وہ عجیب تھی۔ جسم دیکھیے تو ایک لڑکی سی معلوم ہوتی، چہرے پر نظر ڈالیے تو بالکل بچی سی دکھائی دیتی اور اگر آنکھوں میں اتر جائیے تو ساری سموچی عورت انگڑائیاں لیتی ملتی۔ وہ سرخ اونچا سا فراک اور سیاہ سلیکس پہنے جگمگا رہی تھی اور سیاہ گھنگھرالے بالوں کو جھٹک جھٹک کر ’’جیپ‘‘ میں اپنے سامان کا شمار کر رہی تھی اور میرے سامنے ایک دوپہر کھلی پڑی تھی۔ اس نے آنگن میں قدم رکھتے ہی اپنی ممی سے بھیا کے لیے پوچھا تھا۔ اونچے بغیر آستین کے بلاؤز اور نیچی چھپی ہوئی ساڑی میں کسی بندھی آنٹی نے، جنھیں ابھی اپنے بدن پر ناز تھا چمک کر بھیا کو مخاطب کیا، ’’نومی پوچھ رہی ہے کہ تم کون ہو؟‘‘
بھیا نے اداس چہرے پر سلیقے سے رکھی ہوئی رنجور آنکھیں چشمے کے اندر گھمائیں۔ روکھے سوکھے بالوں پر دبلا پتلا گندمی سا ہاتھ پھیرا۔ انکل نے بڑے سے بیگ کو تخت پر پٹکا۔ پیک تھوکنے کے لیے اگلدان پر جھکے اور بھیا بھاری آواز میں بولے۔ بھیا کی آواز ان کی شخصیت کو اور منفرد بنا دیتی ہے۔ غم میں بسی ہوئی کھوجدار آواز سے ہلکا ہلکا دھواں سا اٹھتا رہتا ہے اور جسے سن کر اجنبیت احساس کمتری بن جاتی ہے اور خواہ مخواہ متعارف ہونے کو جی چاہتا ہے، ’’بہت چھوٹی سی تھی جب دیکھا تھا اس نے‘‘
اور نومی کو اس طرح دیکھا جیسے کیلنڈر کو دیکھ رہے ہوں۔ جواب اس طرح دیا جیسے آنٹی سے کہہ رہے ہوں اسے بکس میں رکھ لیجیے ورنہ خراب ہو جائے گا دیہات میں، اور نومی بے چاری بھیا کی آواز میں شرابور کھڑی تھی۔ اس کی نظریں بھیا کے چہرے میں پیوست ہو چکی تھیں۔ انکل پکا گانا گانے والوں کی طرح کھنکار کر بولے، ’’بیٹی۔۔۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ وہاں گاؤں میں جہاں تم شادی میں جا رہی ہو تمہارے ایک کزن ہیں جو بہت سی کتابوں کے ’’آتھر ہیں۔۔۔ وہی تو ہیں یہ۔‘‘
بھابی جو نند کی شادی میں بھیا سے زیادہ اپنا آپا کھوئے بیٹھی تھیں ایک طرف سے بڑبڑاتی نکلیں اور بھیا کو لیے دوسری طرف چلی گئیں اور بھیا نے بے خیالی میں بھی، نومی کی نگاہیں بھی اپنے ساتھ ہی لیے چلے گئے۔ اور وہ بے چاری خالی خالی آنکھیں لیے گم سم کھڑی رہی، ’’جلدی کیجیے۔۔۔ پانی لدا کھڑا ہے۔‘‘ پھاٹک سے کسی نے ہانک لگائی۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ سارے میں سیاہ جامنی بادل چھائے ہوئے تھے اور اندھیرا پھیلا ہوا تھا جیسے سورج کی بجلی فیل ہو گئی ہو۔ اس دن بھی ایسا ہی دل مسوس ڈالنے والا موسم تھا۔
