یہ ساری روشنی حیدر ہے ماں کے چہرے کی
کہاں ہے شمس وقمرمیںجو نورخاک میں ہے
۔۔۔۔۔۔میں لان میں کھڑی جہاز کو پرواز کرتے دیکھ رہی ہو۔ اس جہاز میں میری ممی گرمیاں گزارنے سوئٹزرلینڈ جارہی ہیں۔ڈیڈی انہیں سی آف کرنے ایئرپورٹ تک گئے ہوئے ہیں۔ زیبی اور روبی بھی ممی کے ساتھ گئی ہیں جہاز میری نظروں سے اوجھل ہوگیاہے اور میں آہستہ آہستہ کوٹھی کے اندر جانے لگتی ہوں۔
ڈرائینگ روم میں آکر میں صوفے پر ڈھیر ہوگئی ہوں۔
اچانک مجھے آئینے میںایک خوبصورت سا جہاز پرواز کرتا نظر آتا ہے میں تھوڑا غور سے دیکھتی ہوں اف فوہ (حیرت ہے!) اس میں اس میں تو میری امی کی روح پرواز کررہی ہے۔
”امی آپ نے توزندگی بھر ہوائی جہاز کا سفر نہیں کیاتھا، پھر موت کے بعد یہ جہاز کا سفر کیسا؟“
میں امی سے پوچھتی ہوں مگر کوئی جواب نہیں ملتا۔
میں ڈرائینگ روم سے نکل کر ڈاڈر کے سینی ٹوریم میں پہنچ گئی ہوں۔
امی کو مختلف انجکشن لگائے جارہے ہیں۔ ہم سب بہن بھائی ان کے سرہانے کھڑے ہیں اور ڈیڈی۔ (نہیں ڈیڈی نہیں ابو ڈیڈی ممی کے ساتھ ہوتے ہیں اورابو،امی کے ساتھ)
ابو کے چہرے سے گہری تشویش جھلک رہی ہے۔ عجیب سے وسوسوں اور اندیشوں میں گھرا ابو کا چہرہ دیکھ کر میراجی چاہتا ہے کہ میں ان کے گلے سے لپٹ جاؤں۔ مگر میں نے تو آج تک منہ در منہ کبھی ابو سے کوئی فرمائش تک نہیں کی۔جو کچھ بھی مانگناہوتا امی کی معرفت مانگتی یا پھر چٹ لکھ کر مانگتی
پھر میں اتنی جرأت کیسے کرلوں میں نے گھبراکر ابو کے چہرے سے نظریں ہٹالی ہیں اورامی کی طرف دیکھنے لگی ہوں۔ امی کی بجھی بجھی آنکھوں سے میری آنکھیں چار ہوئی ہیں اور میری آنکھوں میں روشنی بھرگئی ہے۔
۔۔۔۔۔میں سینی ٹوریم سے واپس ڈرائینگ روم میں آگئی ہوں۔ آئینے میں اب وہ خوبصورت جہازنظر نہیں آرہا۔ ابو نہیں ڈیڈی ڈیڈی ائیرپورٹ سے واپس آگئے ہیں۔میں نے ریٹو کے ابو کو اپنے لاہور خیریت سے پہنچنے کا خط ابھی تک نہیں لکھا۔ اس لئے خط لکھنے بیٹھ گئی ہوں۔
سوئیٹزرلینڈ سے زیبی کا خط آیاہے۔ وہ بڑے مزے کی سیر کررہے ہیں ممی نے ڈھیروں پیار بھیجے ہیں۔ آج ڈیڈی بھی ایک ہفتہ کے لئے سوئیٹزرلینڈ جارہے ہیں۔
ڈیڈی چلے گئے ہیں اور میرے ابو میرے پاس آگئے ہیں۔
”چلو بیٹی تمہاری امی تمہارا انتظار کررہی ہوگی“
۔۔۔۔۔ڈاڈر کی خوبصورت وادی اور اس میں بہتا ہوا دریائے سرّن کا صاف و شفاف پانی یہ منظر سوئٹزرلینڈ کی کسی بھی وادی سے کم نہیں۔ لیکن ابو ان تمام نظاروں سے لاتعلق میرے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے سینی ٹوریم کی طرف تیزی سے چل رہے ہیں۔ میں دو تین دفعہ ٹھوکر لگنے کی وجہ سے گرنے لگتی ہوں۔ مگر ابو نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھاہے اس لئے بچ جاتی ہوں ہم امی کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔سارے بہن بھائی وہاں موجود ہیں صرف زیبی نہیں ہے۔
