یہ خاندان نیشاپور گیا کہ نہیں لیکن مکہ گیا۔ فریضۂ حج سے سرفراز ہوا اور پھر افلاکی کے مطابق یہ خاندان دمشق سے ملاتیہ (Malatya) پہنچتا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب خوارزم شاہ دمشق کے سلطانِ معظم سے اتحاد کرتا ہے۔ ۱۲۱۷ء کے آس پاس یہ لوگ ملاتیہ سے ہجرت کرکے اخشر (Aqshahr) میں قیام پذیر ہوتا ہے۔ یہ اناطولیہ کا بہت چھوٹا شہر تھا۔ اوزن کان (Eozincan) جو خاصا بڑا شہر تھا، اس میں ٹھہرنے سے بہاء الدین ولاد نے اس لیے اجتناب کیا کہ وہاں کی کثیر آبادی آرمینیا کے لوگوں پر مشتمل تھی جو شراب خوری میں شہرت رکھتے تھے۔ اس چھوٹے شہر میں شہزادی عصمتی خاتون راج کرتی تھیں۔ شہزادی اور اس کے خاوند نے بہاء الدین کی مریدی اختیار کی۔ یہ تو پتا نہیں کہ یہ لوگ وہاں کتنے عرصے مقیم رہے۔ وہاں سے یہ خاندان لارندے (Larenday) میں جا بستا ہے۔ وہ عیسائی آبادی کا شہر تھا جس پر سلجوقی حکمران تھے۔ شاید ۱۲۲۱ء کا زمانہ ہے۔ اس وقت رومی سترہ برس کی عمر کو پہنچتے ہیں۔ اس زمانے میں اس کو بلوغت کی عمر تسلیم کیا جاتا تھا۔ گوہر خانم سے جو اپنے لوگوں کے ساتھ اس قافلے میں شریک تھی، رومی کی شادی کر دی جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے دونوں کا رشتہ بچپن سے طے تھا۔ گوہر خانم کی والدہ بہاء الدین ولاد کی مرید تھیں۔ لارندے کی اہمیت یوں بھی بہت بڑھ جاتی ہے کہ اسی شہر میں رومی کی والدہ کی وفات اور تدفین ہوتی ہے۔ رومی کا ایک بھائی بھی غالباً لارندے ہی میں فوت ہوتا ہے۔ رومی کے دو بیٹے علاء الدین (بھائی کے نام پر) اور سلطان ولاد لارندے میں پیدا ہوتے ہیں۔ لارندے میں ان کا قیام ۱۲۲۸ء تک رہتا ہے۔
۱۲۲۹ء میں یہ خاندان شہر شہر کی خاک چھانتا ترکی شہر قونیہ میں پہنچتا ہے۔ قونیہ کو لزلی وائنس نے رومی کا شہر کہا اور خوب کہا ہے۔ دنیا نے رومی کو قونیہ کا نہیں مانا، یہ اور بات ہے۔ شاید دنیا نے ٹھیک ہی کیا۔ اس کو زمان و مکاں کی حد بندیوں سے بلند ہونا تھا اور ہو کر رہا۔
اس سے البتہ انکار نہیں کیا جاسکتا، دس برس کے قریب سفر میں گزارنے والے چین کا سانس لیتے ہیں۔ سلجوقیوں کا دورِ حکومت ہے۔ سلجوق حکمران صوفیا کے لیے ذہن اور دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ مسلکِ اسلام کو مقبول بنانے اور اس کو پھیلانے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔ رومی جو آغازِ سفر کے وقت دس بارہ سال کی عمر کے تھے، اب بیس بائیس برس کے جوان ہیں۔ بیوی اور دو بچے بھی ہیں۔ اس شہر میں مدرسے بھی اچھے ہیں اور مساجد بھی منفرد آرکی ٹیکچر کے مطابق تعمیر شدہ اور خوب صورت ہیں۔ بہاء الدین ولاد اور رومی دونوں باپ بیٹے اپنے کام اور اپنی زندگی کے روز و شب سے مطمئن ہیں۔ وعظ اور تقریر کے فن میں کمال کے لوگ ہیں۔ خلقِ خدا ان کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے۔ اس شہر میں جلال الدین رومی اور شمس الدین تبریزی میں ملاقات ہونے والی ہے۔ ایسی ملاقات جو ان دونوں اکابرین کو ایک دوسرے سے باہم جوڑ دینے والی ہے۔ ایسی ملاقات جس کو دو روحوں کی ملاقات کہنا بہتر ہوگا۔ ایسی ملاقات جس نے رومی کو جو ایک واعظ تھا، ایک مقرر تھا، تدریس اور فتوے دینے تک اپنی صلاحیتوں کو محدود رکھتا تھا— سماع سے دور بھاگتا تھا، صوفی، صاحبِ حال، درویش، سماع کے دوران وجد میں آنے اور نیم رقصاں ہو جانے والا بنا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فارسی زبان کا سب سے زیادہ اشعار نظم کرنے والا شاعر بنا دیا۔ ایسا شاعر جس نے فارسی شاعری کو ایک شاہکار تخلیق اپنی عظیم ’’مثنوی‘‘ کا تحفہ دیا۔
