جو میری روح میں بس زہر گھولتا ہی رہے
مرے نصیب میں چینی کا کارخانہ تھا
۔۔۔۔یہ کہانی اس عجیب و غریب لمحے سے شروع ہوتی ہے جب تقدیر کے بارے میں میرے شکوک یقین کی حد تک پختہ ہوچلے تھے۔ اسی لمحے میں تقدیر کو ایک ڈھونگ سمجھ کر اسے سرمایہ داروں کا استحصالی ہتھکنڈہ قرار دینے ہی والا تھاکہ کسی نامعلوم قوت نے اس لمحے کو منجمد کردیااور میں شک اور ایمان کے درمیان معلق ہوکر رہ گیا۔
٭٭٭
۔۔۔۔ملک میں حکومت کی تبدیلی سے پالیسیوں میں بھی بنیادی تبدیلیاں آرہی تھیں۔ پہلے مزدوروں کو جتنی بے جا چھوٹ دی گئی تھی اب اس سے بھی زیادہ بے جاگرفت ہورہی تھی۔ اس حد تک کہ میں جو مزدوروں کی بے جا چھوٹ کے عہد میں اپنی مزدور یونین کا معتوب مزدور تھا، مجھے اس یونین کا سرگرم رکن بن جانا پڑا۔ اس لئے کہ مسئلہ میری ذات کانہ تھامزدور کے اجتماعی مفاد کاتھا۔ انہیں دنوں ایک اور صنعتی ادارے میں ایک معمولی سے بہانے کی آڑ میں سینکڑوں مزدوروں کے سینے گولیوں سے چھلنی کردیئے گئے۔ یہ حکومت کی طرف سے ملک کے تمام مزدوروں کو بھرپور عملی دھمکی تھی۔ مزدور اس دھمکی سے مرعوب ہونے کی بجائے مزید اشتعال میں آگئے۔ تاہم سرمایہ داروں اور ان کے ایجنٹوں کے حوصلے بھی بلند ہوگئے ۔اس صورت حال میں جب میری اپنے چیف کے ساتھ ٹھن گئی تو غیر متوقع طورپرانہیں کئی دفعہ میرے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوناپڑا۔ میری ان غیر متوقع کامیابیوں نے میرے اس شک کو مزید تقویت پہنچائی کہ تقدیر کاشوشہ سرمایہ داروں اور استحصالی قوتوں کی اختراع ہے۔
۔۔۔۔۔میں شک اور ایمان کے درمیان اس منجمدلمحے میں معلق تھاجب روشنی کی ایک کرن مجھ پر اُتاری گئی۔ اس کرن نے مجھے مقدر کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔ لیکن جب اس نے یہاں تک کہا کہ دانے دانے اور قطرے قطرے پر نام لکھ دیاجاتاہے تو مجھے اپنے شدید اختلاف کا اظہار کرناپڑا۔ تب اس کرن نے مجھے پانی کے ایک قطرے کی بابت علم دیاکہ اس پر میرا نام لکھاگیاہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اس قطرے کی پہچان اور اس کے ذائقے سے آگاہی کی خاص قوت بھی گئی۔ روشنی کی اس کرن نے واپس جاتے ہوئے کہا:
”تمہیں اس امرکی کھلی چھٹی ہوگی کہ تم اس قطرے پر لکھی تحریر کومٹاسکو“
٭٭٭
۔۔۔۔ملزکا صنعتی امن سخت خطرے میں ہے۔ ملز انتظامیہ جھلاہٹ کاشکار ہے۔ ادھر ہماری پے درپے کامیابیوں نے ہمارے حوصلے بھی بلند کررکھے ہیں نتیجتاً کسی مفاہمت کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اپنے چیف کو میں نے زچ کرکے رکھ دیاہے۔ ذاتی طورپر مجھے کئی خوشنمالالچ بھی دیئے گئے مگر میں لیڈری کی دھن میں مست چلاجارہاہوں۔ لیکن ایک اچانک اور غیر متوقع حادثے نے مجھے منتشر کرکے رکھ دیا۔ ملز انتظامیہ کا پورا بورڈ بیٹھا ہوا تھا جب مجھے بلایاگیا۔ وہاں ملز کے جنرل منیجر نے صنعتی گڑبڑ کی تمام تر ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہوئے مجھے انتہائی غلیظ اور لچرگالیاں دیں۔ میں اپنی ڈیوٹی کی جگہ پر نہیں تھا اس لئے بہت کچھ کرسکنے کے باوجود بھی کچھ نہ کرسکا۔صبروتحمل سے گالیاں کھاکرلوٹ آیا۔
