نام: محمد، لقب جلال الدین، بمعنی دین کا جاہ و جلال، وخشی، تاجکستانی، خراسانی، بلخی، افغانستانی، ایرانی، ترکستانی، قونوی، رومی۔
(اناطولیہ (Anatolia)، کا وہ علاقہ کسی زمانے میں بائی زینٹائن یا مشرقی رومی مملکت میں شامل تھا۔ اس سے متعلق افراد کو ’’رومی‘‘ کہا گیا۔ اسی زمینی رشتے سے مولانا، مولوی محمد جلال الدین بھی رومی کہلاتے ہیں۔ مغرب میں اور انگریزی زبان میں ان کو صرف ’’رومی‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔)
ان کی ایک مختصر خود نوشت جو آدمی یا آدم زاد کی سوانح بھی کہلائی جاسکتی ہے، ذیل میں درج کرتا ہوں:
از جمادی مردم و نامی شدم و زنما مردم بہ حیواں برزدم
مردم از حیوانی و آدم شدم— پس چہ ترسم زِمردن کم شدم؟
حملۂ دیگر بمیرم از بشر تا برآرم از ملائک بال و پر و زملک ھم باید حسن زجو ’’کل شئی ھالک الا وجھہ‘‘۔ بارِ دیگر
از ملک پران شوم اَنچ اندر و ھم ناید اَن شوم
پس عدم گردم، عدم چوں ار غنون گویدم کہ انا لیہ راجعون‘‘
(جمادات سے متعلق تھا، مر گیا تو نباتات کی جون میں آیا، مرگیا اور حیوان کی صورت میں آگیا، مرگیا اور حیوان سے آدمی ہوا۔ پس مرنے سے کیوں ڈروں کہ مجھ میں کمی آئے گی؟ موت کے ایک اور حملے میں بمشکل مروں تاکہ فرشتوں کے سے بال و پر پالوں، فرشتے کے مرحلے کے بعد بھی تلاش اور ڈھونڈنا چاہوں، ’’کل شئی ھالک الا وجھہ‘‘ کے مطابق اک بار پھر فرشتے سے آگے یا اعلیٰ کی جانب پرواز کروں اور وہ ہو جائوں جو ادراک میں نہیں آتا— عدم سے بھی عدم ہو جائوں کہ سازِ ارغنوں بولے، ’’بے شک دل اﷲ کی جانب لوٹ گیا۔‘‘)
رومی کی مندرجہ بالا مختصر خودنوشت آپ نے پڑھی اور میں نے بھی۔ آغاز میں اس کی ظاہری صورت ایک نوع کے ’’آدمی نامہ‘‘ جیسی لگتی ہے۔ اس کا پہلا حصہ تخلیق کی کہانی اور ’’نظریۂ ارتقا‘‘ سے جا ملتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ڈاروِن کے نظریۂ ارتقا میں بندر کے مرحلے اور آدمی کی جون کے مرحلے کی درمیانی کڑی نہیں ملتی اور تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ بندر آدمی کا منہ چڑاتا رہ جاتا ہے۔ رومی کے ہاں ایسی کوئی الجھن نہیں ملتی۔ آدمی کی بورنگی (بندریت، بندر سے مشابہت) موضوع نہیں بنتی اور نہ ہی زیرِ بحث آتی ہے۔ اسی طرح بوزنہ کی آدمیت یا آدمی سے مماثلت کا مسئلہ سامنے آتا ہے اور نہ اس پر سوچا جاتا ہے۔ بندر حیوان کی جون میں رہتا ہے، اس وقت تک کہ وہ آدمی کی جون میں نہ آجائے۔ ڈارون کا نظریۂ ارتقا حیوان سے بندر کے مرحلے (رومی مرحلے کی جگہ اقلیم کا لفظ لاتے ہیں) پر رک جاتا ہے۔ رومی کا نظریۂ ارتقا اقلیم در اقلیم بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے تاآں کہ انسانی ادراک کی پہنچ سے بالاتر ہو جاتا ہے۔
