ارحم تمیں پتا ہے آج کوئی نئی پروفیسر آ رہی ہے سنا ہے یونگ سی ہے
ابھی اس نے یونیورسٹی میں قدم رکھا ہی تھا کے انس نے آ کر اسے یہ منحوس خبر دی
اس وقت تو اسے یہ خبر منحوس ہی لگی تھی، مگر بعد میں اسی دن اور اسی خبر کو یاد کر کے وہ کئی بار مسکراتا تھا
پتا نہی کب یونیورسٹی والے ان سفارشی لوگوں کو رکھنا چھوڑیں گے خدا کرے اب اس سفارشی کو پڑھانا بھی اتا ہو ورنہ ہمارا تو سال برباد گیا" اس نے افسوس سے کہا
انس نے بھی تائید کی
آج پوری کلاس ہی نئی ٹیچر کو دیکھنے کے شوق میں جمع تھی مگر پروفیسر صاحبہ آ کے نہی دے رہی تھی پورے پندرہ منٹ اپر ہو گیۓ تھے
" انس میرا خیال ہے آج وہ نہی آییں گی ٹائم ضائع کرنے سے اچھا ہے ہم لائبریری جا کر نوٹس بنا لیں"
وہ دونوں ابھی اٹھ ہی رہے تھے کے پروفیسر صاحبہ نے کلاس میں قدم رکھ دیا
ارحم تو اسے دیکھ کر ہی اپنی جگہ جم گیا "یہ یہاں پروفیسر "بلااردہ وہ که گیا
"تو انہیں جانتا ہے انس نے حیرت سے پوچھا
وہ جواباً کچھ نہ کہ سکا
کلاس کے کچھ شریر لڑکوں نے اسے دیکھ کر پیچھے سے ہوٹنگ شروع کر دی مگر اس کے اعتماد میں کمی نہی آیی وہ خاموشی سے چلتی ہوئی اسٹیج پر یی اور رجسٹر ...اٹھا لیا بغیر اک بھی لفظ کہے
کلاس میں سرگوشیاں جاری تھی ارحم اک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا مگر وہ رجسٹر کی طرح متوجہ رہی اور سب کی اٹنڈانس مارک کرتی رہی
ارحم خان کے نام پر اک لمحہ وہ رکھی اور حیرت سے سر اٹھایا
سامنے بیٹھے ارحم کو دیکھ کر وہ بس اک لمحے کے لئے مسکرائی اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی
باقی کسی نے اس کی اس حرکت کو محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر ارحم ضرور کھول گیا
وہ جانتا تھا کے اب اس کے ساتھ کچھ بھی اچھا نہی ہونے والا
اسلام و علیکم امی!
وعلیکم اسلام آ گئی یونیورسٹی سے بیٹا
جی امی آ گئی جلدی سے کھانا دے دیں بہت بھوک لگی ہے" اس نے اپنا پرس کچن کاؤنٹر پر رکھا اور کرسی نکال کر بیٹھ گئی
ہان ابھی دیتی ہوں لیکن تم ہاتھ مونہ دھو کر او پہلے"
امی! اس نے مونہ بنایا
چلو اٹھو شاباش"
وہ ناچاہتے ہووے بھی اٹھ گئی
زرینہ بیگم نے جلدی سے کھانا گرم کیا تب تک وہ بھی آ گئی
کیا بنایا ہے آج اس نے کرسی پر بیٹھتے ہووے پوچھا
بریانی بنائی تھی ردا نے آج ،ووہی گرم کی ہے یہ لو انہوں نے بریانی کی پلیٹ اس کے سامنے رکھی اور خود بھی اس کے سامنے کرسی گھیسٹ کر بیٹھ گیں
" ہان تو کیسا گزرا یونیورسٹی کا پہلا دن "
پہلا دن تو نہی تھا امی میں پہلے بھی تو یونیورسٹی جاتی رہی ہوں"
