مے ای کم ان میڈم وہ شائد بھاگتا ہوا آیا تھا اسی لئے سانس ذرا پھولا ہوا تھا
زویا جو اٹینڈینس لگا رہی تھی اسکی طرف متوجہ ہوئی" نو"
ارحم کا چہرہ خفت سے سرخ ہو گیا
اسے صبح ہی اک فائل صابر کو دینا تھی اسی لئے پہلے آفس جانا پڑا وہاں سے ٹائم پر نکلنے کے باوجود وہ ٹریفک میں پھنس گیا اور اب وہ محض پانچ منٹ لیٹ پہنچنے پر کلاس سے باہر کھڑا تھا
زویا کو اسکی حالت نے مزہ دیا اسی لئے اسے اگنور کر کے لیکچر دینا شروع کر دیا
مجبوراً ارحم کو وہاں سے ہٹنا پڑا
پوری کلاس کے سامنے یہ بےعزتی اسے غصہ دلا رہی تھی پر وہ کچھ نہی کر سکتا تھا اسی لئے چپ چاپ لائبریری چلا گیا
باقی کا دن اسی بےعزتی نے اسکا موڈ خراب رکھا
-----------------------------------------------------------
آسمان پر لالی پھیلی تھی
سب بڑے نیچے ہال میں بیٹھے چاے پی رہے تھے اور لڑکے گارڈن میں کرکٹ کیھلنے میں مصروف تھے
وہ چاروں چھت پر چلی آئی
آج بڑی خوش لگ رہی ہو" ردا نے اسے دیکھ کر کہا
وہ جو نیچے گارڈن میں دیکھ رہی تھی مسکراتے ہووے پلٹی
مناہل اور حمنہ بھی انہی کی طرف متوجہ ہو گیں
ہان خوش تو میں ہوں" اس نے اک ادا سے اپنے لمبے بھورے بالوں کو جو کے ہوا میں اڑ رہے تھے کھول کر دوبارہ کیچر میں سمیٹا
اب بتاؤ بھی کیوں خوش ہو" حمنہ کو زویا کی خوشی کی وجہ جاننے کا زیادہ تجسس تھا اسی لئے اپنے ہاتھ میں پکڑے ناول کو جھٹ سے بند کر دیا
" میں نے آج ارحم کی انسلٹ کی"
کیا! حمنہ اور مریم چیخی
ردا البتہ اسے حیرانی سے دیکھ رہی تھی
زویا نے فخر سے سر ہلایا" جی ہان میں نے یعنی پروفیسر زویا حسن نے ارحم خان کو پوری کلاس کے سامنے میری کلاس میں بیٹھنے سے منع کر دیا اور وہ شرمندہ ہو کر وہاں سے چلا گیا "
زویا تمھیں ذاتی معملات کو اپنے شعبے سے دور رکھنا چائیے تمہاری وجہ سے اسکی تعلیم کا حرج نہی ہونا چائیے یار" مناہل نے اسے سمجھایا
زویا نے بغیر کچھ کہے دوبارے اپنی توجہ نیچے گارڈن کی طرف مبذول کر دی جہاں اب سب لڑکے تھک کر بیٹھ چکے تھے
مناہل سمجھ گئی کے وہ اسکی بات نہیں ماننا چاہ رہی لہٰذا اس نے بھی خاموشی اختیار کر لی
-------------------------------------------------------------
کیا بات ہے ارحم تیرا موڈ کیوں اتنا خراب ہے ؟ صابر نے اسے بلاوجہ سیکرٹری کو ڈانٹتے دیکھا تو خود کو پوچھنے سے روک نہ سکا
کچھ نہیں بس یوں ہی ذرا غصہ آ گیا تھا اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی
" یوں ہی تو غصہ نہیں اتا میرا خیال ہے تو کسی اور کا غصہ سب پر نکال رہا ہے لیکن خیر تو بتانا نہیں چاہ رہا تو الگ بات ہے"
صابر نے گھہری نظروں سے اپنے خوبرو دوست کو دیکھا
ارحم مسکرا کر سیدھا ہو بیٹھا
ایسی کوئی بات نہیں ہے یار بس صبح ذرا موڈ خراب ہو گیا تھا "
صابر نے مسکرا کر اسے دیکھا
اب وجہ بھی بتا دے"
یار صبح پروفیسر نے کلاس میں نہیں بیٹھنے دیا"
صابر ہنس دیا تو اس میں موڈ خراب کرنے والی کیا بات تھی یہ ظالم استاد صدیوں سے ہم مظلوم لڑکوں پر یہ ظلم ڈھاتے آے ہیں ہان اگر کوئی حسین لڑکی ہو تو بات الگ ہے اسے ضرور کلاس میں بیٹھنے دیتے ہیں" اس نے اک آنکھ دبا کر کہا
بات ایسی نہیں ہے مجھے" پروفیسر زویا حسن "نے اپنی کلاس میں نہیں بیٹھنے دیا اس نے سنجیدگی سے بتایا
اب کی بار صابر بھی چونکا
وہ زویا حسن...