جہاں تک نظریۂ ارتقا کا تعلق ہے، علامہ شبلی نعمانی نے سوانح مولانا روم میں اس کا ذکر کیا ہے اور رومی کے چند متعلقہ اشعار بھی درج کیے ہیں۔ (ص: ۱۹۹۔۲۰۰)
رومی کی خودنوشت پڑھتے سمے آپ نے اور میں نے نظریۂ تخلیق اور نظریۂ ارتقا کا ذکر کیا اور پلٹ کر رومی کی خودنوشت کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اس خودنوشت کا انداز ایسا ہے جیسے ’’راہِ سلوک‘‘ کے طے کیے جانے کا ذکر ہو رہا ہو، اگرچہ ایسا لگتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ رومی کے سلسلۂ تصوف و طریقت کو ’’جلالیہ‘‘ بھی کہا گیا ہے اور ’’مولویہ‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ کسی کسی نے اس کو ’’قلندریہ‘‘ بھی کہا ہے۔ ان سلسلوں کی بابت تھوڑی بہت معلومات بھی بہم ہیں۔ ان معلومات کی اساس پر آپ یا میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ رومی کی مندرجہ بالا آپ بیتی یا خودنوشت کس نوع کی راہِ سلوک کی تفصیل ہے۔ مذکورہ خودنوشت میں ہر مرحلے کا خاتمہ موت پر ہوتا ہے اور مرنے کے بعد اعلیٰ تر مرحلے کا حصول ہوتا ہے۔ راہِ سلوک میں ’’فنا‘‘ اور ’’بقا‘‘ کی دو علاحدہ منازل ملتی ہیں۔ اس مسئلے پر مزید بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور صورتِ حالات واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ مندرجہ بالا ’’خودنوشت‘‘ رومی کی مختصر ترین داستانِ حیات ہے۔ (یہ جو رومی کی اس صفت پر اصرار کیا جاتا ہے کہ رومی کی مخلوقِ خدا سے محبت کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ اس میں آدمیوں کے علاوہ عالمِ نباتات اور حیوانات کی نمائندگی ہوتی تھی۔ اس صفت کی بھی اس خودنوشت سے توجیہہ ہو جاتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ عالمِ نباتات و حیوانات کے علاوہ اس دائرے میں آدمی، فرشتے اور رب العالمین کا بھی شمول ہو جاتا ہے۔
اس سلسلے میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے اور بہت کچھ کہا جاتا رہے گا، لیکن ایک واضح صورتِ حال جو ہمارے سامنے ہے، وہ ہے وحدت الوجود کے نظریے سے چشم پوشی اور ساتھ ہی ساتھ وحدت الشہود کے نظریے سے چھٹکارا۔ ان دو نظریات کے علاوہ نظریۂ جبر و قدر سے گلوخلاصی۔ اس سے آگے نظریۂ فنا و بقا سے بے اعتنائی۔
اب ہم مولانا رومی کے مندرجہ ذیل شعر کی جانب رجوع ہوتے ہیں:
بہ زیرِ کنگرئہ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
اس شعر کو شاعرانہ تعلیٰ کی ایک صورت قرار دے کر ٹالا نہیں جاسکتا کیوں کہ ’’مردانند‘‘ کہا گیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں صید، شکار اور گیر کے الفاظ بڑے دعاوی پر محمول ہونے کے باوجود گستاخانہ نہیں ہیں۔ ان الفاظ سے پکڑنا مراد نہیں ہے، اپنا لینا، اپنا بنا لینا، وغیرہ سے دائرئہ حب کے اندر لے آنا مراد ہے۔
