بڑے باغ کے دھورے پر ڈھول تو سانجھ سے بج رہے تھے لیکن اب ان کی گدے کھائی آواز میں لیزم کی تولی گوٹ بھی ٹانکی جانے لگی۔ پتمبر پاسی نے چلم منہ سے نکال کر کان کھڑے کیے اور کہز لی۔ اب گدے کھائی آواز پر لگی تو گوٹ کے اوپر مدرا پاسی کی چہچہاتی آواز کے گول گول ٹھپے بھی پڑنے لگے تھے۔ پتمبر نے چلم مانچی پاس ہی دھری نیائی میں جھونک دی اور اپنے بھاری گھٹنوں پر جو جہازی پلنگ کے تیل پلائے پایوں کی طرح ٹھوس تھے، دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوا تو اس کے سر کا مریٹھا چھپر کے بانس سے لڑ گیا۔
ساتھ ہی تدواری سے بڑ کؤ کی مہتاری نکلی جو اونچے ٹھاٹھ اور چوڑے ہاڑ کی ہٹی کٹی ادھیڑ عورت تھی۔ اس کے پیروں میں کالے پرمٹے کا لہنگا اور سر پر تول کا لمبا چوڑا اوڑھنا لہریں لے رہا تھا اور دونوں کالے ہاتھوں پر پیتل کی تھالی دھری تھی۔ تھالی میں دھرے پیتل کے ڈھکے لوٹے کے پاس ہی مٹی کا چراغ جل رہا تھا اور تلچوری کے ڈھیر پر گڑ کی سنہری ڈلیاں چمک رہی تھیں اور اس کے دونوں کندھوں سے لگی دونوں بہویں چل رہی تھیں جو لال پیلی دھوتیوں میں سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی تھیں لیکن ان کے چاروں ہاتھ باہر تھے۔ چاندی اور لاکھ سے جڑے ہوئے ہاتھوں کے ایک جوڑے پر کمان اور پانچ تیر رکھے تھے اور دوسرا جوڑا مٹی کی ایک مٹکی سنبھالے ہوئے تھا۔
پتمبر سر نہوڑا کر چھپر سے نکلا اور بیچوں بیچ آنگن کھڑا ہو گیا۔ بڑکؤ کی مہتاری نے تھالی اس کے چہرے کے سامنے تین بار نچا کر روک لی۔ پتمبر نے گڑ کی ڈلی اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ بڑکؤ کی مہتاری نے پتل ہٹا کر لوٹے سے رنگ کا ایک چلو بھرا اور پتمبر کے نئے لنکلاٹ کے چوبندے پر چھڑک دیا اور وہ اس طرح سرخ ہو گیا جیسے اس نے اپنے تیر سے شکار کیے ہوئے زخمی بڑیلے کو دونوں بازوؤں میں بھر کر داب لیا ہو اور خونم خون ہو گیا۔ پتمبر نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چندرماں سر کے اوپر آ چکا تھا۔ اس نے بڑی بہو کے ہاتھ سے کمان لے کر ماتھے سے لگائی۔ چھوٹی بہو کی ہتھیلی سے ایک تیر اٹھا کر ہونٹوں سے چوما اور دونوں ہاتھوں سے مٹکی اٹھا کر منہ میں انڈیل لی اور وہ تینوں عورتیں مٹی کی ڈھلی مورتیوں کی طرح کھڑی گھٹ گھٹ کی آوازیں سنتی رہیں۔ جب مٹکی خالی ہو گئی اور چھوٹی بہو نے سنبھال لی تو بڑکؤ مہتاری نے پتمبر کے چارپائی جیسے چوڑے چکلے سینے پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
’’اب کی ہولی ہم کا دے دیو‘‘
’’دیا‘‘
