ارحم تو نے نوٹ کیا بڑے دنوں سے سمیرا نہیں آ رہی انس نے لیکچر کاپی پر اتارتے ہووے کہا
شکر ہے نہیں آ رہی ناک میں دم کیا ہوا تھا اس نے" ارحم جو زویا کا لیکچر غور سے سن رہا تھا سمیرا کے ذکر پر بیزاری سے بولا
اب ایسا تو نہ که مجھے تو لگتا ہے بیچاری سچ میں تجھ سے محبت کر بیٹھی ہے".
"تو یہ اسکا مسلہ ہے میں کیا کر سکتا ہوں اس میں اور ویسے بھی وہ مجھے کسی شریف گھر کی لڑکی ہرگز نہیں لگتی تھی حلیہ دیکھا تھا کبھی تم نے اسکا "
جو بھی ہو خوبصورت تو بہت تھی تمہارے ساتھ خوب جچتی انس نے عورتوں کا سا لہجہ اپنایا
ارحم مسکرا دیا
" بیشک خوبصورت ہو پر وہ میرے معیار پر پوری نہیں اترتی"
میرا خیال ہے تو نے کنوارہ ہی رہ جانا ہے انس نے تاسف سے کہا
"اب ایسی بھی بات نہیں ہے میں جلد شادی کروں گا "
کیا ! انس اسکے مونھ سے ایسی بات سن کر شیخ پڑا اس بات کا لحاظ کئیے بغیر کے وہ کلاس میں بیٹھا ہے
کیا پرابلم ہے انس زویا نے لیکچر روک کر سختی سے پوچھا
میڈم مجھے لگتا ہے میرے دوست کی طبیعت خراب ہے اس نے اک نظر ارحم کو دیکھ کر کہا
ارحم کا دل چاہا انس کو اٹھا کر بلکہ لات مار کر کلاس سے باہر پھینک دے جو یقیناً اب کوئی فضول بکواس ہی کرنے والا تھا
اگر آپکی طبیعت زیادہ خراب ہے تو اپ لیکچر اتٹنڈ نہ کریں زویا نے ذرا نرمی سے کہا
نو میڈم ای ایم فائن "
جیسے آپکی مرضی اور انس اب ڈسٹربنس نہیں ہونی چاہئے"
جی میڈم "
تو باہر نکل ذرا اب .ارحم دبے دبے لہجے میں دھڑا
انس مسکرا دیا
-----------------------------------------------
یار اب بتا بھی کس سے شادی کرے گا اور کب کرے گا؟ انس سارا دن اسی بات کو لے کر اسکا دماغ کھاتا رہا اور اب پارکنگ میں بھی اک دفع پھر ووہی بات لے کر کھڑا ہوگیا
چپ چاپ بائیک سائیڈ پر کر مجھے گاڑی نکالنی ہے"
" نہیں پہلے تو بتا " وہ بھی اڑ کر کھڑا ہوگیا
" مس زویا مجھے اپ سے بات کرنی ہے"
تبھی گاڑی کے دوسری طرف سے پروفیسر طلال کی آواز ائی
جی کہئے میں سن رہی ہوں یقیناً یہ زویا کی آواز تھی
ارحم اور انس لاشعوری طور انکی طرف متوجہ تھے
" کیا یہ بہتر نہیں کے ہم کہیں بیٹھ کر بات کریں"
آپکو جو کہنا ہے یہیں که دیں اور پلیز ذرا جلدی میں لیٹ ہو رہی ہوں اسکی بیزار سے آواز ائی
زویا مجھے لگتا ہے کے میں اپ سے محبت کرنے لگا ہوں"
ارحم نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی انس اسکی طرف متوجہ نہیں تھا ورنہ اس سے غصے کی وجہ ضرور پوچھتا
"محبت اپکا مسلہ ہے میں کیا کر سکتی ہوں" زویا کی پرسکون آواز اسے تسلی دے گئی
زویا پلیز ایسا نہ کہو میں شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے"
ارحم نے بمشکل خود کو قابو کیا
وہ طلال سے جھگڑ کر زویا کا تماشا نہیں بنوانا چاہتا تھا