بی بی سی کے تحت ذکرِ رومی
سوال یہ ہے:
رومی امریکا کا ’’دی بیسٹ سیلنگ پوئٹ‘‘ (زیادہ فروخت ہونے والا شاعر) کیوں ہے؟
۱۹؍ دسمبر ۲۰۱۶ء بی بی سی شعبۂ کلچر کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا تھا جس کا جواب جین قلابطاری (Jane Clabattari) نے ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء میں مرتب کیا تھا۔ آپ بھی پڑھ دیکھیے اور ساتھ ساتھ اس سوال کا جواب خود بھی سوچیے اور مجھے بھی سوچنے دیجیے۔
یہ آٹھ سو سات سالہ فارسی گو صاحبِ اسرار (mystic) اور درویش امریکا اور ساری دنیا میں پرستاروں کا جمِ غفیر رکھتا ہے۔ جین قلابطاری اس کے اس دوامی قبولِ عام کی وضاحت کرتی ہے۔
فارسی زبان کے شاعر اور صوفی شیخ/ مرشد/ جلال الدین محمد رومی نے جو آٹھ سو سات برس قبل ۱۲۰۷ء میں پیدا ہوئے تھے، ان برسوں میں اپنی صوفیانہ شاعری کی مِلینوں جلدیں فروخت کیں اور اس طرح وہ امریکا کے سب سے مقبول شاعر بن گئے۔ گلوبلی ان کے پرستار انبوہ در انبوہ ہیں۔
’’ان کی شخصیت قریب قریب سارے کلچروں پر حاوی ہوگئی۔‘‘ کہا، بریڈ گوچ نے جو اپنے نقادوں سے تسلیم شدہ فرینک او حارا اور فلانیری او، کونور کی سوانحات کے بعد رومی کی سوانح تحریر کرنے میں مصروف ہے۔
’’رومی کی زندگی کا نقشہ ۲۵۰۰ میلوں پر محیط ہے۔‘‘ گوچ بتاتا ہے جس نے خود سفر کیا رومی کی جائے پیدائش وخش (جو آج کے تاجکستان کا ایک گائوں ہے) سے ازبکستان کے سمرقند، وہاں سے ایران، سیریا جہاں رومی نے بیسویں سال کی عمر میں تعلیم حاصل کی اور علیپو (Aleppo) بھی گیا۔ اس کا آخری پڑائو قونیہ (Konya) ترکستان میں واقع ہوا جہاں رومی نے اپنی زندگی کے آخری پچاس برس گزارے۔ آج کے عہد میں بھی ہر سال (رومی) کے یومِ وفات، برسی (عرس) کے دن ۱۷؍ دسمبر رومی کا مزار اس کے عقیدت مندوں اور والیانِ ریاست کی آماج گاہ بن جاتا ہے جو ’’رقصِ درویشاں‘‘ کی سالانہ رسم (Whirling Dervish Cremony) میں شرکت کرتے ہیں۔
رومی کی زندگی میں انقلابی تبدیلی کا مرحلہ ۱۲۴۴ء میں اس وقت پیش آیا جب اس کی ملاقات ایک جہاں گرد صاحبِ اسرار سے ہوئی جو شمس تبریزی کہلاتا تھا۔ رومی (اس وقت) سینتیس برس کا واعظ اور عالم تھا جیسے کہ اس کے باپ، دادا ہوا کرتے تھے۔ گوچ کہتا ہے: دونوں باہم دیگر ایک برقیاتی دوستی میں تین برس رہے، محب، محبوب یا پیر و مرید کبھی واضح نہ ہوسکا۔ رومی صاحبِ اسرار (مسٹک) ہوگیا۔ تین برس بعد شمس غائب ہوگئے۔ ممکن ہے رومی کے کسی حاسد بیٹے کے ہاتھوں مارے گئے، ممکن ہے رومی کو جدائی کے تجربے سے گزارنے کے لیے۔ رومی نے جدائی کو شعر کہہ کر بھوگا۔ جتنی شاعری ہمیں ملتی ہے سینتیس سے سڑسٹھ کے عمری دورانیے سے تعلق رکھتی ہے۔