ابھی بارات آنے میں کئی دن باقی تھے لیکن مکان کا کونا کونا مہمانوں سے چھلک پڑا تھا۔ نہ کہیں تل رکھنے کی جگہ تھی اور نہ کسی کو دم مارنے کی مہلت۔ ایک تو برسات کی شادی وہ بھی دیہات میں اور دیہات بھی ایسا کہ سڑک پر ’’جیپ‘‘ دھنسی کھڑی ہے اور نکالنے کے لیے بیلوں کی جوڑیاں بھیجی جا رہی ہیں۔ کام تو جیسے آسمان سے پانی کی طرح برس رہا تھا اور بھیا کا یہ حال تھا کہ پاویں تو اپنی کھال تک اتار کر اپنی بہن کے جہیز میں دے ڈالیں۔ ابھی جوڑے نہار رہے ہیں۔ ابھی ’’تخت وار‘‘ دیکھ رہے ہیں۔ ابھی شامیانے کے قناتوں کے انجام پر سوچ رہے ہیں۔ میں پیڈ اور قلم لیے موجود رہتی۔ خطوط پرچے اور یادداشتیں لکھنے کو حاضر رہتی۔ دالان میں یہاں سے وہاں تک چوکا لگا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی بیبیاں سالخوردہ کپڑوں کے بجھے رنگوں میں اپنا بھرم بنائے خاموشی سے کھانا کھا رہی تھیں۔ چمچے پلیٹوں سے ٹکراتے، خاموشی کھنک اٹھتی تو عجیب سا لگتا۔ کہ بھیا باہر سے آ گئے۔
’’ارے یہ ہماری نومی جی جی کھڑی کیوں ہے۔‘‘
نومی ایک ایک ستون کے پہلو میں کھڑی پلیٹ میں چمچا گھما رہی تھی۔ اس نے مڑ کر بھیا کو دیکھا۔ بھیا کے بالکل پیچھے آ کر اس کی پلیٹ میں جھانکنے لگے اور نومی جاگ اٹھی۔ کھل گئی۔ لو دینے لگی۔ گردن پیچھے جھکا کر اپنے ڈھیروں بال بھیا کے سینے پر انڈیل دیے اور آنکھوں میں آنکھیں رکھ دیں۔ بھیا بچوں کی طرح پلکیں جھپکانے لگے اور نومی کی آنکھوں کو اپنی کھوئی ہوئی نظریں مل گئیں۔ کسی نے بھیا سے کھانے کو پوچھا تو کہیں دور سے آواز آئی، ’’نہیں باہر تو نہیں کھایا میں نے۔‘‘
اور نومی بیسیوں کی صف چیر کر ایک پلیٹ میں الم غلم بھر لائی اور ایک چمچہ ان کے منہ کی طرف بڑھایا۔ بیسیوں کے وجود پر منڈھی ہوئی نیستی کی چادریں مسک گئیں۔ ہونٹوں کی بھولی بسری مسکراہٹیں یاد آنے لگیں۔ بھابی نے یہ تماشا دیکھا تو ایک کرسی لا کر رکھ دی۔ نومی نے ٹھنک کرکہا، ’’نئیں نئیں۔۔۔ میں اپنے بھیا کو بوفے کھلاؤں گی۔‘‘ اور بھیا سچ مچ سعید بچوں کی طرح کھاتے رہے۔ دکھوں کے دلدل میں گردن گردن تک دھنسی ہوئی زندگیاں جو خوشی کے بہانوں کے انتظار میں بوڑھی ہو گئی تھیں، اس معمولی سے مذاق پر خوب ہنسیں۔ آنٹی کے تو اچھو لگ گیا۔ بھیا قہقہوں میں بھیگ گئے۔
اب رخصت ہونے والوں اور رخصت کرنے والوں کی بھیڑ چھوٹے سے جلوس کے مانند ڈیوڑھی سے نکل رہی تھی۔ گوری چٹی، گول مٹول آنٹی جیسے پھوٹی پڑ رہی ہوں بھیا ان کو پہلو میں لیے آ رہے تھے جیسے پگھلے جا رہے تھے اور نومی بغیر کسی مصروفیت کے مصروف لگ رہی تھی۔ دور سے آتی ہوئی باتوں کی پھوار سے اپنا آپ بچائے پھر رہی تھی اور اس کی آنکھیں جن میں بڑے بڑے ہاتھی ڈوب جاتے اور گہری ہو گئی تھیں اور میری یادوں کی فلم میں نئی ریل لگ گئی تھی۔