ہان پر پہلے شاگرد کی حثیت سے جاتی تھی اور اب استاد کی حثیت سے جاتی ہو فرق تو ہے نہ"
جی فرق تو ہے
اس نے سر ہلایا اور پھر سارے دن کی روداد مختصر طور پر سنا دی
چلو الله کا شکر ہے اللہ میری بیٹی کو خوب کامیابی دے"
امین! اچھا امی میں اب ذرا آرام کر لوں"
ہان جاؤ بیٹا تھک گئی ہوگی تم بھی"
وہ اپنا بیگ اٹھا کر کمرے میں چلی آئ
آ گئی تم ردا جو ابھی باتھ روم سے نہا کر نکلی تھی اسے دیکھ کر
ہان آ گئی اس نے اپنا پرس ٹیبل پر رکھا اور بیڈ پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتارنے لگی "کیسا گزرا دن" ردا پاس ہی آ کر بیٹھ گئی
اف یار اک تو بندہ جوئنٹ فیملی میں پس کر رہ جاتا ہے پہلے امی کو بتایا اب تمھیں بتاؤں پھر شام کو تایا تائی اور باقیوں کو بتاؤں حد ہے"
ارے ارے کیا ہوگیا ہے زویا تمھیں اتنے غصے میں کیوں آ گئی ہو. نہیں بتانا تو نہ بتاؤ ردا نے ناراضگی دکھائی اور اٹھ کر ڈریسنگ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی
زویا بیڈ پر سیدھی ہو کر لیٹ گئی اور بازو آنکھوں پر رکھ لیا
مگر اب نیند کہاں انی تھی جب تک کے ردا کو بتا نہ دیتی
اس لئے پھر اٹھ بیٹھی
" اچھا سنو یونیورسٹی میں وہ بھی تھا"
ردا جو اسے نظر انداز کر رہی تھی حیرانی سے اس کی طرف مڑی
" کون تھا"
ارحم"
زویا نے آہستہ سے کہا"
کیا! مگر وہ وہاں کیا کر رہا تھا ردا چلائی
یونیورسٹی میں کوئی کیا کرنے اتا ہے یار! یا پڑھنے اتا ہے یا پڑھانے"زویا جھنجلائی
" پر وہ پڑھا کیسے سکتا ہے، کہیں وہ پڑھنے تو نہی... اگے کی بات ادھوری چھوڑ کر اس نے زویا کی طرف دیکھا
زویا نے آہستہ سے سر ہلایا
کیا! ردا اک دفع پھر چلائی
یار چلاؤ تو نہیں"
تو کیا کروں تم نے بات ہی ایسی بتائی ہے"
مجھے بتاؤ میں کیا کروں اب"
اس جھٹکے کے بعد میرا تو دماغ ہی کام کرنا چھوڑ گیا ہے تم ینہی بیٹھو سونا مت میں دو تین دماغ لے کر اتی ہوں"
زویا نے حیرت سے اسے دیکھا
ردا ہنس دی ارے یار میرا مطلب میں مناہل اور حمنہ کو لے کر اتی ہوں"
وہ تو سو رہی ہونگی نہ"
تو کیا ہوا اٹھا لاؤں گی ردا کہتے ساتھ ہی باہر چلی گئی
کچھ ہی دیر میں مناہل اور حمنہ گرتی پڑتی ہوئی ردا کے ساتھ آ گیں
یار کیا آفت آ گئی ہے پتا بھی ہے دوپہر کو ہم نے سونا ہوتا ہے پھر بھی جگا لاتی ہو حمنہ نے اونگھ روکتے ہووے کہا
اچھا اسے چھوڑو یہ بتاؤ افہام آ گئے مناہل نے کچھ شرماتے ہووے پوچھا
اف اسے اپنی پڑ گئی ہے ردا نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
تو کیوں بولایا ہے مناہل نے بدمزہ ہو کر پوچھا
زویا کا مسلہ حل کرنے"
چاروں بیڈ التی پالتی مار کر سر جوڑ کر بیٹھ گیں
کیسا مسلہ ? حمنہ نے سرگوشی کی