اور دونوں بہوؤں کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور دوسرے تروا ہے میں کھڑے ہوئے ہل کی مٹھیا پکڑ کر پرنام کیا۔ چار جوڑے لمبے چوڑے بیلوں کے کندھے پر تھپکیاں دیں۔ ہاتھی ایسی بندھی ہوئی مندرائی بھینس کے این پر انگلیاں پھیریں اور باہری دروازے کے کپاٹ سے لگا لوہے سے منڈھا اور تیل سے سینچا ہوا سات ہاتھ کا لٹھ اٹھا کر چوما اور کندھے پر رکھ کر باہر نکلا۔ دہلیز سے اترا تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ اپنے پاؤں پرائے معلوم ہونے لگے اورکھوپڑی میں آندھی چلنے لگی۔ دور پاس سے پالاگن اور جے جے کارکی آوازیں سبیرا کرتی چڑیوں کی چہکار بن گئیں اور وہ جھومتا جھامتا بڑے باغ کی دانتی پر آ گیا جہاں اس کے بھائی بھتیجے جانے بوجھے سچے یاردوست اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس نے جاتے ہی ایک لونڈے کے ہاتھ سے مشعل چھین لی اور نئی پرانی اور سوکھی تازی لکڑیوں کی چھوٹی سی پہاڑی میں جھونک کر نعرہ لگایا، ’’جے ہولکا رانی کی‘‘
اور لمبے چوڑے ڈیل ڈول پر لال دھوتی اور چمرودھے جوتے پہنے مدورا لٹو کی طرح ناچنے لگا اور ڈھول تاشے اور لیزم اور جھانجھ سب ایک ساتھ مل کر آوازیں انڈیلنے لگے۔ جیسے ساون بھادوں میں ہتھیا نکھت برس رہا ہو اور وہ گردن گردن پانی میں کھڑا ہو اور پانی بڑھتا جا رہا ہو اور ہاتھ پاؤں جواب دیتے جا رہے ہوں۔ جب وہ ’’ہوری‘‘ گاتے گاتے ڈوبنے لگا تو ہاتھوں کے چپو اسے بہا لے گئے۔ نکال کر لے گئے اور اسے نہیں معلوم پھر کیا ہوا۔ جب آنکھ کھلی تو وہ اپنی تدواری کے پلنگ پر لیٹا تھا اور سارے آنگن میں کڑی دھوپ چھائی تھی اور اس کے نیچے چھپروں میں اور ترواہوں میں نرا آدمی اچھل رہا تھا۔ نری عورتیں اچھل رہی تھیں۔ نرے لڑکے کود پھاند رہے تھے اور معاملہ رنگ سے اترکر کیچڑ اور گوبر پر آ چکا تھا۔
ابھی وہ اپنے اندر کے بھاری پن سے جوجھ رہا تھا کہ ایک طرف سے درگا نکلا اور دارو کا ادھ سیرا کلہڑ اس کے منہ سے لگا دیا۔ اور پھر وہ لیپ دیا گیا۔ پوت دیا گیا۔ نہلا دیا گیا۔ پھر کندھوں پر اٹھا لیا گیا اور گاؤں کے گلیاروں کو چھان دیا گیا اور گھروں کو متھلیا گیا اور جب دوپہر ڈھلنے لگی تو اپنے دوارے سے پہنچا۔ کنویں پر منجھلؤ اور چھٹکؤ نہا رہے تھے اور صابن بہا رہے تھے اور دروازہ اندر سے بند تھا۔ وہ چھپر کے نیچے کھٹیا پر ڈھیر ہو گیا۔ بڑی دیر کے بعد کسی نے اس کا انگوٹھا پکڑ کر ہلا دیا۔ اس نے دھواں دھار آنکھیں کھول دیں۔ سامنے بڑکؤ کی مہتاری کھڑی تھی۔ لال لال اوڑھنی لال کرتی لال لہنگا بالوں میں تیل آنکھوں میں کاجل دانتوں میں مسی اور ہونٹوں پر ہنسی۔ اس نے امس کر ایک بار دیکھا۔ ہنسی باچھوں سے نکل کر کانوں تک پہنچ گئی تھی۔
