ترک قلم کار سیہا ن اوکیوکو نے فروز نفر کے اور دیگر حوالوں سے رومی کا سراپا بیان کیا ہے۔
’’رومی دبلے پتلے اور لمبے تھے۔ ان کے چہرے کا رنگ پھیکا (pale) تھا۔ ڈاڑھی کے بال بھی سفید ہو چکے تھے لیکن بھویں سیاہ تھیں۔ آنکھیں غزالی تھیں۔ ایک دن ایک حمام میں لگے ہوئے آئینے میں انھوں نے اپنے برہنہ بدن کو دیکھا تو نادم سے ہوئے کہ زندگی نے ان کو جتنے مصائب سہنے کے لیے دیے، ان کے جسم پر وہ صاف طور پر عیاں تھے۔ ان کے چہرے کی زردی اور رنگ کے روکھے پھیکے پن کا ذکر ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔
ان کی لاغری کا بڑا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کھانے پینے کے قطعی شوقین نہیں تھے۔ افلاکی کے مطابق وہ تین روز میں ایک وقت کھاتے اور کبھی کبھی پورے ہفتے میں ایک مرتبہ ۔‘‘
حضرت برہان الدین نے راہِ سلوک میں رومی سے چلّے کروائے۔ کبھی کبھی ایک چلّے کے ختم ہوتے ہی دوسرے چلّے میں لگا دیا۔
شمس تبریز نے بھی ان سے روزے رکھوائے اور چلّے کروائے۔
وہ خود بھی روزے رکھنے کی جانب راغب تھے۔
یہ حیرانی کی بات ہے، جب ان کے بیٹے سلطان ولاد نے ان سے ’’چلّے کشی‘‘ کی اجازت مانگی تو انھوں نے اس کو منع کر دیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے جو جواب دیا وہ حسبِ ذیل ہے:
’’ہماری راہِ سلوک میں چلّے نہیں ہوتے۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی راہ میں تھے۔ انھوں نے اپنے مریدوں کو بھی ’چلّہ کشی‘ کی اجازت نہیںدی۔ اس کے برعکس وہ ان کو سماجی زندگی میں حصہ لینے کو کہتے تھے۔ البتہ ان کا ارشاد ہوتا کہ اپنے دلوں کو دینوی معاملات سے متعلق کرنے سے گریز کیا جائے۔‘‘ (فروز نفر۔۹۸) ان کی شاعری سے پتا چلتا ہے کہ وہ متاہل زندگی کے خلاف بھی نہیں تھے۔
سیہان اوکیوکو نے رومی کے چہرے کو a very inspiring لکھا ہے۔ میں رومی کے چہرے کو ایسا چہرہ لکھوں گا جو دیکھنے والوں کو خوفِ خدا سے دوچار کرے۔ اس کے فوری بعد سیہان نے رومی کی آنکھوں کو ’’روح کے آئینے‘‘ بتایا ہے۔ تیز اور متلاشی اور اﷲ تعالیٰ کی جانب ان کی کشش کی عکاس، کسی کے لیے ممکن نہ ہوتا کہ ان کی آنکھوں کو ٹکٹکی لگا کر گھورے کیوں کہ ایسی صورت میں وہ کسی اور طرف دیکھنے لگ جاتیں۔
شروع زمانے میں وہ عالموں کا شملہ اور ہر مرتبہ نیا ڈھیلا ڈھالا چُغہ پہنا کرتے تھے لیکن حضرت شمس تبریزی سے ملاقات کے بعد وہ درویشوں کے انداز کی نیلی چادر اوڑھے رہنے لگے تھے جس کو فراجا (یا فرغل) کہتے ہیں اور اس پر خاکستری رنگ کا صافہ پہننے لگے تھے۔ (فروز نفر ۱۹۰۔۱۹۱) (ص: ۳۱۔۳۲)