رومی کی تلاش— جماعت کے ارکان کو لمحہ لمحہ، قدم قدم پر خاصی تلاش، جستجو اور تگ و دو کا سامنا رہا کیوں کہ رومی کی زندگی اپنے آغاز ہی سے نقل مکانی اور سفر کی زد میں آگئی۔ وہ آج کے تاجکستان کے ایک گائوں یا نیم گائوں، نیم شہر و خش میں پیدا ہوئے۔ پائوں پائوں چلنا سیکھا اور ابھی چھوٹی چھوٹی دوڑیں لگانے کے قابل ہوئے ہوں گے کہ ان کے والد کو بلخ سے وخش اور وخش سے بلخ جانا اور آنا پڑا۔ اس کے بعد بارہ برس کی یا اس سے کم عمر میں وہ اپنے والد اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ سفر اور حذر کے تواتر سے گزرتے ہوئے خراسان سے مکہ، مکہ سے شام، شام سے مدینہ گئے، اسی سفر میں اپنی والدہ مومنہ خاتون اور بھائی علاء الدین کے سانحۂ ارتحال سے بھی دوچار ہوئے۔
سفر میں سانحے ہوئے، صعوبتیں بھی ملیں اور اس خاندان کو راہ میں شہرت بھی ملی۔ بڑے بڑے لوگوں اور بااثر لوگوں سے ملنا ہوا، عزت و تکریم ملی اور تعاون کے رشتے بھی قائم ہوئے۔ دوسرے لفظوں میں جو کہتے ہیں سفر وسیلۂ ظفر، حلقۂ اثر وسیع ہوا۔ مولانا جلال الدین رومی پر یہ دس سالہ زندگی جو سفر اور خانہ بدوشی پر مشتمل تھی، کسی اور طرح سے بھی اثر انداز ہوئی۔
اس کے بارے میں این میری شمل نے لکھا:
’’مولانا جس طرح متأثر ہوئے اس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ مولانا نے محسوس کیا کہ زندگی، خاص طور پر روحانی زندگی ایک نہ ختم ہونے والی جنت کا سفر ہے۔ مقدس وجود کی جستجو جس سے وہ مستقل طور پر آگاہ ہوتے رہتے تھے۔‘‘
مسلم دنیا کے لیے یہ پوری صدی چھوٹی بڑی جنگوں، قتل و غارت، فتنہ و فساد، سیاسی اٹھا پٹخ، افترا پردازی کی صدی ثابت ہوئی۔
جرمن اسکالر ہلمٹ ریٹز (Helmut Rittes) کے مطابق حضرت بہاء الدین خراسان کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے سے قبل ایک مرتبہ سمرقند سے بلخ واپس گئے۔ یہی وہ موقع تھا جب انھوں نے خوارزم شاہ کو منگول یلغار سے خبردار کیا تھا۔ اس روایت کو مشکوک قرار دینے والے دو ایک مغرب کے محققین نے اپنے شکوک و شبہات کی کوئی بنیاد فراہم نہیں کی۔
سیرت نگاروں اور سوانح نگاروں کے مطابق بلخ یا سمرقند سے نکل کر یہ خاندان پہلے نیشاپور میں رُکا جو اِن دنوں شمالی ایران ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس جگہ حضرت خواجہ فرید الدین عطار، حضرت بہاء الدین سے ملے۔ صوفی شاعر جنھوں نے فارسی کی کلاسیکل کتاب ’’منطق ا لطیر‘‘ لکھی تھی۔ پندرھویں صدی کے حاجیو گرافر سیرت نگار دولت شاہ کے مطابق حضرت عطار نے رومی کی غیر معمولی ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کو شناخت کر لیا اور مندرجہ ذیل فقرہ کہا، ’’کیا حیران کن منظر ہے۔ دریا اپنے عقب میں سمندر کو لیے جارہا ہے۔‘‘ اس فقرے کو بھی قبول کرنے سے انکار کیا گیا۔ لزلی وائنس نے بھی۔
حضرت عطار نے، حضرت بہاء الدین کو نیشاپور میں رہائش کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس مشورے کے سلسلے میں خاموشی روا رکھی گئی۔ مؤرخوں کے ایک گروہ نے حضرت عطار کی وفات کو ۱۱۹۳ء اور ۱۲۳۵ء کے درمیان بتایا ہے۔ اسی زمانے میں حضرت بہاء الدین کا خاندان اس علاقے سے گزرا۔ مؤرخین کے دوسرے گروہ کے مطابق حضرت عطار کی وفات ۱۲۲۹ء متعین ہوئی ہے۔ اسی سال منگولوں نے نیشاپور پر دھاوا بولا تھا۔