رات کے گیارہ بج رہے تھے نشاء کچن میں چائے بنانے آئی تو دیکھا جبران اپنے لیے کافی بنا رہا تھا اس کے دل کو کچھ ہوا یہ اس کا شہزادہ بھائی تھا روز سارہ یا ارسہ اسے کافی بنا کے دیتے تھے اور اب وہ جب سے آیا تھا خود ہی کافی بناتا تھا جبران نے اسے دیکھا
" کیا ہوا نشو سوئی نہیں گڑیا" اس کے اس طرح بولنے سے اس کا دل پگھلا کتنے دن ہوگئے تھے اس نے اپنے بھائی کے منہ سے یہ لفظ نہ سنا تھا تھا تو یہ عام سا جملہ پر اس کی تاثیر بہت گہری تھی
" لائیں میں بنادوں" جبران نے سر ہلایا اور اس کو جگہ دی
" ہاں آج تم بنا دو بہت وقت ہوگیا تمہارے ہاتھ کی کافی نہیں پی۔۔۔۔۔" وہ کافی بنانے لگی
" پتا ہے میں تمہاری کافی کو بہت مس کرتا تھا" وہ بولا تو نشاء نے اس کی طرف دیکھا
" کیوں آپ کی وائف آپ کو کافی نہیں دیتی تھیں"
" کون سی وائف۔۔۔۔۔ وائف کو تو یہاں چھوڑ گیا تھا میں"
" میں مرال کی نہیں آپ کی وائف کی بات کررہی ہوں"
" وہ محض میری ایک غلطی تھی نشو۔۔۔۔۔ جس کا مجھے اچھا سبق بھی مل گیا" نشاء خاموش ہوگئی
" ناراض ہو گڑیا" وہ خاموش رہی
" معاف نہیں کروگی" وہ بولا
" کان پکڑوں" وہ پھر بھی نہ بولی
" ہاتھ جوڑوں تو معاف کردوگی" جبران کے ایسا کہنے پہ نشاء نے بھائی کو تڑپ کے اس کے بندھے ہاتھوں کو دیکھا
" نہیں بھئییوں نو۔۔۔۔۔" نشاء نے اس کے بندھے ہاتھوں کو الگ کیا اور ان پہ اپنا سر رکھا
" یہ تو نہیں کہا بھائیا بس دکھ ہوا تھا بہت کہ آپ نے ہمیں بہت تکلیف دی اور کچھ نہیں۔۔۔۔۔ " جبران نے اسے اپنے ساتھ لگایا جبران کی آنکھیں بھی نم تھیں
" ہم نے آپ کا بہت انتظار کیا بھائی بہت پر آپ نہیں آئے"
" سوری گڑیا میں نے اتنی تکلیف دی تم لوگوں کو معاف کردو" نشاء روئے جا رہی تھی بہت سا رونے کے بعد جبران نے اس سے پوچھا
" ناراض تو نہیں ہو نا مجھ سے" جبران نے پوچھا نشاء نم آنکھوں سے مسکرائی
" نہیں ہوں۔۔۔۔۔ "
" تھینک یو گڑیا" وہ بھی مسکرادیا
" دیکھیں کافی تو میں بھول ہی گئی" وہ پھر سے کافی بنانے لگی اور جبران سے باتیں کرنے لگی جبران بہت خوش تھا کہ اس کی بہن اس سے راضی ہوگئی تھی۔
-----
گلے دن احتشام والوں کے گھر سے فون آیا تھا وہ لوگ آج مرال کا شادی کا جوڑا لے کر آرہے تھے جبران تو سنتے ہی گھر سے باہر نکل گیا تھا
شام میں احتشام اپنی ماما کے ساتھ آیا تھا وہاج صاحب کے بہت کہنے پر وہ لوگ ڈنر کے لیے رک گئے تھے۔
-----
بہت دیر تک سڑکوں پی گاڑی گھمانے کے بعد وہ گھر کی طرف لوٹا اس کا خیال تھا کہ اب تو وہ لوگ جا چکے ہوں گے وہ گھر آیا احتشام والے ڈنر کر چکے تھے چائے کا دور چل رہا تھا
جبران لاؤنج میں داخل ہوا احتشام اور اس کی ماما کو دیکھ کے یک دم چونکا احتشام بھی اسے دیکھ کر حیران ہوا ویسے تو سب مرال کے پہلے شوہر کے برے میں انہیں بتا چکے تھے پر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ واپس گھر آچکا ہے