" مسٹر طلال یہ سچی محبتوں کا اظہار یوں سرے راہ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اگر اپکا دعوا ہے کے اپ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں تو میرا مشورہ یہ ہے کے اپ میرے گھر والوں سے بات کریں جو انکی مرضی ہوگی ووہی میرا فیصلہ ہوگا "
ارحم کو خود پر قابو پانا مشکل ہوگیا وہ انس کو نظرانداز کر کے زویا کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا
" مس زویا اگر آپکو فرست مل گئی ہو اور آپکی باتیں ختم ہو گئیں ہو تو میرے ساتھ چلیں"
زویا یوں اچانک اسے گاڑی کی دوسری طرف سے نکلتا دیکھ کر جان گئی کہ وہ ساری باتیں سن چکا ہے اسکا دل ارحم کے تیور دیکھ کر کانپ سا گیا
طلال کو ارحم کی مداخلت خاصی ناگوار گزری لیکن خود پر قابو پا لیا
ٹھیک ہے مس زویا تو کل ملاقات ہوگی الله حافظ"
زویا نے محض سر ہلا دیا
چل کر میری گاڑی میں بیٹھو ارحم نے دبے دبے غصے سے کہا
میرے پاس گاڑی ہے وہ منمنائی
انس تم میری گاڑی میرے گھر پہنچا دینا انس جو اس ساری کروائی پر حیران کھڑا تھا کچھ نہ سمجھتے ہووے اس سے چابی لے کر چلا گیا
بیٹھو اس نے زویا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود دوسری طرف سے آ کر بیٹھ گیا گاڑی کا دروازہ اس نے اتنی زور سے بند کیا کے زویا کو پوری گاڑی لرزتی ہوئی محسوس ہوئی
پورا راستہ وہ اس کے کچھ بولنے کی منتظر رہی پر ارحم نے لب نہ کھولے
تیز ڈرائیونگ کرتے ہووے اس نے گاڑی زویا کے گھر کے سامنے آ کر روک دی گاڑی میں مکمل خاموشی تھی
زویا کی اسکے چہرے کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی پر اسکی نظریں ارحم کے ہاتھوں پر ضرور ٹک گئیں جو سٹیرنگ پر اتنی مضبوطی سے جمے تھے کے اس کی رگیں باہر کو نکل کر واضع ہو رہی تھیں
زویا نے ان سے نظریں چرا لیں اور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل ائی پر جب واپس جانے کے لئے قدم بڑھاۓ تو ارحم نے پکار لیا
طلال کے گھر والے اگر آئیں تو انہیں منع کر دینا ارحم نے که کر گاڑی اگے بڑھا دی
وہ جو اس بات کی امید لگے بیٹھی تھی کے شائد ارحم اس سے اپنی محبت کا اظہار کرے گا یا پھر ڈانٹے گا کے طلال کو گھر کیوں بولایا اسکے مونھ سےیہ بات سن کر دل مسوس کے رہ گئی
-----------------------------------------------------------
اک دفع پھر زویا کے کمرے میں اہم میٹنگ جاری تھی ان تینوں نے مل کر زویا کو طلال کو گھر بلانے پر خوب ڈانٹا
یار میں نے سوچا کے اگر میں نے اسے منع کیا تو شائد وہ نہ مانے اسی لئے میں نے اسے گھر والوں سے پوچھنے کے لئے کہا کہ اگر گھر والے منع کریں گے تو بات ہی ختم ہو جائے گی زویا نے اپنا خیال بیان کیا جسے کسی نے بھی پسند نہ کیا
" اور زویا صاحبہ اگر گھر والوں کو اس رشتے پر اعتراض نہ ہوا تو پھر کیا کریں گی اپ، ارحم کو بھول جایئں گی ؟ مناہل نے طنزیہ پوچھا
زویا کا دل اک لمحے کے لئے دھڑکنا بھول گیا یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں کے گھر والے ہاں بھی کر سکتے ہیں "