اس خاندان نے قونیہ میں مستقل رہائش اختیار کر لی کیوں کہ اور شہروں کے مقابلے میں انھیں قونیہ منگول حملوں سے قدرے محفوظ شہر لگا۔ سطحِ سمندر سے پانچ ہزار فٹ بلند و بالا شہر دیگر شہروں کے مقابل دشوار گزار محسوس ہوتا تھا۔ اسی سبب سے چند ایک دیگر پناہ گزیں اس شہر میں آبسے تھے۔ قونیہ کے لوگوں کا مزاج بھی کچھ جذب کرنے والا تھا۔ یوں بھی قونیہ کوئی ایسا ویسا، گیا گزرا معمولی شہر نہیں تھا۔ نوہزار سال قبل اس شہر میں اناطولیہ کے وہ لوگ آباد تھے جو کسی دیوی کے پچاری تھے۔ آرٹی مس اور ڈائنا کی پرستش کے زمانے سے بہت پہلے۔ بعد میں قونیہ سلطنتِ روم کا ایک اہم شہر بنا اور اس شہر کو یہ عزت بھی حاصل ہوئی کہ اس کی گلیوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک حواری سینٹ پال نے وعظ دیے۔ رومیوں کے بعد شہر اناطولیہ سلجوق سلطنت کا پایۂ تخت قرار پایا۔ اس کو روم کا نام دیا گیا اور اس کی رعایت سے مولانا جلال الدین رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس شہر اور علاقے کی قدامت اور تہذیبی و تمدنی میراث شاعر رومی کی شاعری میں مختلف النوع شکلوں میں جذب ہوگئی۔
قونیہ میں رہائش اختیار کرنے کا سبب یہ بھی تھا کہ بہاء الدین ولاد کو التپنا کے مدرسے میں مذہب کی تدریس کی پیش کش ملی اور اس کی قدر و منزلت بھی ہوئی۔ سلجوق حکومت ان دنوں التپنا کے مذہبی اور علمی اداروں پر بہت خرچ کر رہی تھی۔ نئی عمارتیں بھی تعمیر کی جارہی تھیں۔ پورے اناطولیہ میں ایک مہم سی شروع کی گئی تھی۔
رومی وہاں اپنے والد کے فرائض میں ہاتھ بٹانے سے جڑے رہے۔ ان کا منصب مددگار مدرس جیسا تھا۔ ایسے کوئی شواہد دیکھنے میں نہیں آئے جن سے یہ ثابت ہو کہ رومی نے شاعری شروع کی ہو یا مسٹی سزم میں دل چسپی لینی شروع کی۔ اس خاندان کے قونیہ میں بس رہنے کے دو برس بعد بہاء الدین ولاد بعمر ۸۴ سال دنیا سے سدھار گئے۔ ان دنوں رومی چوبیس برس کے ہوں گے۔ رومی اس طرح اپنے والد اور اتالیق سے محروم ہوگئے کیوں کہ والد ہی ان کے سب کچھ تھے۔ ایک آدھ سال بعد رومی کو سیّد برہان الدین محقق کا ساتھ، رہبری، اتالیقی اور سرپرستی مل گئی۔ سیّد برہان الدین محقق بہت ممکن ہے، رومی کے شیخِ طریقت بھی ہوگئے ہوں۔ محقق نے ایک حیثیت سے اس خاندان کی سرپرستی بھی اختیار کی اور رومی کی غیر حاضری میں اس گھر کے سارے معاملات کو وہی سنبھالتے تھے۔
سیّد برہان الدین محقق رومی کے والد بہاء الدین ولاد کے خراسان میں شاگرد اور شاید مرید بھی تھے۔ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ جب یہ خاندان ہجرت پر نکلا تو برہان الدین محقق اس کے ساتھ مکے یا شام تک شریکِ سفر تھے۔ دولت شاہ کا یہی مفروضہ ہے لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ قونیہ اپنے استاد اور پیر و مرشد بہاء الدین ولاد سے ملنے کے لیے پہنچے ہوں اور رومی کو ضرورت مند پاکر اس خاندان کے ساتھ رہ پڑے ہوں۔ رومی نے ان کی قانون دانی اور ان کے طریقۂ استدلال کی صلاحیت کی تعریف کی ہے۔
افلاکی نے ان کی روزے رکھنے کی عادت کا اور ساتھ ہی ان کی صفائی ستھرائی سے غفلت برتنے کی خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔ جہاں تک فاقہ کشی، روزے داری کا تعلق ہے، محقق اس کو نفس اور خاص طور پر نفسِ امارہ پر قابو پانے کا وسیلہ سمجھتے تھے اور سالکِ راہِ حقیقی کے لیے لازمی قرار دیتے تھے۔ ان کی نگرانی میں رومی نے خوب خوب روزے رکھے اور سلوک کی منازل طے کرنے کے لیے سخت سخت چلّے کیے۔ افلاکی نے ان کی تفصیل کچھ اس طرح بیان کی ہے کہ یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ روزے داری اور فاقہ کشی سے رومی اس قدر منحنی اور دبلے پتلے ہوگئے تھے کہ حمام میں غسل کے دران اپنا عکس دیکھ کر حیران رہ گئے۔