ارحم اس کی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے اور یہ میڈم اب اسے پڑھائیں گی"
اک دفع پھر کمرہ چیخ کی آواز سے گونجا
کیا! منہال اور حمنہ نے حیرت سے زویا کی طرف دیکھا وہ سر جھکاۓ بیٹھی تھی
سارے گھر کو جگاؤ گی کیا ردا نے ڈانٹا
یار کیا کریں خبر ہی ایسی دی تم نے مناہل نے بےبسی سی کہا
ویسے بھی ہر چھوٹی چھوٹی بات پر اسکی چیخ نکل جانا معمولی تھا
---------------------------------------------------
ارحم بیٹا پہلے کھانا کھا لو پھر پڑھ لینا"
نہیں امی جان ابھی بہت کام پڑا ہے پہلے یونیورسٹی کی اسائنمنٹ بنانی ہے اور صابر نے آفس کی اک فائل بھیجی ہے وہ بھی دیکھنی ہے"
خود کو اتنا مت تھکایا کرو بیٹا انہوں نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا
وہ انکی ممتا بھرا لمس محسوس کر کے مسکرا دیا
" پیاری امی جان مجھے عادت ہو گئی ہے اس محنت کی بس اک سال ہی تو ہے پھر میرے ہاتھ میں ماسٹر کی ڈگری ہوگی اور میں اچھے سے صابر کے ساتھ مل کر بزنس سنھبال سکوں گا"
الله لمبی عمر دے صابرکو بہت ہی نیک بچہ ہے کتنی مدد کی اس نے تمہاری اور اب بھی دیکھو بزنس کا سارا بوجھ خود پر لے کر تمہارا پڑھنے کا خواب پورا کر دیا"
جی امی اس نے میری ہمیشہ بہت مدد کی مجھے بھی موقع ملا تو میں اسکے کام ضرور آؤں گا"
انشاللہ "اچھا میں کھانا رکھ کے جا رہی ہوں ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھا لے نا اور تھوڑا آرام بھی کر لینا"
جی امی اس نے ہلکے سے سر ہلایا اور دوبارہ اسائنمنٹ کی طرف متوجہ ہو گیا
"یار یہ تو بلکل میرے ناول جیسا سین ہو گیا لیکن تھوڑا سا الٹ ویسے تو ہیرو ٹیچر ہوتا ہے اور ہیروئن بیچاری اسکی مظلوم سی سٹوڈنٹ لیکن اس میں بھی مزہ اے گا تم اسکی کھنچائی کرتی رہنا" حمنہ نے مزے سے مشورہ دیا
جو بہرحال زویا کو تو پسند آیا آخر کو اس سے بدلہ بھی تو لینا تھا
نہیں زویا تم اسکی بات مت سنو" مناہل نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا
"لیکن کیوں" زویا نے حیرت سے اسے دیکھا
" یار اس نے صرف اپنی مرضی واضح کی تھی اس بات کا بدلہ بہرحال نہی لیا جا سکتا "
"نہیں زویا میرا خیال ہے تمھیں اسے ضرور ستانا چاہئیے کمزکم دل کو تو تھوڑا سکوں ملے گا" ردا نے بھی اپنی راۓ پیش کی
ہاں مجھے اس وقت جتنی بےعزتی محسوس ہوئی تھی اتنی ہی بےعزتی میں اسکی کر کے رہوں گی" اس نے اک عزم سے کہا
حمنہ اور ردا نے اسکی پیٹھ تھپتھپائی پر مناہل نے انہیں دیکھ کر تاسف سے سر ہلایا اسے بہرحال ارحم سے ہمدردی تھی
--------------------------------------------------------