بکھر گئے ہیں ملن کے تمام دن حیدر
ٹھہر گئی ہے جدائی کی رات آنکھوں میں
۔۔۔۔میں” جادو کے کھیل“ کتاب سے ایک کھیل پڑھ کر اس کا عملی تجربہ کرنے کے لئے اباجی کے صندوق سے مشک کافور کی ٹکیاں نکال کر لاتاہوں۔ تب ہی ہمارے گھر کے قریب والے گھر کی خوبصورت آنکھوں والی بچی آجاتی ہے۔ میں اسے بتاتاہوں کہ میں پانی میں آگ لگاسکتاہوں۔ وہ مجھے بے یقینی سے دیکھتی ہے۔ پھر جب میں مشک کافور کی ٹکیوں کو آگ لگاکر پانی میں آگ کا منظر دکھاتاہوں تو وہ بے حد حیران ہوتی ہے۔ اس کی خوبصورت اور حیران حیران آنکھوں میں عجیب سی چمک پیداہوتی ہے۔ اپنی آنکھیں کھولتاہوں تو دیکھتاہوں کہ وہ پانی میں آگ کے کھیل کی بجائے مجھے بڑی حیرت سے دیکھ رہی ہے۔اس حیرت میں محبت کی مدھم مدھم پرچھائیاں بھی نظر آتی ہیں۔سحر انگیزپرچھائیاں!
٭٭٭
۔۔۔۔میں ابھی تک اس کے بچپن کے اس سحر سے ہی نہیں نکل پایا۔ مجھے معلوم ہے جو نہی میں اس کے بچپن کے سحر سے نکلااس کی جوانی کا طلسم مجھے پتھر بنادے گا اور تب جادو کی کوئی کتاب کوئی علم اور کوئی اسم مجھے پتھر سے انسان نہ بناسکے گا۔
وہ مختلف موضوعات پر بے تکان بولے جارہی ہے۔ اور میں اس سے آنکھیں چار کرنے کی بجائے اپنی لائبریری کی بڑی ٹیبل پر نظریں گاڑے اس کی باتیں سن رہاہوں۔ اور صرف ”ہوں ہاں“ کرکے اپنا اخلاقی فرض پوراکررہاہوں۔
۔۔۔۔۔گرمیاں آگئی ہیں۔شاید اسی وجہ سے چھت پر لگے ہوئے تیز بلب کی روشنی میں روشنی کے ڈھیر سارے کیڑے میری ٹیبل پر گر رہے ہیں۔اتنے چھوٹے کیڑے کے ہلکی سی پھونک سے اُڑجائیں، میں ایک کیڑے کو پنسل کے ہلکے سے دباؤ کے ساتھ مسل دیتاہوں۔ ظاہر ہے کیڑا مرچکاہے، مگر میری حیرت کی انتہا نہیں رہتی جب میں مَرے ہوئے کیڑے کو بھی متحرک دیکھتاہوں۔۔ میں نگاہیں جھکائے ہوئے اسے متوجہ کرتاہوں اور بتاتاہوں کہ یہ کیڑا مرنے کے باوجود حرکت کررہاہے۔ وہ تھوڑا غور سے کیڑے کو دیکھتی ہے اور پھر ایک کھنکتاہوا قہقہہ گونجتاہے۔
۔۔۔میں اس کی طرف دیکھنے کے لئے سراٹھاتاہوں مگر پھر گھبراکر آنکھیں نیچی کرلیتاہوں۔ میں اس کے بچپن کے خوبصورت سحر میں ہی گھرارہنا چاہتاہوں۔ اس کی جوانی کا طلسم مجھے پتھر بنادے گا۔ اور پھر جادو کی کوئی کتاب، کوئی علم اور کوئی اسم مجھے پتھر سے انسان نہ بناسکے گا۔
اس کے کھنکتے قہقہے کی گونج ابھی تک کمرے میں موجود ہے اور پھر اس گونج میں سے اس کی آواز سرسراتی ہے۔ وہ کہتی ہے،
”چھت پر لگے ہوئے پنکھے کی ہوا سے کیڑا متحرک نظرآرہاہے۔ وگرنہ کیڑاتو بے چارہ مرچکاہے۔“ میں اطمینان کا سانس لیتاہوں اور پھر اس مردہ کیڑے کو دیکھتاہوں جو پنکھے کی ہوا سے متحرک نظرآتاہے۔
وہ پھر کہتی ہے،
”لیکن جن کیڑوں کو تم نے نہیں مسلاوہ بھی مردہ ہی ہیں۔ یہ سارے کیڑے مردہ ہیں۔صرف پنکھے کی ہوا سے زندہ معلوم پڑتے ہیں۔ یہ بھی جادو کے کھیل ہیں، قسمت کے کھیل ہیںہم جو زندہ ہیں کیا واقعی ہم زندہ ہیں؟“
وہ میرے بے حد قریب آجاتی ہے اور میں گھبراکر آنکھیں نیچی کرلیتاہوں۔وہ کہے جارہی ہے:
”کیاواقعی ہم زندہ ہیں؟۔۔نہیں۔۔ہم بھی قسمت کے جادوئی پنکھے کی ہوا کی زد میں آئے ہوئے مردہ کیڑے ہیں۔ جو صرف ہوا کے دباؤ سے متحرک ہوکر زندہ معلوم پڑتے ہیں۔“
وہ میرے بالکل قریب آکر میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیتی ہے، میں خوفزدہ ہوکر اپنی آنکھیں موند لیتاہوں۔
وہ کہتی ہے۔
”میری طرف دیکھو!میں بھی ایک مردہ کیڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور تم بھیمگر یہ تم نے آنکھیں کیوں موند رکھی ہیں؟“
”تم صحیح کہہ رہی ہو۔ہم سب قسمت کے جادوئی پنکھے کی ہوا کی زد میں آئے ہوئے مردہ کیڑے ہیں“(۔۔۔پھر جادو کی کوئی کتاب، کوئی علم اور کوئی اسم مجھے پتھر سے انسان نہ بناسکے گا)
اور میں پتھر اجانے کے خوف سے بند آنکھو ںپر ہاتھ بھی رکھ لیتاہوں۔
وہ بڑی ملائمت سے میری آنکھوں پرسے میرے ہاتھ ہٹاتی ہے اور تب ہی میری اس سے آنکھیں چار ہوتی ہیں۔
اس کی غزالی آنکھوں سے روشنیاں طلوع ہوتی ہیں۔
میں پتھر نہیں ہوتابلکہ میں تومسلسل پگھلتاجاتاہوں۔ خوشبوئیں مجھے گھیر لیتی ہیں۔ ایک عجیب سی لذت کا احساس جاگتاہے۔ میں بے سبب اس سے خائف رہا۔ میں بھرپور نظروں سے اسے دیکھتاہوں اور روشنیاں اور خوشبوئیں اس کی آنکھوں اور اس کے جسم سے میری روح میں اتر کر رقص کرنے لگتی ہیں۔
میں اس نئے تجربے کی لذت میں گم ہوں۔
مجھے زندگی کا یقین ہونے لگتاہے۔
وہ بھی خوش ہے مگر اس کی خوبصورت آنکھوں سے ایک انجانی اداسی جھلک رہی ہے۔
”ہم مردہ کیڑے نہیں ہیں۔ ہم زندگی کے گواہ ہیں۔ کم از کم تم اور میں“
میری بات سن کر وہ کچھ اور اُداس ہوجاتی ہے۔
٭٭٭
شہنائیوں کی دُھن سے میرا وجود سن ہوتاجارہاہے۔
چہرے کے علاوہ مرا باقی جسم پتھر ہوگیاہے۔
میری دائیں طرف وہ لمحہ کھڑاہے جس میں میں نے اپنے اور اس کے بچپن میں پانی میں آگ کا کھیل کھیلا تھا۔ وہ ابھی تک پانی میں آگ کو دیکھنے کے بعد مجھے حیرت سے دیکھ رہی ہے۔
میری دائیں طرف وہ لمحہ کھڑا ہے جب روشنیاں اور خوشبوئیں اس کی آنکھوں اور جسم سے اُترکرمیری روح میں رقص کرنے لگی تھیں۔
اس کی ڈولی روانہ ہونے والی ہے اور میںاپنے کہے لفظوں کی تردید کرتاہوں:
”اس نے سچ کہاتھا۔ ہم سب مردہ کیڑے ہیںجو قسمت کے جادوئی پنکھے کی ہوا کی زد میں متحرک ہونے کے سبب زندہ معلوم پڑتے ہیں۔“
اب مجھے اس کی انجانی اداسی کا راز بھی معلوم ہوتاہے۔
میرا چہرہ بھی پتھر ہونے لگتاہے۔
لیکن اس سے پہلے کہ میرا سارا چہرہ پتھر ہوجائے اس کے جسم سے میری روح میں اترنے والی خوشبوئیں میری سانسوںمیں جم کر مشک کافور کی کئی ٹکیاں سی بن جاتی ہیں۔ اس کی غزالی آنکھوں سے طلوع ہونے والی روشنیوں سے ان میں آگ لگتی ہے اور پھر میری آنکھوں کے پانی میں آگ تیرنے لگتی ہے۔ اور میں اس پانی میں ڈوب کر اور اس آگ میں جل کر خود کو مکمل پتھر ہونے سے بچانے کی آخری کوشش کرنے لگتاہوں۔
تاکہ زندگی کاکچھ تو بھرم رہ جائے!
٭٭٭