ان کے طباق ایسے چوڑے چکلے زرد چہرے پر چھوٹی بڑی شکنوں کا گھنا ڈھیلا جلال پڑا ہوا تھا جیسے کوری مارکین کا ٹکڑا نچوڑ کر سکھا دیا گیا ہو۔ دھندلی دھندلی آنکھوں سے میلا میلا پانی رس رہا تھا جسے ان کے سیاہ گندے ناخونوں والی موٹی موٹی انگلیاں کاندھے پر جھولتے میلے چکٹ آنچل سے بار بار پونچھ رہی تھیں اور سامنے رکھے بڑے سے طوق کے ڈھانچے کو برابر نہارے جا رہی تھی جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کا سونا دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ پھر انہوں نے پاس رکھے ہوئے خمیدہ نے اور مٹی کے پیندے والے حقے کو جھکا کر بانس کی سرمئی نے موٹے موٹے لرزتے ہونٹوں میں دبا لی اور ایک پھسپھسا کش لیا اور میرا سارا حافظہ جھنجھنا گیا۔
شادی کا بھرا پرا گھر مہمان عورتوں اور ندیدے بچوں کی پر شور آواز کے تھپیڑوں سے ہل رہا تھا اور میں ڈولتا ہوا ان کے قریب سے گزرا جا رہا تھا۔ میں نے جاتے جاتے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا جیسے مارکین کے ٹکڑے پر بجھتے کوئلوں کا عکس لپک گیا اور انہوں نے بیٹھی ہوئی آواز میں کہا، ’’تم نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘ اور میری آنکھوں کے سامنے یادوں کے ورق اڑنے لگے۔ ابھی نہ ہندوستان آزاد ہوا تھا اور نہ پاکستان پیدا ہوا تھا۔ نہ زمینداری ختم ہوئی تھی اور نہ آم کی فصلیں روزی کا وسیلہ بنی تھیں۔ سب کچھ اسی طرح موجود تھا جس طرح صدیوں سے چلا آ رہا تھا۔ انگریز خدا اپنے گدھوں کو سونے کے توبڑوں میں خشکہ نہیں بریانی کھلا رہا تھا اور اس سال آم کی فصل اس طرح ٹوٹ کر آئی تھی کہ گلی کوچے پھلوں سے سڑنے لگے تھے۔ تخمی باغوں کے باغبانوں کی لین ڈوری پھاٹک سے ڈیوڑھی تک سروں پر چنیدہ آموں کے جھوے لادے کھڑی رہتی۔ تیسرے درجے کے مسافروں کی طرح انہیں کوئی نہ پوچھتا۔ ہاں قلعی باغوں کے باغبان فرسٹ کلاس کے مسافروں کی طرح فضیلت سے نوازے جاتے اور ان کے آم ہاتھ کے ہاتھ گنا لیے جاتے۔
دور تک پھیلے ہوئے اونچی چھتوں اور موٹے ستونوں والے لق و دق دالانوں میں کچے پکے آموں کی جازم بچھی رہتی۔ بوڑھی بدصورت اور کٹکھنی عورتیں ہاتھوں میں لمبی لمبی لکڑیاں لیے ندیدے لڑکوں اور ہتھ لکی عورتوں کو گالیاں اور کوسنے بانٹا کرتیں۔ اس روز اندر سے باہر تک جیسے ساری فضا بدلی ہوئی تھی، دھلی دھلائی سی لگ رہی تھی۔ ڈیوڑھی میں نہ جھوے، نہ کدالیں، نہ کھرپے اور نہ وہ مانوس بھناٹا، صاف صفیلا آنگن، اندرونی دالان کے چوکے اور گاؤ تکیے صندوق سے نکلے، تخت پوش اور غلاف پہنے میاں پوت بنے بیٹھے تھے۔ ماہی پشت والے نواڑی پلنگوں پر آدھے آدھے سوتی قالین پڑے تھے۔ پان خوروں کے منہ کی طرح لال لال اگالدان انگریزوں کے منھ کی طرح صاف صاف رکھے تھے۔ مراد آبادی پاندان اور لوٹے اور سر پوش سب اجلے اجلے کپڑے پہنے سلیقے سے اپنی جگہ کھڑے بیٹھے تھے۔ چھت میں جھولتے بھاری پنکھے تک کو دھلا جوڑا پہنا دیا گیا تھا۔
