کانٹے دار تاروں کی گھنی باڑھ دیکھ کر راستہ بھول جانے کا احساس ہوا۔ اس نے مڑ کر دیکھا ’’ڈی بلاک‘‘ کی یکساں یک رنگ چہار منزلہ عمارتوں کا جنگل کھڑا تھا۔ دروازوں دریچوں اور بالکنیوں میں کھڑے ہوئے بچے دور سے رنگ برنگ پھولوں کے گچھوں کے مانند نظر آ رہے تھے۔ وہ آدھی عمارت کا چکر کاٹ کر سڑک پر آ گیا۔ بس اسٹینڈ پر کھڑی ہوئی مسافروں کی لمبی قطار دیکھ کر اس نے اپنے آپ پر لعنت بھیجی کہ دو مہینے ہو گئے سڑک ناپتے ہوئے لیکن راستوں کا سبق یاد نہ ہوا۔
بس نظر آتے ہی ٹیڑھی میڑھی لکیر اکہری دوہری اور پھر تہری ہو گئی۔ انسانوں کا ایک سیلاب اترنے والوں کو دھکیلتا ہوا دروازے میں دھنسنے لگا۔ اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ مٹھیاں بند ہو گئیں اور ہونٹ بھنچ گئے۔ جب ہوش آیا تو وہ بس کے اندر تھا۔ نگاہ سیٹ کی تلاش میں جھپٹ رہی تھی کہ کسی نے اس کا بازو پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ قلم اور چشمے سے مطمئن ہو کر پہلو میں بیٹھے ہوئے آدمی کو دیکھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ انجن کے شور سے پس منظر میں اس نے اپنی آواز سنی۔ ارے آپ؟۔۔۔ ریاض بھائی۔ اور سڑک پر بھاگتی ہوئی بسوں کی طرح اس کے ذہن میں خیالات اڑنے لگے۔ وہ اپنی ہونے والی بیوی غزالہ کو دیکھ کر اور پسند کر کے واپس آ رہا تھا کہ کسی نے اس کے کان میں کہا، ’’غزالہ کی شادی اس کے ماموں اعجاز صاحب ایم۔ پی سے کر رہے ہیں۔‘‘
’’تو آپ نے پہچان ہی لیا۔۔۔ ورنہ‘‘
اور جہیز میں تم کو چار سو روپے کی نوکری دے رہے ہیں اور یہ پاپڑ وہ اس لیے بیل رہے ہیں کہ غزالہ ان کے گھر میں رہتی ہے جوان کی بیوہ بہن کی بیٹی اور ضدی بیٹے ریاض کی محبوبہ ہے۔ غزالہ اکیلی ڈولی میں سوار نہ ہو گی۔
’’دلی میں تو لوگ آنکھوں سے پہچان لیتے ہیں لیکن زبان سے اجنبی بن جاتے ہیں۔‘‘
غزالہ کے ساتھ اس کی ماں کے سر کا پہاڑ اور اعجاز صاحب کے دل کا بوجھ بھی کوٹھی سے نکل کر ڈولی میں بیٹھ جائے گا۔
’’آپ کب تشریف لائے؟‘‘
اور ریاض کی شادی کے راستے پر کھڑا ہوا آہنی پھاٹک آپ ہی آپ کھل جائے گا۔ اس نے بھاری بھرکم اور گوری چٹی غزالہ کو گھور کر دیکھا تو اس کے گالوں پر ریاض بھائی کے ہونٹوں کی مہریں لو دینے لگیں۔ کمر پر ریاض بھائی کی بانہوں کے نشان ابھر آئے۔
’’میں تو کئی روز سے یہاں ہوں۔‘‘
لیکن جیب کی بیماری سے نجات پانے کے لیے اس نے غزالہ کو قبول کر لیا۔ مسلسل بے کاری سے نجات پانے کے لیے اس نے شادی کر لی۔ کڑوی کسیلی دوا کا لبریز پیالہ آنکھیں بند کر کے نگل گیا۔
’’کہاں قیام ہے آپ کا؟‘‘
پھر اعجاز صاحب کی سفارش نے اسے دو کمروں کا فلیٹ بھی دلا دیا۔ جس دن اس کو فلیٹ ملا اسی کے چند روز بعد غزالہ کو لے آیا۔
’’یہیں ماڈل ٹاؤن میں!‘‘
پورے دو مہینے بھی نہیں ہوئے غزالہ کو دہلی آئے اور