امی پوچھتی ہیں”زیبی کہاں ہے؟“
ابو خاموش کھڑے ہیں۔میں کہنا چاہتی ہوں کہ ”سوئٹزرلینڈ گئی ہوئی ہے“ مگر کہہ نہیں سکتی کیونکہ زیبی جو چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب کے آخر میں کھڑی تھی بڑھ کر آگے آجاتی ہے۔
امی کے سرہانے پڑے ہوئے آکسیجن کے سلنڈر دیکھ کر مجھے اپنا دَم گھٹتا محسوس ہوتاہے۔
ابو کچھ دیر کے لئے ڈاکٹر کے ساتھ باہر جاتے ہیں اور میں پھر ڈیڈی کے ڈرائینگ روم میں واپس آگئی ہو۔ یہاں ریٹوکے ابو میرے منتظر ہیں۔
”کہاں گئے سب گھر والے؟“
”ممی، زیبی اور روبی دو ماہ کے لئے اور ڈیڈی ایک ہفتہ کے لئے سوئٹزرلینڈ گئے ہیں“
”تمہیں کیوں نہیں ساتھ لے گئے؟“ریٹو کے ابو کا لہجہ کچھ تیکھاسا ہوجاتاہے۔
”ایک تو اس لئے کے لاہور سے سوئٹزرلینڈ، شیخوپورہ جتنی دور نہیں ہے۔ دوسرے اس لئے کہ گھر پر بھی تو کسی نے رہنا تھا“
”کیاتم سمجھتی ہو کہ تمہاری سگی ماں زندہ ہوتی اور تم اسے اس طرح ملنے آتیں تو وہ اگلے دن تمہیں گھر چھوڑکر کہیں سیر کو چلی جاتی؟“
”دیکھئے مجھے میری ممی کے خلاف نہ بھڑکائیے، وہ بہت اچھی ہیں۔ ہم سب کا بے حد خیال رکھتی ہیں۔ آپ ایسی باتیں کرکے میرے دل میں نفرت پیدا کرناچاہتے ہیں“
”میں تو تمہارے بھلے کی بات کررہاہوں“
”مردہمیشہ عورت کو بہکاتاہے اور پھر اپنی ساری غلطیوں کی ذمہ داری بھی عورت پر ہی ڈال دیتاہے، اور عورت وہ اپنی سادگی کے باعث ہرناکردہ گناہ کو بھی اپنا گناہ تسلیم کرلیتی ہے۔ آدم اور حوا سے لے کر آج تک یہی ہورہاہے“
قلم گرنے کی آواز سن کر میں چونک اٹھتی ہوں۔ گرے ہوئے قلم کو اٹھاکر پھر سے ریٹوکے ابو کے خط کا جواب لکھنے بیٹھ جاتی ہوں مگر یہ کاغذ پر اب تک کیا لکھتی رہی ہوں؟
ابو۔۔ابو۔۔امی۔۔ابو۔۔ڈیڈی۔۔امی۔۔ممی۔۔ڈیڈی۔
اپنی حماقت پر جھینپ کرپھر ریٹو کے ابو کو ان کے خط کا جواب لکھ رہی ہوں۔
۔۔۔۔ڈیڈی ایک ہفتہ سوئٹزرلینڈ گزارنے کے بعد واپس آگئے ہیں۔ آج میںنے فیصلہ کیاہے کہ ڈیڈی سے ہر حال میں یہ پوچھ کر رہوں گی کہ امی کی وفات کے بعد بھی آپ ایک عرصہ تک ابو ہی رہے پھر محض ممی سے شادی کے بعد آپ ڈیڈی کیوں بن گئے؟ آپ پھر سے ابو کیوں نہیں بن جاتے؟ مگر میں جانتی ہوں کہ میں اتنی جرأت کے ساتھ تو کبھی ابو کے سامنے بھی نہ بول سکی تھی پھر ڈیڈی کے سامنے بولنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا شاید امی اس سوال کا جواب دے سکیں!