سوچنے کا کام دماغ کرتا ہے لیکن تمہارے پاس چونکے یہ سہولت ہے ہی نہیں اسی لیے تمہارا کوئی قصور نہیں میری جان " ردا نے بھی طنز کیا
"ہان ہان اب تم ہی رہ گئی ہو تم بھی اک عدد طنز کا تیر برسا کر قصر پوری کر دو" اس نے کچھ کہنے کے لئے مونھ کھولتی حمنہ کو پہلے کی ٹوک دیا
میں تو یہ کہنے والی تھی کے جو ہو گیا سو ہو گیا اب اگے کی سوچو کہ کس طرح تمہاری مدد کرنی ہے لیکن مجھے معاف کر دو میں اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں حمنہ نے اک اک لفظ چبا کر کہا تم لوگ ٹھیک کہ رہی تھی اس کے پاس واقعی دماغ نام کی شے موجود نہیں ہے
مناہل اور ردا ہنس دی اچھا یہ تو بتاؤ کہ اگر ارحم نے ساری باتیں سن لی تھیں تو اس نے کچھ کہا نہیں تمھیں یا طلال میں سے کسی کو؟ ردا نے اہم سوال اٹھایا
وہ تو بہت غصے میں لگ رہا تھا مجھے لگا خوب ڈانٹے گا پر اس نے ذرا سا بھی نہیں ڈانٹا بس مجھے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا اور چپ چاپ ڈرائیو کرتا رہا لیکن گھر کے باہر جب میں گاڑی سے اتر ای تھی اس نے کہا کے میں طلال کے رشتے سے منع کردوں"
ہاؤ رومانٹک حمنہ کو یہ بات خاصی پسند ائی"
کیا خاک رومانٹک تم نے پوچھا نہیں کیوں انکار کروں رشتے سے ؟ ردا کو غصہ آ رہا تھا
نہیں وہ که کر چلا گیا تھا"
ہنہ نخرے تو دیکھو ذرا ،خود تو تمہارا رشتہ لینے سے انکار کر دیا اب جب کوئی دوسرا تم سے شادی کرنا چاہتا ہے تو مسلہ ہو رہا ہے اسے" ہمیشہ کی طرح ردا کو جلد ہی غصہ آ گیا
"حوصلہ کرو یار وہ اس سے پیار کرتا ہے تبھی تو اسے منع کر رہا تھا ورنہ اسے کیا زویا کسی سے بھی شادی کرے" مناہل نے ردا کو ٹھنڈا کرنا چاہا اور ساتھ ہی ساتھ زویا کو بھی تسلی دی
پیار کرتا ہوتا تو کبھی محبت کا اظہار تو کرتا چلو مان لیتے ہیں کے اظہار نہیں کرنا چاہتا مگر زویا سے شادی کا اسکے پاس جو گلوڈن چانس تھا وہ بھی تو اس نے خود رشتے سے انکار کر کے گنوا دیا ردا کی باتیں زویا کو کڑوی ضرور لگی مگر ساتھ ہی ساتھ سچ بھی لگ رہی تھیں
------------------------------------------
چپ چپ کھڑے ہو ضرور کوئی بات ہے" صابر اسکے افس روم میں کسی کام سے آیا لیکن اسے کسی گہری سوچ میں کھڑکی کے پاس کھڑا دیکھ کر گنگنانے لگا
ارحم اسے سامنے پا کر کھڑکی سے پاس سے ہٹ کر اپنی چیئر پر آ کر بیٹھ گیا
اب بتا بھی کیا بات ہے؟ صابر بھی اسکے سامنے پڑی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا
یار میں کیا کروں اس کا وہ اتنی بیوقوف ہے کے کیا بتاؤں" اسکے پوچھنے کی دیر تھی کے وہ پٹھ پڑا
کون ؟ زویا ؟
ہان اور کون ہو سکتی ہے"
اب کیا کیا اس نے ؟ ارحم نے اک گہری سانس بھر کر اسے ساری بات که سنائی
یار میرا خیال ہے غلطی تیری ہے نہ تو تو نے کبھی زویا سے محبت کا اظہار کیا اور اوپر سے اس سے شادی سے بھی انکار کر دیا اب وہ بیچاری تمہارے انتظار میں تو نہیں نہ بیٹھ سکتی ساری زندگی"