سیّد برہان الدین محقق، ولاد خاندان سے پندرہ برس کی علاحدگی کے بعد قونیہ آملتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ واقعہ رومی کے لیے، اس کی شخصیت کی تشکیل کے لیے اہم ہی نہیں بلکہ ضرور ی بھی تھا۔ بصورتِ دیگر رومی کی شخصیت کوئی اور شکل اختیار کرتی۔ رومی ہی نہیں پورے ولاد خاندان کو برہان الدین محقق جیسے آدمی کی رفاقت اور سرپرستی کی ضرورت تھی ورنہ حالات کوئی اور رُخ اختیار کرتے۔ سیّد برہان الدین محقق، رومی کے، اس کے والد کے پورے خانوادے کے لیے قدرت کا ایک گراں بہا تحفہ ثابت ہوئے۔ ان کی آمد کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
مردِ از غیب بروں آمد و کارے بکند
برہان الدین محقق اس خانوادے کے ساتھ تقریباً ایک دہائی تک رہے۔ رومی کی روحانی تربیت کے علاوہ محقق نے رومی کی تعلیم کی جانب توجہ دی۔ رومی نے بھی ان کا کہا مانا اور آٹھ دس برس اپنے گھر بار، بیوی بچوں سے بار بار کی جدائی گوارا کی اور حصولِ علم کو ہر معاملے پر فوقیت دی۔ برہان الدین محقق نے سب سے پہلے رومی کو اس کے اپنے والد کی کتاب ’’معارف‘‘ پڑھائی، اپنے طور پر اس کی تدریس کی اور بعد میں قونیہ کے باہر بھیج دیا۔
اگر افلاکی کے بیان پر تکیہ کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ رومی ممتاز حنفی عالم، سیّد کمال الدین العدیم کے حلقۂ درس میں بمقام حلاویہ مسجد علیپو (Aleppo) میں (۱۲۳۲ء–۱۲۳۳ء) میں شامل رہے۔ العدیم قانون، شریعت اور فتاویٰ میں بے مثال علم و کمال کے مالک تھے۔ اس سبب سے رومی ان علوم میں خود بھی کمال کو پہنچے۔
علیپو میں رومی نے اپنی کشف کی طاقت (ٹیلی پیتھی) کا ایسا مظاہرہ کیا کہ العدیم کے علاوہ سارا علیپو شہر رومی کی روحانی شخصیت کا قائل ہوگیا اور اہلِ حاجت ان کو گھیرے رہنے لگے۔ رومی کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے علیپو سے بھاگنا پڑا۔ رومی وہاں سے دمشق چلے لیکن ابھی ان کی روحانی شخصیت ان کا ساتھ چھوڑنے پر مائل نہیں ہوئی تھی۔ چناں چہ دمشق کے راستے میں ایک غار میں متمکن چالیس عیسائی راہبوں سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی۔ اس علاقے میں ان کے روحانی کمالات کے چرچے تھے۔ ان کو پامسٹری (دست شناسی)، نجوم، مائنڈ ریڈنگ (ذہن پڑھنے) اور بطورِ خاص آدمیوں کو ہوا میں معلق بے وزن کرنے (Levitation) میں مہارت حاصل تھی۔ ان لوگوں نے رومی کو مرعوب کرنے کے لیے ایک بچے کو اس پر مامو ر کیا کہ وہ ان کو ہوا میں معلق کرے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ بچہ رومی کو معلق کرتا، رومی نے بچے کو فضا میں بلند کرکے لٹکا دیا۔ ان لوگوں کی ہزار کوشش کے باوجود وہ لڑکا نیچے نہ آسکا۔ رومی نے اس شرط پر لڑکے کو زمین پر اتارا کہ وہ پہلے دینِ اسلام قبول کرے۔
رومی کا دمشق آنا تو ثابت ہے لیکن دمشق میں ان کے قیام کی مدت میں بڑا اختلافِ بیان ملتا ہے۔ چار سال سے سات سال تک کا قیاس سامنے آتا ہے۔ مقالاتِ شمس تبریزی میں ان کی رومی سے ایک مختصر ملاقات کا ذکر ملتا ہے لیکن یہ ملاقات رومی کو یاد نہیں رہی تھی۔
بیانات ایسے بھی سامنے آتے ہیں کہ رومی کی دمشق میں اس عہد کے چند ایک بڑے مسلم آئمہ ومفکرین سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ممتاز اسپینی مفکر عالم ابن العربی کا نام بھی لیا جاتا ہے جو بقول مغرب کے محققین اور لزلی وائنس ایسے صوفی تھے جن کا طبعی رجحان Pantheistic پینتھیسٹک تھا اور جنھوں نے اپنے دلائل سے یہ ثابت کیا تھا کہ کائنات اﷲ تعالیٰ کے وجود کا Extension (پھیلائو) ہے۔ ابن العربی کی فکر سے ایسا نتیجہ نکالنا صریح گمراہی ہے۔ اس نکتے پر آگے بات ہوگی۔رومی کی بسلسلۂ تعلیم قونیہ سے باہر رہنے کی مدت وقفوں کے ساتھ آٹھ برسوں پر مشتمل ہے۔
افلاکی کے مطابق رومی کو مقامی شہزاد ے صاحب اصفہانی کے محلات میں رہائش کی دعوت ملتی ہے، لیکن برہان الدین محقق اس کو اس دعوت کو قبول کرنے سے یہ کہہ کر باز رکھتے ہیں کہ اس کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے منکسر المزاج والد بہاء الدین ولاد نے مدرسے میں رہائش کو ترجیح دی تھی۔