’’چلو پانی دھرا ہے نہا لیو‘‘ وہ کھٹیا سے اس طرح جیسے ہاتھی بیٹھ کر اٹھتا ہے۔ ایک ایک جوڑ کو سہج سہج سنبھال سنبھال کر چلا اور کنویں کی جگت پر بیٹھ گیا۔ سانجھ ہو رہی تھی لیکن دھوپ میں دھار باقی تھی۔ آدھی دھوتی باندھ کر اور آدھی لپیٹ کر اٹھا۔ دروازے پر بڑکؤ کی مہتاری راہ دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑا کر تدواری کے پیچھے لے گئی، ’’آج یادھوتی باندھو۔ کرتا پہنو۔۔۔ چادر باندھو۔۔۔ ایک کندھے پر دھنئی (کمان) اور ایک پر تیر سجاؤ اور ہم کا لئے کے دوارے چلو۔ تم تال دیو ہم ناچیں۔‘‘
’’دوارے‘‘ جیسے کمان کو کان تک کھینچ کر چھوڑ دیا گیا ہو۔
’’ہاں۔۔۔ مالک کے دوارے ٹھاکر دوارے۔‘‘اور جیسے پوری کوٹھری کی فضا برچھی کی نوک پر تل گئی۔
’’بھاگیہ وان۔۔۔ مالک کو مریں پانچ برس ہوئے گئیں۔‘‘
’’ہاں ہمار گھر ماں بھی پانچ موتیں ہوئے گئیں۔‘‘
’’پانچ موتیں؟‘‘
ہاں۔۔۔ پانچ موتیں۔۔۔ بڑی بھینس مری پہلے۔ پھر لال جوڑ کر بڑی بدھیا مری۔ پھر بڑکؤ مرے۔۔۔ پھر سنجھلؤ مرے۔۔۔ پھر منجھلؤ کی دلہن مری پانچ ہوئے گئیں۔‘‘
’’مالک کا پورا دوارہ کرائے پر اٹھ گوا۔ کہوں گودام ہے۔ کہوں ہسپتال ہے۔ کہوں دپھتر ہے۔‘‘
’’مل دوارہ تو ہے۔۔۔ او تو کوؤ نائیں اٹھائے لئے گوا۔۔۔‘‘
’’واجگہ تو ہے جہاں دادا پر دادا ناچت رہیں۔ تیج تہوار کے دن سب اپنی جگہ پر آوت ہیں۔۔۔ سب پھیر کرت ہیں۔ سنو۔۔۔ بڑکؤ مر گئے، مل ہمرے لیے جندہ ہیں۔ تمرے لیے جندہ ہیں۔۔۔ تم ہم کا بڑکؤ کی مہتاری کاہے کہت ہو۔‘‘
’’مل بڑکؤ کی مہتاری یو نائیں ہوئے سکت۔۔۔ یونائیں ہو سکت۔‘‘ اور وہ باہر جانے کے لیے مڑنے لگا تو بڑکؤ کی مہتاری نے اس کی دھوتی پکڑ لی۔ ’’بڑے پاسی کے پوت ہو۔ رات کا بچن دیت ہو اور سبیرے چھین لیت ہو۔‘‘ تدواری سے گزرتے ہوئے یہ جملہ لاٹھی کی طرح اس کے کان پر لگا۔ وہ لڑکھڑا گیا۔ لیکن پھر سنبھل کر پورے قدموں سے زینے کی طرف چلا چھپر میں دونوں بہوئیں گھونگھٹ کاڑھے کھڑی تھیں۔ اس نے ان کی طرف دیکھے بغیر کہا، ’’کوئی آوے تو کہہ دینا نائیں ہیں۔۔۔ کہوں ہولی ملے گئے‘‘
زینے کا دروازہ اتنے زور سے بند کیا جیسے بڑکؤ کی مہتاری کے منہ پر لٹھ مار دیا ہو۔ تینوں عورتیں کھڑی اس کے پیروں سے دھچکتی سیڑھیاں گنتی رہیں۔ وہ بنگلے میں برے جہازی پلنگ پر ڈھیر ہو گیا۔ بڑکؤ کی مہتاری نے پھر اس کے کان میں کاٹ لیا۔
’’پاسی کے پوت۔‘‘
