فرینکلن ڈی لیوس نے ایک جانب سلطانوں، نوابوں، امیروں، حاکموں اور حکومتِ وقت کے اعلیٰ عہدے داروں اور خواتین سے رومی کے تعلقات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، تو دوسری جانب ان کی درویشانہ شانِ بے نیازی کو بھی جزئیات نگاری کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ اس ضمن میں فرینکلن ڈی لیوس نے رومی کی شخصی تصویر کشی کرنے میں رومی کے مقالات ’’فیہ مافیہ‘‘ اور دیگر نثری تحریروں کے علاوہ، مکتوبات سے مدد لی ہے۔ ان ماخذوں کے مطابق رومی متعدد لوگوں سے اعانت، مالی امداد کے بھی طالب ہوئے ہیں، لیکن اپنے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے۔ سلطان ولاد، سپہ سالار اور افلاکی کے بیان سے بھی رومی کی یہی تصویر سامنے آتی ہے۔ اس سلسلے میں لیوس نے ایک لفظ disciple استعمال کیا ہے۔ شاگرد اور مرید میں تفریق اور امتیاز نہیں رکھا۔ اس سبب سے کافی الجھن پیدا ہوتی ہے۔ یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ رومی کے شاگردوں (طلبہ) کا حلقہ بے حد وسیع تھا اور اس میں نچلے اور اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے شامل تھے۔ مفلس اور نادار طلبہ سے جان چھڑانے کی کوشش کرنے کے بجائے رومی ان کی عزتِ نفس کو مجروح کیے بغیر اپنی جانب سے ان کی خفیہ مالی امداد کرتے تھے۔ نچلے طبقے کے طلبہ کو درس دینے یا نچلے طبقے کے افراد سے میل جول کو رومی نے اپنی شان کے خلاف نہیں خیال کیا اور نہ ہی اونچے اور مقتدر طبقے کے افراد سے تعلقات پر نازاں ہوئے۔
سپہ سالار (86:Sep) کے مطابق پروانے نے سلطان رکن الدین سے رومی کی ملاقات (پہلی)کا انتظام کیا۔ بعد میں سلطان نے کسی اور شیخ/ مرشد سے ملنے کا فیصلہ کیا جو بزاغو قبیلے کے تھے یا شیخ ماراندی (افلاکی کے مطابق)۔ رومی نے کہا، ’’اگر سلطان نے کوئی نیا ’باپ‘ دریافت کر لیا تو رومی کوئی نیا ’بیٹا‘ تلاش کر لے گا۔‘‘ رومی کو منانے کے لیے سلطان رکن الدین نے ایک ضیافت کا اہتمام کیا۔ اس ضیافت میں رومی نے جب یہ دیکھا کہ سونے چاندی کے برتن، رکابیاں اور پیالوں سے دسترخوان مزین ہے (اسلامی شریعت میں سونے، چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت ہے) تو رومی نے رقص شروع کر دیا۔ مجبوراً خادموں کو دسترخوان اٹھا کر رومی کے رقص کے لیے جگہ پیدا کرنی پڑی۔ سلطان کو ناگوارِ خاطر ہوا۔ اس صورتِ حال کے مطابق رومی کی زبان پر فی البدیہہ اشعار وارد ہوئے۔ رومی اور حسام اسمبلی سے واپس رومی کے مدرسے تک رقصاں گئے (84—5: Sep 146—9، Aflaki)