اس نے تین ہزار محبت کے گیت شمس کے، نبیِ کریم حضرت محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے اور اﷲ (تبارک و تعالیٰ) کے لیے لکھے۔ اس نے دو ہزار رباعیات، (Four-line) لکھیں۔ اس نے دو ہم قافیہ مصرعوں پر مشتمل ایک چھہ جلدی روحانی رزمیہ (epic) مثنوی تصنیف کی۔
ان برسوں کے دوران رومی نے اپنی مذہبی ریاضت میں شاعری، موسیقی اور رقص (بحالتِ وجد) کو آمیز کیا۔ رومی بحالتِ جذب (medioting)، شعر گوئی، شعر لکھوانے کے دوران جسمانی اعضا کو رقص کی سی جنبش (whirl) دینے لگتے تھے۔ گوچ نے کہا، ’’اس کو ان کی وفات کے بعد ایک خاص وضع میں مرتب کرکے دل آویز وجدانی رقص میں متشکل کر دیا گیا۔ یا جیسا کہ رومی نے تین ہزار ایک سو اکیاون غزلوں میں تحریر کیا ہے۔ ’’میں پہلے نمازیں پڑھتا تھا، اب میں قوالی، نظمیں اور گیت پڑھتا ہوں۔‘‘
وفات کے صدیوں بعد رومی کا کلام پڑھا جاتا ہے، گنگنایا جاتا ہے، سنگیت میں ڈھالا جاتا ہے اور تخلیقی تہیج (inspiration) مہیا کرتا ہے ناولوں، نظموں، موسیقی، فلموں، یو ٹیوبوں (Youtubs)، ویڈیوںاور ٹوئٹوں (Tweets)کو۔ (گوچ کے تخلیقی ٹوئٹس کے لیے ملاحظہ کیجیے @Rumiseer۔
رومی کے کام (کلام، نظم و نثر) کو دوام کیو ں ملا؟
گوچ کہتا ہے: ’’وہ شاعر ہے مسرت اور محبت کا۔‘‘
اس کا کام (تخلیق و تصنیف) مرکوز ہے شمس سے جدائی، عشق، تخلیق، مسبّبِ تخلیق اور استقبالِ مرگ کے موضوع پر۔ رومی کا پیغام مجھ تک عظیم الجثہ پرچۂ یادداشت کی شکل میں ابلاغ اور ترسیل کرتا ہوا پہنچا، رومی کے اس شعر کے ذریعے:
Out beyond ideas of wrong doing and right doing there is a field I`ll meet you there.
(غلط اعمال اور درست اعمال کے باہر ایک میدان ہے، میں تم سے وہاں ملوں گا۔)
’’رومی ایک بے حد حاملِ اسرار اور متوجہ کرنے والا شاعر اور شخص ہے، ہمارے زمانے کے لیے جب کہ ہم صوفی روایت کو سمجھنے میں الجھے ہوئے ہیں۔ ] اور[ جذب اور عقیدت اور شاعری کی قوت کی فطرت کو سمجھنے میں۔‘‘ کیا شاعرہ این والڈ مین (Anne Waldman) نے جو نیروپس یونی ورسٹی میں شعریات (Poeties) کی پروفیسر ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا، ’’وہ (رومی) مست صاحبانِ اسرار کی طویل روایت اور نسل سے ہیں جو سافو (Sappho) سے والٹ وِٹ مین (Wolt Whitman) تک پہنچتی ہے۔‘‘
لی برائی سیٹی (Lee Bri ceetti) ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ’’پوئٹس ہائوز‘‘ اور رومی سے متعلق قومی لائبریری سلسلے کی کو اسپانسر (ڈیٹرائٹ، کوئنس، سان فرانسسکو، اٹلانٹا، کولمبس، امریکا ۲۰۱۵ء) کے خیال میں رومی کی نظمیں زمان و مکاں اور تہذیبوں (کلچروں) کو پار کرکے ہمارے درمیان اپنے جینے کا تأثر پیش کرتی ہیں اور وہ ہماری مددگار ہوتی ہیں—محبت اور وجدان کی ہماری اپنی تلاش میں، روز مرہ زندگی کے الجھائو کے درمیان—