لیکن وہ تو مجھ سے محبت کرتی ہے نا اقرار بھی کر چکی ہے پھر اس طلال کو اجازت دینے کی کیا ضرورت تھی"
تو طلال کو بھول جا اپنی غلطی پر دھیان دے تو نے زویا سے شادی سے انکار اپنی خراب معاشی حالت کی وجہ سے کیا تھا جبکہ تو بھی اس سے محبت کرنے لگا تھا پر تجھے کمزکمز اسے انکار کی وجہ ضرور بتانی چاہیے تھی تاکہ اگر وہ تیرا انتظار کرنا چاہتی تو اسکے پاس کوئی وجہ کوئی امید تو ہوتی اب وہ کس امید پر تیرا انتظار کرے نہ تو اسے یہ پتا ہے کے تو اس سے محبت کرتا ہے اور نہ یہ پتا ہے کے تو نے اس سے شادی سے انکار کیوں کیا"
اچھا ٹھیک ہے مان لیا کے میری غلطی ہے پر اب کیا کروں ؟
کرنا کیا ہے بس اسکے گھر رشتہ بھیج دے" اس نے جھٹ مشورہ دیا
پر اگر محترمہ نے بدلہ لینے کی خاطر انکار کر دیا تو"
تو تیری قسمت صابر لاپرواہی سے کہ کر اٹھ گیا
جب کہ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا
--------------------------------
امی مجھے اپ دونوں سے کچھ بات کرنی ہے تابندہ بیگم اورنرگس نانی اس وقت شام کی چاۓ پی رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ ہلکی پھلکی باتیں بھی جا جاری تھیں جب وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا
ہان بولو نہ بیٹا "
امی میں شادی کے لئے تیار ہوں اس نے اک ہی سانس میں که ڈالا
تابندہ بیگم اور نانی دونوں حیران تھی کے اچانک سے کیسے مان گیا
" کیا میرے بیٹے کو کوئی لڑکی پسند آ گئی ہے ؟ تابندہ بیگم حیرت کے جھٹکے سے سنھبلی تو خوش دلی سے پوچھا
ارحم نے مسکرا کر سر ہلایا
تابندہ بیگم کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہو سکتی تھی کے انکا بیٹا شادی کے لئے رضامند ہو گیا ہے
نانی البتہ تھوڑی سی پریشان تھیں کیوں کے وہ زویا کی ارحم میں دلچسپی سے اگاہ تھیں تبھی تو وہ رشتہ لے کر چلی گئیں تھی بغیر ارحم سے پوچھے انہیں زویا کے لئے دکھ محسوس ہوا
" بیٹا کون ہے وہ؟ کیا تمہارے ساتھ ہی پڑھتی ہے یا کہیں آفس میں تو کام نہیں کرتی" نانی نے تفتیشی لہجہ اپنایا
نہیں پیاری نانی ان دونوں کاموں سے بلکل ہٹ کر وہ مجھے پڑھاتی ہے"
ارحم کا اشارہ کس کی طرف تھا نانی اور تابندہ بیگم دونوں خوب سمجھ گئیں
دونوں کا دل خوشی سے جھوم اٹھا
"اپ دونوں کو کوئی اعترض تو نہیں نہ" ارحم ذرا گھبرا رہا تھا
ہمیں تو کوئی اعترض نہیں پر کہیں وہ لوگ پچھلی بار جو ہوا اس کی وجہ سے انکار نہ کر دیں نانی نے خدشہ ظاہر کیا
جس نے ارحم اور تابندہ بیگم کو بھی فکرمند کر دیا
" لیکن تم لوگ فکر نہ کرو اگر زویا ہمارے ارحم کی قسمت میں لکھی ہے تو اسے ہی ملے گی چاہے جو ہو جائے بحرال میں زرینہ سے بات کروں گی دیکھو پھر کیا ہوتا ہے"
ارحم پریشان سے ہو کر اٹھ گیا
اماں ابھی فون ملا کر بات کر لیں اب مزید انتظار کیا کرنا"
اچھا ملا دو مجھے زرینہ کا نمبر کر لیتی ہوں بات "
تابندہ بیگم نے نمبر ملا کر انہیں فون پکڑا دیا
