اختلافی مسئلہ
رومی کی تاریخِ پیدائش پر محققین اور مؤرّ خین میں خاصا اختلافِ رائے ملتاہے ۔ آخرکار معاملہ کسی نہ کسی طرح بین الاقوا می ادارے یو نیسکو میں طے پاتا ہے اور ان کی تاریخِ پیدا ئش ۳۰؍ ستمبر ۱۲۰۷ ء قرار پا تی ہے ۔
حضرت محمد جلال الدین رومی کا مقامِ پیدائش بھی یونیسکو کے تحت طے پا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس معاملے یا مسئلے کو جغرافیہ دانوں کے سپرد کرنا بہتر خیال کیا گیا ہوگا۔ یونیسکو کے اربابِ حل و عقد ہی اس نکتے پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ رومی کے ’’نو پرستار‘‘ (Latest Fan) نئے چاہنے والے اور تنقیدی ادب کے معیار پر پورا اتر نے وا لے دو سوانح عمریوں ’’فرینک او، ہارا‘‘ (Frank O' Hara) اور’’فلا نیری او، کونور‘‘ (Flannery O' Connor) کے ممتاز مصنف بریڈ گوچ (Brad Gooch) نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں وخش کو رومی کی جائے ولادت قرار دیا ہے۔ اس نے یہ بھی صراحت کر دی ہے کہ ’وخش ‘آج کے تاجکستان کا ایک گائوں ہے۔
٭ ملاحظہ ہو خبرنامہ بی بی سی جین کلا بتاری (Jane Clabattari) ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء۔
٭ یونیسکو کے اعلان 12/19/2016 کے مطابق ۶؍ ستمبر ۲۰۰۷ء کو یونیسکو کے زیرِانتظام ایک ’ یادگاری دن‘ منایا گیا ۔ مولانا جلال الدین بلخی رومی کا آٹھ سو واں یومِ پیدائش ۔
٭ یو نیسکو نے رومی کو بلخی ۔ رومی تسلیم کر لیا یا کروا لیا ہے، لیکن براہِ راست اعلان کر نے سے گریز کیا ہے۔
٭ بریڈگوچ سے بہت پہلے فر ینکلن ڈی لیوس (Franklin D. Lewis) نے اپنی تصنیف ’’رومی : پاسٹ اینڈ پریزنٹ، ایسٹ اینڈ ویسٹ ‘‘ (Rumi: Past and Present, East and West) میں رومی کے مقامِ ولا دت کے بارے میں یہی مؤقف اختیار کیا تھا کہ رومی وخش میں پیدا ہو ئے ۔
Born in the end of September1207, Rumi probably lived with his father in Vakhsh as a toddle.
(اواخرِ ماہِ ستمبر ۱۲۰۷ء میں رومی پیدا ہوئے، والد کے ساتھ وخش میں انھوں نے اپنا عہدِ طفولیت گزارا۔)
میرا خیال ہے، آج تک کی تحقیق مولانا رومی کی ولادتِ باسعادت کو آج کے تاجکستان کے ایک گائوں وخش سے متعلق کرتی ہے اور یہی درست لگتا ہے۔
رومی کی جائے پیدائش وخش؟
رومی کون—؟ ایسا سوال ہے جو رو می کی تلاش۔ جماعت کو مستقل طور پرمتجسس، متحرک اور فعال رکھنے کے ساتھ ایک ایسے شوق، ایک ایسے جذبے اور لگن سے سرشار رکھتا ہے جس کا کوئی نام نہیں ہے۔ اور جس کی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اس کے مظاہر سے انسانی تاریخ معمور، منور اور ممتاز ہے۔
مولانا رومی کی پیدائش ایک گائوں میں ہوئی۔ اگر یہ مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ رومی کے والد حضرت بہاء الدین ولاد اور ان کے خاندان کی غالباََ یہ اوّلین ہجرت تھی۔ یہ خاندان بلخ یا اس کے نواحی علاقے سے نقل مکانی کرکے وخش میں آباد ہوا۔