ملز میں پے درپے کامیابیوں کے بعد یہ میری پہلی اور بھرپورناکامی تھی۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔ملز کے بیکنگ ہاؤس کے انچارج نے جو خود بھی یونین کا سرگرم رُکن تھا۔ میرے ساتھ دلی ہمدردی کااظہارکیا۔چائے منگوائی اور ہم آئیندہ لائحہ عمل کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔چائے کا کپ ہاتھ میں لیتے ہی میری ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ قطرہ جس پر میرا نام لکھاتھا اس چائے میں موجود تھا۔ میں نے کچھ دیر اسے غور سے دیکھا۔ سوچا۔اور پھر چینی کی ایک بوری پر پورے کپ کو اس طرح انڈیل دیاکہ وہ قطرہ بھی اس میں جذب ہوجائے۔
میرا مزدور ساتھی مجھے ہوّنقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔
یہ تقدیر کے مقابلہ میں میری پہلی کامیابی تھی۔
٭٭٭
۔۔۔۔ملز میںپے درپے کئی اہم واقعات ہوگئے ہیں۔ ملز انتظامیہ کی اشتعال انگیزیوں کے نتیجہ میں مزدوروں نے ایک دن چار پانچ افسروںکی زوردار پٹائی کردی۔ مگر افسوس جنرل منیجر اس ہنگامے سے بچ نکلے۔
۔۔۔۔پولیس آئی۔ گرفتاریاں ہوئیں۔ آخر پندرہ مزدوروں کے استعفوں پر مفاہمت ہوگئی۔ تمام جھوٹے سچے مقدمات بھی واپس لے لئے گئے۔ جس دن پندرہ مزدوروں کے استعفوں کا معاہدہ ہوامیرے چیف نے خاص طورپر فون کرکے میری خیریت دریافت کی۔ مجھے اس بھرپور شکست کا احساس تھا۔ مگر جب مزدوروں کے ہاتھوں افسروںکی زوردار بلکہ چٹخارے دار پٹائی کا خیال آتاتو اس شکست کا احساس زائل ہونے لگتا۔ یوں بھی پٹائی کرنے والے مزدوروں نے توکوڑے کھانے اور قیدیں بھگتنے کی توقعات کے ساتھ یہ کارنامہ سرانجام دیاتھا۔ گویا محض استعفے دے کر وہ سستے چھوٹ گئے۔ پھر بھی سبکی کاایک احساس ضرور موجودرہا۔ میں اور تو سب کچھ بھول سکتاتھا مگر جنرل منیجرکے گھٹیاسلوک کو فراموش کرنا میرے لئے بے حد مشکل تھا۔ اپنی توہین کا انتقام لینے کے لئے میں کسی مقدر سے بھی ٹکراجانے کے لئے تیار تھا۔
٭٭٭
۔۔۔۔ایک چھٹی کے موقعہ پر ہمارے پورے سٹاف نے ایک بھرپور پکنک منانے کا پروگرام بنایا۔ خاصی دلچسپ پارٹی تھی۔ مگر کوکاکولا کی ایک بوتل کھولتے ہی مجھے احساس ہوا کہ پانی کا وہ قطرہ اس بوتل میں موجود ہے۔ میں نے طنزیہ انداز میںاس قطرے کو دیکھا اور پوری بوتل نہر میں انڈیل دی۔ میری چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
یہ مقدر کے مقابلہ میں میری دوسری کامیابی تھی۔
٭٭٭