’’اچھا‘‘
اور ریاض بھائی بے قرار ہو گئے۔ بے چین ہو گئے۔
’’شام کو پانچ بجے آپ ریگل کے سامنے مل رہے ہیں؟‘‘
’’جی‘‘
ایک دھچکے کے ساتھ بس رک گئی۔ ریاض بھائی کھڑے ہو گئے اور مسافروں کی رینگتی ہوئی قطار میں گم ہوتے ہوتے چیخے، ’’آج پانچ بجے ریگل کے سامنے۔‘‘
آفس سے نکلتے ہوئے اس نے تیواری سے دس روپے قرض مانگ لیے۔ دس بارہ اس کی جیب میں پہلے سے پڑے تھے۔ وہ آسودہ قدم اٹھاتا ہوا ریگل ٹاکیز کے سامنے آ گیا۔ گھڑی پر نگاہ کی، پانچ بج رہے تھے۔ سارے منظر پر دھندکا باریک نقاب پڑا تھا۔ تیز ہوا کی ٹھنڈک کپڑوں سے چھنتی ہوئی ہڈیوں میں پیوست ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے اپنے نئے گرم کوٹ کا کالر کھڑا کر لیا، کلائیوں تک ہاتھ جیبوں میں ڈبو لیے۔ سامنے آدمیوں کا چو مکھا دریا بہہ رہا تھا۔ سب اسی طرح آگے پیچھے بھاگ رہے تھے جیسے سب کو آخری گاڑی پکڑنا ہو اور دیر ہو چکی ہو جیسے شکاریوں کو دیکھ کر سرمائی پرندے کے پرے جھیل پر اترنے کا ارادہ ملتوی کر دیں اور سنسناتے ہوئے نکل جائیں۔ اینٹیں ڈھونے والے ٹھیلوں کی طرح زندگیوں سے بھری ہوئی بسیں گزرتی رہیں۔ ریل گاڑی کے ڈبوں کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے موٹروں کی قطاروں کے درمیان سے لوگ ایسے نکل رہے تھے جیسے ہاکی کا کھلاڑی دشمن ٹیم کو ڈاج دیتا ہوا گول تک پہنچتا ہے۔
اس نے ایک بار پھر گھڑی دیکھی اور چونک پڑا۔ چھ بج چکے تھے اور آوازوں کا سناٹا گہرا ہو گیا تھا۔ روشنیوں کا سیلاب چڑھ آیا تھا اور وہ ریاض بھائی کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ اس نے سوچا ریاض بھائی سنیما دیکھنا چاہتے ہوں گے ورنہ ریگل کی شرط کیوں لگاتے۔ اگر اس نے ٹکٹ نہ خریدا تو ریاض بھائی اس کو۔۔۔ غزالہ کے شوہر کو مفلس خیال کریں گے۔ کنجوس سمجھیں گے۔ یہ خیال آتے ہی وہ لپکتا ہوا بکنگ ونڈو کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اس شو کا آخری ٹکٹ خریدا اور فلم شروع ہونے کے بعد ہال میں داخل ہوا۔
’’جن من گن‘‘ کے شروع ہوتے ہی وہ ہال کے باہر آ گیا۔ آسمانی سوٹ کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ڈھونڈتا رہا۔ جب تیسرے شو کی گھنٹی بج گئی تب وہ ریگل کے باہرنکلا۔ دھند کے بھاری نقاب کے پیچھے ٹمٹماتی روشنیاں کتنی اداس اور بیمار نظر آ رہی تھیں۔ سماعت کے چیتھڑے اڑا ڈالنے والے شور میں کیسی دلدوز خاموشی پنہاں تھی۔ اور اس وقت اس کے چلو سے قطرہ قطرہ ٹپکے جا رہا تھا اور بس اسٹینڈ کی طرف بھاگ رہا تھا۔
بس آ گئی ’’کیو ٹوٹ کر ڈبلیو‘‘ بن گیا۔ اس نے بھی اپنے آپ کو بھیڑ میں دھانس دیا۔ پائدان پر پاؤں رکھتے ہی احتیاط کے طور پر کنڈکٹر سے پوچھا، ’’یہ کس نمبر کی بس ہے؟‘‘
’’آپ کو کہاں جانا ہے؟‘‘ کنڈکٹر نے سوال پر سوال جڑ دیا۔
’’ماڈل ٹاؤن۔‘‘
’’تو پیسے نکالو۔‘‘