٭ اور اس نقل مکانی کے بعد وخش میں رومی کی ولادتِ باسعادت واقع ہوئی۔
٭ رومی کی تلاش ۔ جماعت نے، طفل، شیر خوار رومی کو اپنے والد، والدہ یا کسی اور نگہبان کی مدد سے پائوں پائوں چلنے والے حضرت رومی کو پہلے پہل وخش میں دریافت کیا۔ وہ اپنے پائوں میں پیدائشی ’چکر‘ لے کر پیدا ہوئے تھے۔
٭ اس چکر کو اور چکر میں مبتلا پائوں کو دور بہت دور سے ترکستان کے شہر قونیہ کی مٹی آ واز دے رہی تھی جہاں ان کو اپنے پیدائشی چکر سے آزاد ہوکر دائمی طور پرسکون آشنا ہونا تھا۔
لکھنے وا لوں نے وخش کو گائوں کا نام دیا تھا۔ آج بھی وخش کو گائوں ہی لکھتے ہیں۔ میں اس مرحلے پر پاکستان اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اپنے قارئین سے خصوصی التماس کرنا چاہتا ہوں کہ ’وخش‘ ہندوستان یا پاکستان کے کسی گائوں سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا ہے۔ وخش اس عصر کی مسلم دنیا کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔
٭ ایک منظم اور مستحکم انتظامیہ کا حامل شہر جہاں کے رہنے والوں کو شہریت کے پورے حقوق حاصل تھے۔ جہاں قانوں کی حکمرانی تھی۔
قاضی القضاۃ اوراس کے تحت عدالت تھی، اپنے پورے لوازمات کے ساتھ۔ اگرچہ افغانستان اور اس پورے علاقے کو امیر معاویہ کے عہد میں مسلمانوں نے اپنے زیرِ نگیں کیا تھا لیکن جس نظام کو رائج کیا گیا تھا، وہ شاہی مزاج کا حا مل نہ تھا۔ وخش میں علم و فن، تجارت اور صنعت فروغ پارہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک سیدھا ثبوت ہمارے سامنے ہے کہ:
٭ حضرت بہاء الدین ولاد بلخ اور اس کے نواح سے نقل مکانی کرکے وخش میں آباد ہوئے تھے۔ ان کا اپنے کنبے کے ساتھ یہاں آباد ہونا جب کہ وہ ایک جید عالم تھے، وخش کے بارے میں ہماری غلط قیاسیوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کر دیتا ہے۔ وخش کے اس وقت کے قاضی سے حضرت بہاء الدین ولاد کے تعلقات میں تلخی کا تجزیہ کرنے پر بھی ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ دو شیر ایک کچھار میں نہیں رہ سکتے تھے۔ وخش کے قا ضی کو یہ خدشہ درپیش ہونا لازمی تھا کہ حضرتِ بہاء الدین ولاد کی موجودگی اس کی کر سی کے لیے خطرے کا باعث تھی یا پھر احساسِ کم تری کی نفسیات اپنا کرشمہ دکھانے پر مائل تھی۔ قاضی صاحب کے بہانہ جو ذہن کو حضرت بہاء الدین ولاد کی شخصیت اور معلومات میں ان کے زیرِ استعمال ذاتی مہر (Seal) جس پر ’’سلطان العلما‘‘ کندہ تھا، دکھائی دی۔ موصوف نے یعنی قاضی صاحب نے اسی پر اپنے قضیے کی اساس رکھ دی۔ اس مہر کے بارے میں بہاء الدین ولاد نے صرف یہ کہا کہ انھیں خواب میں اشارہ ملا اور اس پر عمل کرنا ضروری خیال کرکے مذکورہ مہر بنوائی ہے۔ بہرحال قاضیِ مذکورکا اٹھایا ہوا قضیہ رومی کے والد حضرت بہاء الدین ولاد کی طبیعت پر گراں گزرا اور انھوں نے اپنے خاندان کے ساتھ وخش سے نقل مکانی کرلی۔ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھے۔ اس علاقے کے فرماں روا سے ان کا دامادی کا رشتہ تھا۔ ددھیال ننھیال دونوں دینوی، دینی اور علمی لحاظ سے ممتاز تھے۔ وہ خود اس اکناف کے جانے مانے بزرگ، عالم اور صاحبِ کمال تھے۔ وخش کا قاضی ان کی ہم سری کا دعوے دار بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ وخش میں ان کو کسی نوع کی سبکی سے سابقہ نہیں پڑا۔
