونوں بعد از مرگ بھی اپنی اپنی لحدوں میں، ایک ہی شہر قونیہ میں قیام فرما ہیں، البتہ تواریخِ رحلت جدا جدا ہیں۔