پورب کا تمام آسمان گلابی روشنی میں جگمگا رہا تھا جیسے دیوالی کے چراغوں کی سیکڑوں چادریں ایک ساتھ لہلہا رہی ہوں۔ اس نے السا کر چٹائی سے اپنے آپ کو اٹھایا۔ پتلے مٹیالے تکیے کے نیچے سے بجھی ہوئی بیڑی نکالی اور پاس ہی رکھی ہوئی مٹی کی نیائی میں دبی اپلے کی آگ سلگائی۔ جلدی جلدی دو دم لگائے۔ جیسے ہی وہ چڑچڑا کر بھڑ کی اس نے منہ سے تھوک دی اور دور سے آتی ہوئی آواز کو غور سے سننے کی کوشش کی جیسے رات میں چوکیدار قدموں کی چاپ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب وہ مالک کی آواز میں غصے سے بھنے ہوئے لفظوں کے پٹاخے سننے لگا۔
’’میکوا!‘‘
’’ابے میکوا کے بچے!‘‘
’’کیا سانپ سونگھ گیا؟‘‘
وہ مانگے کی جلدی میں ہڑبڑا کر اٹھا اور لال اینٹوں کے بنے ہوئے اس کٹھار کی طرف چلا جو ہرے بھرے فارم کی بیچوں بیچ اکڑوں بیٹھا تھا جیسے دھان کے کھیت میں حفاظت کے لیے لکڑی کے پتلے پر چنری لپیٹ دی گئی ہو۔ دھارے کی سیڑھیوں پر پاؤں رکھتے ہی بالکل اس کے کان کے پاس پٹاخوں کی ایک لڑاس طرح داغ گئی تو اس کے کانوں کی جلد بارود سے جھلس گئی۔
’’اتنی دیر سے گہرائے جا رہے ہو۔۔۔ لیکن کانوں میں تیل ڈالے پڑے اینڈ رہے ہو۔۔۔ سنائی نہیں پڑتا بالکل۔ کہا تھا کہ آج دیوالی کے دن تو ذرا بھوراہر سے اٹھ پڑتے اپنے آپ۔ یہ ساری صفائی ستھری کرنے تمہارا باپ آوے گا گنگا جی سے۔‘‘
’’مالک‘‘
’’مالک کے بچے۔۔۔ یہ بانس اٹھا۔۔۔ اس میں جھاڑو باندھ کے جالے چھڑا۔ مالک۔۔۔ ہنھ۔‘‘
اس نے زمین پر لیٹے ہوئے ہرے ہرے بانس کی گانٹھوں کو نہارتے ہوئے اس کی پھننگ میں ایک پرانی سی جھاڑو پروئی اور سامنے کے کمرے میں گھس گیا۔ جالے جھاڑتے جھاڑتے سامنے کی دیوار کے بیچوں بیچ بڑے سے طاق میں سجی ہوئی لکشمی جی کی تصویر پر نگاہ پڑی تو اس نے جلدی سے بانس کاندھے سے لگا کر ہاتھ جوڑ لیے۔ جب آنکھ کھولی تو جیسے دیوار ایک طرف سے پھٹ گئی اور اس کی اپنی لکشمی لال لال دھوتی باندھے دونوں ہاتھوں میں تھالی سنبھالے گھونگھٹ میں چراغ جلائے کھڑی تھی۔ وہ بڑی دیر تک اسی طرح پتھر کا بناگھورتا رہا اور جب ریڑھ کی ہڈی میں چیونٹیاں رینگنے لگیں تو وہ جیسے جاگ پڑا۔ کاندھے سے بانس اٹھا کر وہ پھر مشین کی طرح شروع ہو گیا۔
ایک ایک کمرہ چندن ہو گیا۔ ایک ایک اینٹ اجلی ہو گئی۔ ایک ایک انگل زمین دیو استھان کی طرح جیسے پلکوں کی جھاڑو سے جھاڑ دی گئی۔ اور وہ جب ٹیوب ویل کے پاس سے گزرا تو اس کا جی چاہا کہ لمبے چوڑے سے حوض میں گرتی ہوئی پانی کی موٹی سی دھار کے نیچے اپنے آپ کو ڈال دے اور تھوڑی دیر چپی سادھے پڑا رہے۔
لیکن مالک؟