٭ یہ کہنا قطعی غلط اور بے بنیاد ہے کہ حضرت بہاء الدین ولاد کو شہر بدر کیا گیا تھا۔
حضرت بہاء الدین ولاد اچھی طرح سے جان چکے تھے کہ وخش ہو یا بلخ ان کے اور ان کے خاندان کی مستقل رہائش کے لائق نہیں رہے تھے۔ وہ عالم تھے اور ان کا فرض تھا کہ اپنے علم سے ایک عالم کو منور کریں۔
٭ ان کی ظاہری اور باطنی آنکھیں اس پورے علاقے کو آگ اور خو ن کی لپیٹ میں دیکھ رہی تھیں۔ انھیں ہجرت کرنا تھی، سو اس کا آغاز وخش سے کیا۔
مولانا رومی کے والد حضرت بہاء الدین ولاد کی ددھیال اور ننھیال دونوں کا زمینی رشتہ افغانستان سے اور لسانی رشتہ فارسی زبان کی اساس پر ایران سے استوار ہوتاہے۔ اگر رومی کی پیدائش کے بموجب وخش سے رشتہ جوڑتے ہیں تو صورتِ حال خاصی متغیر ہوجاتی ہے۔ اور نہ صرف افغانستان سے زمینی ربط کم ز ور پڑ جاتا ہے بلکہ لسانی رشتے میں الجھنیں پڑنے لگتی ہیں۔ محققین نے فارسی زبان کے مختلف الوان (shades) پر تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق پر سرسری نظر ڈال کر یہاں تک سوچا جاسکتا ہے کہ وخش کی فارسی، بلخ اور اس کے نواح کی فارسی سے قدرے مختلف مزاج، آہنگ اور لون کی حامل ہے۔
٭ یہ تو آپ کو اور مجھ کو معلوم ہے، آج کی دنیا میں وخش افغانستان میںشامل نہیں ہے۔ تاجکستان (صوبے) کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔
٭ وکی پیڈیا Wikipedia کی تحقیق کے مطابق جمہو ریۂ تاجکستان (Republic of Tajikistan) جس کو Tadzhikistan بھی لکھا جاتا ہے ایک پہاڑی اور پہاڑیوں سے گھرا ہوا ملک ہے۔ اس کا محلِ وقوع مرکزی ایشیا میں ہے۔ اس کی آبادی کا تخمینہ ۲۰۱۶ء کی مردم شماری کی اساس پر ۷.۸ ملین افراد پر مشتمل ہے۔ اس کا ر قبہ1430,100 کلومیٹر ہے۔ اس کا محلِ وقوع کچھ یوں بیان ہوگا، جنوب میں افغانستان، مغرب میں ازبکستان، شمال میں کرغستان اور مشرق میں تبّتی چین (China)۔ پاکستان جنوب میں وقان کی تنگ پٹی (Wakkan Corridor) سے جدا کیا ہوا ملک ہے۔ حکومتی اور سرکاری زبان تاجک ہے۔ اس کا مرکزی شہر (Capital) دو شنبے (Dushanbe) ہے۔
تاجک لوگوں کی، عوام کی زبانوں میں روسی (Russian) ہے۔ آبادی کا 84.3 فی صد تاجک 13.8فی صد ازبک۔
0.8 فی صد کرغز۔ 1.1 فی صد۔ دیگر قومیتوں پر مشتمل ہے۔
٭ تاجکستان انتہائی قدیم تہذیبی، تمدنی ورثوں کا حامل ہے۔ اس کا شہر Sarazm ثالی کے طور پرNeolithic اور Bronze عصروں کے مظہرکے طور پر آج بھی موجود ہے۔ تاجکستان میں آپ کو Oxus Civilization (اوکس تہذیب) Andronov Culture (اینڈرونووکلچر) بدھ ازم Nestorian Christianity (نیسٹورین عیسائیت) زور اسٹریانزم، منوچہریزم اور اسلام کی نمائندگی دستیاب ہوگی۔ اس علاقے پر حکمرانی کے ادوار میں بھی خاصا تنوع ملتا ہے۔