یہ سوچ کر میں پھر سینی ٹوریم کی طرف چل پڑی ہوں۔
ابو ابھی تک ڈاکٹر سے کوئی مشورہ کررہے ہیں۔
میں امی کے کمرے میں داخل ہوتی ہوں۔
۔۔۔۔امی اٹھ کر بیٹھ گئی ہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ مہاتما بدھ کی تصویر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئی ہے۔ ہماری خاموش آنکھیں امی سے سوال کررہی ہیں۔
۔۔۔امی نے بھیا کے سرپر ہاتھ پھیراہے۔ بھیا کی آنکھوں میں آنسو ہیں اب رضیہ کے سرپر ہاتھ پھیر رہی ہیں وہ بھی اشکبار ہے۔ اب زیبی کو پیارکیاہے۔ مگر وہ حیران حیران سی، امی کو دیکھ رہی ہے۔ سب سے آخر میں امی نے مجھے بلایاہے۔ میرے سرپر ہاتھ پھیرتی ہیں تو میں ان کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں آنسوؤں کے دو ننھے ننھے قطرے دیکھتی ہوں۔ راکھ کے ڈھیر میں چنگاریاں!
میں ”امی جی“ کہہ کر ان سے لپٹ جاتی ہوں۔ مجھے احساس ہوتاہے کہ راکھ کے اس ڈھیر میں کتنی حرارت موجود ہے۔ شاید یہ ممتا کی حرارت ہے!
ابو ڈاکٹر سے مشورہ کرکے آگئے ہیں
”تمہاری امی ٹھیک ہوگئی ہیں اب ہم انہیں گھر لے جائیں گے“
”امی ٹھیک ہوگئی ہیں؟“
”امی ٹھیک ہوگئی ہیں؟“
دنیا میں کتنی دفعہ معجزے ہوئے ہیں شاید اس دفعہ بھی کوئی معجزہ ہوجائے۔
۔۔۔۔۔ایک سپیشل ویگن آئی ہے۔ امی کو اس میں لٹایاگیاہے۔ میں نے اپنے زانوؤں پر امی کاسر رکھ لیا ہے۔ باقی سارے بہن بھائی بھی ویگن میں بیٹھ گئے ہیں۔ ویگن ڈاڈرکے پہاڑی علاقے کے نشیب و فراز سے گزررہی ہے۔ بلندیوں اور پستیوں کے کتنے چکر لگارہی ہے۔ ایک جگہ ویگن نے ہچکولاکھایاہے اور میری چیخیں نکلنے لگتی ہیں لیکن میں انہیں دباکر صرف سسک کر رہ گئی ہوں۔ معجزوں کی امید ختم ہوگئی ہے، میں امی کی ڈھلکی ہوئی گردن کو سیدھا کرتی ہوں۔
۔۔۔۔۔”یہ تمہاری ممی نے تمہارے لئے کچھ تحفے بھجوائے ہیں“ڈیڈی نے دو خوبصورت سے پیکٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ہے۔
ریٹو نیند سے بیدار ہوگیاہے میں اس کے لئے دودھ بنانے لگتی ہوں۔ اسے دودھ پلاکر پیکٹ کھولتی ہوں۔ایک پیکٹ میں میرے اور بچوں کے لئے بے حد قیمتی کپڑے ہیں دوسرے پیکٹ میں بچوں کے لئے کھلونے ہیں۔
”ارے یہ جہاز!”میں حیرت سے اس کھلونے کو دیکھتی ہوں یہ بالکل وہی ڈیزائن ہے جو مجھے آئینے میں نظر آیاتھا، جس میں میری امی کی روح پرواز کررہی تھی۔ میں پھر صوفے پر اسی زاویے سے جاکر بیٹھ گئی ہوں مگر آئینے میں کچھ بھی نظرنہیں آرہا۔ میں اٹھ کر آئینے کے روبرو کھڑی ہوگئی ہوں