اس نے حیرانی سے جملہ ادھورا چوڑا
ہان وہی زویا حسن اس نے بےبسی سے بتایا
صابر پہلے تو حیران ہوا لیکن پھر ارحم کی حالت دیکھ کر اسکی ہنسی نکل گئی
" اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے یار" ارحم جھنجلایا
صابر نے بمشکل اپنی ہنسی روکی
"اب دیکھنا وہ تجھ سے کیسے بدلہ لیتی ہے "
مجھے سمجھ نہیں اتا میں نے ایسا بھی کیا گناہ کر دیا مجھے جو اس وقت ٹھیک لگا میں نے وہ کیا "
"تو میرے یار اب جیسا اسے ٹھیک لگے گا وہ کرے گی تو بس اپنی خیر منا" صابر نے اسے ڈرانا چاہا
دیکھا جائے گا "وہ جھنجلا کر اٹھ کھڑا ہوا اور کرسی کی پشت سے اپنا کوٹ اٹھا کر پہن لیا
"مجھے اپنے حالات سے اگاہ ضرور کرتے رہنا "صابر نے مزے سے کہا
وہ بغیر کچھ کہے آفس سے نکل آیا
مگر اندر سے وہ فکرمند ضرور تھا کے زویا حسن سے اسے کسی بھلائی کی امید نہیں تھی پر وہ کسی قیمت پر بھی اپنی پڑھائی کو داؤ پر نہیں لگا سکتا تھا اتنی مشکل سے تو حالات اسکے حق میں ہووے تھے اور اسے اپنی ادھوری تعلیم کو مکمل کرنے کا موقع مل رہا تھا وہ زویا کی وجہ سے یہ موقع گوا نہی سکتا تھا
---------------------------------
کل کی بےعزتی ہی کا اثر تھا کے آج وہ کلاس میں سب سے پہلے پہنچا تھا اور سب سے پہلی سیٹ پر آ بیٹھا مقصد زویا حسن کو اپنی موجودگی جتانا تھا
مگر جب وہ آی تو سواۓ اسکے سب پر اک نظر دوڑائی یعنی واضح طور پر اسے نظر انداز کیا پتا نہیں وہی اس قدر حساس ہو رہا تھا یا واقعی ایسا تھا
اف میں کیوں اس کی توجہ چاہ رہا ہوں وہ جھنجلایا
تجھے کیا ہوا ہے" انس نے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا
کچھ نہیں" اس نے اپنی نوٹ بک کھول کر سامنے رکھ لی
یار تو نے بتایا نہیں تو میڈم کو پہلے سے جانتا ہے کیا "انس کو کچھ یاد آیا تو پوچھ بیٹھا
ابھی ارحم نے جواب دینے کے لئے مونھ کھولا ہی تھا کے زویا کی آواز نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا
" اپ دونوں پہلی ہی رؤو میں بیٹھے مسلسل بولے جا رہے ہیں اگر آپکو لیکچر نہیں سننا تو براےمہربانی کلاس سے نکل جاییں اس نے باہر کی طرف اشارہ کیا
پوری کلاس میں سکتا چاہ گیا کیوں کے بول تو تقریباً سبھی رہے تھے
ارحم غصے سے کھول گیا اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتا انس نے جلدی سے معذرت کر لی اور وہ دوبارہ لیکچر دینے میں مصروف ہو گئی
مگر ارحم کا دماغ اک لفظ بھی سمجھنے سے قاصر تھا غصے سے جو ابل رہا تھا
-----------------------------------------------------
چاچی ردا کہاں ہے" مناہل نے زرینہ بیگم سے پوچھا جو افہام کی ماں اور اسکی ہونے والی ساس تھی
بیٹا وہ تو اپنی کسی دوست کے گھر گئی ہے تم بتاؤ کچھ کام تھا انہوں نے ہنڈیا میں چمچہ ہلاتے ہووے پوچھا
" نہیں چاچی میں تو یوں ہی آی تھی اپ ہنڈیا کیوں بنا رہی ہیں لائیں میں بنا دوں اس نے اگے بڑھ کر ان کے ہاتھ سے چمچہ لے لیا
خدا خوش رکھے میری بیٹی کو" انہوں نے نثار ہوتی نظروں سے اسے دیکھا"
مناہل فطری طور پر شرما گئی
اچھا بیٹا تم ہنڈیا کو دیکھو ذرا میں افہام کا کمرہ ٹھیک کر لوں تب تک، ابھی آ جائے گا اور کمرہ گندا پڑا ہوا تو بلاوجہ موڈ خراب ہو جائے گا صاحب زادے کا انہوں نے مسکراتے ہووے کہا اور کچن سے باہر چلی گیں
ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کے افہام کچن میں چلاتا ہوا چلا آیا "امی جلدی سے کھانا دیں مجھے دوست کی طرف.. وہ جو سلاد بنا رہی تھی گھبرا کر پلٹی
افہام بھی اسے سامنے دیکھ کر خاموش ہو گیا