رات چڑھ چکی تھی۔ باہر سے گانے بجانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لڑکوں کے قہقہے سارے میں پھیلے ہوئے تھے۔ گاؤں کی عورتیں شوخ رنگ کے کڑھے ہوئے پیٹی کوٹ اور سنتھٹک ساڑیاں پہنے گہرا اور بھدا میک اپ کیے اپنے بدنما زیوروں اور خوشنما جسموں کی پریڈ کر رہی تھیں۔ ان کی آوازیں ’’سیلزمین‘‘ کی مصنوعی مسکراہٹ کی طرح شوخیوں سے سجی ہوئی تھیں۔ ’’مایوں‘‘ بیٹھی ہوئی آپا کی صحنچی کے سامنے ان کا ایک گروہ پچمیل آواز میں گیت گا رہا تھا اور میں سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ صحن میں پلنگوں کی قطاریں بچھی تھیں۔ کونے کے تخت پر پچیسی ہو رہی تھی اور اودھم مچا ہوا تھا۔ نومی کے قہقہے دھنک میں سرخی کی طرح نمایاں تھے۔ بھابی اپنے بچوں کو سلانے کے لیے لاٹھی چارج کر رہی تھیں کہ بھیا آئے اور سر جھکائے ہوئے زینے کی طرف جانے لگے کہ آنٹی نے آواز دی۔
’’رشن!۔۔۔ شطرنج کھیلو گے۔‘‘
بھیا جہاں تھے وہیں جم گئے۔ آنٹی کے اٹھتے ہی شور ہوا۔ لڑکیاں بھرا مار کر زینے کی طرف دوڑیں جیسے شطرنج نہیں مجرا ہونے جا رہا ہے۔ بھیا کے کمرے میں جہاں بھابی تک بغیر اجازت اور ضرورت کے داخل نہ ہوتی تھیں، طوفان مچ گیا۔ تخت پر بھیا اور آنٹی شطرنج لے کر بیٹھ گئے اور لڑکیاں جہاں تہاں سماں گئیں۔ بھیا کی پشت پر دیوار تھی۔ داہنی طرف گاؤ۔ بائیں طرف نومی۔ دیوار میں لگے لیمپ کی گلابی روشنی میں سب کچھ پراسرار سا معلوم ہو رہا تھا ہر مہرے کے پٹنے پر مات کی طرح شور مچتا۔ نومی، چونچال نومی آہستہ آہستہ جگہ بنا رہی تھی اور پاؤں پھیلا رہی تھی۔ بھیا نے چونک کر دیکھا، ان کے زانو پر نومی کے بال ڈھیر تھے۔ پھر بھیا کا ہاتھ بالوں پر لرزنے لگا جیسے وہ نومی کے نہیں خود انھیں کے بال ہوں۔ پھر اچانک بھیا نے ہاتھ کھینچ لیا اور جگہ ڈھونڈ کر تخت پر رکھ دیا۔ نومی نے پھر کروٹ لی اور نوکیلے سرخ ناخنوں سے سجی ہوئی انگلیاں بھیا کے ہاتھ کی ابھری رگوں پر لرزنے لگیں جیسے تھکے ہوئے سرخاب جھیل میں تیر رہے ہوں۔ پھر لیمپ بھبک کر گل ہو گیا۔ سب ہڑبڑا گئے۔ جب روشنی ہوئی تو دوہ گھٹنوں پر کھڑی بھیا کے بائیں شانے سے لگی ہوئی تھی اور بھیا کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ آنکھیں بساط پر لیکن نگاہیں کہیں اور تھیں۔ آنٹی نے تالی بجا کر شور مچایا۔ بھیا وہ بازی بھی ہار گئے تھے۔
’’تم آج بھی میری ہار پر اس طرح خوش ہو سکتی ہو یہ معلوم نہ تھا ورنہ بہت پہلے ہار چکا ہوتا۔‘‘ بھیا نے پہلی بار آنٹی کو تم کہا تھا۔ آنٹی بجھ گئی تھیں اور ان کی نظریں معافی مانگ رہی تھیں اور بھیا کے ہونٹوں نے جلدی سے اپنی پرانی مصنوعی مسکراہٹ پہن لی تھی۔