لیکن یہ کیاآئینے میں میری بجائے میری امی کھڑی مسکرارہی ہیں۔ ٹی بی زدہ امی نہیں۔خوبصورت اور جوان سی۔۔۔۔ بیماریوں کے روگ پالنے سے پہلے والی امی۔ اس عمر کی امی جب میری عمر بمشکل چھ برس تھی
میں چاہتی ہوں پھر سے چھ برس کی بچی بن جاؤں پھر بچوں کی طرح شرارتیں کروں۔ مار کھاؤں، ضد کروں، جھڑکیاں سنوں ارے ہاں میں چھ برس کی ہی تو تھی جب میں نے قرآن مجید ختم کرلیاتھا۔امی کتنی خوش تھیں اُس دن!۔۔ سارے خاندان میں امی کاسر اونچا تھا کہ میری ننھی سی بچی نے اتنی چھوٹی عمر میں کلام پاک ختم کرلیاہے۔جس دن میری ”آمین“تھی امی مجھے باربار چومتی تھیں اور پتہ نہیں کیاکیا پڑھ کر پھونکتی تھیں کہ کسی کی نظر نہ لگ جائے۔
۔۔۔۔۔امی ابوکو”باؤجی“ کہاکرتی تھیں۔ میں نے بھی ایک بار ریٹو کے ابو کو ”باؤجی“ کہا تھا مگر اس کے ساتھ ہی میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے میرے سوچتے سوچتے کتنے برسوں کافاصلہ طے ہوگیاہے۔ آئینے میں اب امی کے خوبصورت اور جوان چہرے کی جگہ نحیف و لاغر چہرے نے لے لی ہے، مگر ٹی بی زدہ امی بھی مسکرارہی ہیں۔
”امی آپ نے دکھ کے لمحوں کی ہر سانس میں ابو کا ساتھ دیا تھا پھر اب خوشی کے لمحوں میں کیوں منہ موڑ گئی ہیں؟“
”بیٹی!اسے مقدر کہتے ہیں“امی بدستور مسکراتے ہوئے جواب دیتی ہیں۔
”امی اگر اسے مقدر کہتے ہیں تو پھر ظلم کسے کہتے ہیں؟“
”مقدر کے آگے ہر کوئی بے بس ہوتاہے بیٹی!“
”میں ایسے ڈراؤنے مقدرکی آنکھیں پھوڑدوں گی“میں چیخ اٹھتی ہوں اور اس کے ساتھ ہی بے دم ہوکر نیچے گرجاتی ہوں۔ امی آئینے سے نکل کر باہر آتی ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر مجھے مسہری پر لٹاتی ہیں اور پھر میری پیشانی پر بوسہ دے کر واپس چلی جاتی ہیں۔ میں مسہری پر لیٹے ہوئے کروٹ بدلتی ہوں۔ پیشانی پر ابھی تک امی کے بوسے کالمس جاگ رہاہے۔ سامنے ریٹو، ممی کے بھجوائے ہوئے خوبصورت ہوائی جہاز والے کھلونے سے کھیل رہاہے۔ ساتھ والے کمرے سے میرے بڑے بچے روفی اور بڑی بچی نزہی کے کیرم کھیلنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ ڈیڈی کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور میںاٹھ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ ڈیڈی کچھ دیرریٹو کے ابوکے مستقبل کے سلسلے میں باتیںکرتے ہیں اور پھر اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔امی کے بوسے کا لمس ابھی تک محسوس ہورہاہے۔ میں امی سے ملنے قبرستان پہنچ جاتی ہوں۔ امی کی قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر ابو کو تلاش کرتی ہوں۔ وہ یقینا یہیں کہیں مجاوربن کر بیٹھے ہوں گے۔شاید یہیں کہیں ہوں۔