اور وہ اپنی ناک سے جالوں کے بال جھاڑتا ہوا ٹیوب ویل کے انجن کی طرف چلا اور اس کے پہیوں پر جمے ہوئے مٹی لوندے چھڑانے لگا اور جب آٹا پیسنے والے اور دھان کوٹنے والے انجن تک نہادھوکر نئے کپڑے پہن کر کھڑے ہو گئے اور تھکن اس کی ہڈیوں کے گودے میں سرسرانے لگی تو اس نے باہر نکل کر آسمان کو دیکھا جو دکھوں کے گٹھر باندھ باندھ کر دکھیوں کی کھوپڑیوں پر لادا کرتا ہے۔ نگاہ زمین پر اتری تو اپنی لمبی سی پرچھائیں پر ٹھٹک گئی۔ شام کا سنہرا رتھ آسمان کے پچھم کی رو سے گزر رہا تھا۔ وہ وہیں اسی جگہ دھپ سے زمین پر بیٹھ گیا اور مالک کے طاق میں رکھے کھلے بنڈل سے چرائی ہوئی دوسری بیڑی سلگانے کے لیے ادھر ادھر دیکھنے لگا تو چنی مہیتا نظر آئے۔
’’پائیں لاگن مہاراج۔‘‘
’’تم کا آشیرواد دئیی یا شراپ۔ رہو تم کشل منگل۔‘‘
چنی مہیتا کے ہونٹوں پر چھائی ہوئی مونچھوں کی چھپریا سے بول اس طرح ابل پڑے جیسے اولتی سے پانی برستا ہے۔ مہیتا نے اپنے کرتے کی پتلی پتلی آستین کہنیوں پر الٹ لیں اور ہاتھوں کے بالوں کے کھچڑی کے چاول گلابی دھوپ میں دمک اٹھے۔
’’بیڑی سے چھٹکارا پاؤ تو ہماری بات بھی سن لیو۔‘‘
’’دھنیہ ہو مہاراج۔۔۔ سبیر سے سانجھ ہوئے رہی ہے، پھٹکی بھر گڑ کے علاوہ ایک کھیل تک اڑکے پیٹ میں نائیں گئی۔ بیل بدھیا تک سویرے سے جوتے جاتے ہیں تو دوپہر ہوتے ہوتے کھول دیے جاتے ہیں۔ دانہ کھلی اگر نہیں ملتا ہے تو گھنٹہ دو گھنٹہ چارا بھونسہ کھاتے ہیں۔ جم کے سستاتے تب سانجھ کو گٹھری کے لیے جوتے جاتے ہیں اور ایک ہم ہیں، وہی ہم سے اچھے۔‘‘
’’کون سے نیتا کا بھاشن سنے رہے۔ جبان ہے کہ بالکل طوفان میل۔ ٹیسن پر ٹیسن چھوڑتی چلتی جائے رہی ہے۔ ایں۔‘‘
’’تیج تیوہار کیا کوئی روج روج آتے ہیں پھر پکی خوراک اور مٹھائی اور پرسادانی سب کا پیڑن مان لگت ہیں کہ توڑ توڑ تھارے منہ میں ڈال دیں جائیں۔‘‘
’’تو اب ساتھ ہی ساتھ مہاراج لہو بانچ دیو کا حکم ہے۔‘‘
’’حکم دے والے تو گئے ہیں سیر کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ۔ ہم سے بتائے کہہ گئے ہیں کہ ان کے لوٹنے تک سب کام کاج فٹ کر کے چھوڑیں۔ تو بھین جلدی سے سیڑھی لگاؤ۔ دیا بتی ہم سب تیار کرائے لیا ہے تم رکھنا شروع کرو۔‘‘
’’پار سال تو مہاراج یو کام سورج ڈوبتے ڈوبتے ہوا رہے۔‘‘
’’اوہوں۔ پار سال آدمی تو رہین درجن بھر۔‘‘
’’تو آج اوئی سب آدمی کہاں کھوئے گئے۔‘‘
’’کھوئے کہاں جاتے۔ ہیں سب اپنی اپنی جگہ۔ مل ان کی مجدوری ہوئے گئی ہے دگنی۔‘‘
’’اور مالک کا آلو بکا ہے ادھیا پر۔‘‘
’’سو بوری دیوالی دکھیا میکو کے متھے بہت گئی۔‘‘
’’دکھیا میکو ہوویں چاہے مکھیا، میکو اپنی کتھا اٹھائے رکھیں کونوں اور دن کے لیے اورپھرتی سے سیڑھی لگائے لیں۔‘‘