جلوس جیپ کے گرد آ کر منتشر ہو گیا تھا۔ میں سب سے الگ کھڑی سب کے چہروں سے دلوں کے مضمون پڑھ رہی تھی۔ انکل نے اسٹیرنگ سنبھال لیا۔ انجن غرانے لگا۔ آنٹی بھیا کے پہلو سے پھسل کر انکل کے پاس بیٹھ گئیں۔ بھیا نے جھک کر ان کی ساڑی کا فال ہک سے چھڑا دیا۔ آنٹی اور گلابی ہو گئیں اور پرس سے گاگلز نکال کر جلدی سے آنکھیں جھپکا لیں۔ نومی بیتی رات کے باسی آنسوؤں سے چمچماتی آنکھیں سب کے چہروں میں چھپاتی گھوم رہی تھی لیکن بھیا کے پاس اس طرح گزر جاتی جیسے وہ بھیا نہیں کوئی اجنبی ہوں اور بھیا تو اس کے لیے اجنبیوں سے بھی بدتر ہو گئے تھے۔
اس رات پانی آفت مچائے تھا اور میراثنیں قیامت ڈھائے تھیں۔ پرنالوں اور گیتوں کے شور میں نہ کچھ سنتے بنتا تھا اور نہ سوچتے۔ میری نگاہ اوپر اٹھ گئی۔ بھیا کے کمرے میں تیز روشنی ہو رہی تھی۔ معلوم نہیں وہ کس وقت باہر سے آ گئے تھے۔ میں بھیگتی بھاگتی اوپر پہنچی تو دیکھا نومی بھیا کی مسہری پر دونوں تکیے پشت سے لگائے کتابیں اور رسالے پھیلائے بھیا ہی کی طرح نیم دراز ہے۔ مجھے دیکھتے ہی گھبرا گئی جیسے چوری کرتے پکڑی گئی ہو۔ بھیا کا البم پھینک کر کھڑی ہو گئی۔
’’آپا۔۔۔ آئیے۔‘‘
میں نے اسے مسہری پر بٹھا دیا اور خود نیچی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اور اسے دیکھنے لگی جو شفق کی طرح شوخ اور شاداب تھی۔ سرمے کی لکیریں لپ سٹک کی تازگی، روز کا غبار، بغیر شمیز کے کلف لگے کرتے کی استری، جلد بدن بنایا ہوا پائجامہ، گلے میں سرخ دوپٹے کا مفلر، بالوں میں پھول کی طرح کھلی ہوئی سرخ ربن کی گرہ۔ وہ سر سے پاؤں تک بے پناہ تھی۔
’’آپا۔۔۔ میں بھیا کی کتابیں پڑھتی ہوں لیکن سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘
اتنے میں بھیگے ہوئے بھیا آ گئے۔
’’ارے تم لوگ ابھی تک جاگ رہی ہو بھائی۔‘‘ انہوں نے کھونٹی سے سلیپنگ سوٹ اتار لیا۔
’’آپ کو نیند آ رہی ہے؟‘‘ بھیا نے جواب میں مڑ کر نومی کو دیکھا اور میں نے انھیں، آنکھیں اسی طرح رنجور اور معصوم اور نگاہ اسی طرح بے نیاز۔
’’نہیں تو۔۔۔ لیکن کیوں؟‘‘ اور وہ پردے کے پیچھے کپڑے بدلنے چلے گئے۔
’’میں آپ سے پڑھوں گی۔‘‘
’’کیا پڑھو گی بھائی؟‘‘
’’آپ ہی کو پڑھوں گی۔‘‘
وہ اس طرح جواب دے رہی تھی جیسے وہ بھیا سے نہیں اپنی ہمجولی سے مخاطب ہو۔
’’اور جو نیند آئی تو۔۔۔؟‘‘
’’تو۔۔۔ یہیں سو جاؤں گی، اسی تخت پر۔‘‘
بھیا پردے سے باہر نکل آئے تھے۔ ہونٹوں پر اسی غمناک مسکراہٹ کی مہر لگی تھی۔
’’اور آنٹی کہیں گی میری بیٹی کو تخت پر لٹا کر اکڑا دیا۔‘‘
’’میں صرف آپ کی آنٹی کی بیٹی نہیں ہوں۔۔۔ نومی بھی ہوں۔‘‘
میں سن ہو کر رہ گئی۔ پھر میں نے سنا۔ نیچے سے کوئی مجھے چیخ چیخ کر پکار رہا تھا، میں اٹھی تو بھیا نے حکم دیا۔
’’جی جی! تم بھی یہیں لیٹنا آ کر۔‘‘