وہ صوتی آہنگ اور حسن کی اساس پر رومی کا شیکسپیئر سے موازنہ بھی کرتی ہے۔
مصنف و مترجم کولمن بارکس (Coleman Barks) جس کی کتابوں نے امریکا میں رومی کو نئی زندگی دی اور رومی کو امریکا کا سب سے زیادہ بکنے والے شاعر کا مرتبہ دلایا، رومی کی مقبولیت کے اسباب سامنے لاتا ہے: ’’حیران کن تخیلاتی تازگی، گہری تڑپ جو اس کے ذریعے ہمارے اندر آجاتی ہے۔ اس کی حسِ مزاح— ہمیشہ ایک کھلنڈرا پن، دانش سے آمیز‘‘ ہوتی ہے۔
۱۹۷۶ء میں شاعر رابرٹ بلئی (Robert Bly) نے بارکس کو اے جے آربری (A.J Arberry)، کیمبرج کے تحت کی ترجمہ کی ہوئی شاعری کی ایک جلد دی اور کہا، ’’یہ نظمیں اپنے پنجروں سے آزادی چاہتی ہیں۔‘‘
بارکس نے ان کو ٹھس اکادیمی زبان سے امریکی انداز کی آزاد نظموں میں ڈھال دیا۔ اس کے بعد سے تینتیس برسوں کے دوران کوئی بائیس جلدیں بشمول ’’دی ایسینشل رومی‘‘ (The Essential Romi) صورت پذیر ہوگئیں۔ ’’رومی کے ساتھ ایک سال‘‘ (A Year With Rumi)، ’’رومی‘‘ (Rumi)، ’’موٹی لال کتاب‘‘، (The Big Red Book)، ’’رومی کے والد کی روحانی ڈائری‘‘ (Rumi's Father's Spiritual Diary)، ’’ڈوبی ہوئی کتاب‘‘ (The Drowned Book)، سب ہارپر وَن کی شائع کردہ، ان کی اشاعت عالمی پیمانے پر عمل میں آئی۔ دو ملین کی تعداد میں بک گئیں اور کوئی تئیس زبانوں میں ان کے تراجم ہوئے۔ ایک نئی کتاب خزاں میں چھپ رہی ہے۔ ’’رومی: سول، فیوری اینڈ کائنڈنس‘‘ (Rumi: Soul Fury and Kindness)۔ رومی اور شمس تبریزی کی دوستی بارکس کی ترجمہ کی ہوئی رومی کی مختصر نظموں (رباعی) کا موضوع ہے۔ شمس تبریزی کی نوٹ بکس پر کتاب آنے والی ہے۔ ’’دی سے اِنگس آف شمس تبریز‘‘ (The Saying of Shams Tabriz) ’’دی سے انگس آف جیسس‘‘ (The Sayings of Jesus) ’’دی گوسپل آف تھامس‘‘ (The Gospel of Thomas) دونوں صدیوں کہیں پوشیدہ رہیں۔ مصر کے کسی احرام میں تو نہیں البتہ درویش گروہو ں اور ترکستان اور ایران کے کتب خانوں میں۔ قریبی برسوں میں عالموں نے ان کو ترتیب دینے اور انگریزی میں ترجمہ کرنے پر توجہ دینی شروع کی ہے۔
وقت سے آٹھ سو برس آگے
حال ہی میں بارکس کا کہنا ہے: ’’میں محسوس کر رہا ہوں ایک توانا گلوبل تحریک، ایک جذبہ، مذاہب اور فرقوں کی پیدا کردہ حد بندیوں کو تحلیل کرنے اور فرقہ واریت اساس تخریب کاری کو ختم کرے گا۔ کہا گیا ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ رومی کے جنازے کے جلوس میں شریک ہوئے۔ (یہ واقعہ ۱۲۷۳ء سے تعلق رکھتا ہے۔) کیوں کہ جیسا کہ انھوں نے بتایا، وہ (رومی) ہمارے عقیدے کو گہرے سے گہرا کرتا ہے جس سے بھی ہمارا رشتہ ہے۔ آج رومی متأثر کر رہا ہے۔ اس کا سبب اس کی شاعری کی یہی صفت ہے۔