تم کیا کر رہی ہو یہاں" اس نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا "
وہ میں.. میں بس یونہی آی تھی مناہل تو اسے دیکھ کر یوں بھی گھبرا جاتی تھی اوپر سے اسکا سخت لہجہ اسے ہربرانے پر مجبور کر دیتا تھا
اوپر سکوں نہیں اتا تمھیں جو ہر وقت نیچے ہی پائی جاتی ہو "
مناہل پر گھڑوں پانی پڑ گیا (کیا سوچتے ہوں گے یہ کے میں انکے کے لئے اتی ہوں) میں چلتی ہوں وہ بھاگنے کو تھی
"رکو جا کہاں رہی ہو میرا خیال ہے تم کھانا بنا رہی تھی پہلے وہ بناؤ پھر دے کر جانا"
وہ کہ کر پلٹ گیا
" صاف صاف که دینے میں کیا جا رہا تھا کے اپ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر دوں ہنہ لیکن نہیں جب تک رعب نہیں ڈالیں گے پتا کیسے چلے گا کے افہام خان صاحب ہیں"
وہ دوبارہ سلاد بنانے میں مصروف ہو گئی
-----------------------------------------------------
آج اتوار تھا سبھی لوگ حال کمرے میں جمع تھے چاروں لڑکیاں نیچے کشن پر بیٹھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں
مناہل ریسیپی بک لئے بیٹھی تھی ردا موبائل پر کسی کو میسج کر رہی تھی حمنہ دادی کی نظروں سے بچ کر ناول پڑھنے میں مصروف تھی اور زویا اپنا لیکچر تیار کر رہی تھی
افہام، اسفند اور سعد میچ دیکھ رہے تھے جبکہ سب بڑے چاے پینے سے کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو کرنے میں مصروف تھے
"بڑے دن ہو گئےچھوٹی دلہن تمہاری بہن کا فون نہیں آیا نہ ہی اب ملنے اتی ہے خیر تو ہے اچانک دادی کو یاد آیا تو پوچھ لیا
اما آپکو تو پتا ہے جب سے اسکے بیٹے نے ہماری زویا کے لئے انکار کیا تھا اسکے بعد سے تابندہ ہم سے شرمندہ سی رہنے لگی ہے اسی لئے زیادہ رابطے میں بھی نہیں ہے زرینہ بیگم نے افسردگی سے بتایا
ارے اس بات کو تو سال ہونے کو ہے اور ویسے بھی یہ میرا اور نرگس کا فیصلہ تھا ہم نے سوچا تھا کے جیسے ہم نے اپنی بچپن کی دوستی کو تمہاری اور باقر کی شادی کر کے رشتےداری میں بدلا تھا اسی طرح اک دفع پھر میری پوتی اور اسکے نواسے کی شادی کر کے یہ بندھن اور مظبوط کر لیں مگر شائد قسمت میں ایسا نہ تھا اور ویسے بھی آج کل کے بچے کہاں ماں باپ کی مرضی پے یوں سر جھکاتے ہیں، اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں"
اچھا اب تم اداس تو نہ ہو دادی نے زرینہ بیگم کے چہرے پر چھائی اداسی دیکھ کر انکے سر پر ہاتھ پھیرا
"بلکہ یوں کرو کے ابھی نرگس کے گھر کال کرو اور انہیں آج شام کھانے پر بولا لو" زرینہ بیگم کا چہرہ کھل اٹھا
انہوں نے اک نظر شوہر کے چہرے پر ڈالی مگر انہوں نے بھی مسکرا کر ہان کا اشارہ دیا
" زویا بیٹا ذرا خالہ کا نمبر تو ملا کے دو زرینہ بیگم نے اسکے پاس آ کر کہا
" مگر کیوں امی وہ جنجلائی
بس کچھ کام ہے تم ملا کے تو دو "
چونکے وہی فون کے پاس بیٹھی تھی اسی لئے مجبوراً ملانا پڑا
دوسری ہی بیل پر فون اٹھا لیا گیا
مگر مقابل کی آواز نے زویا کی دل کی دھڑکن اک پل کے لئے روک دی
"ہیلو کون"
میں زویا بات کر رہی ہوں خالہ سے بات کراؤ اس نے جی کڑا کر کے نحوست سے کہا
زویا میڈم آیندہ مجھ سے اس لہجے میں بات مت کرنا میں مزید برداشت بلکل نہیں کروں گا سمجھی" وہ بھی پھٹ پڑا"
امی اپ خود بات کر لیں" زویا نے غصے سے فون امی کو تھما دیا اور خود اٹھ کر وہاں سے چلی گئی
زرینہ بیگم نے اپنے بھانجے سے سلام دعا کرنے کے بعد کچھ دیر اپنی بہن تابندہ سے بات کی اور آخر کار کل ملنے کا پروگرام بنایا
-----------------------------------------------------