----------------------------------------------------------
امی انکی ہمت کیسے ہوئی زویا کے لئے دوبارہ رشتہ لانے کی افہام غصے سے ٹھل رہا تھا
اب ایسا بھی کوئی گناہ نہیں کر دیا انہوں نے رشتہ ہی تو مانگا ہے اور میرا خیال ہے اس رشتے میں کوئی برائی بھی نہیں" انہوں نے اسے سمجھانا چاہا
لیکن امی ارحم نے خود انکار کیا تھا وہ جنجلایا
"وہ شرمندہ ہے تبھی تو دوبارہ رشتے کی بات کی ہے"
اب وقت نکل چکا میں اپنی بہن کی شادی ایسے کسی شخص سے نہیں کروں گا جو اسے ٹھکرا چکا ہے "
اچھے رشتے بار بار نہیں ملتے افہام" انہوں نے اسے بیڈ پر اپنے پاس بٹھایا
"کیوں نہیں ملتے کیا کمی ہے میری بہن میں اور وہ جو کسی طلال کا رشتہ آیا ہے اس پر بھی تو سوچا جا سکتا ہے نا "
ہر گز نہیں جب گھر کا دیکھا بھالا لڑکا موجود ہے تو باہر کیوں کریں "
"گھر میں تو پھر اوربھی بہت سے لڑکے ہیں امی"
"کیا مطلب؟ کس کی بات کر رہے ہو" زرینہ بیگم نا سمجھی سے بولیں امی میرا خیال ہے زویا کے لئے اسفند ٹھیک رہے گا اس نے کچھ جھجکتے ہوا کہ دیا
" پر بھابی نے تو کبھی مجھ سے اس قسم کی بات نہیں کی میرا خیال ہے انہوں نے کچھ اور سوچا ہے اسفند کے لئے "
جو بھی ہے اک دفع دادی سے بات کریں مجھے یقین ہے دادی تائی امی کو منا لیں گی"
زرینہ بیگم گہری سوچ میں گم ہو گئیں
--------------------------------------------
امی کیا کہا خالہ لوگوں نے ؟ رات کو ارحم انکے کمرے میں آیا تابندہ بیگم بیٹے کی بےتابی دیکھ کر مسکرا دیں
بڑی جلدی ہے میرے بیٹے کو وہ جو انکے پاس بیڈ پر آ کر بیٹھا تھا انکی گود میں سر رکھ لیا
پیاری امی اپ ہی تو کہتی تھی جلدی شادی کر لو اب جب میں جلدی کر رہا ہوں تو اپ دیر کر رہی ہو اس نے لاڈ سے کہا
اچھا بابا بس ہان ہونے دو پھر دیکھنا اک مہینے میں ہی زویا کو تمہاری دلہن بنا کر لے آؤں گی"
سچی ! وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ہان میرے چاند سچی انہوں نے پیار سے اسکی ٹھوڑی ہلائی
ویسے اپ کو کیا لگتا ہے خالہ لوگ ہان تو کر دیں گے نہ"
تمہاری خالہ اور خالو تو خوشی خوشی ہان کر دیں گے بس مجھے افہام کی طرف سے فکر لگی ہوئی ہے ان کے چہرے پر پریشانی چھا گئی
امی مجھے اپکا وہ بھانجا بلکل پسند نہیں ہے ہر وقت غصے میں رہتا ہے اب دیکھنا جب وہ میرا سالا بنے گا نہ کیسے دبا کر رکھوں گا میں اسے " اس نے بظاھر سنجیدگی سے کہا مگر تابندہ بیگم اسکی سنجیدگی میں چھپی شرارت کو پا کر مسکرا دیں
" بڑا پیار ہے زویا کو اپنے بھائی سے کچھ کہ کے تو دیکھنا تم اسکو پھر بتاۓ گی تمھیں وہ"
اک دفع آ تو جائے پھر خوب دیکھ لیں گے اسے بھی اور اسکے اکڑو بھائی کو بھی
ارے بتا نہ یار مس زویا تیری کیا لگتی ہیں"
وہ دونوں کوریڈور سے ہوتے ہووے کلاس کی طرف جا رہے تھے
تیری ہونے والی بھابی اس نے رک کر بتایا
کیا !!! دماغ ٹھیک ہے تیرا مس زویا اور تو ...