’’ہنھ۔۔۔ کوئی ٹھاکر کہہ کے دیکھے تو سینے پر چڑھ کے نٹی سے خون پی لیوں۔‘‘ وہ ابلتا رہا۔ کھولتا رہا۔ لمبے لمبے سانس بھرتا رہا۔ جب بے چینی اس کے تلووں سے ٹپکنے لگی تو وہ منڈیر کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ نیچے سارا دریا پور بچھا تھا۔ دانا پور راج کا تخت گاؤں۔ راج باسیوں کا کھرا گاؤں جو ایک ہی چاچا بابا کی اولاد میں تھے۔ دن میں نوکری کے نام پر دانا پور راج کی طرف لاٹھیاں اٹھاتے اور کمانیں کڑکاتے اور رات میں رہزنی کرتے اور ڈاکے ڈالتے۔ جب پکڑ ہی لیے جاتے تو دانا پور راج ان کی ضمانت کرتا اور مقدمے لڑاتا۔ اگر سزا ہو جاتی تو ان کی بیوی بچوں کی ایسی رکھوالی کرتا جیسے وہ گھر میں نہیں سسرال میں ہوں۔ کیسا دن تھا وہ بھی۔ سبیرے جمینداری فیل ہونے کی ڈگی بجی اور سانجھ ہوتے ہوتے ’’بابا‘‘ مار ڈالے گئے۔ ابھی پولیس کی ہاہاکار مچ رہی تھی کہ ٹھاکر نواب علی کی سواری آ گئی۔ ہاتھی سے اترتے ہی مقتول دلاور اسی کے بیٹے پتمبر پاسی کی طلبی ہوئی۔ وہ جیسے ہی پاؤں چھونے کو جھکا اسے کندھوں سے پکڑ لیا۔
’’پتمبر‘‘
’’مالک‘‘
’’تمہارے مقتول باپ کا مقدمہ ہمارا ہے۔ یہ کٹھار تمہارا ہے۔ بڑا باغ تمہارا ہے۔ دریا پور کی سرکاری آراضی تمہاری ہے۔ تمہارے باپ کی جگہ ہمارے پلنگ کا پہرہ بھی تمہارا ہے۔‘‘ اتنی بہت سی چیزیں ایک ساتھ پا کر وہ بوکھلانے بھی نہیں پایا تھا کہ ٹھاکر کھڑی سواری سدھار گئے۔ اور اس شام جب وہ دریا پور کا پردھان چن لیا گیا تو بندوق چھوڑتے اور گولے داغتے ہجوم کے ساتھ سرکار کو سلام کرنے دوارے پہنچا۔ دالان پر پہرہ کھڑا ہو چکا تھا لیکن ’’ہال‘‘ کے پردوں سے آواز آئی کہ پتمبر کو اندر بھیج دو۔
ٹھاکر کے سامنے خالی گلاس اور بھری بوتل رکھی تھی۔
’’مبارک ہو‘‘
’’سرکار‘‘ اس کے منھ سے اور کچھ نکلا ہی نہیں۔
’’آج سے تمہاری پہرے داری موقوف۔‘‘
’’سرکار‘‘
’’پلنگ کا پہرے دار گاؤں کی پردھانتا نہیں کر سکتا۔‘‘
’’سرکار‘‘
’’اور تم پردھانتا چھوڑ بھی نہیں سکتے کہ اگر ہم پر اس سے بھی برا وقت آ گیا تو کم از کم ایک پردھان تو ہمارے ساتھ ہو گا۔‘‘
’’شراب پیتے ہو؟‘‘ انہوں نے گلاس بھر لیا۔
’’مالک‘‘
’’مت پیا کرو شراب سوت برداشت نہیں کرتی۔ ہم اس لیے پیتے ہیں کہ ہمیں اس کی سوت نہیں لانا ہے۔ شادی اس لیے نہیں کی کہ بچے پیدا ہوں گے اور جیسے جیسے بڑھتے جائیں گے نشہ گھٹتا چلا جائے گا اور شراب بوڑھی ہوتی چلی جائے گی۔ تم جا سکتے ہو۔‘‘
’’مالک‘‘
’’دانا پور راج میں ٹھاکر نواب علی کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ تمہارا پہرہ ایک رسم تھا۔ بہت سی رسموں کی طرح آج یہ رسم بھی اٹھا دی گئی۔‘‘
’’سپاہی‘‘
’’دریا پور کے پردھان پتمبر جی کو باہر لے جاؤ۔ مٹھائی کھلاؤ حقہ پلاؤ اور رخصت کر دو۔‘‘