Achaemenid Period 650 BC - 329 BC
Hellinestic Period 329 BC 90 BC
Kushan Empire 30 BC 410 AD
The Sassanids Hephthalites and Gokturks
Arab Caliphates 224 ---710
710 --- 867
Solmanid Empire -------819----999
Qara Khanids------999----1211
Mangol Rule ------1218-----1370
پیشِ نظر جدول کے مطابق آپ نے اور میں نے دیکھا کہ تاجکستان پر ۱۲۱۸ء سے ۱۳۷۰ء تک منگولوں کو اقتدار حاصل رہا تھا۔ یہی وہ منگول اقتدار ہے جس نے اس علاقے کے جمے جمائے خانوادوں کے پیر اکھیڑ دیے۔ انتقالِ آبادی کا عمومی ماحول تشکیل ہوا۔ اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ منگول قومی مزاج خانہ بدوش ہونے کے ساتھ زمین میں جڑ پکڑنے کے عناصر کا بھی جزوی طور پر حامل ہوتا تھا۔ چناں چہ میدانوں اور گھاس سے معمور چراگاہوں کی عدم دستیابی اور ہندوکش کے کوہستانی سلسلے کی موجودگی نے اس علاقے کے منگولوں کو بھی (جزوی طور پر) رہائش پذیر ہونے پر مجبور کیا۔
٭ انتقالِ آبادی کاعمومی ماحول جتنا وخش میں فعال تھا، اتنا پورے تاجکستان میں نہ تھا۔ اسی بنیاد پر آپ اور میں اس نظریے کے حامل ہونے پر مائل ہیں کہ مولانا رو می کے والد کے خانوادے یا دوسرے لفظوںمیں مولانا رومی اور مولانا رومی کے خانوادے کی ہجرت کا آغاز وخش سے ہوتا ہے اور رومی کو بلخی کے مقابلے میں وخشی، قونوی، رومی کہنا چاہیے۔ یہ اور بات کہ تاجکستان کے اربابِ اقتدار و سیاست کو دیگر مسائل نے مصروف کر رکھا ہو۔
کچھ شہر بلخ کے با رے میں
شہر بلخ ایک تا ریخی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخی معلومات کے مطابق سکندرِاعظم (Alexander the great) کی افواج نے ہندوستان فتح کرنے کی نیت سے دا خل ہونے کے بعد اس شہر کو اپنا باضابطہ اوّلین پڑائو بنایا (اس کا یہ مطلب نہیں کہ یونانیوں نے اس شہر کو بسایا) جب سکندر کو اس کی بیوی نے خاص خاص فوجی جرنیلوںسے سازش کرکے پورے ہندوستان کو فتح کرنے سے باز رکھا تو با دلِ نخواستہ وطن لوٹنے پر را ضی ہوگیا۔ یوں بھی وہ اور اس کے یونانی سپاہی پانچ برس سے زیادہ اپنے وطن سے باہر رہ کر بیزاری اور یادِ وطن (Home Sickness) کا شکار ہو رہے تھے۔ ہندوستان میں ہاتھیوں والے را جا پو رس کو شکستِ فاش سے دوچار کرنے کے بعد سکندر کے حوصلے بلند تھے اور وہ ہندوستان تو ہندوستان بچی کھچی دنیا کو فتح کرکے فاتحِ عالم کا اعزاز حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا، لیکن ہاتھیوں کے آگے ڈٹ جا نے والا تریاچرتّر اور تریاہٹ سے مات کھا گیا۔ اپنی اس شکست کو وہ برداشت نہ کرسکا، وطن کے راستے ہی میں اور یونان سے باہر، ایران میں کسی جگہ فوت ہوگیا۔ اس کے مفتوحہ، ہندوستانی علاقے پر اس کے سپاہیوں اور افسروں نے ممکنہ مدت تک قبضہ برقرار رکھا اور علاقائی لو گوں سے رشتے داریاں جوڑ کر اکثر مستقل آباد ہوگئے۔ بلخ کا قدیمی شہر اس طرح یونانی حملہ آور فاتح فوج کی فوجی چھائونی سے بہت جلد اس وقت کے ایک خوب صورت ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس کی اہمیت اور قدر میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس شہر کا تمدن، تہذیب، ثقافت، آرٹ، کرافٹ، ادب اور آرکی ٹیکچر گنگا جمنی تھا۔ گنگا جمنی سے میری مراد کیا ہے؟ باہر سے ہندوستان آنے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ یونانیوں کے بعد دنیا بھر سے قوم قوم، رنگ رنگ، نسل نسل، ملک ملک کے لوگوں کی آوک جاوک جاری تھی۔ باہر سے آکر یہاں بس جانے کی روایت بھی برقرار تھی۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ ’’گنگا جمنی‘‘ سے میری مراد یہ سب تھی، بلکہ ہے۔
ماقبل تاریخ عہد میں بھی یہ شہر ہوتا ہوگا کسی نہ کسی شکل اور روپ میں، جنگل کے روپ میں بھی یہ بستی ہوگی، بستی بھی تو شہر کی ایک صورت ہے۔ درخت، پودے، بوٹے، بیلیں، جھاڑیاں، غنچے، پھول، تتلیاں، پرند، چرند، درند، جانور، حشرات الارض، رہتے بستے ہوں گے۔ دیو، جن، پریاں یا ان کے دوش بدوش آدمی، عورت، مرد، بچے، بچیاں۔
٭ اس شہر نے ماقبل تاریخ عہد سے، مابعد تا ریخ تک سفر کیا ہوگا۔ اس نے نت نئے دین، دھرم اور مت اختیار کیے ہوں گے۔
تفصیل میں جانا نامناسب ہے ۔ اتنا جان لینا میری اورآپ کی ضرورت کے مطابق کافی ہے کہ حضرت رومی اور ان کے قریبی آبا کے وقتوں میں بلخ، خراسان کا ایک شان دار مسلمان شہر تھا۔ بلخ اور اس کے نواح کا سارا علاقہ بشمول خراسان، امیر معاویہ کے زیرِنگیں مسلمانوں کے بس میں آیا۔ بلخ میں مسلمانوں کی خانقاہیں، مساجد، مقابر اور مدرسے اس کثرت سے اور اتنے شان دار اور خوب صورت تھے کہ شہر کو ’گنبدِ اسلام‘ (انگریزی کی کتابوں میں The Dome of Islam لکھا ملتا ہے) کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔
٭ اس شہر سے چند ایک صو فیا بھی متعلق ہیں جن میں زیادہ مشہور حضرتِ ابراہیم ادھم اور حضرتِ شفیق بلخی تھے۔
٭حضرت رومی کے زمانے میں حضرت نجم الدین کبرائی (1145- 1221 CE) کبراوی سلسلۂ صوفیا کے شیخ کا نام سامنے آتا ہے۔ منگولوں کی یلغار کے خلاف حضرت نجم الدین کبرائی نے جہاد کیا اور اپنی شہادت تک ڈٹے رہے۔
٭ترک مصنف اور سوانح نگار سیہان اوکیوکو (Rumi: Biography and Massage) کے مطابق حضرت نجم الدین کبرائی، حضرت رومی کے والد حضرت بہاء الدین ولاد کے پیر و مرشد تھے۔
اس علاقے میں سلطان خوارزم شاہ کی فوجی موجودگی بھی تاریخی اہمیت کی حامل رہی۔ اس نے نہ صرف اس علاقے پر اپنے اقتدار کو مستحکم کیا بلکہ حیرت انگیز حوصلہ مندی اور کامیاب جنگی حکمتِ عملی سے چنگیز خان کی افواج کو شکستِ فاش سے تین مرتبہ ہم کنار کیا۔ مجبور ہوکر چنگیز خان بذاتِ خود ایک لشکرِ جرار کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ خوارزم شاہ نے شکست کھائی اور دریا میں اپنا گھوڑا ڈال کر چنگیز خان کا قیدی بننے سے بچ گیا۔