رومی کی تعلیم کے اختتام اور مستقل طور پر قونیہ میں رہائش کے فیصلے کے ساتھ ہی برہان الدین محقق نے اپنا یہ فیصلہ سنایا کہ وہ قیصریہ جانے کے خواہش مند ہیں۔ رومی ان سے جدا ہونے پر راضی نہیں تھے۔ اس صورتِ حال کا فرینکلن لیوس نے بہتر طور پر تجزیہ کیا ہے۔ اس کے مطابق ایک جانب رومی کی اپنے استاد، شیخِ طریقت سے عقیدت اور محبت تھی تو دوسری جانب برہان الدین محقق کا یہ خیال کہ اگر وہ قونیہ میں قیام کریں گے تو رومی کو والد کی جانشینی کا مرتبہ حاصل نہ ہوسکے گا۔
قدرت نے جو فرض ان پر لاگو کیا تھا، وہ اسے تائیدِ ایزدی سے پورا کر چکے تھے۔ وہ قونیہ سے چلے گئے لیکن کسی حادثے کی وجہ سے سفر منقطع کرنا پڑا۔ وہ قونیہ لوٹے لیکن ایک مختصر وقفے کے بعد قیصریہ چلے گئے۔
سلطان ولاد کے مطابق سیّد برہان الدین محقق کی وفات ۱۲۴۰ء یا ۱۲۴۱ء میں ہوئی۔ دیگر لوگوں کی رائے ہے کہ وہ ۱۲۴۰ء میں قونیہ سے گئے اور ۱۲۴۵ء میں قیصریہ میں وفات پائی۔
رومی جب مستقل رہنے کے لیے قونیہ لوٹے تو ان کی عمر ۳۴ برس تھی۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ۱۲۴۲ء/۱۲۴۳ء میں رومی کی بیگم گوہر خانم وفات پاگئیں۔ عمر کے آخری حصے میں وہ اپنے خاوند رومی سے زیادہ تر جدا رہیں۔ کیوں کہ رومی تعلیم کے حصول میں زیادہ تر گھر سے باہر رہے تھے۔ان کی دوسری بیگم قرا خانم کے بارے میں کچھ ذکر ملتا ہے، لیکن اس کے راوی رومی نہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں مرد خواہ عیسائی ہوں یا مسلمان اپنی خانگی زندگی اور خاص طور پر ازواج کا کم ہی ذکر کرتے تھے۔
نسائی زندگی اور خواتین کا ذکر آتے ہی لزلی وائنس اپنی ساری معروضیت، مفروضات اور قیاسات سے گریز کے رویے کو جیسے فراموش کر بیٹھتی ہیں اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے منسوب کرکے یا ان کے حوالے سے ایسی باتیں کرنے لگتی ہیں جن کا سر پیر سمجھ میں نہیں آتا۔ لزلی وائنس ہی نہیں، بیشتر اہلِ مغرب کا یہی حال ہے۔ مغربی ملکوں میں بھی ایک وقت ایسا گزرا کہ اعلیٰ طبقے کی خواتین عوام میں منہ پر نقاب ڈالتی تھیں اور ان کا ذکر گھروں سے باہر کرنا ناشائستہ خیال کیا جاتا تھا۔
این میری شمل کی لفظیات دیے بغیر وائنس لکھتی ہیں:
Annemarie Schimmel points our instances in which Rumi, apparently following the tradition of the prophet Muhammad advises men to seek the advice of women, and then do the opposite of the what was recomended. p-67
(این میری شمل نے ایسے حوالے دیے ہیں جن میں رومی پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کی پیروی کرتے ہوئے مردوں کو ہدایت کرتا ہے کہ عورتوں سے مشورہ مانگو اور پھر جیسا وہ کرنے کو کہیں اس کے برعکس کرو۔)
اس پورے پیراگراف میں مندرجہ ذیل خامیاں واضح طور پر ملتی ہیں۔
۱۔ این میری شمل کے اصل فقرے کو لکھنا ضروری نہیں سمجھا گیا ہے۔
۲۔ رومی سے منسوب مثالوں میں سے ایک بھی لفظ بہ لفظ نقل نہیں کی گئی ہے۔
۳۔ رومی نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی جس حدیث کو اساس بنا کر مرد صنف کے اراکین کو مشورے دیے اس کو عربی میں درج نہیں کیا گیا۔
۴۔ مذکورہ حدیثِ مبارکہ کا انگریزی ترجمہ تک دینا ضروری خیال نہیں کیا گیا۔
۵۔ مندرجہ بالا اعتراضات اس پورے معاملے کو مشکوک بنا رہے ہیں۔
۶۔ لزلی وائنس نے اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ روش کا مظاہرہ اپنی کتاب میں بہت کم کیا ہے۔ تو پھر ’’فیمینزم‘‘ کا موضوع آتے ہی اتنی بوکھلاہٹ اور جلد بازی کا مظاہرہ کیوں سامنے آرہا ہے؟