میں زور سے پکارتی ہوں”ابوابو“
دوسری طرف کھڑے پہاڑوں سے ٹکراکرمیری آواز گونجتی ہے”ابو وو ابو“
میں پھر پکارتی ہوں،
پہاڑوں سے ٹکراکر صداپھر گونجتی ہے۔
”ابو مجھے تھام لومیں گرنے لگی ہوں“
”ابو مجھے تھام لو میں گرنے لگی ہوںںں ںں“
مجھے محسوس ہوتاہے کہ میں اب اپنے ابو کو نہیں پکاررہی بلکہ پہاڑوں سے سرٹکرارہی ہوں۔ میں پہاڑوں کو پاش پاش کردیناچاہتی ہوں،
”ابوابو“
”ابوابووو“
میں چیختے چیختے بے دم ہوگئی ہوں۔ پہاڑوں سے ٹکراتے ٹکراتے ریزہ ریزہ ہوگئی ہوں۔
میں ٹوٹ پھوٹ چکی ہوں۔ مگر پہاڑ اپنی جگہ قائم کھڑے ہیں۔
”امی آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ مقدر کے آگے ہر کوئی بے بس ہوتاہے۔ امی آپ ٹھیک کہتی ہیںامی امی امی ابو“ میں بالکل بکھر کر رہ گئی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔اچانک مجھے محسوس ہوتاہے کہ کوئی میرے ریزوں کو جمع کرکے مجھے جوڑرہاہے۔ اس نے مجھے پھر سے جوڑدیاہے۔ اب وہ مجھے اپنے مضبوط بازؤں پر اٹھائے قبرستان سے باہر نکل رہاہے۔مجھے محسوس ہوتاہے کہ میرے ”ابو“ آگئے ہیں۔ اور وہی مجھے اٹھاکرلے جارہے ہیں۔ میں آنکھیں کھول کردیکھتی ہوں ”اف فوہیہ تو ریٹوکے ابو ہیں“
٭٭٭
۔۔۔۔۔مجھے شدید بخارہوگیاہے۔ ڈیڈی کو ایک اہم میٹنگ میں شرکت کرناتھی اس لئے وہ جاچکے ہیں۔میں نیم بے ہوشی کے عالم میں پڑی ہوں۔ اسی عالم میں دیکھتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں۔ میری ممی میرے سرہانے بیٹھی ہیں۔انہوں نے اپنے زانوؤں پر میرا سررکھا ہوا ہے اور بڑے پیارسے مرا سر دبارہی ہیں۔ مجھے اپنے خیالات پر شدید ندامت محسوس ہوتی ہے۔ میں لفظوں کو جمع کررہی ہوں:
”ممیآپ تو ممی اچھی سی“ لیکن لفظ صحیح طورپر جمع ہی نہیں ہوپارہے۔ میرے چہرے پر دو گرم گرم آنسو گرتے ہیں(ممی رو بھی رہی ہیں) میں جذبات کو قابو میں رکھے ہوئے ہوں۔
۔۔۔۔۔میں اپنی آنکھیں نہیں کھولنا چاہتی۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میرے سرہانے تو میری ننھی بچی نزہی بیٹھی ہے۔پھر بھی میں لفظوں کو جمع کرنے کی کوشش کر رہی ہوں،
”ممیمیری اچھی ممیمجھے معاف کردیں“
٭٭٭