چنی مہیتا نے پیٹھ گھما لی اور اوسارے کی طرف چلے۔ جہاں بھاری بھاری نہائی دھوئی بھینسیں اجلی اجلی گھنٹیاں پہنے پتلی پتلی مونچھوں سے موٹی موٹی مکھیاں اڑا رہی تھیں۔ وہ تھوڑی دیر اکڑوں بیٹھا رہا پھر اپنے پورے بدن پر ایک نگاہ ڈالی جیسے پہلوان اکھاڑے میں اترنے سے پہلے اپنے اوپر نرم نرم تازی مٹی ڈالتے ہیں اور جب گڑھ جیت کر وہ سیڑھی سے اترا اور چنی مہاراج نے چمرودھے جوتے سے پاؤں نکال کر ڈنڈے پر رکھا۔ اس وقت تک سانجھ جیسے ایکا ایکی جوان ہو چکی تھی۔ وہ اپنی پنڈلیوں پر اپنا آپ گھسیٹتا ہوا حوض پر آیا اور بلا کچھ سوچے سمجھے جھم سے پھاند پڑا۔
بیساکھ کی دھوپ میں تھکن سے بلبلاتے ہوئے بھینسے کی طرح گردن ڈالے دم سادھے دیر تک کھڑا رہا اور منڈیروں پر جلتے ہوئے دیو کی تھرتھراتی ہوئی لوؤں کا تماشہ دیکھتا رہا۔ جادو کی سی روشنی کا یہ تماشا دیکھتے دیکھتے اسے اپنی چھاتی میں ہونکے ہوئے سنسان اندھیرے کا سرا مل گیا جہاں دور دور تک وہاں تک جہاں نگاہ پہنچ سکتی ہے کوئی چراغ نہ تھا، کوئی جگنو نہ تھا کوئی چنگاری نہ تھی۔ اگر کچھ تھا تو ایک عورت کے چہرے کی مسکان تھی جس کی گرمی جیسے دل کی دھڑکن ابھی زندہ تھی۔ سلگتے ہوئے اپلے کی طرح بھربھری راکھ میں دبی ہوئی مدھم سی آگ تھی جو زیادہ سے زیادہ سینے کی دھونکنی کے سہارے ایک بیڑی سلگا سکتی تھی اور کچھ بھی نہیں۔
’’مکھیا میکو‘‘
’’چنی مہاراج کی آواز کا جوتا بھڑ سے اس کے کان پر پڑا۔‘‘
’’نہائے چکن مہاراج؟‘‘
وہ چھپر چھپر کرتا باہر نکلا اور اس کوٹھری کی طرف چلا جس کے ایک دروازے اور ساڑھے تین دیواروں پر ٹین کی پتلی سی چھت بہت سی اینٹوں کے نیچے کچلی ہوئی رکھی تھی۔ کونے میں دھرے گھڑے سے اپنی اکلوتی قمیص اور دھوتی جو تیوہاروں پر دھیرویر کی طرح نکلتی نکالی اور بھیگے انگوچھے سے مہینوں کے بالوں سے ٹپکتے پانی کو پونچھنے لگا۔ پھر سج بن کر نکلا۔ پورا کٹھار پوجا کی تھالی کی طرح چراغوں سے جگمگا رہا تھا اور مالک کا بڑا لڑکا ایک نوکر کے ساتھ بھینسوں کے پاس کھڑا مہتاب چھڑا رہا تھا۔ اس نے سیڑھیاں چڑھنے کے لیے پاؤں اٹھایا تو معلوم ہوا کہ پاؤں اس کا پاؤں نہیں ہے، کسی نے جان چھڑانے کے لیے منگنی میں دے دیا ہے۔ وہ ذرا سا جھول گیا پھر سنبھل کر دالان میں آرام کرسی پر ڈھیر مالک کے سامنے آیا۔ اس نے جھک کر پاؤں چھو لیے۔ پھر ایک کمہار اندر سے آیا اور ایک بڑا سا پتل اس کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں ڈال دیا۔ پوریوں اور کچوریوں کی ڈھیریوں کے بیچ میں تھوڑی سی مٹھائی نگینوں کی طرح رکھی تھی وہ اسے لے کر اپنی کوٹھری کی طرف چلا کہ چنی مہاراج کی آواز نے بریک لگا دیا۔
’’پرساد تو لیتے جاؤ میکو مکھیا۔‘‘