بالکل عید بقر عید کا سا ماحول تھا، لیکن بقر عید کا سا شور نہ ہنگامہ۔ کمرے کے پانچوں دروازوں پر پڑے ہوئے خس کے موٹے موٹے بد وضع پردوں کے نیچے پانی کے چھوٹے چھوٹے سے تھالے بن گئے تھے۔ اندر چھت کے دوہرے پنکھوں کی اکلوتی رسی لوہے کی گراری پر تیز تیز چل رہی تھی جیسے چڑیوں کے کئی جوڑے ایک ساتھ چوں چوں کر رہے ہوں۔ میں نے ذرا جھجک کر پردا اٹھایا تو محسوس ہوا جیسے یہاں سے وہاں تک سارا کمرہ ان کی روشنی سے جھم جھما رہا ہے۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا جیسے امام باڑے میں رکھا ہوا چاندی کا تعزیہ دیکھا جاتا ہے جیسے دسہرے کی جھانکی دیکھی جاتی ہے۔
کسی آواز نے ٹھونکا دیا تو میں بیدار ہوا۔ اپنی کم عمری کے باوجود مجھے خوشی ہوئی کہ وہ مجھ سے مخاطب تھیں اور جان کر رنج ہوا کہ وہ بول لیتی ہیں کہ میں نے کبھی تعزیہ اور جھانکیوں کو بولتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن میں خاموش رہا کہ میرے حواس مبہوت ہو چکے تھے۔ سن ہو چکے تھے۔ جب وہ کھانے کے لیے دوسرے کمرے میں جانے کو اٹھیں تو میرا سارا وجود میری آنکھوں میں سمٹ آیا تھا۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا۔ گھور رہا تھا۔ ان کے بدن کے ایک ایک حصے اپنی کمسن آنکھوں کی چھوٹی چھوٹی بانہوں میں سمیٹ رہا تھا۔ ان کی بھاری بھرکم اور بلند و بالا شخصیت کی وجاہت اور شکوہ اور غرور اور تمکنت کے سامنے حسن کے تمام مروجہ معیار اور میزان ہیچ تھے کہ حسن بدن کے اعداد و شمار کی قید اور خدوخال کے تناسب کی تعریف کی پابندی سے آزاد بھی ہوتا ہے، بلند بھی ہوتا ہے۔
وہ ململ کا کامدار کرتا اور فرشی پائجامہ پہنے اس طرح چل رہی تھیں جیسے مٹی کے کھلونوں کی دوکان میں کوئی رانی بھٹک کر آ گئی ہو۔ کوئی عورت ان کے ہاتھ دھلا رہی تھی اور قاش میں ان کے ہاتھوں سے گرتا ہوا پانی گلابی معلوم ہو رہا تھا۔ میں دسترخوان پر بیٹھا ہوا تھا لیکن نہ کھانے کی خواہش تھی اور نہ کھانے میں مزہ۔ وہ سر کو دوپٹے سے ڈھانکے ایک زانو پر بیٹھی کھانا نہیں کھا رہی تھیں کھانے کو قبولیت سے مشرف کر رہی تھیں۔
اندھیارے باغ کے کچے کنویں کی گراری میں رسی سے بندھی منتخب آموں کی جھال جو صبح سے پڑی تھی نکالی گئی اور برف کے چورے سے بھری ہوئی لگنوں میں آم لگائے گئے۔ بھائی جان نے درجنوں تخمی باغوں کا سب سے نفیس آم انھیں پیش کیا۔ انھوں نے ڈنٹھل توڑ کر ملائم کیا اور صرف ایک بار منہ لگا کر چھلکوں کے طباق میں ڈال دیا۔ چند دانوں کے بعد بھائی جان نے قلمی آم پیش کیے۔ بڑے اصرار اور تکلف کے بعد ایک لنگڑا اٹھایا۔ آم کے درمیان چاقو سے حلقہ بنا کر اوپری نصف ڈھکن کی طرح اتار لیا بقیہ نصف میں جمی ہوئی گٹھلی کھینچ کر پھینک دی اور دونوں حصوں کے ننھے ننھے سبز و شاداب آبخوروں کو چمچہ سے نکال کر کھا لیا۔ میں مسحور سا بیٹھا ہوا تھا۔