۔۔۔۔میرے چیف کی سرگرمیاں میرے خلاف بڑھتی جارہی تھیں۔ لگتاتھا وہ میرے سارے قرض یکمشت چکادینا چاہتے ہیں مگر پھر ایک دن انہوں نے زندگی کے سارے قرض بھی چکادیئے۔ اچانک اطلاع ملی کہ وہ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے ہیں۔ ملز انتظامیہ کاپورا بورڈ کنارے پر موجود تھامگر کوئی بھی اپنے ڈوبتے ساتھی کی مدد نہ کرسکا۔
۔۔۔۔اس سانحہ کے کچھ عرصہ بعد چینی کی بلیک مارکیٹنگ کی تحقیق کے دوران کوکاکولا کی انتظامیہ نے حکام کو بتایاکہ انہوں نے چینی ہماری شوگر ملز سے خریدکی تھی۔ چنانچہ ملز پر چھاپہ پڑااور تحقیقات کاسلسلہ وسیع ہوتاگیا۔
٭٭٭
۔۔۔۔ایک عزیز کی شادی کے سلسلہ میں چند دنو ںکے لئے کراچی جانا پڑا تو وہاں ایک دن سمندرکی سیرکاپروگرام بھی بن گیا۔ میں سمندرکی بل کھاتی اور لہراتی ہوئی لہروں کو آتے جاتے دیکھتارہا۔ پھر خود بھی سمندرمیں اترآیا لہروں کا مجھے چھوکردور تک چلے جانااور پھر شریر انداز میں واپس ہونا مجھے بڑا خوبصورت لگ رہاتھا۔ میں جیسے کھوساگیا۔ ایسے میں ایک لہراتی ہوئی لہر کو آتے دیکھ کر میں نے اپنے ہونٹوں کو دائرے کی شکل میں واکیااور اس لہر کاپانی اپنے منہ میں بھرنے کے لئے انتظاریہ حالت میں کھڑاہوگیا۔ اچانک مجھے ایک جھٹکاسالگا۔ میں جیسے نیند سے بیدارہوگیا۔ اپنے ہونٹوں کے دائرے کی عین سیدھ میں آتی ہوئی لہر میں مجھے وہ قطرہ صاف نظرآرہاتھا۔ میں نے اپنے ہونٹ سختی سے بند کرلئے اور جونہی وہ قطرہ میرے قریب پہنچامیں نے ایک زوردار ہاتھ مارکراسے پرے پھینک دیا۔ یہ مقدر کے مقابلہ میں میری تیسری شاندار کامیابی تھی۔
٭٭٭
۔۔۔۔ملز انتظامیہ کی زیادتیوں کا یہ عالم تھاکہ وہ میری تعلیم اور صلاحیتوں کو جانتے ہوئے بھی نہ صرف مسلسل نظرانداز کررہی تھی بلکہ اس کارویہ میرے خلاف خاصا جارحانہ تھا۔ جائزحقوق کی پامالی نے میرے اندر کے باغی کی حوصلہ افزائی کی۔ میں اب مقدر کو بڑی حد تک ڈھونگ سمجھنے لگاتھا۔ لیکن ملز پر پڑنے والے چھاپے کے نتیجہ میں جب جنرل منیجر کے بجائے وہ افسر گرفت میں آیاجس نے ایک دفعہ ایک غریب مزدور کوناجائز طورپر گرفتا رکرواکے نہ صرف پولیس سے پٹوایاتھا بلکہ پھر اسے ملازمت سے بھی نکلوادیاتھا۔۔۔تو مجھے قدرت کے نظام پراز سرِنوغور کرنا پڑا۔
٭٭٭
۔۔۔پانی کا گلاس ہاتھ میں لیتے ہوئے میری آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ قطرہ اس گلاس میں موجود تھا۔ میں نے اس گلاس کو میز پر رکھ دیا۔ ایک دوسرے گلاس میں پانی منگوایا۔ پھر دوسرے گلاس کو پہلے گلاس سے یوں ٹکرایاجیسے جام سے جام ٹکرائے جاتے ہیں۔ دوسرے گلاس کا پانی پی کر اس پہلے گلاس کو پھر اٹھایا۔ اس قطرے کو ایک فاتحانہ اندازسے دیکھا اور پھر ”تقدیر کے نام جام صحت“ کہہ کر اس گلاس کو فضا میں اچھال دیا۔ پانی زمین پر گر کر پھیلنے اور پھر اس میں جذب ہونے لگا۔