رومی فارسی شعرا میں نئے تجربات کرنے والا ’انشراح پسند اور صوفی مرشد تھا۔‘ جاوید مجددی کہتے ہیں (جو رتگر (Rutger) یونی ورسٹی میں اوّلین اور قرونِ وسطیٰ کے صوفیا کے موضوع پر اسکالر ہیں اور رومی کے مترجم کے طور پر انعام یافتہ ہیں) اسرارِ باطنی کی دولت اور شعری سانچوں کے جرأت مندانہ استعمال کے امتزاج نے ان کی شاعری کو آج کی دنیا میں مقبول بنا دیا ہے۔‘‘
رومی کی چار اختراعات (innovations) میں سے ایک اس کا براہِ راست صیغۂ حاضر متکلم (Second Person) میں پڑھنے والوں سے مخاطبت ہے جو شاعری میں شاذ ہی ملتی ہے۔ مجددی کہتے ہیں: ’’میرا خیال ہے، ہم عصر پڑھنے والے براہِ راست کلام پر بخوبی توجہ دیتے ہیں۔‘‘
دوسری اختراع (جدت) سکھانے پر زور ’’متأثر کن ادب کے قاری کو رومی کی شاعری کشش کرتی ہے۔‘‘ تیسری جدت روزمرہ استعارات اور امیجری (imagery) کا استعمال۔ چوتھی جدت اس کی عشقیہ غزلیات کا رجائی مثبت انداز وصال کے حصول کے لیے۔ روایتی غزلوں میں وصالِ محبوب خارج از امکان اور محبوب کی ستم گارانہ بدسلوکی ملتی ہے، رومی کے ہاں وصال کا جشن ملتا ہے۔
مجددّی نے رومی کے شاہکار کارنامے ’’مثنوی‘‘ کی چھہ میں سے تین کا ترجمہ مکمل کر لیا ہے۔ اس نے کہا ہے ’’مثنوی کسی ایک شاعر کی لکھی ہوئی طویل ترین نظم ہے، بالاصرار صوفیانہ نظم جو مشتمل ہے چھبیس ہزار اشعار پر اور جو حق رکھتی ہے، ایک اہم نظم کہلائے جانے کا اپنی ہی قدر پر۔ اس کے حق میں یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ اسلامی دنیا میں اس کو قرآن مجید کے بعد پہلا درجہ حاصل ہے۔ مثنوی کے خالص فارسی متن کی تفہیم کے مراکز کا ایک سلسلہ (Net work) ترکستان میں ترک سلاطین کے زمانے میں فعال رہا ہے۔
جب تک نئے تراجم شائع ہوتے رہیں گے رومی کے کلام کی گونج جاری و ساری رہے گی اور اس کی اثر انگیزی بھی چلتی رہے گی۔ اس کے متأثر کن لفظ ہمیں یاد دلاتے رہیں گے کس طرح شاعری انسانی زندگی میں شریک اور اس کا ایک حصہ بن سکتی ہے۔
اگر آپ اس پر اپنی رائے دینا چاہیں یا کسی دیگر موضوع پر جو آپ دیکھیں بی بی سی کلچر پر تو ہمارے فیس بک پر یا ٹوئٹر پر میسج بھیجیں۔ اس مضمون کو شیئر (share) کریں۔‘‘
ایک معروضہ
جناب بریڈ گوچ سے دو ایک بڑے واضح سہو ہوگئے ہیں۔
۱۔ رومی اور شمس ملاقات بہ یک وقت تین سالہ رفاقت کے بعد ختم ہوگئی۔ تین سالہ رفاقت ثابت نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھی ماخذ میں اس کا ذکر ہے۔
۲۔ رومی اور شمس کی دو جدائیاں ثابت ہیں نہ کہ ایک جدائی جیسا کہ بریڈ گوج کا بیان ہے۔
۳۔ اگر شمس تبریزی کا قتل ہوا تو یہ امکان ہے کہ رومی کے بیٹے نے کیا اور یہ بھی امکان ہے رومی کے حاسد شاگردوں میں سے کسی نے یہ حرکت کی ہو— بریڈ گوچ نے صرف اور صرف رومی کے بیٹے کا ذکر کیا ہے۔ (ع۔ج)