سارہ تعارف کرانے کے لیے بولی
" بھائی یہ مرال آپی کے ہونے والے شوہر ہیں" جبران سن کھڑا رہ گیا اسے لگا جیسے قیامت آگئی ہے اس ک سب دے اچھا دوست مرال کا ہونے والا۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے وہ سوچ نہیں سکا تھا
" اور احتشام بھائی یہ ہمارے بڑے بھائی جبران ہیں" سارہ اپنے بھئی کی حالت سے بےخبر دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کروارہی تھی احتشام نے ناسمجھی سے ابتہاج اور وہاج کو دیکھا
" بیٹا یہ ہی مرال کے ایکس ہزبینڈ ہیں" وہاج نے نظریں چراتے ہوئے کہا احتشام کے سر پہ جیسے پہاڑ ٹوٹا تھا۔
احتشام گھر آکے اپنے روم میں آیا سر تھا کہ درد سے پھٹا جا رہا تھا یہ کیا ہو گیا تھا اس کا سب سے اچھا دوست جبران اس کی ہونے والی بیوی کا پہلا شوہر۔۔۔۔۔۔۔
اس کے کانوں میں بار بار جبران کی تڑپتی آواز گونج رہی تھی
" وہ میری زندگی میرا سکون ہے"
" احتشام وہ شادی کررہی ہے"
پھر مرال کی آواز آتی
" مجھے اپنے شوہر سے بہت محبت ہے"
اسے لگا وہ پاگل ہو جائے گا اس نے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیا
یہ کیوں ہوا اور صرف اسی کے ساتھ ہی کیوں۔۔۔۔۔
اگر جبران کی جگہ کوئی بھی اس کے شوہر کی صورت میں آجاتا تو اسے اتنا برا نہیں لگتا جتنا اب لگ رہا تھا
اس نے اپنے کمرے کی ساری چیزیں توڑ دیں پھر بھی اسے سکون نہ ملا
"مرال اس سے محبت کرتی ہے اب تو وہ کب سے کتنے دنوں سے ساتھ ہوں گے۔۔۔۔۔ جبران تو اس خلع کو مانتا ہی نہیں تھا اس کی نظر میں۔۔۔۔۔ تو اب بھی وہ اس کی وائف ہے۔۔۔۔۔ " وہ پتا نہیں کیا کیا سوچ رہا تھا "اور مرال وہ تو علیحدگی کے بعد بھی صرف اسے ہی چاہتی تھی اسے یوں اپنے روبرو دیکھ کر وہ محبت پھر زور و شور سے امڈ آئی ہوگی اور جذبات میں پتا نہیں کتنی بار انہوں نے اپنی حدیں پار کی ہوں گی۔۔۔۔۔۔" اور اس سے آگے وہ سوچ ہی نہیں سکا تھا ایک گرہ سی دل میں پڑ گئی تھی تھا تو وہ بھی ایک مرد ہی نا تو اپنی عورت کے بارے میں پزیسو کیوں نہ ہوتا
-----
جبران ٹیرس پہ کھڑا اندر کی گھٹن کو کم کرنا چاہ رہا تھا
اس نے تو کبھی زندگی میں نہ سوچا تھا کہ ایسا ہو جائے گا
وہ نہ ےو اپنے دوست کو دکھ دے سکتا تھا اور نہ مرال کو خود سے الگ کرسکتا تھا اس کو اپنے سے جدا کرتا تو کب کا مر جاتا۔۔۔۔۔۔ احتشام بھی اس سے محبت کرتا تھا مگر وہ تو جبران کا عشق و جنون بن چکی تھی
قسمت نے عجیب دوراہے پہ کھڑا کردیا تھا انہیں وہ ایک تکون میں کھڑے تھے ایک پئیر کی شکل دینے کے لیے ان میں سے کسی ایک کو تو نکلنا ہی تھا
----
" حیدر بس اب آپ میری سنیں ختم کریں یہ سب نہیں کرنی میں نے اپنے بیٹے کی شادی اس لڑکی سے"
" اب کیا ہو گیا ہے ضوباریہ جانے تک تو تم ٹھیک تھیں" حیدرصاحب لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے چینل سرچ کرتے ہوئے بولے
