پروفیسر جیلانی کامران
۱)
نئے اردو افسانے نے جہاں انسان کو معاشرے کے حوالے سے بیان کرنے کی روایت قائم کی ہے وہیں معاشرہ کو جن اصولوں کے تحت زیر بحث لایا ہے ان اصولوں نے معاشرے کی آب وہوا کو ویران کر دیا ہے اور انسان کو اس کے ذہنی اور فکری پس منظر سے محروم بھی کیا ہے۔ غالباً اسی لیے نئے افسانے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ افسانہ بے آسرا انسان اور بے آباد زمین کی روداد بیان کرتا ہے ۔ اسی ضمن میں ایک بات یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ نیا افسانہ محض رودادِ ذات ہے اور اس کے رگ و ریشے سے کہانی پیدا نہیں ہوتی۔ ضمیر متکلم کی روداد نمایاں ہوتی ہے۔ اور ضمیر متکلم اپنے طور پر شکست و ریخت سے دو چار ہے۔ اس لیے اس مرکزی استعارے ضمیر متکلم کی مدد سے افسانے کا انسانی تاثر واضح نہیں ہوتا۔ بلکہ نفسیاتی اعتبار سے ایک مرضیاتی زائچہ تیار ہوتا ہے۔ ایسے رویوں کی موجودگی میں حیدرقریشی کے افسانوں کا مجموعہ "روشنی کی بشارت" ایک نئے تخلیقی قدم اور نئے فکری اعتماد کی خبر دیتا ہے۔
حیدرقریشی نے اپنے افسانوں کی دنیا اسی ماحول سے اخذ کی ہے۔ جس ماحول سے نیا افسانہ بخوبی آشنا ہے۔ لیکن حیدرقریشی نے اس ماحول کو ایک فکری مسئلے کے طور پر قبول کیا ہے ۔ اور اس مسئلے سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ان افسانوں کے اندر موجود انسان کو اعتماد کے رویے فراہم کیے ہیں۔ ان افسانوں کی دنیا ایسی ہے جس کی اندھیری جہتوں سے باہر نکلنا دشوار ہے۔ اس لیے ان کہانیوں کے افراد اندھیرے شب و روز میں اپنے ہونے اور نہ ہونے کے آشوب سے دو چار ہیں۔ ان کی نظر میں سچائیاں اضافی ہو چکی ہیں۔ اور وہ سچائیوں کی راہنمائی کے بغیر اپنے لیے کوئی بہتر ساعت بھی دریافت نہیں کر سکتے۔ ایسے غیر فطری منظر میں کبھی وہ شک اور یقین کے دوراہے سے گزرتے ہیں اور کبھی ان کا اپنا وجود ٹوٹ کر من اور غیر ازمن میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ کبھی وہ دھند کے بخشے ہوئے راستوں میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ماضی کو اپنی خطاﺅں کا مجرم گردانتے ہیں۔تاہم ان افسانوں کے لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو الزام دینے سے کتراتے ہیں۔ اور اس طرح اپنی زندگی کو بے معنی صورت مہیا کرنے پر برابر تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اور جس دنیا سے ان کا سابقہ ہوا ہے اس کی اپنی رفتار صرف ہلاکت ہی کی منزل کو قریب لاتی ہے۔ اس اعتبار سے ان افسانوں کے بطن میں ہلاکت کا غیر محسوس سفر جاری نظر آتا ہے اور سارے کے سارے افراد اس سفر کو قبول کر کے برابر بے حس ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس صورتحال کو رنگوں کا استعارہ بخوبی بیان کرتا ہے جہاں سبز رنگ پیلے رنگ میں بدل جاتا ہے اور سرخ خون سفید ہونے لگتا ہے! ان افسانوں کی دنیا میں شدید دباﺅ، نفسیاتی بحران اور فرد اور گروہ کے مابین غیریت کا پھیلتا ہوا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ انسان اپنے بحران کے چنگل میں پریشان ‘ یک و تنہا اپنی ویرانیوں کو وسیع سے وسیع تر کرتا چلاجاتا ہے!