لزلی وائنس نے رومی کی شاعری اور نثر سے ایک آدھ اقتباس چن لیا جس کو وہ مغربی معیارات کے مطابق obnoxious (لائقِ تعزیر) اور گندا ٹھہراتی ہیں اور آگے چل کر یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ رومی کا خواتین کے بارے میں ذاتی رویہ ناقابلِ فہم ہے اور تضاد بیانی سے بھرا ہوا ہے۔ رومی کی حقیقت نگاری، طنز نگاری اور معاشرے کے پیچیدہ معاملات کی عکاسی، افراد کے خارج کی پیش کش کے ساتھ ان کے اندروں میں جھانکنے کی روش، خارجیت میں داخلیت اور داخلیت میں خارجیت کی اچانک آمیزش۔ کسی چھپی ڈھکی سچائی کا فضا کو ہموار کیے بغیر اظہار و ابلاغ۔ اخفا اور اظہار، مسلسل الٹ پھیر اور ان کے علاوہ بہت کچھ ایسا جو قاری کو شعر و ادب کی دنیا میں شاید ہی ملے۔ رومی وہ شاعر ہے جو بہ یک جنبشِ قلم، یہ فقرہ، بہ یک وقت ابلاغ کی ایک سے زائد سطحات پر قاری سے مذکور کرکے، بظاہر متضاد حقائق کو مخلوط ہوتے دکھاتا ہے۔ زندگی ایک الجھی ہوئی ڈوریوں کا گولا ہے، ان کو سلجھایا نہیں جاسکتا اور آج کے دور میں کوئی سکندرِ اعظم بھی نہیں ملتا جو اس کو اپنی تلوار سے کاٹ دے۔ اس کو الجھا ہوا ہی دیکھا اور دکھایا جاسکتا ہے۔ رومی نے ایسا ہی کیا ہے۔ اگر آپ رومی کو اوور سمپلی فائی (over simplify) ہر الجھن سے پاک کرکے پڑھیں گے تو رومی، رومی نہیں رہے گا، اور اس کی جگہ ایسوپ (Aesop) جنم لے لے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ رومی دو مثبت دو مساوی چار، (۴=۲+۲) والی سوچ کے حامل نہیں تھے۔۔ رومی کے ’’فیہ ما فیہ‘‘ کے تحت دیے گئے لیکچر یا وعظ جن کو مقالات کے عنوان سے یا انگریزی میں Discourses کے طور پر شائع کیا گیا ہے، معیار کے مطابق سب کے سب رومی کی نثری تحریروں سے لگا نہیں کھا سکتے اور شاگردوں کے مرتبہ ہیں اور ان کی الٹ پھیر کا شکار بھی۔ اس کے علاوہ رومی کے بعض نقادوں کے خیال میں ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر کم علم لوگ ہیں۔ میرا خیال ہے، اس سلسلے میں بھی لوگ کسی نہ کسی غلط فہمی کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔ قیاس آرائیوں کا در کب بند ہوتا ہے؟
تاریخِ اسلام میں درج مندرجہ ذیل واقعہ شواہد سے ثابت ہے۔
صلحِ حدیبیہ طے پائی۔ قریش نے اس سال مسلمانوں کو مکے میں داخل ہونے نہیں دیا۔ مسلمانوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ماسوا ایک صحابی جند بن قیس کے۔ کیوں کہ یہ کم زور دل کے مالک تھے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کے لیے فرمایا، جند بن قیس زمین پر رہنے والے افضل ترین لوگوں میں سے ہیں۔ اُن کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے پاک روح کہا ہے۔ (حدیث :۱۵۱، صحیح بخاری) منافق کے۔ معاہدہ طے پانے کے بعد حضور نبیِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا کہ قربانی کے جانور جو عمرے کی ادائیگی کے لیے ساتھ ہیں، ان کی قربانی دے دی جائے اور سروں کے بالوں کو حسبِ رواج مونڈ لیا جائے یا قینچی سے تراش لیا جائے۔ مسلمان عمرے کی ادائیگی سے محروم ہونے اور مکے میں داخل ہونے کی سعادت کے حصول کے بغیر مدینہ لوٹ جانے کے خیال سے بے حد دل برداشتہ اور مغموم تھے۔ سب کے سب اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ ان میں سے کوئی بھی ہلا نہیں۔ نبیِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بات تین مرتبہ دہرائی پھر بھی کوئی نہیں اٹھا تو آپ اپنی زوجۂ اطہر اُمِ سلمہؓ کے پاس گئے اور لوگوں کے اس طرزِ عمل کا ذکر کیا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ آپ ایک بار پھر ان لوگوں میں جائیے اور کسی سے کچھ کہے بغیر چپ چاپ اپنا جانور ذبح کر دیجیے اور اپنے نائی کو بلا کر اپنا سر منڈا لیجیے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور کسی سے کچھ کہے بغیر یہی کیا۔ جب لوگوں نے دیکھا تو خود بھی اٹھے اور بموجبِ دستور عمل کرنے لگے۔ کیفیت یہ تھی کہ سب فرطِ غم سے نڈھال ہو رہے تھے۔ لزلی وائنس کی تسلی اس ایک مثال سے نہ ہو تو مسلمانوں کی تاریخ میں بیسیوں ایسی مثالیں مل جائیں گی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خواتین سے بعض اہم مواقع پر مشورے لیے گئے اور ان پر عمل درآمد بھی کیا گیا۔
