شجرہ (Family Tree)
ترک محقق سیہان اوکیوکو (Cihan Okyucu) نے افلاکی کی مبالغے کی عادت سے خبردار کرتے ہوئے لکھاہے کہ:
افلاکی کے مطابق حضرت بہاء الدین ولاد خوارزمی، سلطان علاء الدین محمد کا نواسہ تھا۔ حضرت بہاء الدین ولاد نے مومنہ خاتون سے شادی کی تھی جو بلخ کے فرماں روا رکن الدین کی بیٹی تھی۔ اس کا پہلا بیٹا علاء الدین محمد تھا اور دوسرا بیٹا محمد جلال الدین (حضرت جلال الدین رومی) حضرت رومی کو مولانا بھی کہا گیا ہے۔ یہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ حضرت رومی کی تحریروں میں ان کے شجرے کا پتا نہیں چلتا۔ سپہ سالار اور افلاکی دو نوں ان کے شجرے کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ملاتے ہیں۔ حضرت رومی کا بڑا حصہ اناطولیہ میں گزرا لیکن ان کی تحریروں میں خراسان سے وطنی تعلق کا ذکر ملتا ہے۔ بلخ، خراسان کا ایک شہر ہے۔
حضرت رومی کی تاریخِ پیدائش کا مسئلہ یونیسکو (Unesco) کے فیصلہ کن اقدام، کثرتِ رائے اور قبولِ عام کی رو سے حضرت رومی کی ولادت کی تاریخ ۳۰؍ ستمبر، ۱۲۰۷ء ہے۔
ان کی تحریر ’’ فیہ ما فیہ‘‘ میں سمرقند کے محاصرے کا ذکر ملتا ہے جو خوارزمیوں کی افواج نے کیا تھا۔ اس محاصرے کے دوران ایک لڑکی نے جو شہر کی سب سے حسین لڑکی تھی، بارگاہِ رب العزت میں التماس کیا تھا، ’’اے میرے رب مجھ کو ظالم دشمنوں کے ہاتھوں سے بچا لے۔‘‘ اس کی دعا حیران کن انداز میں قبول ہوئی اور وہ جنگجو فا تحین کی دست برد سے محفوظ رہی۔ حضرت رومی کی اس تحریر کو اساس بنا کر٭ وِل ڈیوراں (Will Durrant) نے حضرت رومی کا سالِ پیدائش ۱۲۰۱ء متعین کیا ہے۔
٭مائو ریس باریس ۱۲۰۹ء لکھتا ہے ۔
٭ دوسری جانب گولپی نرلی ’’دیوانِ کبیر میں درج شدہ ایک نظم کی اساس پر جس میں حضرت رومی نے یہ لکھا ہے کہ جب ان کی ملاقات (۱۲۴۴ء) میں حضرتِ شمس تبریز سے ہوئی تو ان کی حضرت (شمس تبریز) کی عمرباسٹھ برس تھی۔
٭ حضرتِ رومی کا سنِ پیدائش ۱۱۸۴ء قیاس کرتا ہے۔
٭ محققین جیسے حلمت رٹر (Hilmat Ritter) نے گولپی نرلی کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
٭ لزلی وائنس کی رائے کے مطابق حضرت جلال الدین رومی ۳۰؍ ستمبر ۱۲۰۷ء کو ان کے والد کی چار بیویوں میں سے ایک، مومنہ خاتون کے بطن سے تولد ہوئے۔
٭ محمود جمال کے مطا بق حضرتِ رومی ۱۲۰۷ء میں پیدا ہوئے۔
٭ علامہ شبلی نعما نی کے مطابق مولانا رومی ۶۰۴ھ میں بمقام بلخ میں پیدا ہوئے (ص:۵۔۶)۔ انھوں نے جواہر مضیہ کے حوالے سے سلسلۂ نسب (شجرہ۔Family Tree) اس طرح بیان کیا ہے۔
٭ ’’محمد بن محمد بن محمد بن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن حضرت ابوبکر صدیق ؓ۔
٭اس روایت کی رو سے حضرت حسین بلخی مولانا کے پر دادا ہوتے ہیں۔ سپہ سالار نے ان کو دادا لکھا ہے اور یہی صحیح ہے۔ حضرت حسین بلخی، بلخ کے بہت بڑے صو فی تھے ۔ ان کی بڑی عزت تھی۔ سلطان محمد خوارزم شاہ نے اپنی بیٹی سے ان کی شادی کروا دی تھی۔
مولانا رومی کے والد حضرت بہاء الدین اسی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اس لحاظ سے سلطان محمد خوارزم شاہ، بہاء الدین کا ماموں اور مولانا رومی کا نانا لگتا تھا۔ (ص:۱، سوانح مولانا روم، علامہ شبلی نعمانی)
قارئینِ کرام، جھلک جھلک رومی کی خارجی شخصیت آپ پر اور، اور ہاں آپ کے بہانے مجھ پرجستہ جستہ شناخت کے در وا کرتی جارہی ہے۔ ہم یہ جان گئے ہیں کہ حضرت رومی کے والد محمد بہا ء الدین ولاد تھے اور دادا حضرت حسین بلخی تھے۔
ددھیال کے علاوہ ہم رومی کے ننھیال سے بھی آگاہی حاصل کرچکے ہیں۔ وہ اس طرح کہ ہمیں معلوم ہے کہ سلطان محمد خوارزم شاہ رشتے میں مولانا رومی کے نانا لگتے تھے۔
ہم یہ بھی جان گئے ہیں کہ شجرے کے مطابق مولانا کا رشتہ مسلمانوں کے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے جا ملتا ہے۔
ان رشتوں اور ناتوں سے واقف ہوجانے کے بعد آپ اور ہم کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں کہ وخش میں مولانا رومی کے والد کسی نوع کی سبکی یا بے عزتی کی زد میں آئے۔