صوفی، سادھو بن کر تیری کھوج میں ایسے نکلیں
خود ہی اپنا رستہ، منزل اور سفر ہو جائیں
۔۔۔۔۔بڑی عجیب اذیّت ہے۔ میں نماز پڑھتاہوں، رکوع تک تونماز ٹھیک رہتی ہے لیکن سجدے میں کہیں اور پہنچ جاتاہوں۔ اسٹین گن اٹھائے مکروہ تکونے چہرے اور نحوست برساتی آنکھوں والا ایک شخص میرے روبرو آجاتاہے۔ میں سجدے میں خدا کو ڈھونڈتاہوں۔وہ کہتا ہے:”میں تمہیں خدا تک نہیں پہنچنے دوں گا“
میں سوچتاہوں شاید خدا بھی اس کے سامنے بے بس ہوگیاہے لیکن یہ کافرانہ خیال آتے ہی سجدے سے سر اٹھالیتا ہوں۔
۔۔۔مجھے ابراہیم ادھم رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ یاد آتاہے جب وہ ہر قدم پر سجدے کرتے ہوئے چودہ سال کی مسافت طے کرکے مکہ پہنچے تو کعبہ اپنے مقام پر موجود نہ تھا۔ تب غیب سے آواز آئی تھی۔
”کعبہ ایک ضعیفہ کے استقبال کے لئے گیاہے جو ادھر آرہی ہے۔
آپ پکاراٹھے کہ وہ کون ہے؟ اتنے میں دیکھا کہ رابعہ بصریؒ عصا ٹیکتی ہوئی آرہی ہیں۔ پھر کعبہ بھی اپنے اصلی مقام پر آگیا۔“1*
لیکن مجھے تو سجدے میں وہی مکروہ تکونے چہرے اور نحوست برساتی آنکھوں والا اسٹین گن اٹھائے نظر آتاہے، تنگ آکر میں جنگل کی طرف نکل جاتاہوں اور اپنے اندر ہی اندر سفر کرکے ایک بزرگ سے ملتاہوں اور انہیں اپنا روگ بتاتاہوں۔ ان کے چہرے پر نورانی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے وہ کہتے ہیں:
”میں سو سال محراب میں رہا اور اپنے تئیں حیض والی عورت کی طرح جانتاتھا“2*
”تو کیا میں بھی حیض کی کیفیت میں ہوں؟“میرے سوال کے جواب میں بزرگ کے چہرے پر اثباتی مسکراہٹ پھیل گئی۔
اب میں ان سے تعارف حاصل کرنا چاہتاہوں۔ انہوں نے ”سبحانی ما اعظم شانی“3* کہاتو میں چونک اٹھتاہوں۔ کہیں یہ بزرگ حضرت بایزید بسطامیؒ تو نہیں؟۔۔ میں ان سے سوال کرتاہوں۔
”عرش کیاہے؟“
فرمایا”میں ہوں۔“
”لوح و قلم کیاہے؟“
فرمایا”میں ہوں۔“
”ابراہیم ،موسیٰ،محمد علیہم السلام اللہ تعالی کے بندے ہیں؟“
فرمایا”میں ہی ہوں“
”اللہ کے بندے جبرئیل ،میکائیل، اسرافیل علیہم السلام کے سے بھی ہیں؟“
فرمایا”میں ہوں“
میں خاموش ہوجاتاہوں۔
تب فرمایا:
”جو شخص حق میں محو ہوجاتاہے اور جو کچھ ہے حق ہے اگر ایسی صورت میں وہ سب کچھ ہو تو کوئی تعجب نہیں۔“4*
۔۔۔۔۔مجھے یقین ہوجاتاہے کہ یہ بزرگ حضرت بایزید بسطامی ہیں۔میں نے ان کے ہاتھوں کو چومااورکہا:”قیامت کے دن ساری خلقت محمّدی جھنڈے تلے جمع ہوگی“
فرمایا:”محمد علیہ الصلوٰة والسلام اس سے زیادہ ہیں۔خلقت میرے جھنڈے تلے کھڑی ہوگی۔“5*
میں فرط عقیدت سے انہیں لپٹ جاتاہوں اور اپنی شفاعت کے لئے ان کی منّت کرتاہوں لیکن تب ہی یکایک وہ بھی غائب ہوگئے اور میں بھی غائب ہوگیا۔ اب پتہ نہیں میری جگہ کون ہے کیوں کہ یہ بہرحال میں نہیں ہوں۔ اب میں جو بھی ہوں ابھی تک یہی جاننے کی کوشش کررہاہوں کہ میں کون ہوں۔
یکایک دیکھتاہوں کہ:
”میں ماسوائے اللہ سے زائد ہوگیا پھر جب میں نے اپنے آپ کو بلایاتو حق تعالیٰ سے آواز آئی میں نے خیال کیاکہ اب میں خلقت سے آگے بڑھ گیاہوں۔ میں لبیک اللہم لبیک کہتے ہوئے محرم ہوگیاپھر تسبیح کرنے لگااور وحدانیت میں جب طواف کرنے لگا تو بیت المعمور نے میری زیارت کی، کعبہ نے میری تسبیح پڑھی، ملائکہ نے میری تعریف کی۔ پھر ایک نور نمودار ہواجس میں حق تعالیٰ کا مقام تھا۔ جب اس مقام میں پہنچا تو میری ملکیت میں کوئی بھی چیز نہ رہی۔“6*
اور پھر میں یہ بھی دیکھتاہوں کہ:
”کبھی تو میں اُس کا ابوالحسن ہوں اور کبھی وہ ابوالحسن ہے۔ یعنی جب میں فنا ہوتا ہوں تو میں وہ ہوتاہوں“۔7*
یکایک ایک مرقع پوش ہواسے اُترتاہے اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئے کہتاہے:
”میں جنیدِؒ وقت ہوں
میں شبلی ٔ وقت ہوں
میں بایزید ِؒوقت ہوں“
میں بھی اٹھ کر رقص کرنے لگتاہوں
”میں خدائے وقت ہوں
مصطفائے وقت ہوں“8*
بہت سے لوگ میرے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ یہ سب نجات کے طالب ہیں۔ میں انہیں کہتاہوں”جاؤ فلاں قبرستان میں دفن ہوجاؤ تمہاری نجات ہوجائے گی۔“
”ایسا کیسے ہوسکتاہے؟“
نجات کے ایک طالب نے پورے خلوص سے اپنے شک کااظہار کیاہے۔
”تمہیں خبر نہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ بعض قبرستان ایسے ہوں گے کہ ان کے چاروں کونے پکڑ کر انہیں بغیر حساب کے بہشت میں ڈال دیں گے۔ ان میں سے ایک بقیع بھی ہے“9*
میراجواب سن کرشک کا اظہار کرنے والا کہتا ہے”یہ کافرہے اسے سنگسار کردو۔“
ایک اورکہتا ہے”یہ بایزید بنتاہے۔“
ایک اور بولتا ہے ”ابوالحسن خراقانی بنتاہے۔“
۔۔۔۔۔تب ان سارے نجات کے طالبوں نے اپنے ہاتھوں میں پتھراٹھائے تاکہ مجھے سنگسار کرکے نجات پالیں۔ میں نے پتھروں کے ڈھیر میں دبے ہوئے دیکھا: ”میں بایزید اور اویس قرنی ایک ہی کفن میں تھے“10*
۔۔۔۔۔پھر میں اپنے اندر سے باہر نکلتاہوں اور اپنے آپ کو پہچانتاہوں او ان مقدّس ہستیوں کے فیوض اپنے آپ میں محسوس کرتاہوں۔
لیکن جب نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں جاتاہوں تو وہی مکروہ تکونے چہرے اورنحوست برساتی آنکھوں والا اسی طرح اسٹین گن لئے کھڑاہے اور اسٹین گن کی طاقت کے نشے میں کہتاہے۔
”میں تمہیں خدا تک نہیں پہنچنے دونگا۔“
میں اس کی احمقانہ بات پر دل ہی دل میں ہنستاہوں۔ خدا تو خود مجھ تک پہنچ گیا ہے۔
لیکن پھر یہ مکروہ تکونے چہرے اور نحوست برساتی آنکھوں والا ابھی تک اسٹین گن کیوں اٹھائے کھڑا ہے؟
یہ سوال میں نے پتہ نہیں کس سے کیا ہے؟
اپنے آپ سے یاخداسے؟
مگر مجھے اپنے سوال کے حتمی اور عملی جواب کا انتظار ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ماخذ۔۔۔
”تذکرة الاولیاء“ تالیف حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ
اُردو ترجمہ مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ۔ ۵۲۹۱ئ
٭٭٭