" حیدر اس لڑکی کا ایکس ہزبینڈ آگیا ہے" اس بات پہ حیدر بھی چونکے
" آپ کو پتا ہے وہ کون ہے"
" جون ہے؟؟؟" انہوں نے پوچھا
" احتزام کا دوست جبران"
" واااااٹ۔۔۔۔۔ یو شیور کہ وہ وہی ہے"
" جی حیدر میں سچ کہہ رہی ہوں "
" احتشام کہاں ہے؟؟؟"
" میرا بچہ تو بہت ڈسٹرب ہو گیا ہے آتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا پلیز آپ ہی کوئی حل نکالیں حیدر۔۔۔۔۔ آپ خود جانتے ہیں کہ جبران اپنی ایکس وائف کو بہت چاہتا ہے" ایک طرح سے انہوں نے حیدر کو اموشنل کرنا چاہا
" ضوباریہ ان کی علیحدگی ہو چکی ہے اور اگر آبھی گیا ہے تو وہ ہزبینڈ وائف نہیں ہیں۔۔۔۔۔ تین دن بعد شادی ہے احتشام کی وہ سمجھدار ہے سمجھ جائے گا تم سمجھاؤ اسے ہمممم" انہوں نے اپنی بیگم کو سمجھایا وہ منہ بنا کے رہ گئیں انہیں وہ لڑکی اپنے ہیرے جیسے بیٹے کے لیے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اور اب تو اور ذہر لگنے لگی تھی۔
-----
مرال کو آج جبران دو تین بار نظر آیا وہ جب بھی مرال کو کہیں دیکھتا فوراً اس کی طرف آتا مگر وہ رخ موڑ کے چلا گیا مرال کو یہ چیز اندر ہی اندر بہت کھلی پر بولی کچھ نہیں ویسے بھی وہ یہ ہی تو چاہتی تھی کہ جبران اس سے دور ہو جائے اب جب وہ دور ہو گیا تھا تو اسے برا کیوں لگ رہا تھا
اس نے دل کو بہت سمجھایا پر دل نہ مانا جب دو بار پھر ایسا ہی ہوا تو وہ خود جبران کے پاس آئی
" جبران" وہ لان میں پھولوں کے پاس کھڑا کسی سوچ میں گم تھا چونک کے سے دیکھا مرال آتو گئی تھی پر اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے وہ کنفیوز سی انگلیاں مروڑ رہی تھی
" ککچھ۔۔ نہیں" اور جانے لگی
" مرال" اب جی بار اس نے آواز دی وہ فوراً پلٹی
" جی"
" اگنورنیس کی وجہ پوچھنے آئی ہو" اس کے سہی تکے پہ مرال شرمندہ ہوئی
" نن۔۔ نہیں نہیں تو"
" اچھا چلو میں بتا دیتا ہوں"
" میں نے کیا کرنا جان کر میرا آپ سے کوئی واسطہ نہیں" اس نے رخ پھیرا پر اصل میں وہ بھی یہی سننا چاہتی تھی
" پتا ہے میں تم سے بے حد محبت کرتا ہوں" وہ رخ موڑے کھڑی سن رہی تھی
" ہاں تبھی اگنور کیا جارہا ہے تکہ میں دھیان دوں" مرال نے دل میں سوچا
" تمہیں خود سے دور نہیں کرسکتا"
" ہاں پاس بلانے کے بہانے" مرال اپنی دھن میں سوچ رہی تھی وہ اس سے کچھ اور سننا ایکپیکٹ کررہی تھی
" پر احتشام میرا بہت اچھا دوست ہے اور اس کی خوشی تم ہو۔۔۔۔۔ اس لیے میں اپنا راستہ الگ کرتا ہوں" مرال نے چونک کر اس کی طرف دیکھا
" میں جانتا ہوں یہ میرے لیے بے حد مشکل ہے پر مرال میں نے کل رات بہت سوچا اور اس نتیجے پہ پہنچا ہوں۔۔۔۔۔ کہ تم سے دور ہو جاؤں اس میں ہی بہتری ہے۔۔۔۔۔" وہ سانس روکے سن رہی تھی وہ یہ کیا بول رہا تھا
" وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا جو محبت تمہیں میں نا دے سکا وہ محبت احتشام تمہیں دے گا۔۔۔۔۔ میں نے تمہیں بہت تکلیف دی نا میں گنہگار ہوں تمہارا ہو سکے تو مجھے معاف کردینا۔۔۔۔۔" مرال اسے سن رہی تھی اسے اپنا وجود بہت معمولی لگ رہا تھا
" احتشام تمہیں سب کچھ دے گا مان عزت محبت وہ سب جو میں نا دے سکا۔۔۔۔۔وہ تمہیں اتنا چاہے گا کہ دیکھنا ایک دن تم بھول جاؤ گی کہ کوئی جبران تمہاری زندگی میں آیا تھا" جبران کی آنکھیں نم تھیں وہ بہت ضبط سے اس سے یہ سب بول رہا تھا اور مرال بھیگی آنکھوں سے سب سن رہی تھی اس کی بات کے اختتام پہ بولی
" کس نے کہا کہ مجھے آپ سے محبت ہے کہ میں آپ کو یاد کروں گی بھولوں گی تو تب نا جب میں آپ کو یاد کروں گی۔۔۔۔۔ ایک اور بات آپ ہوتے کون ہیں میرے لیے فیصلہ کرنے والے آپ کو کوئی حق نہیں سمجھے۔۔۔۔۔ میں اپنی مرضی کی مالک ہوں یہ رشتہ میری مرضی سے ہوا ہے۔۔۔۔۔ ہاں احتشام مجھے آپ سے کہیں زیادہ مان عزت محبت دے گا اور میں بھی دوں گی پتا ہے کیوں کیونکہ وہ یہ سب ڈیزرو کرتا ہے آپ نہیں" کہہ کر وہ چلی گئی جبران بھیگی آنکھوں سے اسے جاتا ہوا دیکھنے لگا۔
وہ اپنے کمرے میں آکے بے تحاشا روئی کیا وہ اتنی بےوقعت تھی کہ اسے اتنی آسانی سے چھوڑ دیا جائے شاید ہاں۔۔۔۔۔
وہ رورہی تھی کہ اس کے کندھے پہ کسی نے ہاتھ رکھا
" میرو" اس نے چہرہ اوپر اٹھایا دیکھا تو نشاء تھی
" میرو۔۔۔۔۔ کیا ہوا ؟؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے" وہ فکرمندی سے بولی مرال اس کے پوچھنے پہ پھر سے رونے لگی تھی
" مرال بتاؤ نا"
" نشاء کیا میری کوئی اہمیت نہیں ہے کیا میں کوئی معمولی شے ہوں"
" نہیں میرو ایسا کیوں کہہ رہی ہو"
" تو پھر مجھے بار بار کیوں چھوڑا جاتا ہے شاید میں ہوں ہی بدنصیب"
" میرو جان کیا ہوا ہے" اب کی بار نشاء چونکی مرال کچھ نہ بولی بس روتی رہی
" کیا جبران بھائی کی بات کررہی ہو" نشاء نے پوچھا اور مرال کی آنکھوں میں دیکھا
" مرال پاگل ہو گئی ہو جانتی ہو نا کہ پرسوں شادی ہے تمہاری پھر بھی۔۔۔۔۔ پھر بھی بھائی کے بارے میں سوچ رہی ہو بھول جاؤ سب" مرال نے حیرانی سے اسے دیکھا
" حیران مت ہو میرو سہی کہہ رہی ہوں میں۔۔۔۔۔ وقت گزر چکا ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا ہاں وہ بھائی ہے میرا پر میں پھر بھی یہ ہی کہوں گی کہ بھائی کو بھول جاؤ اور اپنی نئی زندگی کے بارے میں سوچو"
" نشاء میں۔۔۔۔۔ مجھ سے نہیں ہوگا۔۔ میں نہیں بھول سکتی۔۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں مر جاؤں گی"
" ایسا نہیں کہتے میرو بھلا کسی کے لیے کوئی مرا ہے کبھی۔۔۔۔۔؟؟ نہیں نا۔۔۔۔۔ دیکھو بچوں کی پہلی محبت اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ ہے نا۔۔۔ جب کسی کے ماں باپ مر جاتے ہیں تو کیا بچے ان کے ساتھ مرجاتے ہیں بتاؤ۔۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔۔ نہیں نا۔۔۔۔" وہ اسے بچوں کی طرح سمجھا رہی تھی