جب خاصدان پیش ہوا تو انہوں نے سرسری لہجے میں اپنی عورتوں سے کہا کہ وہ بھائی جان سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہیں اور بھابی جان بھی انہیں کے ساتھ کچھ احکام دیتی باہر چلی گئیں۔ میں اپنی جگہ پر جما ہوا تھا کہ بھائی جان نے مجھے گھور کر دیکھا اور میں بھی اپنے پیروں پر اپنا بوجھ لادے باہر نکل آیا۔ لیکن ڈیوڑھی تک پہنچتے پہنچتے انھیں دیکھنے کے شوق نے پانو پکڑ لیے۔ تھوڑی دیر کھڑا سوچتا رہا۔ پھر پورے آنگن کا چکر کاٹ کر دوسری سمت کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ پردے کی جھری سے دیکھا وہ میری طرف پشت کیے بیٹھی تھیں۔ کرسی پر بیٹھے ہوئے بھائی جان کے صرف پیر نظر آ رہے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھیں۔ ان کی آواز تازہ پھلوں کی چادر کی طرح میری سماعت پر بچھی جا رہی تھیں، ’’تم میاں کی فکر مت کرو۔۔۔ میاں کل شام کو لکھنؤ کے لیے سوار ہو گئے اور ان کو معلوم ہے کہ میں صبح مقبول میاں کی زیارت کے لیے خیر آباد جا رہی ہوں۔ میں نے صرف اتنا کیا کہ رات ہی میں سوار ہو گئی اور راستے میں دولہن کی عیادت کے لیے تمہارے گھر اتر گئی۔ سب جانتے ہیں کہ زینب اپنے کمرے میں سو رہی ہو گی۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’اگر تم کوئی خطرہ محسوس کر رہے ہو تو اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ میں واپس۔‘‘
’’آپ کیا فرما رہی ہیں۔۔۔ میں تو آپ کے متعلق‘‘
’’لاش ہے کہاں؟‘‘
’’میرے بستر بند میں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ آپ مطمئن رہیں۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
اور جیسے خاموشی ہو گئی۔ میں کچھ سمجھ گیا کچھ نہیں سمجھ سکا لیکن ڈر بہت گیا اور پھر اچانک جیسے پیٹ میں درد ہونے لگا اور بڑھتا گیا۔ پھر میں باہر جا کر پڑ رہ۔ پھر چورن کی تلاش میں اندر گیا، بھابی جان پاندان کھولے بیٹھی تھیں اور پاس کھڑی ہوئی عورتوں کو رات کے کھانے کے متعلق ہدایات دے رہی تھیں۔ میں ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک طرف سے وہ آ گئیں اور میں سر سے پاؤں تک جھنجھنا گیا۔ ان کے داہنے ہاتھ پر ایک ساری پڑی تھی اور بائیں ہاتھ میں رنگے ہوئے چنے ہوئے دوپٹے کا گولہ تھا۔ انہوں نے ساری بھابی جان کی طرف بڑھائی اور بھابی جان نے سلام کر کے جیسے ہی دوپٹے کا گولہ ہاتھ میں پکڑا وہ بچوں کی طرح چیخ کر بولیں، ’’فراموش دس ہزار۔‘‘
بھابی جان نے ہنستے ہوئے دوپٹہ کھولا تو اندر سے سندوری رنگ کا فراموش ٹپک پڑا۔ ابھی سب ہنس رہے تھے کہ بھائی جان آ گئے اور وہ چمک کر چہکیں، ’’میں پورے دس ہزار آم لوں گی گنے ہوئے اور چنے ہوئے۔‘‘
’’جی ہاں۔ دس ہی ہزار آم پیش کیے جائیں گے۔ گنے ہوئے اور چنے ہوئے۔‘‘