تقدیر کے مقابلہ میں یہ میری چوتھی کامیابی تھی۔ مجھے اپنے پاؤں زمین پرٹکتے نہیں معلوم ہوتے تھے۔ محسوس کررہاتھا کہ میں اب ہر استحصالی قوت سے ٹکراسکتاہوں۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔ملز میں چینی کی بلیک کے اسکینڈل کی تحقیقات کاکوئی واضح رخ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔تاہم افواہیں گرم ہیں کہ ملز کے منیجنگ ڈائریکٹر، جنرل منیجر اور کچھ افسروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے گئے ہیں۔ جبکہ یہ تمام افسران غائب ہیں۔
میری دلی خواہش ہے کہ اس معاملہ میں کم از کم جنرل منیجر کاانجام ضرور ذلت آمیز ہو۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔میں شہر سے ایک قریبی گاؤں میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیاتو وہیں گہرے گہرے بادلوں نے آلیا۔ اصولاً مجھے واپسی کی فکر کرنی چاہیے تھی لیکن موسم اتنا خوشگوار اور شاعرانہ تھاکہ میں اس سے بچوں کی طرح لطف اندوز ہونے لگا۔
۔۔۔۔ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوئی تو میں نے بارش کے ٹھنڈے اور میٹھے قطرے اپنے منہ میں ڈالنے کے لئے ہونٹ کھولے اور منہ اوپرکیا۔ میری آنکھیں بارش کے باعث جھپک رہی تھیں۔ اچانک میں نے دیکھاوہی قطرہ سیدھا میرے منہ کی طرف آرہاتھا۔ میں نے ہونٹ بند کرلئے اور پھر اس قطرے کو زمین پر گرتادیکھنے لگا۔ مجھے اس قطرے کی بے بسی پر رحم آنے لگا۔
میں نے تقدیر کو خشکی کے راستے سے بھی شکست دی۔ پانی کے راستے سے بھی شکست دی۔ اور اب آسمان کے راستے سے بھی میں نے اسے شکست دے دی تھی۔
میں اپنی عظمت کو خود ہی حیرت سے دیکھنے لگا!
٭٭٭
۔۔۔۔اتنے دن غائب رہنے کے بعد آج جنرل منیجرملز میں دیکھے گئے۔ معلوم ہوتاہے ضمانت کراکے آئے ہیں۔ لیکن سہ پہر تک اطلاع ملتی ہے کہ پولیس نے جنرل منیجر کی کوٹھی کو گھیرے میں لے کر، اس کی پچھلی کھڑکی کے شیشے توڑکر، اس راستے سے اندر داخل ہوکر موصوف کو گرفتارکرلیاہے۔
مجھے عجیب سی مسرت کا احساس ہوتاہے۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔مسرت کی اس عجیب سی کیفیت کے ساتھ میں کین کیریئر کی طرف آتاہوں۔ یہاں گنے سے لدے ہوئے کتنے ہی ٹرک، ٹرالیاں اور بیل گاڑیاں موجود ہیں۔ میں ایک ٹرالی سے ایک اچھا سا گنانکال کر، اسے صاف کرکے دانتوں سے چھیلتاہوں۔مگر پہلی گنڈیری چوستے ہی مجھے احساس ہوتاہے کہ وہ قطرہ میرے منہ میں پہنچ چکاہے۔ اس کے ذائقے سے آگاہی کی جو خاص قوت مجھے دی گئی تھی وہ اس کی تصدیق کررہی تھی۔
وہ قطرہ پوری طرح میرے منہ میں گھل گیاتھا۔ میں نے تھوک کر اس قطرے کو پھینک دیناچاہا۔ لیکن پھر دانستہ طورپراس قطرے کو حلق سے نیچے اتارلیا۔
اس قطرہ کے میرے اندرجاتے ہی میرے اندر روشنی سی بھرگئی۔ میری انا سے تکبر کی ساری گرد اُترگئی اور پھر میری انااس روشنی میں ڈوب گئی۔ اس روشنی میں ،میں نے آنے والے تمام دنوں کو دیکھ لیا۔ اور میرے چہرے پر اطمینان کا نور پھیل گیا۔
تب ہی وہ منجمد لمحہ پگھل گیاجس نے اس کہانی کی ابتداکی تھی۔
٭٭٭