کسی اور موقعے پر سلطان رکن الدین اور پروانے نے رومی کو جمعے کے خطبے پر بلایا۔ رومی نے ہامی بھرلی۔ عین مقررہ دن رومی لوگوں کے ہجوم سے فرار ہو کر (لوگ رومی کو گھیرے رہتے تھے) شہر کے کنارے موجود خراباتوں، سرایوں (میخانوں) کی جانب چلے گئے (Sep 95) اور یادِ الٰہی میں کھو گئے۔ دوسری جانب مسجد میں سلطان اور معززینِ دربار و شہر مسجد میں نماز جمعہ کے بعد رومی کا وعظ سننے کے خیال سے جمع ہوگئے اور رومی کا انتظار کرنے لگے۔ رومی کے طلبہ دیوانہ وار رومی کو تلاش کرتے پھرے۔ جب پتا چل گیا کہ رومی فلاں سرائے میں موجود ہیں تو حسام الدین نے اس سرائے کا رُخ کیا۔ حسام الدین اس سرائے میں قدم رکھنے کو گناہ سمجھتے تھے اور وہ بھی بروز جمعہ، طوعاً و کرہاً وہ آنکھیں بند کیے سرائے میں داخل ہوئے اور آنکھیں رومی کے قریب پہنچ کر کھولیں۔ رومی مسجد میں پہنچائے گئے اور ممبر پر بٹھائے گئے۔ رومی نے اس روز اس طرح وعظ دیا کہ حاضرین کو ’رلا ‘رلا دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ رومی چھوٹے لوگوں اور گنہگاروں کو بھی اتنا ہی عزیز رکھتے تھے جتنا بڑے لوگوں اور نیک ناموں کو۔ ان کو پروا نہیں تھی کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچیں گے اور کبھی یہ کوشش نہیں کرتے تھے کہ لوگ ان کو ’’پارسا‘‘ سمجھیں۔
اپنے مریدوں کی تربیت اور راہِ سلوک پر چلانے میں بڑے سے بڑے آدمی سے رو رعایت نہ رکھتے تھے۔ ایک بار معین الدین پروانے کے داماد مجدد الدین ارابع، (متوفی ۱۲۷۷ء) جو سلطان الدین کے وزیرِ خزانہ تھے، رومی کی ہدایت پر چلّے پر بیٹھے لیکن چند ہی دنوں میں فاقہ/ روزہ ترک کرکے کسی دوست کے گھر کھا پی لیا۔(Sep 100—1)
مجدد الدین ارابع کے نام رومی کے چند ایک خط ملتے ہیں۔ ایک خط میں جس کی تاریخ رومی کی وفات سے دو برس پہلے کی ہے، رومی نے مجدد الدین سے مالی اعانت کی درخواست کی ہے نظام الدین کے حق میں (MAK 75-6/288)
رومی سے بڑے بڑے صاحبانِ اعزاز و اقتدار اپنے مسائلِ حیات میں مشورہ لیتے تھے۔ مشورہ لینے والوں کی رومی سے عقیدت اور ارادت ان کو رومی سے رجوع کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ عصری سیاست کے معاملات میں رومی کا رویہ ’’باخبر لاتعلقی‘‘ کا تھا۔ وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ سیاست میں ملوث لوگوں پر ان کا اثر ہے، لیکن ان پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا۔ اپنے مقالے 15 (فیہ64-5) میں انھوں نے لکھا کہ کسی زمانے میں منگول گرے پڑے بے طاقتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ کچھ وقت کے لیے ان کا دوست ہوگیا اور ان کو طاقت عطا کی۔ بالآخر اﷲ تعالیٰ ان کو برباد کر دے گا۔
رومی حنفی سنی تھے لیکن ان کے دوستوں کا حلقہ مسلمانوں کے چاروں مکتبہ ہائے خیال کے لوگوں پر مشتمل ہونے کے علاوہ غیر مسلموں، عیسائیوں اور یہودیوں پر محیط تھا۔ ایک ممتاز عیسائی راہب بھی ان کا قریبی دوست تھا۔
گور جی خانم نے جب غلام الدین قیصر سے سوال کیا کہ اس نے رومی کی سب سے بڑی کرامت کیا دیکھی تو اس نے جواب میں کہا کہ رومی مختلف عقائد، مذاہب، اقوام اور مکاتبِ فکر کو یکساں طور پر متأثر کرتے ہیں اور سب اُن کی سنتے ہیں۔