اس نے چمک کر ایک دھوتی میں لپٹے ہوئے سارے سموچے مہاراج کو دیکھا اور ڈھاک کے تازہ ملائم پتل کی چھوٹی سی پڑیا رکھ لی۔ کوٹھری کا اندھیرا سیکڑوں چراغوں کی لہر میں لپٹی روشنی میں ذرا مدھم ہو گیا تھا۔ اس مدھم روشنی میں اس نے ایک پوری میں ترکاری لپیٹ کر منہ میں رکھی تو اس کے ذائقے سے کوٹھری میں دیوالی کے کئی چراغ چمک اٹھے۔ اس نے دو پوریوں کے ساتھ پوری مٹھائی اور پرساد کا دونا بنا لیا اور ایک پتل ڈھک کر سینکوں سے سی لیا اور جو کچھ بچا اسے اپنے پیٹ میں انڈیل لیا اور لوٹا بھر پانی پی کر بیڑی ڈھونڈنے لگا کہ باہر سے ایک آواز اس کے پاس آئی اور گردن پکڑ کر لے گئی۔ مالک حکم دے رہے تھے۔
’’آج رات ذرا احتیاط سے سونا ہاں۔‘‘
اور ساتھ ہی مالکن نے ایک بول کا پرساد دیا۔
’’اگر بھوکا رہ گیا ہے تو کہار سے دال بھات مانگ لے اچھا۔‘‘
اس نے نگاہ بھر کر مالکن کو دیکھا جو کپڑوں اور گہنوں میں بنی سنوری دیوی کی مدرا میں کھڑی تھیں اور پھر کبھی ایسا ہوا کہ جہاں دیوی کھڑی تھی اسی جگہ اس مدرا میں اس کی لچھمی آکھڑی ہو گئی اور اس کا جی چاہا کہ عبیر اور چندن اور گلابی کے اس ڈھیر کو اپنے آپ میں سمیٹ لے لیکن دوارے سے جیپ کا انجن بھینس کی طرح ڈکرا رہا تھا۔ اس نے آنکھیں گڑو گڑو کر ہر طرف دیکھا لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ وہ لکڑی کے پیروں پر گھسٹتا ہوا دالان میں پہنچا۔ مالک کی کرسی کے نیچے سگریٹ کا بڑا سا ٹرا پڑا تھا۔ ایک چراغ سے سلگا کر ایک دم لگایا تو جیسے جی ہلکا ہو گیا۔ دکھ کی تمام چڑیاں اڑ گئیں۔ وہ وہیں کھمبے سے لگ کر بیٹھ گیا۔ جب آنکھ کھلی تو اس کا بازو پکڑے چنی مہاراج کھڑے تھے۔
’’کا سوئے گوا رے؟‘‘
’’نائیں تو۔ آپ بیٹھ جاؤ۔ ایک بات ہے۔‘‘
’’آج ہم کا چار گھنٹے کی چھٹی دے دو آپ۔ گھنٹہ بھر جانے کا گھنٹہ بھر آنے۔ او دو گھنٹے درسن کا اور پھر گھڑی دیکھ لیو۔‘‘
’’کہاں جاوے گارے؟‘‘
’’سیتا پور‘‘
’’بھانگ کھائے گوا ہے۔ سیتا پور کوئی یہاں دھرا ہے۔ دس کوس ڈاٹ کے ہے۔‘‘
’’ہوا کرے۔ تمری سائیکل پر دس کوس جمین میکوا کے لیے گھنٹہ بھر کی ہے۔‘‘
’’تیل باتی کا انتظام؟‘‘
’’دیکھو مہاراج ای منگل کا چار مہینہ ہوئے درسن کا۔‘‘
چنی مہاراج نے اپنی گردن کندھوں سے آگے نکال دی۔
’’اور مالک؟‘‘
’’اب مالک تم ہو ہمرے اور ہم ہیں دکھیا۔‘‘ اور اس نے مہاراج کے دونوں پاؤں پکڑ لیے۔
’’آج چھٹی دے دیو پھر جون حکم دینا پورا ہوئی۔‘‘
’’بولے تو سانچ ہے مل آج کی رات آدمی کون ملی۔ آج کی رات چور چگار اپنا گن جگاتے ہیں اور جیسے بنے ویسے کر لیو مل۔‘‘
’’تو اگر تم تیار ہو تو دس پانچ روپیہ کھرچ کر کے کوئی بندوبست کریں۔‘‘
’’دس پانچ روپیہ؟‘‘