لزلی وائنس نے اس باب میں خواتین کے موضوع پر خود ہی اعتراضات اٹھانے اور خود ہی ان کے خلاف دفاعی تاویلات پیش کرنے کا رویہ بھی کسی کسی جگہ اختیار کیا ہے۔ یہ بھی لائقِ تحسین ہے۔
رومی خانوادہ بالآخر منگول یلغار کی زد میں آہی گیا۔ ۱۲۴۰ء کے اوائل میں اناطولیہ کے کئی شہروں کو منگولوں نے تاخت و تاراج کر دیا۔
ارزرم (Erzerum)، سیوار (Sivar) اور قیصری (Kayseri) میں تو قتل و خون کا ایسا بازار گرم کیا کہ شہر میں کسی مرد کو زندہ نہیں چھوڑا۔ اس بربریت کے اعادے سے محفوظ رہنے کی خاطر قونیہ کے بڑوں نے حملہ آوروں کو خراج دینے کا فیصلہ کیا۔ قونیہ کا حکمران سلجوق شہزادہ غیاث الدین کیخسرو اس لائق نہیں رہا تھا کہ جنگ کرے۔ شہزادے نے ۱۲۳۷ء سے اس علاقے پر غیر متأثر انداز میں حکومت کی تھی۔ اس پر خوار زمیوں کا ایک سازشی ٹولہ حاوی تھا۔ یہ لوگ خراسان سے فرار ہو کر یہاں آبسے تھے۔ ان کو خراسان سے ہجرت کرنی پڑ گئی تھی کیوں کہ خراسان پر منگولوں نے حملہ کر دیا تھا۔ خوارزمیوں نے ایسے صوفیوں سے گٹھ جوڑ کر لیا جو وہاں کے غریب طبقے میں سلجوق حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے جذبات بھڑکا رہے تھے۔ اپنے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں کی کثرت کو مدِنظر رکھتے ہوئے شہزادے غیاث الدین کیخسرو نے منگولوں سے صلح کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ علاقے کے شہری منگولوں کی غارت گری سے محفوظ ہوگئے لیکن سلجوقی حکومت کو بے شمار سیاسی ریشہ دوانیوں کا شکار ہونا پڑا۔ منگولوں نے یہاں جو حکومت بنوائی، وہ ایک کٹھ پتلی حکومت تھی۔ ۱۲۴۵ء میں غیاث الدین کیخسرو کی وفات ہوئی۔ اس کے بعد اس کے تین بیٹے برسرِاقتدار آئے۔ کچھ عرصہ تینوں بیٹے حکمرانی میں متحدہ رہے۔ ۱۲۵۱ء میں منگولوں نے ان کو تسلیم بھی کیا لیکن تینوں کم زور نکلے اور بیشتر وقت آپس میں الجھتے رہے۔ پہلے ایک بھائی مارا گیا۔ پھر دوسرا اور ۱۲۶۷ء میں تیسرا بھی قتل کر دیا گیا۔ منگول قونیہ میں داخل ہوگئے۔ انھوں نے سلجوقیوں کے تعمیر کردہ قلعے کو مسمار کر دیا لیکن شہریوں کو گزند نہیں پہنچایا۔
جس صبح منگولوں نے قونیہ پر چڑھائی کرنی تھی، اسی صبح رومی ایک پہاڑی پر بیٹھ کر عبادت میں مصروف تھے۔ منگول حملہ آوروں نے اپنی خیمے اسی پہاڑی کے نیچے قائم کیے۔ جب منگول فوجیوں نے ایک آدمی کو پہاڑی پر دیکھا تو ان کا تیر کمان سے لیس ایک دستہ آگے بڑھا اور یہ چاہا کہ اس کو اپنے تیروں سے ختم کر دے لیکن وہ ناکام ہوئے۔ تیر اندازوں کی ناکامی سے غیض میں آکر ان کا ایک گھڑ سوار دستہ پہاڑی پر چڑھنے کے لیے بڑھا، لیکن گھوڑے پہاڑی پر نہیں چڑھے۔
منگول حملہ آوروں کے جرنیل نے اپنے شان دار گھوڑے کو ایڑھ لگائی لیکن گھوڑا پہاڑی کی جانب ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا۔ منگول جرنیل نے یہ صورتِ حال دیکھ کر فوجوں کو واپس موڑ لیا۔ یوں شہر اور شہری محفوظ رہ گئے۔
افلاکی نے منگولوں کے قونیہ کے محاصرے کو ختم کرنے کے حوالے سے رومی کی یہ ایک کرامت بیان کی ہے۔ رومی نے سلجوق حکمرانوں اور منگولوں سے ممکنہ حد تک خوش آئند تعلقات استوار رکھے۔ حقیقت تو یہ ہے، رومی نے اپنے آپ کو سیاست اور حکومت کے معاملات سے اونچا رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی اور بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔
رومی نے دوسری شادی کی۔ قرا خانم بیوہ تھی جس کے ساتھ اس کے مرحوم شوہر سے دو بچے تھے۔ قرا خانم کے بطن سے ایک لڑکا اور لڑکی پیدا ہوئے۔ مظفر الدین امیر اَلم چلبی (Amir Alem Chelebi) اور ملکہ خانم۔ لڑکا پہلے ملازمِ سرکار ہوا بعد میں درویش ہوگیا۔ لڑکی کی شادی ایک کاروباری آدمی سے ہوئی۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ قرا خانم کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ اسے مسلم خاتون بتایا جاتا ہے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ آرمینیا، یونان اور ترکستان کی عیسائی بھی ہوسکتی ہے۔
افلاکی کے مطابق قرا خانم رومی کے رات دیر تک شمعیں جلا کر پڑھنے سے خوف زدہ رہتی تھی، مبادا جن ناراض ہو کر گھر اور گھر کے لوگوں کوئی گزند پہنچائیں۔ رومی نے اس خدشے سے آگاہ ہو جانے کے بعد قرا خانم کو یہ اطلاع دی کہ جن رومی سے راضی ہوگئے ہیں اور ان میں سے چند نے اس کی مریدی اختیار کر لی ہے۔
افلاکی نے قرا خانم کے موضوع پر لکھتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا کہ صوم و صلوٰۃ میں زیادہ مصروف رہنے کے باوجود رومی اپنی جنسی زندگی سے غفلت برتنے سے گریز کرتے تھے کیوں کہ اﷲ کے خاص بندے ازدواجی زندگی کی ہر طرح کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش بھی کرتے رہتے تھے۔ ان کی روحانی صلاحیت اس ضمن میں بھی ان کو کامگار و کامیاب بناتی تھی۔ رومی کی ایک خوبی یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ بیشتر لوگوں کی مانند اپنے سوتیلے بچوں سے اکراہ کا سلوک نہیں کرتے تھے۔ ان کے مقبرے میں جہاں ان کے خاندان کے افراد کی قبریں ہیں، وہاں قرا خانم کے ان بچوں کی قبریں بھی ہیں جو اس کے مرحوم شوہر سے تھے۔
رومی کی زندگی ایک اچھے اور شفیق استاد کے طور پر لائقِ تحسین اور قابلِ تقلید تھی۔ وہ ہر شاگرد کو پورے خلوص اور توجہ سے پڑھاتے تھے۔ بعض عالموں نے رومی پر نکتہ چینی کی کہ وہ معمول طبقے کے مفلوک الحال طلبہ کو اور برے لوگوں کے بچوں کو بھی حلقۂ تدریس میں لیتے ہیں۔ ایسی نکتہ چیں عالموں کو رومی کا یہ جواب ہوتا، ’’اگر میرے شاگرد اچھے لوگ اور اچھی شہرت کے حامل ہوتے تو میں ان کا شاگرد ہوتا۔ چوں کہ یہ برے ہیں، اس سبب سے انھوں نے میری بزرگی قبول کی ہے، تاکہ میں ان میں بدلائو لائوں۔‘‘
افلاکی نے رومی کی غیر معمولی دل چسپی اور محبت کا ذکر بھی کیا ہے۔ رومی کا نام صدیوں سے ممتاز عیسائی مسٹک سینٹ فرانسس اسیسی (St. Francis of Assissi) کے ساتھ لیا جاتا ہے، وہ رومی کے ہم عصر تھے، اس طرح کہ جب ان کی وفات ہوئی اس وقت رومی کی عمر بیس برس تھی۔ فرانسس اسیسی کی مانند رومی ہر طرح کے آدمیوں، پودوں اور جانوروں سے محبت کرتے تھے۔
ایک مشہور حکایت ہے کہ رومی نے اپنے شاگرد سے ایک پلیٹ (رکابی) شیرینی پکوائی۔ رومی اس رکابی کو لے کر باہر چلے گئے۔ شاگرد کو تجسس ہوا اور وہ رومی کی نظروں میں آئے بنا، ان کے عقب میں چل پڑا۔ رومی اس رکابی کے ساتھ ایک قریبی غار میں گئے۔ اس غار میں ایک کتیا نے بچے دے رکھے تھے۔ ان بچوں کی پیدائش کوئی ایک ہفتہ قبل از وقت ہوئی تھی، اس سبب سے وہ غیر معمولی کم زور تھے اور نیم بے ہوش پڑے رہتے تھے۔ رومی نے شیرینی کی وہ رکابی کتیا کے آگے رکھ دی۔ رکابی رکھ کر جب وہ پلٹے تو ان کی نظر شاگرد پر پڑی۔ شاگرد کے اصرار پر رومی نے بتایا کہ کتیا نے اﷲ تعالیٰ سے شکوہ کیا تھا کہ وقت سے پہلے پیدا ہونے سے اس کے بچے اس لائق نہیں کہ اپنی غذا خود تلاش کرسکیں۔ پروردگار نے کتیا کی فریاد سن لی اور رومی کو کتیا کی مدد پر مامور کیا۔