جب میں واپس آئی تو دیکھا لیمپ جل رہا ہے۔ شیڈ بھیا کی طرف ہے۔ تخت پر نومی سو رہی ہے اور اس کے بدن کی قیامت جاگ رہی ہے۔ میں نے اس کا کرتا نیچے کھینچ دیا اور کرسی کا گدا سرہانے رکھ کر اسی کے پاس لیٹ رہی۔ آنکھیں بند کیے مردوں کی طرح پڑی رہی۔ پھر نہ جانے کیوں خراٹے لینے لگی جن کی شکایت آج بھی نومی نے کی تھی۔ میں آپ ہی آپ مسکرا دی پھر چہرے پر بازو موڑ لیا۔ ایک آنکھ کھول کر دیکھا۔ بھیا اسی طرح دیوار کی طرف منہ کیے چپ چاپ پڑے تھے۔ پھر اچانک نومی نے مجھے جھنجھوڑا۔
’’آپا۔۔۔ اے آپا۔‘‘
میں اسی طرح خراٹے لیتی رہی۔ وہ چھلاوے کی طرح اٹھی اور بھیا کی مسہری پر۔ بھیا اٹھے، چشمہ لگایا اور اب نومی ان کے گلے میں بانہیں ڈال چکی تھی، ’’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ وہ بھیا کے گریبان سے بولی۔ اس کے گھونگھرالے بالوں پر بھیا کا ہاتھ آہستہ سے لرزا۔ میں اتنی دور سے بھی ان کے ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس کر رہی تھی۔ پھر بھیا نے مجھے پکارا۔ میں سوتی بنی رہی۔
’’نومی جی جی!۔۔۔ اٹھ کر بیٹھو۔۔۔ مجھ سے باتیں کرو۔‘‘ وہ تھوڑی دیر مچلتی رہی۔ پھر ان کی گود میں پھیل گئی۔ بھیا نے اسے بستر پر رکھ دیا۔ لیمپ کا شیڈ گھمایا۔
’’نومی جی جی!‘‘ اس نے آنکھیں کھول دیں۔۔۔ جیسے کہہ رہی ہو جی! اور میں حیرتوں میں ڈوب گئی۔ وہ آنسوؤں سے تربتر تھیں۔
’’تمہارے ڈیڈی مجھ سے چند سال بڑے ہیں لیکن تمہاری ممی مجھ سے کئی سال چھوٹی ہیں۔‘‘
اس نے آنکھیں بند کر لیں جیسے کہہ رہے ہوں شٹ اپ!
’’تم نومی ہو جس نے کلکتہ کے ایک مشہور کانونٹ سے کیمبرج پاس کیا ہے۔ جو اپنے میگزین میں کہانیاں لکھتی ہے۔ جو راک اینڈ رول جانتی ہے۔ لیکن میں اس نومی کو نہیں جانتا۔ میں تو ایک ہی نومی کو جانتا ہوں، جو میری بہت پیاری بہت ہی پیاری آنٹی کی سب سے بڑی اور سب سے دلاری بیٹی ہے۔ یہ جو جی جی لیٹی ہے یہ بھی مجھے تمہاری طرح عزیز ہے اور یہ بالکل سو رہی ہے۔ تم باتیں کرو۔‘‘
’’کچھ بولو۔۔۔ نومی بیٹی۔‘‘
وہ آندھی کی طرح اٹھی اور دھم سے تخت پر گر پڑی۔
’’نومی تم بھیا سے رخصت نہیں ہوئیں۔‘‘ آنٹی کی دور سے چل کر آتی ہوئی آواز کوند گئی۔ وہ ایک طرف سے شعلے کی طرح لپکتی آئی، ’’آپ کو آپ کی بہت پیاری، بہت ہی پیاری آنٹی نے تو رخصت کر دیا۔‘‘
وہ اس ایک جملے کی گولی داغ کر مڑ گئی کہ اگر کھڑی رہتی تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی اور پھر جیپ پر اس طرح سوار ہوئی جیسے جوکی گھوڑے چڑھتے ہیں۔ گرد کا ایک بادل اڑا کر جیپ چلی گئی۔ بھیا اسی طرح کھڑے رہے رنجور خاموش اور کھوئے ہوئے۔ میں اس بادل کے متعلق سوچتی رہی جو بھابی کی بھری پری زندگی پر منڈلا گیا تھا اور جسے بھیا نے سگریٹ کے دھوئیں کی طرح اڑا دیا تھا اور جس کا علم تک بھابی کو نہ تھا۔ میں راز کے اس بوجھ کے نیچے کانپ سی گئی اور پھر میں بھیا کے متعلق سوچنے لگی کہ وہ کس کے لیے کیا سوچ رہے ہوں گے۔
٭٭٭