وہ کھڑا کانپ رہا تھا کہ ایک مضبوط ہاتھ نے اسے شانے سے پکڑ کر کمرے سے باہر کر دیا۔ اس نے کڑوی مٹھائی کھائی اور میٹھا حقہ پی لیا اور معلوم نہیں کیسے اپنے گھر پہنچ گیا اور پھر پردھانتا کی پہلی ہولی آئی۔ سورج بیٹھتے بیٹھتے وہ اپنے پریوار کے ساتھ گرہی پہنچ گیا۔ بہت سے سوانگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے۔ جب سب چلے گئے تو اس کی عورتوں کو اندر اور مردوں کو باہر بلایا گیا اور پان حقے کی تواضع کی گئی اور جب رات ادھیانے لگی تو سرکار برآمد ہوئے۔
’’پردھان پتمبر۔۔۔ تمہارا اور تمہاری عورتوں کا یہ ناچ ہم کو پسند نہیں رہا۔ دنیا سنے گی تمہارے خلاف ہو جائے گی۔ تم کو ووٹ نہیں دے گی۔ تم کو پردھانتا سے اتار دے گی۔‘‘
’’ناچ تو پرکھوں سے ہوتا آیا ہے۔۔۔ پردھانتا تو آج آئی ہے۔۔۔ پردھان چنے جاتے ہیں پتمبر پیدا ہوتا ہے۔‘‘
وہ سر جھکائے بیٹھے رہے۔ سٹک کے گھونٹ لیتے رہے اور تالی کی ٹھیک دیتا رہا اور عورتیں ناچتی رہیں اور پچھلے برسوں سے زیادہ دیر تک اور مستی سے ناچتی رہیں۔ اس نے اپنے گالوں پر نمی محسوس کی۔ آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ سارا گاؤں سو چکا تھا۔ پتمبر جاگ چکا تھا۔ جس تیزی سے سیڑھیوں پر چڑھا اسی تیزی سے اترا۔ آنگن میں تینوں عورتیں ایک ہی پلنگ پر سر جوڑے بیٹھی تھیں۔ وہ اندر گیا۔ لال کناری کی نئی دھوتی باندھی۔ ململ کا کرتا پہنا۔ بھاگلپوری چادر کمر میں لپیٹی اور لال انگوچھے کا مریٹھا سر پر کس لیا۔ دونوں ہاتھوں سے کمان اٹھا کر چڑھائی اور چوم کر داہنے بازو پر لگائی۔ باپ کے بنائے تیروں کا ترکش پشت پر سجایا اور نری کا جوتا پہن کر چرمر کرتا باہر نکلا۔
’’اٹھو بڑکؤ کی مہتاری دوارے چلو۔‘‘ وہ کوک بھرے کھلونے کی طرح اس کے ساتھ ہولیں۔ دروازے نکلتے نکلتے اس نے بہوؤں کو منع کیا لیکن وہ نہ مانیں۔ کسی کو دروازہ بند کرنے کی تاکید کر کے وہ سڑک پر ہولیا۔
چار جوڑ پیروں میں پہیے لگے تھے اور سڑک اس کی یادوں کی طرح گھٹتی جا رہی تھی۔ پھر دانا پور آ گیا۔ گڑھی آ گئی۔ اس کے سواگت کے لیے پھاٹک اپنے دونوں پٹ کھولے کھڑا تھا۔ محل سرائے اور دیوان خانے کے بیچ کا پختہ فرش خالی پڑا تھا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح سیڑھیوں پر چڑھنے سے پہلے جوتے اتار دیے۔ دیوان خانے کے دروازے کے جاگتے شیشوں کے پیچھے ہسپتال کے ساز و سامان نے اس کا سلام کیا۔ پھر وہ الٹے پیروں گھوما اور ترچھا ہو کر دونوں پیر کھول دیے اور کمر میں خم دے کر تالی بجائی اور عورتیں ناچنے لگیں۔ ناچتی رہیں۔ جب ہوش آیا تو ان کے چاروں طرف بھیڑ جمع تھی اور سورج کی کرن پھوٹ رہی تھی۔
٭٭٭