’’ناہیں بھائی۔ تم جب گہیوں بوا جائے تو رات میں ہل چلانے دیو دوچار داؤ۔‘‘ اس نے سیدھی انگلی سے دوچار لکیریں بنائیں اور حکمی آواز میں بولا، ’’منجور مہاراج ہم چار راتیں چلاوے پر تیار پکی بات ہے۔‘‘
’’ایک بات اور‘‘
’’وہو بول دیو‘‘
’’مالک کا پتہ نہ چلے نہیں تو۔۔۔‘‘
’’کانوں کان پتہ نہ چلی کوئی کا۔‘‘
’’تو پھر منجور۔ اٹھو اور ایک داؤں دیا بتی کا دیکھ لیو۔ جانے کے لیے وہ اس طرح اٹھا جیسے ابھی ابھی جیل کا پھاٹک کھلا ہے۔‘‘
بارہ بجنے میں دیر تھی لیکن وہ چنی مہاراج کی سائیکل بغل میں مار کر اوکھ کے سائے سائے چراغوں کی اندھرائی آنکھوں سے راستہ ٹٹولتا نہر کی پٹری پر آ گیا اور لچھمی کا دھیان کر کے سائیکل پر سوار ہو کر پیڈل اوٹنے لگا۔ جب تھکن چڑھنے لگتی تو وہ دیکھتا کہ لچھمی دوارے سے آرتی لیے چراغ جلائے، پھول مٹھائی اور پان لیے اس کی راہ دیکھ رہی ہے اور پھر جیسے اس کی بیٹری چارج ہو جاتی۔ لیکن جب سائیکل کے اگلے پہیے نے لچھمی کے دوارے سے ٹکر ماری تو لچھمی کے بجائے ویرانی اندھیرے کی آرتی میں تنہائی کا چراغ جلائے اس کے سواگت میں کھڑی تھی۔ اس نے دوبارہ ہاتھ سے دستک دی۔ لچھمی کی ماں کی کھانستی آواز نے کون کون کی رٹ لگا دی۔ دروازہ کھلا تو اس نے اپنی چندھی آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا لیکن وہ اسے راستے سے ہٹاتا ہوا سائیکل سمیت گھر میں داخل ہو گیا۔
’’لچھمی کہاں ہے دائی؟‘‘
اور لچھمی کی ماں نے پھونک مار کر اس کے بدن کے تمام جلتے چراغ بجھا دیے، ’’وا تو بڑی دیر کی گئی ہے تمرے گاؤں۔‘‘
’’ہمرے گاؤں؟‘‘
’’ہاں آج سبیرے سے انتظام کر رہی تھی۔ دوپہر میں روٹی کھانے بھی نہیں آئی۔ سانجھ کو جب آئی تو رونے لگی کہ مالک چھٹی نائن دے رہے ہیں ہم سے رونا نائن دیکھا گیا توہم نے بھیلی سے کہا رات کی خدمت پر تم چلی جاؤ۔‘‘
’’بھیلی؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’بھیلی جانے پر تیار نائن رہے، کاہے سے کہ او کا گونا آنے والا ہے مل ہم بڑی کھوسامد کیا۔ تب رووت دھووت وا گئی اور لچھمی منہ جھٹال کی ساری پوری مٹھائی باندھ کے۔‘‘
وہ دھپ سے اسی جگہ بیٹھ گیا۔ گردن سے انگوچھا اتار کر دونا کھولنے لگا تو معلوم ہوا مانو اس کی انگلیاں جھڑ گئی ہیں۔ پاؤں گر گئے ہیں اور کندھوں پر کاٹھ کی ہنڈیا رکھی ہے۔ اس نے لکڑی کی زبان کو بڑی محنت سے ہلایا، ’’بھیلی کے سسرال والے اگر جان گئے تو؟‘‘
’’بندھوا مزدور کی لڑکی کے پاس بیٹا چھپانے کو ہوت کاہے جو چرانے چھپانے کی فکر کی جائے۔‘‘
اور جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے لچھمی دیو استھان سے گری اور لڑھکتی ہوئی گھوڑے میں ڈھیر ہو گئی۔
٭٭٭