رات کے کھانے کے بعد دوسری منزل کے صحن میں ان کے سفید بستر کے سامنے جب حقہ لگا اور انہوں نے بالکل بھائی جان کی طرح کڑکڑا کش لیا تو پہلی بار مجھے ان سے ڈر لگا۔ وہ ڈر بھی کچھ عجیب سا تھا۔ جیسے کوئی شخص آدھی رات کے وقت تن تنہا تاج محل میں کھڑا ہوا۔ میری آنکھوں میں دور دور تک نیند کا نام نہ تھا لیکن میں وہاں ٹھہر نہ سکا۔ نیچے کا پورا صحن خالی پڑا تھا۔ پورے چبوترے پر صرف ایک بھائی جان کا بستر باہر سے لا کر لگا دیا گیا تھا اور ان کے کتے اس کے ارد گرد بیٹھے ہانپ رہے تھے میں اسی پر لیٹ گیا اور مچھر دانی کے پردے ڈال لیے۔ پھر ڈیوڑھی کا دروازہ کھلنے کی مایوس آواز آئی۔ پھر آموں کے جھوے آنے لگے اور چبوترے کے نیچے ڈھیر ہونے لگے۔ میں چپ چاپ لیٹا رہا۔ سوچتا رہا۔ ڈرتا رہا۔ پھر آوازیں بجھنے لگیں اور خاموشی طلوع ہونے لگی۔ میں جاگتے جاگتے تھکنے لگا۔ ڈیوڑھی کا دروازہ پھر آہستہ سے بولا۔ بھائی جان اندر آئے۔ چبوترے پر چڑھتے ہی ٹھٹک گئے۔ میرے پلنگ کی پٹی کے پاس کھڑے ہوئے۔ مجھے آہستہ سے پکارا لیکن میں گبر بنا لیٹا رہا۔ انہوں نے پردہ ہٹا کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر آواز دی۔ کئی آدمی اندر آ گئے۔ میں سب کو جانتا تھا پہچانتا تھا۔
بھائی جان نے جیب سے کنجی نکال کر ایک کو پکڑا دی۔ اس نے دالان کی بغلی کوٹھری میں پڑے ہوئے پنسیری بھرکے تالے کو کھولا۔ دوسرے آدمی نے لالٹین کی بتی اونچی کی۔ وہ کوٹھی سے نکلا تو چمڑے کا سیاہ بھاری ہولڈال اس کے ہاتھوں میں لٹکا ہوا تھا۔ دالان کے بیچوں بیچ رکھ کر ایک آدمی نے اس کے دونوں تالے مروڑ دیے اور وہ بریف کیس کی طرح کھل گیا۔ اس نے جھک کر ایک لڑکی نکال کر زمین پر رکھ دی۔ اس کے دونوں ہاتھوں کی بند مٹھیاں گردن کے پاس رکھی تھیں۔ مڑے ہوئے گھٹنے پیٹ سے لگے تھے۔ اس کا چہرہ میری طرف۔ گول گول صاف صاف بند آنکھوں کی سیاہ لانبی کمان دور تک کھنچی ہوئی تھی۔
میں نے اس کے بولنے رونے اور چیخنے کا انتظار کیا لیکن جب اس کو آم کے خالی بورے میں داب کر بھر دیا گیا اور اس کے باوجود وہ خاموش رہی تو میں نے چیخنا چاہا لیکن میرے منھ سے بھی آواز نہ نکلی اور میں ہانپنے لگا اور جب بورا اٹھا کر آدمی چلے گئے اور وہ تابوت نما ہولڈال بھی رخصت ہو گیا اور بھائی جان کی آواز آئی کہ یوڑھی بند کر لو تو اچانک جیسے میری آواز پر پڑا ہوا پنسیری بھر کا تالا کھل گیا اور میں اتنے زور سے چیخا کہ خود مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے اور پھر آناً فاناً سب میرے پلنگ کے ارد گرد جمع ہو گئے اور میں نے انھیں آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ گلے میں بیلے کے ہار، ہاتھوں میں گجرے اور کانوں میں پھولوں کے جھمکے پہنے مجھے گھور رہی تھیں۔ میں نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور میں نے جب آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ان کے بدن کی بے کار مٹی کے ڈھیر کے نیچے وہی لڑکی کھڑی ہوئی ہے۔ اس کے ہاتھ اور پیر کھلے ہوئے ہیں، بالوں کی چوٹیاں گندھی ہوئی ہیں آنکھوں میں ڈھیروں کاجل لگا ہے اور اس کی مسکراتی نظریں ان کی بجھتی ہوئی چلم کو گھور رہی ہیں۔
٭٭٭