اس نے پانچ کا نوٹ پکڑا دیا۔
کنڈکٹر نے بہت سی ریزگاری کے بوجھ سے چرمرایا ہوا ٹکٹ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس نے مٹھی کو سنبھال کر کوٹ کی اندرونی جیب میں الٹ دیا اور پیچھے سے دھکا کھا کر بغیر ارادے کے آگے بڑھ گیا۔ پھر گوشت کی دیواروں میں پھنس گیا۔ بس چلتی رہی۔ بڑی دیر تک چلتی رہی۔ جتنے مسافر اترے ان سے زیادہ چڑھتے رہے اور وہ گھڑی کے پنڈولم کی طرح آگے پیچھے ہوتا رہا۔ پھر کنڈکٹر نے صدا لگائی جس کے انتظار میں وہ بوڑھا ہوا جا رہا تھا۔
’’ماڈل ٹاؤن۔‘‘
وہ دھکے کھاتا اور کھلاتا ہوا نیچے اتر آیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے وہ کہر کے سمندر میں پھاند پڑا۔ سفید دھواں سا انگڑائیاں لے رہا تھا اور کچھ نظر نہ آ رہا تھا۔ سڑک کی روشنیاں پکڑے ہوئے جگنوؤں کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ وہ بھی دوسرے مسافروں کے ساتھ کڑھلتا ہوا آگے بڑھا۔ اپنے اطمینان کے لیے ایک شخص سے پوچھنے لگا، ’’بھائی صاحب یہ ماڈل ٹاؤن ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں آپ کو کہاں جانا ہے‘‘
’’ڈی بلاک‘‘
’’تو آگے جا کر داہنے ہاتھ گھوم جائیں۔‘‘
وہ خوش ہو کر کہرے کے سمندر میں تیرنے لگا۔ پھر وہ پٹرول کی ٹنکی آ گئی جس کی پشت سے اس کے بلاک کو راستہ جاتا تھا۔ پھر لوہے کا پھاٹک بھی آ گیا۔ اب دھند کی چادر مہین ہو گئی تھی آب رواں کے مانند۔ اور وہ چہار منزلہ عمارت کے صحن میں تھا۔ اس نے پہلا زینہ چھوڑ دیا۔ دوسرا زینہ آیا اس کے پاس ہی سفیدی کا ڈرم پڑا تھا۔ وہ گھر پہنچنے کی خوشی سے چھلک اٹھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر تیسری منزل پر پہنچ گیا۔ چوتھے دروازے پر استھانہ صاحب کی نیم پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ اپنے دروازے کے سامنے پہنچتے ہی اس پر جیسے بجلی گر پڑی۔
ایک پٹ آدھے سے زیادہ کھلا ہوا تھا۔ برآمدے کا بلب روشن تھا۔ اور نل کے نیچے ریاض بھائی کھڑے تھے۔ آسمانی سوٹ پہنے اس کی طرف پشت کیے ہاتھ دھو رہے تھے۔ پاس ہی کچن میں غزالہ اسٹو کے سامنے کھڑی تھی۔ سرخ شال کے دونوں کنارے اس کی پیٹھ پر برابر سے پڑے تھے۔ آٹا پیسنے والے انجن کی طرح اسٹو دھڑ دھڑا رہا تھا اور غزالہ کا سفید تندرست ہاتھ فرائی پان میں چمچہ چلا رہا تھا۔ لاہی رنگ کی اسی ساری میں وہ صبح چھوڑ گیا تھا۔ اور جیسے اس کے پیروں میں کسی نے کیلیں ٹھونک دیں۔ وہ جم کر رہ گیا۔ پھر ریاض بھائی نے نل پر پڑی ہوئی نیلی تولیہ اٹھائی اور منھ پونچھنے کچن میں گئے اور غزالہ کے بھاری کولہے پر ایک دھپ لگا دی۔ اب وہ برداشت نہ کر سکا اور تیز تیز قدم رکھتا ہوا زینے پر آ گیا۔
’’تو یہ ہیں۔۔۔ ریاض بھائی۔۔۔ سستے رومانی ناولوں کے ہیرو۔۔۔ مجھے ریگل بلا لیا تاکہ میں دفتر سے گھر نہ آ سکوں۔ ان کا انتظار کرتے کرتے فلم دیکھنے لگوں اور وہ فلم کے ہیرو کا پاٹ ادا کریں۔‘‘