٭ تواریخ میں چنگیز خان کا یہ اعترافی فقرہ ملتا ہے: ’’میں نے زندگی میں اس جیسا بہادر نہیں دیکھا۔‘‘
٭خوارزم شاہ دریائی راستے سے ہندوستان میں داخل ہوا لیکن راستے میں کسی مغل فوجی نے اسے قتل کر دیا۔
چنگیز خان کی ا فواج نے علاقے کی ساری مرد آبادی کو موت کے گھا ٹ اتار دیا اور شہر کو تاراج کرکے کھنڈر کی صورت کر دی۔
٭شہر بلخ پر منگولوں کی یلغار اور تباہی کاقیاس اس طرح کیا جاسکتا ہے کی قریباً ایک صدی بعد جب مشہورسیاح ابنِ بطوطہ بلخ پہنچا تو بلخ کھنڈروں پر مشتمل ایک اجڑا شہر تھا۔ بعد میں چغتائی، ازبک، ایرانی اور افغانی حکمرانوں نے ماضی کے اس چمک دار شہر کو آباد کیا۔
۱۔ مولانا رومی پانچ سال کے تھے جب ۱۲۱۲ء میں خوارزم شاہ نے سمرقند، خراسان کے ایک شہر کو تاراج کیا (آج کا افغانستان) ۲۔ مولانا رومی کی تحریروں میں اس حملے کا احوال ملتا ہے۔ Discourses of Rumi, P-173 - Arberry
٭ان دنوں سمر قند پر قرا خا نیہ عثمان حاکم تھا۔
’’ ہم سمرقند میں رہتے تھے۔ خوارزم شاہ نے اپنی فوج سے شہر کا محا صرہ کیا ہوا تھا۔ اسی علاقے میں ان دنوں ایک بے حد حسین لڑکی تھی، شہر میں اس جیسی حسین و جمیل لڑکی کوئی اور نہ تھی۔ میں نے اس کو یہ فریاد کرتے سنا، ’یا خدا تو مجھے کس طرح اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ میں بدکاروں کے ہاتھ لگ جائوں۔‘
بیان میں آتا ہے کہ وہ جوان عو رت کراما تی طور پر محفوظ رہتی ہے۔ زنا اورمارپیٹ سے جب کہ عورتوں کی اکثریت اورخوود اس کی نوکرانیاں فوجیوں کی لوٹ مار اور جنسی بربریت کا شکار ہوتی ہیں۔ مرد بھی بہت سارے مارے جاتے ہیں۔ رومی کو یقین تھا کہ وہ عورت اپنی دعائی قوت سے بچ رہی۔مولانا رو می نے بچپن میں سیاست، جنگ اور دہشت کو قریب سے دیکھا اور دکھ سے محسوس کیا۔
مولانا رومی کو بہت سارے مردوں اور عورتوں کی یادیں ساری عمر اذیت دیتی رہیں۔ شاعر رومی کی شاعری میں شدتِ احساس اس کے بچپن کی دین ہے۔
تیرھویں صدی کا ابتدائی زمانہ قتل و غارت سے معمور، بین قبائلی تصادم اور برتری کے حصول کی خاطر ظہو پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا زمانہ ہے۔ مشرقی خراسان کے اہم شہر ان تبدیلیوں کی آماج گاہ بنے۔ غوری، خوارزمی اور قراخانی قبائل ایک دوسرے پر فوجی برتری اور فوقیت پانے کے لیے برسرِپیکار تھے۔ مولانا رومی کی شاعری میں اس عہد کے حوالے ملتے ہیں۔ ’’دیوان‘‘ میں کہیں یہ ذکر مل جاتا ہے کہ خوارزم شاہ نے انسا نیت کو ترک کرکے حیوانیت کو اپنا شعا ر بنایا ہوا تھا۔ رومی کے استعا رات کچھ یوں سامنے آتے ہیں:
’’لفظ، تیر اور زبان خوارز میوں کی کمان ہیں ۔‘‘
۱۲۲۰ء کے آس پاس منگو لوں کی مسلسل یلغار سے یہ علاقہ تباہ و برباد ہوگیا۔
٭ مولانا رومی کا بچپن مسائل اور مصائب کے علاوہ سانحا ت کے ایک تسلسل پر مشتمل ہے۔