ہان یار تو ہی پوچھ رہا تھا کے میں کس سے شادی کروں گا تو سن لے میں زویا حسن سے شادی کروں گا "
پر کیسے ؟ انس ناسمجھی سے بولا
وہ میری کزن بھی ہے"
کیا ! اور تو نے کبھی بتایا بھی نہیں یعنی کے تم مجھے اپنا دوست سمجھتے ہی نہیں تبھی تو اتنی باتیں چھپا رکھی تھیں"
اچھا نہ یار اب ناراض تو نہ ہو"
اب ناراض بھی نہ ہوں ؟"
اچھا میرے یار ہوجا پر پلیز کلاس کی طرف چل دیر ہو رہی ہے"
دیر تو ہو گئی"
کیا مطلب ؟ ارحم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
وہ دیکھ تیری دیوانی آ رہی ہے اس نے سامنے سے اتی سمیرا کی طرف اشارہ کیا ارحم کا موڈ اسے دیکھتے ہی خراب ہو گیا وہ دونوں چلتے ہووے اسکے پاس سے گزر جانا چاہتے تھے مگر اس نے ارحم کو پکار لیا مجبوراً انہیں رکنا پڑا
ارحم مجھے اپ سے اکیلے بات کرنی ہے
ارحم یں بےبسی سے انس کو دیکھا مگر وہ کندھے اچکا کر کلاس کی طرف چل دیا
کیسے ہیں اپ ؟
آپکو کوئی ضروری بات کرنی تھی ؟ اس نے بیزاری سے پوچھا
میں اتنے دن نہیں آی اپ نے مجھے مس کیا ؟ اک اور بیزارکن سوال
مجھے اپ کے انے نہ انے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مس" وہ غصے سے بولا
مگر سمیرا پر تو مانو کوئی اثر ہی نہیں ہوا
اپ تو پوچھیں گے نہیں کے میں اتنے دن کیوں نہیں آی خیر خود ہی بتا دیتی ہوں میرے لئے رشتہ آیا تھا اور میرے گھر والوں نے مجھ سے پوچھے بغیر تے بھی کر دیا مگر میں نے بڑی مشکل سے گھر والوں کو اس رشتے سے انکار کے لئے منایا "
تو یہ سب اپ مجھے کیوں بتا رہی ہیں"
زویا جو لیٹ ہونے کی وجہ سے جلدی جلدی کلاس کی طرف جا رہی تھی ارحم کو کسی لڑکی کے ساتھ کھڑا دیکھ اس کے قدم خود بخود آہستہ ہوتے چلے گیۓ
یہاں تک کے وہ ارحم کے بلکل پیچھے آ کھڑی ہوئی
مگر ارحم کی پشت اسکی طرف تھی اسی لئے وہ اسے دیکھ ہی نہ سکا
اس رشتے کے لئے انکار میں نے آپکی وجہ سے کیا ہے اب میں چاہتی ہوں کے اپ اپنے والدین کو میرے گھر میرے رشتے کے لئے بھیجیں" ارحم کا دماغ اس لڑکی کی بےشرمی پر گھوم گیا
تمھیں شرم ...
سامنے سے ہٹیں پلیز" وہ زویا کی آواز پر حیرانی سے مڑا
لیکن زویا بغیر اسکی طرف دیکھے جلدی سے کلاس کی طرف چلی گئی
وہ حیران کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا
"بتایں نہ کب بھیجیں گے اپ ؟
بکواس بند کرو اس سے زیادہ اک لفظ نہیں سننا چاہتا تمہارے مونھ سے میں شرم نام کی چیز ہے کے نہیں تم میں ؟ میں نے کب تم سے محبت کے دعوے کے ہیں جو رشتہ لاؤں تمہارے لئے"
لیکن میں تو محبت کرتی ہوں نہ اپ سے اسکی آواز میں غم اور غصہ شامل تھا
یہ تمہارا مسلہ ہے میں کچھ نہیں کر سکتا "
ارحم اتنے سنگدل نہ بنو"
ارحم بغیر کوئی جواب دیے واپس مڑ گیا کلاس میں جانے کا اسکا اب کوئی ارادہ نہیں تھا
میرا دل دکھانے کی سزا تمھیں ضرور ملے گی ارحم !
اسے اپنی پیچھے سمیرا کی دکھ میں لپٹی آواز سنائی دی مگر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا
----------------------------------------------------------------