’’اور غزالہ؟‘‘
’’غزالہ بھی ہیروئن ہوئی۔۔۔ تو گویا کہ میں رقیب ہوں۔‘‘
’’بچپن کی محبت پتھر کی لکیر ہوتی ہے میرے بھائی۔۔۔ تم تو غزالہ کے قانونی داشتہ ہو۔ تمہارے ہونٹوں پر چار سو روپے ماہوار کی مہر لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’لیکن یہ دروازہ؟‘‘
’’جرم کا بھانڈا تو آخر کسی طرح پھوٹنا ہی چاہیے تھا۔‘‘
’’یا جھوٹی گندی معصومیت کے لنگڑے اظہار کے لیے اب کھول دیا ہو۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘
اس نے اپنی باقاعدہ تلاشی لی۔ لیکن اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ ہاتھ کی چھڑی تک نہ تھی۔ اگر چاقو مجھے مل جاتا تو اس ڈرامے کو انجام تک پہنچا دیتا۔
’’اب میں کیا کروں؟‘‘
’’کیا کر سکتا ہوں آخر؟‘‘
’’تم یہیں کھڑے رہو وہ اسی طرف آئے گا۔ اس کو زینے پر سے دھکا دے سکتے ہو۔‘‘ پھر اس نے دیکھا کہ ریاض بھائی کا سر پھٹ گیا ہو اور وہ خون میں لت پت فرش پر ڈھیر ہوں۔ اس نے اپنے دل کے زخم میں ٹھنڈک محسوس کی۔ پھر زینے پر قدموں کی چاپ ہوئی، کوئی سیڑھیاں چڑھتا اسی طرف آ رہا تھا۔ اس نے سانس روک لی اور پرچھائیں کی طرح دیوار سے چمٹ گیا۔ آنے والا پہلے ٹھٹکا پھر اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
’’کون؟‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘
’’جی۔۔۔ م۔۔۔ میں۔‘‘
موٹے موٹے رسوں کی طرح دو بانہیں اس کی کمر سے لپٹ گئیں۔ پھر جیسے دیواریں توڑ کر آدمی نکل آئے، کھڑکیوں اور دروازوں سے انسان ابلنے لگے اور وہ آوازوں کے زہریلے آبشار میں شرابور ہو گیا۔ دھار دار آوازوں کے زخموں سے لہولہان ہو گیا۔ اب وہ روشنی کی چادر کے نیچے کھڑا تھا۔ کئی جوڑ آنکھیں اسے گھور رہی تھیں۔ آوازیں اپنی گزشتہ چوریوں کی تفصیل سنا رہی تھیں، آوازیں اس کو شناخت کرنے کا دعویٰ کر رہی تھیں اور آوازیں ایک ساتھ اس سے متضاد سوالات کر رہی تھیں۔ پھر اس نے اپنی گڑگڑاتی ہوئی آواز سنی۔
’’یہ۳/۱۱ فلیٹ میرا ہے۔۔۔ اس میں میری بیوی موجود ہے۔‘‘
’’ابے پاگل ہو گیا ہے۔۔۔ اس میں تو میں رہتا ہوں۔‘‘
اس نے تڑپ کر دیکھا ایک آدمی آسمانی سوٹ پہنے گالیاں برساتی آنکھیں کھولے اس کو سارا سموچا نگل جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور مردوں کے غول کے پیچھے ایک بھاری بھرکم گوری چٹی عورت لاہی رنگ کی ساری باندھے اور سرخ شال اوڑھے پلکیں جھپکا رہی تھی۔ تحیر اور بے بسی کا فوارہ اس کے منہ سے پھوٹ پڑا۔
’’یہ ماڈل ٹاؤن نہیں ہے؟‘‘
’’ہے‘‘
’’لیکن کون سا ماڈل ٹاؤن؟‘‘
’’ماڈل ٹاؤن کیمپ!‘‘
’’نہیں یہ ماڈل ٹاؤن کینٹ ہے۔‘‘
اس نے گڑگڑا کر اپنا آفس بیگ اس بوڑھے آدمی کے قدموں میں ڈال دیا جس کی آواز مہربانی کے صیقل سے روشن تھی۔
٭٭٭