" میرو عقلمندی اسی میں ہے کہ تم اپنی آنے والی لائف کے لیے ریڈی ہو جاؤ کل کو تمہارے بچے ہو جائیں گے تو تم ان میں بزی ہو جاؤ گی تمہارے پاس وقت ہی نہیں ہو گا پاسٹ کو یاد کرنےکے لیے۔۔۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ ان یادوں پہ گرد پڑ جائے گی پھر کوئی یاد تمہیں تکلیف نہیں دے گی"
اس کے سمجھانے سے مرال ہلکی پھلکی ہو گئی تھی
" چلو شاباش اٹھو منہمہ ہاتھ دھو اور باہر آؤ ہم سب ویٹ کررہے ہیں تمہارا" مرال نے سر ہلایا۔
-----
" یہ کیا مسز ضوباریہ آپ تو کہہ رہی تھیں کہ احتشام کی شادی مائرہ سے ہی ہو گی پر ایسا ہوا نہیں" مسز باجوہ کا فون تھا
" آئی نو میں نے کہا تھا پر احتشام کی ضد ہے کہ وہیں کرنی ہے شادی۔۔۔۔۔ سچ پوچھیں تو مجھے تو ذرا نہیں پسند عہ لڑکی"
" تو آپ احتشام کو سمجھائیں"
" سمجھایا تو بہت ہے میں نے پر اس کی ضد وہیں ہے کوئی سوکالڈ سی محبت ہوگئی ہے اسے اس لڑکی سے" ضوباریہ نے منہ بنا کے کہا
"اوہ کیا بہت خوبصورت ہے کیا وہ لڑکی"
" خوبصورت ہے پر اتنی نہیں کہ اس کے پیچھے پاگل ہوا جائے خدا جنے کیا جادو کیا ہے اس لڑکی نے میرے بیٹے پہ کہ وہ پیچھے نہیں ہٹ رہا۔۔۔۔۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ اس کا ہزبینڈ دیکھ کے کل شاید وہ انکار کردے گا پر ابھی تک تو اس نے کوئی بات نہیں کی ہے"
" ہزبینڈ۔۔۔۔۔؟؟" مسز باجوہ چونکی
" جی اس لڑکی کا ایکس ہزبینڈ۔۔۔۔۔ واپس آچکا ہے احتشام کا دوست ہی ہے وہ بھی پاگل ہے اس لڑکی کے پیچھے پتا نہیں کون سی بلا ہے یہ کہ دو آدمیوں کو پاگل کیا ہوا ہے اس نے"
" پھر تو بہت شاطر لڑکی ہے" مسز باجوہ نے بھی اپنی رائے دی
" بہت۔۔۔۔۔ پر میں نے بھی سوچا ہوا ہے کہ اس گھر میں اسے رہنے نہیں دوں گی احتشام کو تو کل کی بات لگی ہوئی ہے لوہا گرم ہے ابھی وار کرنا فائدہ مند رہے گا" وہ مسکرائیں
" ہاں ٹھیک کہا میری مائرہ تو احتشام کے انتظار میں ہے"
" بے فکر رہیں میری بہو مائرہ ہی بنے گی" انہوں نے مسز باجوہ کو تسلی دی۔
------
جبران آج باہر کسی کام سے گیا تو وہاں اسے احتشام مل گیا احتشام نے بھی اسے دیکھا اور رخ پھیر لیا
جبران چلتا ہوا اس تک آیا
" کیسے ہو؟؟؟" جبران نے پوچھا اس نے کوئی جواب نہیں دیا
" احتشام میں بس اتنا کہنے آیا ہوں کہ میں تمہارے اور مرال کے راستے سے ہٹ رہا ہوں مجھے تم بہت عزیز ہو احتشام جو کچھ ہو رہا ہے اس میں میری ہی غلطی تھی ہو سکے تو معاف کردینا"
" تم ہوتے کون ہو یہ کہنے والے۔۔۔۔۔ کس بات کی معافی مانگ رہے ہو تم ہاں اس بات کی کہ اپنے گھر آکے ناجانے کتنی بار مرال اور تم ساتھ میں رہے ہو ناجانے کتنی بار تم نے اپنی حدیں پار کی ہیں۔۔۔۔۔ مرال تو تم سے محبت کرتی تھی نا تو۔۔۔۔۔"