حیدرقریشی نے اس انسانی معروض کو ایک سوال کی صورت میں بیان کیا ہے اور قاری کے ذہن میں باربار یہ ضمنی سوال ابھرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ اور ایسا کس لیے ہے؟
۲)
حیدرقریشی نے اپنے افسانوں کے لیے جس نوع کے عنوان چنے ہیں وہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں کیونکہ ان کی مدد سے اس افسانوی دنیا کی آب وہوا مرتب ہوتی ہے جس میں قاری کو سفر کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس افسانوی دنیامیں صحرا، آسمان کے بدلتے ہوئے رنگ ، رات اور ایک ایسا طرز احساس مرکزی ہیں جن سے ایک انجانا خوف پھوٹتا ہے۔ اس خوف کی توجیہہ کے لیے کبھی جرنلزم کی سرخیوں کو شریک کیا گیا ہے، کبھی ایٹمی جنگ کے ہلاکت خیز امکان کو منظر میں سمویا گیا ہے اور کبھی عصر حاضر کے ان عالمی تعلقات کو انسانی صورتحال میں شامل کیا گیا ہے جہاں درآمدی گندم اور تیل کی پیداوار سرفہرست دکھائی دیتی ہیں ۔ اس اعتبار سے حیدرقریشی کے افسانوں کی دنیا عصر حاضر کے حالات ، واقعات اور امکانات سے رونما ہوتی ہے۔ اور رونما ہوتے ہی انسانوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس مقام تک حیدرقریشی اجتماعی کیفیت کو ہمراہ لے کر چلتے ہیں ۔ لیکن بہت جلد یہ اجتماعی کیفیت اپنے بطن سے انفرادی کیفیت اخذ کرتی ہے۔ اس تخلیقی عمل کے ساتھ ضمیر متکلم آشکار ہوتی ہے اور یہ صور ت حیدرقریشی کے افسانوں کو اور ان افسانوں کے مرکزی انسان کو انفرادیت فراہم کرتی ہے۔
نئے افسانے کے آداب اور مزاج کی روشنی میں یہ کہنا غالباً غلط نہ ہو گا کہ نیا افسانہ اپنے منظر کی بجائے اپنے انسان کے گرد گردش کرتا ہے اور اس کا انسان ہی اس کا محور ہے۔ لیکن نئے افسانے کے لکھنے والے عموماً حالات اور فرد کا رشتہ تخلیق کرتے ہوئے فرد کے مقابلے میں حالات کو بے حد طاقت ور بتاتے ہیں اور اس تناسب سے فرد کی انا کو برابر کمزور ہوتے دکھاتے ہیں۔ ایسا فرد افسانے کی دنیا میں حالات کے جبر سے شکست کھاتا ہے اور حالات کے پیدا کئے ہوئے ماحول میں اپنے ٹوٹے ہوئے وجود ہی کی نشاندہی کرتا ہے۔حیدرقریشی کے افسانوں میں ایسے حالات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے ان افسانوں کا انسان وجود کی شکست و ریخت سے دو چار نہیں ہوتا ۔ اس کی انا برابر قائم رہتی ہے اور وہ ہر لمحے حالات کو غلبہ پانے سے روکنے کی سعی کرتا ہے۔ ایسا انداز نظر اس لحاظ سے بھی قابل توجہ ہے کہ افسانہ جس دنیا کی نشاندہی کرتا ہے اس میں فرد کا طرز عمل تہذیبی رویوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ فرد کے ٹوٹنے سے تہذیبی شعور میں درزیں رونما ہوتی ہیں۔ حیدرقریشی کا افسانہ اس تہذیبی دوراہے کا ازالہ کرتا ہے۔
۳)
افسانے کی اس دنیا میں جسے حیدرقریشی نے دریافت کیا ہے۔ روشنی کی کرن ایک ایسا استعارہ ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ روشنی کی کرن رات کے پچھلے پہر ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی اس کے ساتھ انسانی شعور کے وہ رشتے آشکار ہوتے ہیں جن کی ترتیب آسمانی نشانات نے کی ہے۔ اور کبھی یہ کرن امید بن کر گلاب کے پودے کی صورت اختیار کرتی ہے اور کبھی محبت بن کر دل میں ظہور کرتی ہے۔ یہ کرن کشف اور رویا بن کر دل کا خوف دور کرتی ہے اور سفید پرندوں کو اپنے پاس بلاتے ہوئے انسانوں کو وحدت کی دعوت دیتی ہے۔ حیدرقریشی نے اس استعارے کو جابر ماحول سے رہائی پانے کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ تاہم یہ استعارہ جہاں ماحول اور فطرت اور آرزوئے قلب میں ظاہر ہوتا ہے وہیں اس استعارے کی توانائی اس حقیقت میں بھی مضمر ہے کہ اس استعارے کو الہامی اور آسمانی نشانات نے آل آدم کی تربیت میں نسل در نسل راسخ کیا ہے۔ اس لیے روشنی کی کرن نہ تو گم ہوتی اور نہ دجل و بطلان کے دبیز پردے اسے آنکھوں سے اوجھل رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ انسان کے آخری سہارے کے طور پر یہ استعارہ انسان کی زندگی کی ضمانت دیتا ہے حیدرقریشی نے اس استعارے کو اپنے افسانوں میں مجسم کیا ہے اور اس کی مدد سے اپنے مرکزی کرداروں اور ضمیر متکلم کی تشکیل کی ہے۔ اگر اس زاویے سے دیکھا جائے تو حیدرقریشی کے افسانے انسان کی امکانی صورتحال کو پیش کرتے ہیں اور یوں روشنی کی کرن کو انسانی فلاح کا مرجع قرار دیتے ہیں۔” حوا کی تلاش “ جو ان افسانوں میں اہم رمزیت کی حامل ہے ایسی ہی صورتحال سے عہدہ برآ ءہوتی ہے۔ اور روشنی کی کرن جدید عہد کی ٹیکنالوجی کے ہمراہ ایک نئے زمانے کی بنیاد رکھتی ہے۔ اسی مجموعے کی ایک دوسری کہانی (گلاب شہزادے کی کہانی) میں گلاب کا پھول انسان کی ابدی حکمرانی کا سمبل ہے لیکن اس سمبل کو انسان کی ہوس اور نظام زیست کے جبر نے پامال کر رکھا ہے۔ ان دونوں کہانیوں سے ایسے اشارے بخوبی حاصل کیے جا سکتے ہیں جو انسان کو ایک نئی زندگی سے ہمکنار کر سکتے ہیں ۔ تاہم جو باتیں عمومی طور پر کہی گئی ہیں ان سے ایک نئے طریق کار کا احساس ہوتا ہے اور ایک ایسے اثباتی تہذیبی رویے سے آشنائی ہوتی ہے جو عصر حاضر کے افسانے میں بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ حیدرقریشی نے ان افسانوں کے ذریعے کہانی کے کینوس کو وسیع کرتے ہوئے نئے امکانات کی طرف اشارا کیا ہے اور اس سچائی کو نمایاں کیا ہے کہ Limit Situationکے دوران انسان صرف کرب ہی کی نمائندگی نہیں کرتا اور نہ اس کا وجود ہی پاش پاش ہوتا ہے بلکہ اس کے نطق سے اس کی اپنی تاریخ گفتگو کرتی ہے۔ ہمارا افسانہ تاریخ کے اس مکالمے سے شاید اب تک غافل تھا۔ حیدرقریشی نے اپنے افسانوں کی راہ سے تاریخ کے اس مکالمے کو سننے کی سعی کی ہے۔
میں نے حیدرقریشی کے افسانوں کے مرکزی رجحان کو واضح کرتے ہوئے ان کہانیوں کا ذکر نہیں کیا جن میں دانستہ روشنی کو روپوش کیا گیا ہے۔ ایسی کہانیاں جو اس مجموعے میں دو تین سے زیادہ نہیں ہیں دراصل حیدرقریشی کے افسانوں کی دنیا کا پس منظر ترتیب دیتی ہیں۔ اور اس پس منظر کی تلخ صورت ہی سے وہ کیفیت رونما ہوتی ہے جو حیدرقریشی کے افسانوں کو ان کا مزاج فراہم کرتی ہے۔ حیدرقریشی کے افسانے ایک نئے طریقے سے قاری تک پہنچتے ہیں اور ان کی گفتگو کا لہجہ بھی مختلف ہے۔ اس اعتبار سے ان افسانوں میں ایک ایسا رویہ بھی شامل ہے جو کہانی سنتے ہوئے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کہ کہانی محض کسی واقعے ہی کی بات نہیں کرتے بلکہ اس سچائی کا ذکر بھی کرتی ہے جو واقعیت کے رگ وریشے میں جاگتی ہے اور سب سے کہتی ہے کہ مجھے پہچانو۔ میں کون ہوں؟
سچائی نے ہمارے زمانے میں افسانے کا لباس پہن رکھا ہے!
٭٭٭