آلامِ روزگار کی زد میں آنے والے بشیر کی کمر ضعیفی کے باعث جھک گئی تھی۔ ایسے مخلص اور صابر و شاکر لوگ اب دنیا میں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ملاقات میں بشیر نے آہ بھر کر کہا ’’رضوان کی وصیت ایک ایسی سوانحی یادداشت ہے جس کی پیشانی پر عادی دروغ گو، احسان فراموش اور محسن کش درندوں کی لُوٹ مار، عیاری، مکر و فریب اور پیمان شکنی کا قشقہ کھنچا ہے۔ اس سے پہلے کہ سمے کی دیمک چپکے چپکے کتابِ زیست کے اوراق کو چاٹ لے میں لوح جبینِ گُل پر خونِ دِل سے طلوع صبح بہاراں کا نصاب لکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس ملاقات میں بشیر نے افسانہ نگار سے جو باتیں کیں وہ پوری دیانت سے حرف حرف زیبِ قرطاس کی جا رہی ہیں:
رضوان اور بشیر کی رفاقت پچاس سال پر محیط تھی۔ بر صغیر میں نو آبادیاتی دور میں دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے دوران میں رضوان کا والد بہرام اور بشیر کا والد فرقان برطانوی فوج میں ملازم تھے۔ دونوں نے مختلف محاذوں پر جرمن فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ خاص طور پر جنرل منٹگمری کی کمان میں العالمین کے محاذ پر برطانوی فوج میں ملازم بر صغیر سے تعلق رکھنے والے ان سپاہیوں کو اپنے فوجی دستوں کی کار کردگی پر ہمیشہ فخر رہا۔ اس عرصے میں جب بھی چھٹی ملی فرقان نے سعودی عرب میں عمرے کی سعادت حاصل کی۔ چھے سال جاری رہنے والی اس عالمی جنگ میں وہ برما، بصرہ، بغداد، قاہرہ، طبرق صحرائے سینا اور صحرائے کیارہ کے نزدیک مختلف محاذوں پر تعیناتر ہے۔ حج کے موقع پر فرقان ہر سال اپنی کمان سے اجازت لے کر سعودی عرب پہنچتا اور فریضۂ حج ادا کر کے روحانی سکون محسوس کرتا۔ ہر سال ماہ صیام میں فرقان عمرے کی سعادت حاصل کرتا اور رمضان کے مبارک مہینے کے آخری عشرے میں مسجد نبوی میں اعتکاف میں بیٹھتا۔ بہرام کو اپنے معتمد ساتھی اور محرم راز فرقان کے خلوص پر بہت ناز تھا مگر دونوں کے ذوق مختلف تھے۔ بہرام کو یونانی طریقہ علاج کے طبی نسخوں، ٹونے ٹوٹکوں اور آثار قدیمہ سے گہری لچسپی تھی۔ دوسری عالمی جنگ میں صحرائے سینا میں برطانوی فوج تعینات تھی۔ اپنی یونٹ کے مجاز افسروں کی اجازت سے یہ دونوں دوست اپنے کچھ رفقا کے ساتھ جبلِ موسیؑ (کوہِ طُور) کی زیارت کے لیے پہنچے۔ سیاحت کے شوق میں انھوں نے سال 1869 میں مکمل ہونے والی 183 کلو میٹر لمبی نہر سویز کو اِس نہر کے مقام آغاز پورٹ سعید پر جا کر دیکھا۔ انھوں نے اہرام مصر دیکھے اور بیس برس کے عرصے میں 2560 BC میں مکمل ہونے والے 481 فٹ بلند فرعون خوفو کی آخری نشانی کے سرہانے فقط سنگ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ برطانوی فوج میں بھرتی ہونے سے پہلے بہرام جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والے مقامی معالج کے معاون کے طور پر کام کر چکا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران میں مصر میں قیام کے عرصے میں بہرام کو مقامی اطبا نے بتایا کہ لوبان کے استعمال سے کئی بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں مصر میں لوبان کی کاشت کثرت سے ہوتی تھی۔ لوبان کے تنے کو کئی مقامات پر تیشے یا کلہاڑی سے ایک انچ کے قریب کاٹا جاتا تھا۔ اس جگہ سے خاص قسم کی گوند نکلتی جسے خشک کر کے لوبان تیار کیا جاتا تھا۔ اطبا کا خیال ہے کہ لوبان جن بیماریوں کے علاج میں مفید ہے ان میں بواسیر، رسولی، جنسی بیماریاں، دمہ، متلی اور گلے کی سوزش شامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں قیام کے عرصے میں بہرام کو علمِ نجوم، دست شناسی، پیرا سائیکالوجی، مافوق الفطرت عناصر اور مابعد الطبیعات کے بارے میں بھی بہت مفید معلومات حاصل ہوئیں۔ اسے یہ بھی بتایا گیا کہ لوبان کے سلگانے سے آ سیب، بد روحیں، دیو، جن، بھوت، چڑیلیں اور ڈائنیں بھاگ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ حشرات الارض، چھپکلی، سانپ، بچھو، اژدہا، مچھر، کن کھجورا، کھٹمل، پسو، مچھر اور لال بیگ سے نجات حاصل کرنے کے لیے لوبان کی دھونی اکسیر ہے۔ فوجی ملازمت سے جب بھی چھٹی ملتی بہرام اپنے آبائی گھر قزاقستان پہنچتا اور جہاں لوبان کے شیدائی اس کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔ خانے وال میں بہرام کے عزیز جھارو کا سوتیلا باپ شفو رہتا تھا۔ یہ شقی القلب مسخرا ایک طالع آزما اور مہم جُو درندہ تھا۔ اس علاقے میں لوبان کی مانگ بہت زیادہ تھی اور اس کا استعمال یوں سمجھ لیں کہ ویاگرا کے مانند تھا۔ شفو نے لوبان سے منشیات کی تیاری کا مکروہ دھندا شروع کر دیا۔ خلق خدا کا حلق کسی کی گرفت میں نہیں اس زمانے میں ہر شخص یہی کہتا کہ عالمی جنگ کے سنگ شفو کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے۔ اس نو دولتیے کو دیکھ کر سب لوگ دنگ رہ گئے جس نے اس دھندے میں بہت کچھ کمایا۔ اس نے جو چاند چڑھایا وہ کسی کی نظر سے اوجھل نہ تھا۔
عالمی جنگ ختم ہوئی تو بہرام اور فرقان مدراس پہنچے۔ یہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وہ اپنے آبائی شہروں کو روانہ ہو گئے۔ بہرام اور فرقان کے گھر والوں نے ان کی شادی کر دی۔ مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کی اہلیہ لال کنور کی سہیلی زہرہ کنجڑن کا نواسہ تفو کنجڑا مدراس کا بدنام اچکا تھا۔ تفو کنجڑے نے مدراس کی ایک مشاطہ سے شادی کر لی۔ کوٹھے پر بیٹھنے والی یہ مشاطہ شہر کی بدنام نائکہ اور رذیل طوائف تھی۔ اس طوائف سے تفو کنجڑے کے پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ تفو کنجڑے کی طوائف بیوی اور اس کی اجرتی بد معاش اولاد نے بہرام اور فرقان کو لُوٹ لیا اور فرضی مقدمات اور جھوٹی گواہیوں کے ذریعے انھیں زندان بھجوانے کی سازش کی۔ مصیبت کی اس گھڑی میں فرقان نے اپنے دیرینہ ساتھی عبد الواحد کی مدد سے اس بلائے ناگہانی سے نجات حاصل کی۔ تفو کنجڑے نے ایک رانڈ سے تیسری شادی کر لی اور اس کے سابقہ شوہر سے اس بیوی کے بچوں کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ پرِ زمانہ تو پرواز نُور سے کہیں بڑھ کر تیز ہے وقت گزرتا رہا، فرقان اور بہرام دونوں اب ضعیف ہو چکے تھے۔ فرقان نے تو معرفت کی منازل طے کر لیں مگر بہرام دنیا داری میں الجھ کر رہ گیا۔ قزاقستان کے مضافات میں ایک چنڈو خانے میں تفو کنجڑے کا حصہ تھا جہاں وہ لوبان اور کئی دوسرے نشے فروخت کرتا تھا۔ تفو کنجڑے کے قبیح کردار کی وجہ سے اکثر لوگ اس کی ملامت کرتے مگر اِس چکنے گھڑے نے بازار میں دی جانے والی ہر گالی سدا ہنس کر ہی ٹالی۔ تقسیم ہند کے بعد حالات بدل گئے اور تفو کنجڑا در در کی ٹھوکریں کھا کر اپنی بیوی اور بچوں کو لے کر قزاقستان پہنچا۔ سرمایہ دار ہندو ساہوکار اس علاقے سے نکل گئے اور مسلمانوں کے لیے ترقی اور خوش حالی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہاں تفو کنجڑے نے خشک میوہ جات، پھلوں اور سبزی کی ایک دکان کھولی مگر یہاں بھی اس کے وہی لچھن رہے۔ وہ منشیات بیچتا اور کالا دھن کمانے کی فکر میں مبتلا رہتا۔
بہرام اور فرقان کی اولاد میں رشتہ داری تو نہ ہو سکی مگر بہرام نے اپنے بیٹے رضوان کو یہ وصیت کی کہ جہاں تک ممکن ہو فرقان کی اولاد سے معتبر ربط رکھنا۔ فرقان کا بیٹا بشیر اور بہرام کا بیٹا رضوان دونوں گہرے دوست اور ہم جماعت تھے۔ بشیر اور رضوان دونوں نے فتح جنگ کے ایک ہی کالج میں انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد دونوں دوستوں کی مختلف گھرانوں کی لڑکیوں سے شادی ہو گئی اور دونوں نے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بشیر نے شعبہ تدریس کا انتخاب کیا جب کہ رضوان نے عسکری شعبہ کو پسند کیا۔ شادی کے بعد رضوان اپنے آبائی شہر تلہ گنگ چلا گیا جب کہ بشیر نے فتح جنگ میں سکونت اختیار کر لی۔ رضوان کی بیوی قفسو جو قصبے مکڑ وال کے ایک نجی شفا خانے میں نرس تھی وہ اپنے شوہر کو اپنے ساتھ لے گئی اور وہیں مستقل طور پراپناگھر بسا لیا۔ اپنے جبر کی بنا پر قفسو اپنے شوہر رضوان کو اپنی انگلیوں پر نچاتی تھی۔ قحبہ خانے کی مالکن اور رسوائے زمانہ نائکہ قفسو کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ نائکہ ہند سندھ کا ایسا مورا ہے جس میں پورے ملک کی غلاظت آ کر گرتی ہے۔ گرد و نواح کے شہروں اور مضافاتی علاقوں کے سب بھانڈ، بھڑوے، اُچکے، مسخرے، لُچے، شہدے، ڈُوم، ڈھاڑی، رجلے، خجلے، بھگتے اور منگتے سب کے سب قفسو کے متوالے تھے۔ میاں والی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں واقع قصبے مکڑ وال کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں کے نوسر باز مکین ہر نوارد کی آنکھوں میں دھُول جھونک کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ نو آبادیاتی دور میں بنارسی ٹھگ بھی مکڑوال کے مکینوں کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ کچھ ستم ظریف اس قصبے کو مکڑوال کے بجائے ’’مکروال‘‘ کہتے تھے۔ اس شہر ناپرساں کے کچھ لوگوں کے مکر، فریب، دغا و دُزدی کے باعث اکثر لوگ کہتے کہ یہ شہر بھی عجیب ہو رہا ہے جو اپنے کچھ مکینوں کی عیاری، مکاری، فریب کاری اور پیمان شکنی کے باعث رفتہ رفتہ کوفے کے قریب ہو رہا ہے۔ شفو نے بھی مکڑوال میں کوئلوں کے کاروبار میں دلچسپی لی مگر کوئلوں کی دلالی میں اس کا منھ کالا ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر اس نے کالا باغ کا رخ کیا۔ بشیر کی بیوی گھریلو خاتون تھی اور اس نے اپنے شوہر کے آبائی شہر فتح جنگ ہی میں قیام کیا۔
معلم بشیر کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور اپنی تحریروں میں اس نے مشرقی خواتین کے مسائل پر کھل کر لکھا۔ وہ اپنے ساتھی رضوان کو بتاتا کہ اذیت، عقوبت اور مشقت کی بھیانک رات بالآخر ختم ہو جاتی ہے اس کے بعد مسرت و شادمانی کی نقیب صبح درخشاں طلوع ہوتی ہے۔ اپنے شوہر کی خاطر مشرقی عورت آج بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتی اس نے اجتماعی لا شعور کی اساس پر فکر و خیال کی انجمن آراستہ کرنے کے سلسلے میںا ردو ادب میں ممتاز شیریں کے اسلوب کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ تانیثیت اس کا خاص موضوع رہا اس نے مثالیں دے کر واضح کیا کہ ممتاز شیریں نے اپنے ایک افسانے ’’میگھ ملھار‘‘ میں اجتماعی لا شعور کو رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے۔ معاشرتی زندگی میں مشرقی خواتین کی اپنے شوہر کے ساتھ قلبی وابستگی کو ممتاز شیریں نے اساطیر اور یونانی دیو مالا کے بر محل استعمال سے انتہائی موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اپنے شوہر ایڈ میٹس (Admetus) سے والہانہ محبت کرنے والی آل سسٹس (Alcestis) سلطنت لولکس (Lolcus) کے شہنشاہ پیلیاس (Pelias) کی سب سے حسین دختر تھی۔ المیہ نگار یوری پائیڈز (Euripides) کا تعلق یونانی دیومالا سے ہے۔ اس نے اپنے عہد کے ڈرامہ نگاروں ایس ہیلس اور سوف کیلس (Aeschylus and Sophocles) کی طرح المیہ ڈرامہ کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ ممتاز شیریں نے ایتھنز سے تعلق رکھنے والے کلاسیک ڈرامہ نگار یوری پائیڈز کے اسلوب کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ محبت کے دستور بھی نرالے ہوتے ہیں یہاں ایثار و قربانی کی ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ عقل محو تماشائے لبِ بام رہ جاتی ہے۔ ایڈمیٹس اپنی زندگی کو درپیش خطرات سے گلو خلاصی کے لیے باری باری اپنے سب عزیزوں، دوستوں اور رفقا سے ان کی زندگی کی قربانی کی التجا کرتا ہے مگر اس کی فغاں پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ایڈمیٹس اپنے دلِ حزیں پہ جبر کر کے اپنی محبوب اہلیہ آلسسٹس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے شوہر کی خاطر قربان کر دے۔ آلسسٹس جانتی تھی کہ درد کا رشتہ ایثار کا تقاضا کرتا ہے اس لیے وہ خوشی سے اپنے شوہر کی زندگی بچانے کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دینے پر رضا مند ہو جاتی ہے اور آزاد مرضی سے اپنی زندگی اجل کے دیوتا کے سپرد کر دیتی ہے۔ آلسسٹس کے جذبۂ ایثار کو دیکھ کر دیوتاؤں ہیڈز (Hades) اور ہیرا کلز (Heracles) کو ترس آ گیا اور انھوں نے نہ صرف اس عورت کی جان بخشی کر دی بل کہ اس کے شوہر کی زندگی کو درپیش خطرات بھی ٹل گئے۔ زمانہ طالب علمی میں رضوان اپنے ہم جماعت بشیر کی باتیں نہایت توجہ سے سنتا اور سر دھُنتا تھا۔ رضوان کا خیال تھا کہ انسان کو اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اجزا کی نسبت کل کی اہمیت و افادیت کہیں بڑھ کر ہے۔ اس عالمِ آب و گِل میں موجود زندہ اجسام کی زندگی حرکت و حرارت سے عبارت ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں ہر ذی روح کا وجود اس فعالیت کا آئینہ دار ہے جسے وہ کثرت سے بروئے کار لاتا ہے۔ بشیر کی رائے یہ تھی کہ کسی بھی کام میں ستارے چھُو لینے کا راز کسی ایک کام کو پایہ تکمیل تک پہچانا نہیں بل کہ ستاروں پر کمند ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانیت کی فلاح کی خاطر صبح و مسا ایسے متعدد کام کیے جائیں جن کے اعجاز سے ہوائے جور و ستم کے بگولے تھم جائیں۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کے کام اگر عادت ثانیہ بن جائیں تو اس سے شخصیت کو استحکام اور کردار کو عظمت نصیب ہوتی ہے۔
زمانہ طالب علمی ہی سے بشیر اور رضوان کی دوستی مثالی تھی۔ دونوں اس بات پر متفق تھے خوش حالی، مسرت اور شادمانی کے مواقع پر دوستوں کی پرکھ ممکن ہی نہیں۔ ابتلا و آزمائش اور مصائب و آلام کی گھڑی میں کسی دوست، بہی خواہ اور غم خوار کا طرزِ عمل ہی اس کے خلوص، درد مندی، ایثار، وفا اور غم گساری کی سب سے بڑی کسوٹی ہے۔ زندگی تو وہی ہے جسے ہم بسر کر رہے ہیں جہاں تک کالا دھن کمانے والے اہلِ ثروت کی نمود و نمائش کی مظہر پر تعیش زندگیاں ہیں ان سے بے تعلق رہنا ہی مصلحت ہے کیونکہ اس قسم کا راحت اور آسودگی سے معمور ماحول ہماری دسترس میں نہیں۔ بشیر اپنے دوست رضوان کو یہ بات سمجھا تا رہتا کہ معاشرتی زندگی میں درد مندوں اور ضعیفوں سے خلوص، مروّت اور بے لوث محبت کا رشتہ استوار کرنے والے فیض رساں انسان اللہ کریم کی نعمت ہیں۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا درندے جب کسی فیض رساں اور خادم خلق انسان کو اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے قبیح کردار کی وجہ سے یہ حساس لوگ دِل برداشتہ ہو کر گوشہ نشین ہو جاتے ہیں۔ اس طرح فیض کے اسباب پیدا کرنے کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔
رضوان کے ایک عزیز جھابو قرق نے ایک کتا پال رکھا تھا یہ خارش زدہ کتا اکثر رضوان کی گلی میں گھومتا پھرتا دیکھا گیا۔ ایثار اور سرفروشی کی اداکاری کرنے والا طالع آزما اور مہم جو جھابو قرق در اصل جو فروش گندم نما مسخرا تھا۔ وہ اکثر یہ بات کہتا کہ حصولِ زراور جلب منفعت کی لذت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب اس مقصد کے حصول کی خاطر دھوکہ دہی اور فریب کاری سے کام لیا جائے۔ اس کی کھوپڑی میں دروغ گوئی، عیاری، مکاری اور فریب کاری کُوٹ کُوٹ کر بھری تھی۔ نا معلوم کیوں رضوان کی گلی کی ہر باؤلی کتیا اس ابلہ کے پالتو خارش زدہ کتے کو دیکھ کر اپنی دُم اُٹھا لیتی اور اس کے پاؤں چاٹنے لگتی۔ کچھ عرصے کے بعد جھابو قرق کا پالتو کتا گلی کی ایک آوارہ کتیا کو ساتھ لے کر غائب ہو گیا اور کالا باغ کے نواحی جنگل میں جا پہنچا۔ واقفِ حال لوگوں کا خیال تھا کہ جھابو قرق کے پالتو کتے کا شجرہ نسب دیو جانس کلبی کے وفا دار پالتو کتے سے ملتا ہے۔ اپنے مالک جھابو قرق کی آواز سن کر ہر راہ گیر پر غرانے اور کاٹنے کے لیے دوڑنے والے اس قسم کے کتے ہر گوٹھ اور گراں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ گرگ آشتی کے پوشیدہ طریقوں اور پیچیدہ اسرار و رموز سے آگاہ لوگوں نے اس قسم کا ہما شما ترس کتا ضرور دیکھا ہو گا جو کُوڑے کے ہر ڈھیر کو گردن جھکا کر سُونگھتا اور دُم ہلاتا پھرتا ہے اور وہاں سے اپنے مطلب کے اُستخواں اُٹھا کر انھیں نوچتا اور بھنبھوڑتا پھرتا ہے۔ گردشِ ایام سے آنکھ مچولی کھیلنے کی وجہ سے جھابو قرق کے کتے کی خارش زدہ جلد پر تپسیا کے اثرات اس کی حرص و ہوس، کُوڑا بینی، عفونت پسندی اور مردار خوری کی نشانی بن گئے تھے۔ گردن جھکائے اپنی عفونت زدہ زخمی دُم خالی پیٹ سے لپیٹے یہ سگِ آوارہ جس طرف سے بھی گزرتا کوچہ و بازار کے مکینوں کی ملامت، حقارت، مار دھتکار اور پھٹکار اس سگِ راہ کا تعاقب کرتی۔ یہ خارش زدہ سگِ راہ زدِ جاروب کھاتا لنگڑاتا ہوا اس قدر خست، خجالت اور ذلت و تخریب اور نحوست و ندامت سے چلتا کہ دیکھنے والوں کو گمان گزرتا کہ گویا طویل عرصہ تک ہر رہرو کو دیکھ کر پیہم بھونکنے کی وجہ سے ندامتِ عصیاں اور حلق کے ہلکان کے شدید احساس سے اس کی طوطے جیسی آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ آنکھیں بند کر کے گلی کے عین درمیان میں اپنی اگلی اور پچھلی ٹانگیں پھیلا کر لیٹ جانا اس خارش زدہ کتے کا معمول تھا۔ اس کتے کی ہئیت کذائی دیکھ کر اس پر مشکوک نسب کے متفنی چربہ ساز، تنقیص کو وتیرہ بنانے والے بے کمال سارق اور کفن دُزد جہلا کا شائبہ ہوتا تھا۔ جب یہ خواب کے عذاب میں ہوتا تو دیکھنے والے سوچتے شاید یہ سگ راہ معاشرتی زندگی کے حوصلہ شکن تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات پر غور و فکر میں جی کا زیاں کر رہا ہے۔ شبِ تاریک میں یہ کتا رضوان کے گھر کے سامنے والی تنگ گلی کی ناکہ بندی اس انداز میں کرتا کہ اپنی کریہہ جسامت سے پوری گلی کے داخلی دروازے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ سفلی علوم کے ماہر کئی سگ شناس اور سگ پرست اسے دیکھتے ہی پکار اُٹھتے کہ یہ سگ اپنے پچھلے جنم میں یقیناً کوئی تارک الدنیا مٹی کا مادھو ہو گا۔ بدلتے ہوئے موسم کی شدت بھی اس پر اسرار سگ راہ کے معمولات اور معاملات میں حائل نہ سکی۔ جب کبھی جھابو قرق رات کی تاریکی میں ناگاہ اس کی دُم پر پیر رکھ دیتا تو یہ کتا پیچ و تاب کھانے لگتا اور محسن کشی کی مثال بن کر بھونکنے لگتا۔ ’’ارے بچے! میں تمھیں مثلِ کاہ سمجھتا ہوں۔ جہاں فنا! ہمیں کا ہے کو پریشان کرتے ہو ہماری دم مروڑنے اور گردن توڑنے والے دیکھ کے چل کہ ہم علیل اور تارک الدنیا مٹی کے مادھو بھی تو خاک راہ میں پڑے ہیں۔‘‘
یہاں دیو جانس کلبی کی تلمیح سے یاد آیا کہ ممتاز یونانی فلسفی ارسطو (B: 324 BC.D: 322 BC) اور مشہور یونانی فاتح سکندر اعظم (B: 356 BC,D: 323 BC) کے دور سے تعلق رکھنے والا نا بینا قناعت پسند دانش ور دیو جانس کلبی بصارت سے محروم تھا مگر بصیرت رکھتا تھا۔ آخری عمر میں دیو جانس کلبی ایک دُور دراز علاقے کے ویرانے میں مٹی کے اک ٹب میں پڑ ارہتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ انسان کا دشمن انسان ہے جانور نہیں۔ ظالم و سفاک، موذی و مکار آدمی سے بچو جس کی درندگی ہزارہا خونخوار درندوں پر بھاری ہے۔ جب جنگ جُو فاتح سکندر اعظم نے پوری دنیا فتح کر لی تو اس کی غیر معمولی مہم جوئی کے بارے میں دیو جانس کلبی نے کہا:
’’اگر انسان قناعت پسند ہو تو وہ مٹی کے اس ٹب میں بھی خوش رہ سکتا ہے لیکن اگر وہ حریص ہو جائے تو پوری کائنات بھی اس کے لیے چھوٹی ہے۔‘‘
پوری دنیا کو مسخر کرنے کے بعد سکندر اعظم اپنے اُستاد اور محسن دیو جانس کلبی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شدید سردی کا موسم تھا قناعت پسند فقیر دیو جانس کلبی سردی سے بچنے کے لیے دھُوپ میں بیٹھا تھا۔ اتفاق سے سکندر اعظم اس طرح کھڑا تھا کہ سورج کی شعاعیں فقیر دیو جانس کلبی پر نہیں پڑ رہی تھیں۔ سکندر اعظم نے نہایت عاجزی سے دیو جانس کلبی سے کہا:
’’یا اُستاد! میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ مجھے اپنی کوئی خواہش بتائیں تا کہ میں اس کی تعمیل کر سکوں۔‘‘
مگر دیو جانس کلبی نے سکندر اعظم کی بات سُنی اَن سُنی کر دی کیو نکہ وہ جانتا تھا کہ دنیا کی ہوس کے اسیر حاکم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ حریت ضمیر سے جینے والے اور حریت فکر و عمل کو زادِ راہ بنانے والے درویش منش انسانوں کی خدمت کرے۔ جب سکندر اعظم کا اصرار حد سے بڑھنے لگا تو دیو جانس کلبی نے ایک شانِ استغنا سے پوری دنیا کو اپنے زیر نگیں کرنے والے فاتح جنگ جُو سالار سے کہا:
’’فاتح اعظم! سورج کی شعاعوں اور میرے درمیان آپ سدِ سکندری بن کر حائل ہو گئے ہیں اور دھُوپ مجھ تک نہیں پہنچ رہی۔ یہاں سے ہٹ جائیں تا کہ خورشید جہاں تاب کی شعاعیں مجھ تک پہنچیں اور میں سردی سے بچ سکوں۔‘‘
اس قناعت پسند مرد فقیر کی یہ بات سن کر سکندر اعظم اپنا سامنھ لے کر رہ گیا اور سر جھکائے واپس چلا گیا۔