" خبردار احتشام جو تم اپنی زبان سے ایسے گندے لفظ ادا کیے" جبران نے اس کا گریبان پکڑ لیا
" سچ برداشت نہیں ہورہا تم سے۔۔۔۔۔ تم دونوں اپنی خواہشات شوق سے پوری کرو میں ہوں نا تم لوگوں کے گناہوں کی پوٹلی اٹھانے کے لیے" اس کی اس بات پہ جبران نے کھینچ کے ایک تھپڑ اس کے منہ پہ مارا بدلے میں احتشام نے بھی اسے مارا اور دونوں میں ہاتھا پائی اسٹارٹ ہو گئی
" میں جان سے مار دیتا تمہیں احتشام اگر تم میرے دوست نہ ہوتے زبان سنبھال کے بات کرو۔۔۔۔۔ خبردار جو مرال کے بارے میں کچھ گٹھیا لفظ استعمال کیے"
" کروں گا سو بار کروں گا کیا کرلو گے" دونوں ایک دوسرے کو بری طرح پیٹ رہے تھے بڑی مشکلوں سے لوگوں نے انہیں چھڑوایا
-----
احتشام گھر آیا اس کے حلیے کو دیکھ کر ضوباریہ پریشانی سے بولیں
" یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے احتشام کدی سے لڑ کے آئے ہو یہ چوٹ کیسے لگی" احتشام کے ہونٹوں کے پاس سے خون نکل رہا تھا وہ صوفے پہ جا کے بیٹھ گیا
" بتاؤ بھی یہ کیسے ہوا" وہ جو خود کو کنٹرول کر رہا تھا پھٹ پڑا
" جبران آج آیا تھا میرے پاس معافی مانگنے وہ کیا سمجھتا ہے میں اس کی دی ہوئی بھیک کو کبھی اپناؤں گا۔۔۔ کبھی نہیں مرال کو بھی انجام بھگتنا ہو گا" ضوباریہ کے دل میں حد درجہ سکون ابھرا
" بیٹا مرال کی کیا غلطی ہے اس میں اگر اس کا شوہر آگیا تو" انہوں نے جان بوجھ کے شوہر کا نام لیا انہیں پتا تھا وہ بھڑک جائے گا نتیجہ یہ ہی نکلا
" آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ اس کی غلطی نہیں سب سے بڑی قصوروار وہ ہے جب جبران آچکا تھا گھر تو وہ مجھے بتا نہیں سکتی تھی کہ وہ واپس آگیا ہے۔۔۔۔۔ وہ تو بیت خوش ہو گی اس کی مح ت اسے مل گئی یہی تو چاہتی تھی وہ"
" ذہن میں نہیں رہا ہو گا بیٹا"
" ہاں نہیں رہا ہو گا کیونکہ ذہن تو وہاں ہو گا نا جہاں دل ہے"
" بیٹا تم نے ہی کہا تھا کہ تمہیں اس کے ایکس ہزبینڈ سے کوئی فرق نہیں پڑتا" وہ اسے اکسا رہی تھیں
" ہاں کہا تھا تب تک جب تک وہ یہاں نہیں تھا اور اگر اب آہی گیا تھا تو کیا وہ مجھے انفارم نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔۔ سیکنڈ یہ کہ جبران جب گیا تو اسے پتا تو چلا ہو گا نا اس کی شادی کا تب بھی اس نے مجھے نہیں بتایا پتا تو ہو گا نا اسے کہ میری اس سے شادی ہو رہی ہے۔۔ اس لیے بتانا ضروری نہیں سمجھا تاکہ میری ناک کے نیچے وہ گھناؤنے کام انجام دے سکیں" ضوباریہ دل ہی دل میں مسکرائیں
" وہ کیا سمجھتی ہے میں اسے اپنا لائف پارٹنر بناؤں گا ایک بدکردار کو۔۔۔۔۔ کبھی نہیں" اور کہہ کر چلا گیا ضوباریہ مسکرائیں
" ارے واہ ابھی تو انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں تھا اور خود بہ خود سب ہو گیا" وہ بہت خوش تھیں۔