مولانا جلال الدین رومی اور شمس تبریز کے باہمی تعلق کو سمجھنا اور سمجھانا بے حد دشوار ہے۔ انتہائی دبی دبی آوازوں نے امرد پرستی (gay) کی جانب بھی متوجہ کیا اور یہ بھی کہ شمس تبریز رومی کے چھوٹے بیٹے سے اسی نوعیت کا رشتہ رکھتے تھے۔ معتبر مؤرّخین جیسے فرینکلن لوئس (Franklin Lewis) نے شمس الدین تبریزی کی عمر اور ان کی عام شہرت کے علاوہ ان کی چند ایک تحاریر کی اساس پر ان اتہامات کو مسترد کر دیا۔ شمس تبریز امرد پرستی کے خلاف تھے، یہ بھی اکثر حوالوں سے ثابت ہوتا ہے۔
کسی جگہ پر یہ بھی لکھا ملتا ہے کہ شمس الدین تبریزی ایک خیالی شخصیت ہے جس کو رومی نے جنم دیا ہے۔ شمس الدین تبریزی کی تحاریر ہیں اور ساتھ ہی ان کے تین تین مقبرے، ایک ایران مین، دوسرا ترکی میں اور تیسرا ملتان (پاکستان) میں (پاکستان کے اہل الرائے حضرت وثوق سے تحریر اور زبانی بیانات میں یہ دعویٰ کرتے پائے گئے ہیں کہ ملتان کے مقبرے میں جو شمس تبریزی مدفون ہیں وہ کوئی اور ہی شمس الدین تبریزی ہیں)۔
لزلی وائنس نے مصنف جیک کیروناک (Beat Writer Jack Keronac) (۱۹۵۰ء) اورنیل کیساڈی (Neal Cassady) کے تعلق کو رومی اور شمس کے تعلق سے ملانے کی کوشش کی لیکن خود ہی پیچھے ہٹ گئیں یہ سوچ کر کہ رومی اور شمس کی باہمی محبت ادب کی اساس پر قائم نہیں تھی، دونوں کا رشتہ روحانی تھا۔ لزلی وائنس نے اس ضمن میں کسی جگہ یہ بھی لکھا ہے:
Rumi and Shams were mystical lovers and equals.
(رومی اور شمس آپس میں پراسرار باطنی محبت کا رشتہ رکھتے تھے برابری کا۔)
اس فقرے سے یہ پتا چلتا ہے کہ لزلی وائنس یا تو اس حقیقت سے آگاہ نہ تھی کہ شمس تبریزی، رومی کے شیخ کا مرتبہ رکھتے تھے، لہٰذا ان کو ایک دوسرے سے برابر کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ہے یا وہ پیری اور مریدی کے معاملات سے قطعی واقف نہیں تھی۔
مولانا رومی اور حضرت شمس تبریزی کے آپسی رشتے کے بارے میں لزلی وائنس کا ایک فقرہ اوپر درج کیا جاچکا ہے، ’’رومی اور شمس ’مشکل عشاق‘ اور (دونوں) ایک سے (ہم سر) تھے۔‘‘
دونوں اصحاب کے بارے میں ایک اور فقرہ دیکھیے:
… given that the sixty year old dervish was far from youthful or gorgeous at the time he met Rumi, and also was staunchly opppsed to sexual relations with young men. (p-82)
(… مان لیا، ساٹھ سالہ درویش ان دنوں جب رومی سے اس کی ملاقات ہوئی نہ جوان تھا اور نہ ہی دل کش اور وہ نوجوان لڑکوں سے جنسی تعلقات کا کٹر مخالف تھا۔ ص۔۸۲)
دونوں اصحاب کے باہمی تعلقات میں جنسی تعلق کے عنصر کو مسترد کرکے لزلی وائنس اس تعلق کو مزید ناقابلِ فہم تسلیم کر رہی ہے۔
اس تعلق کی تصویر کشی کرتے ہوئے وہ اپنی صلاحیت کا خوب صورت مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتی ہے:
Rumi, on meeting Shams, abruptly lost interest in any one or any thing else, withdrawing into a kind of stunned, childlike state in which he fixated on the friend. (P-83)
(شمس سے ملنے پر رومی نے یک لخت کسی اور فرد یا چیز میں دل چسپی لینی ترک کر دی اور بچوں کے سے سکتے اور محویت کے عالم میں اپنے یار سے جڑ گیا۔ ص۔۸۳)
بہر صورت یہ کہا جاسکتا ہے کہ رومی اور شمس تبریزی کے آپسی رشتے کو سمجھنے میں مغرب کے مفکرین اور محققین نے بڑے ضبط کا مظاہرہ کیا ہے اور لغویت سے اجتناب برتا ہے۔ یہ سب بے حد تعریف کے لائق ہے۔ تاہم یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ اصل حقیقت کو پانے کی بھی کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں نہیں آتی۔ روحانیت کی باتیں تو کی جاتی ہیں لیکن روحانیت کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ لزلی وائنس کی کتاب کے نام سے میں نے جو توقعات قائم کیں تھیں، وہ پوری نہ ہوسکیں، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مصنفہ نے کتاب کے نام کے برخلاف مؤقف اختیار کیا۔ ان ہی اسباب کی بنا پر میں نے اس کتاب کے بیشتر مشمولات کو موضوع بنانا ضروری خیال کیا۔