آپی۔۔۔۔۔
نور جو ابھی کھانا کھانے کے لیئے کمرے سے باہر آئ تھی سامنے دروازے سے نایاب کو آتا دیکھ وہ فورا اس کے گلے لگ گئ تھی۔
کیسی ہو۔
نایاب نے اب اپنے آپ کو کافی حد تک سنبھال لیا تھا۔
میں بالکل ٹھیک ہوں اور اب آپ کو دیکھ کر اور ٹھیک ہو گئ ہوں۔
نور نے چہکتے ہوئے کہا۔
اچھا باقی سب کہا ہیں؟
نایاب نے آس پاس دیکھتے ہوئے پوچھا۔
سب لوگ ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھے کھانا کھا رہے ہوں گے آب بھی چلیں اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیں۔
نور نایاب کا ہاتھ پکڑ کر لے جانے لگی۔
نور میرا بالکل دل نہیں ہے۔
نایاب نے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی کیونکہ آج جو ہوا تھا اس سب کی وجہ سے اسکے دل کے ساتھ اسکی بھوک بھی مر گئ تھی۔
پلیز میرے خاطر تھوڑا سا۔
نور نے معصوم سی صورت بنائ۔
اچھا چلو ڈرامے باز۔
نایاب نے نور کے سر پر چپت لگائ۔
ماں صدقے میری بچی آئ ہے۔
وہ لوگ جب ڈائنگ حال میں آئے تو مائرہ بیگم نایاب کو دیکھ کر فورا اسکی طرف بڑھی تھیں۔
کیسی ہے میری بچی؟
مائرہ بیگم نے نایاب کا ماتھا چومتے پوچھا۔
میں ٹھیک ہوں۔
نایاب مسکرانے کی کوشش کرتے بولی۔
اوئے ہوئے بڑے بڑے لوگ آئے ہیں ہمارے غریب خانے میں ۔
سعد جو ابھی آیا تھا نایاب کو دیکھ فورا بولا۔
ادھر آؤ زرا میں بتاتی ہوں۔
نایاب نے اسے آنکھیں دکھائ۔
جی بولیں غلام حاضر ہے۔
سعد فورا نایاب کے پاس پہنچا۔
ہاں کیا کہہ رہے تھے تم۔
نایاب نے سعد کے کان پکڑ کر کھینچے۔
میں تو کہہ رہا تھا کے آپ کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔
سعد نے کان چھڑانے کی کوشش کرتے معصومیت سے کہا۔
کیوں میری بچی کو تنگ کر رہے ہو ابھی تو آئ ہے۔
رفیق صاحب نے نایاب کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
اچھا چلو سب کھانا کھا لو ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
نایاب سہی سے کھاؤ نا بیٹا۔
مائرہ بیگم نے اسے چاولوں کے ساتھ کھیلتا دیکھتے ٹوکا۔
نہیں چاچی میں کھا رہی ہوں ۔
آپی آپ یہ کھائیں ۔میں نے بنائے ہیں۔
نور نے کباب نایاب کو پکڑاتے ہوئے کہا۔
آپی آپ یہ پانی ٹرائے کریں ۔خود نور نے بنایا ہے۔
سعد نے پانی کا گلاس نایاب کو پکڑاتے اپنی بدتیسی کی نمائش کی۔
امی بھائ کو دیکھیں ۔۔۔۔۔
نور نے مائرہ بیگم کو دیکھتے کہا۔
مت تنگ کرو اسے ویسے بھی میری بچی تھوڑے دن کی مہمان رہ گئ ہے۔
مائرہ بیگم نے سعد کو آنکھیں دکھائیں۔
کیا مطلب چچی؟
نایاب مائرہ بیگم کی بات پر الجھی تھی۔
ہاں وہ میں تمھیں بتانے ہی والی تھی
کہ ہم نے ارسلان کا نور کا رشتہ تہہ کر دیا ہے۔
اچھا بہت بہت مبارک ہو ۔
نایاب کو سن کر دل سے خوشی ہوئ تھی۔
نور چپ چاپ اپنے دل کی کیفیت پر قابو پا رہی تھی۔
نایاب بیٹا اکیلی آئ ہو یا ازلان کے ساتھ۔
رفیق صاحب نے پوچھا۔
جی وہ انہیں کچھ کام تھا تو اسی لیئے اکیلی آئ ہوں۔
نایاب نے بظاہر مسکراتے ہوئے کہا۔
نایاب نے سوچا تھا کہ وہ سب کچھ سچ سچ رفیق صاحب کو بتا دے گی لیکن ان سب کے مسکراتے چہرے دیکھ کر اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنی ذات سے ان کو دکھ نہیں دے گی۔
********************¬**********
نور میں دیکھ رہی ہوں کہ تم میں کافی چینج آگیا ہے اور میں خوش ہوں تمھیں دیکھ کر۔
نور ابھی نماز پڑھ کر نایاب کے پاس آکر بیٹھی تھی تو نایاب نے کہا۔
جی آپی بعض دفع انسان بغیر ٹھوکر کھائے سدھرتا ہے اور بعض دفع ٹھوکر کھا کر۔
نور نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔
میں تم سے یہ نہیں پوچھو گی کے تمہارے چینج کی کیا وجہ ہے لیکن مجھے بہت خوشی ہوئی ہے تمھارے اندر بدلاؤ دیکھ کر۔
نایاب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اچھا آپی آپ بتائیں کے آپ خوش تو ہیں نا ازلان بھائ کے ساتھ۔
نور نے ٹاپک بدلنا چاہا۔
ہاں میں خوش اور تم مجھے چھوڑو اپنا بتاؤ کے تم خوش ہو۔
آپی مجھے نہیں پتا میں خوش ہوں یا نہیں بس میں نے اپنے سارے فیصلے اپنے رب پر چھوڑ دیئے ہیں اور میں جانتی ہوں کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والے ہیں۔
نور نے کہا۔
بے شک۔
نایاب نور بات سن کر مسکرائ۔
********************¬********
دن پرلگا کر اڑ رہے تھے۔نور کی شادی میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تھا ۔
رفیق صاحب اور مائرہ بیگم نے بھی دو تین دفع نایاب سے ازلان کے ایک دفع بھی نا آنے کے متعلق پوچھا لیکن اسنے ہر بار بزی ہونے کا بہانا بنایا تو انھوں نے بھی کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔
نایاب نے زاہرہ بیگم کو بھی فون کر کے منع کردیا تھا کہ وہ کسی کو بھی کچھ نا بتائے تو وہ بھی بات کو سمجھتے ہوئے مان گئ تھیں۔
********************¬********
نایاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نایاب۔۔۔۔۔۔
کیا ہو گیا ہے ازلان کیوں چیخ رہے ہو۔
امی نایاب کہا ہے۔میری شرٹ نہیں مل رہی ہے مجھے۔
ازلان نے کبڑڈ میں سے سارے کپڑے باہر نکال کر پھینکے ہوئے تھے۔
دماغ خراب ہوگیا ہے شاید تمھارا۔
تم نے خود اس معصوم کو دھکے دے کر گھر سے نکالا تھا اب پوچھ رہے ہو کہ وہ کہاں ہے۔
ازلان زاہرہ بیگم کی بات پر صرف لب بھینچ کر رہ گیا۔
بیٹا ابھی بھی ٹائم ہے ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا تم جا کر
نایاب کو واپس لے آؤ۔
امی مجھے کچھ نہیں سننا نایاب کے متعلق اور اسے لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ازلان نے نخوت سے کہا۔
بیٹا کیوں ظلم کر رہے ہو معصوم بچی پر
کچھ تو خدا کا خوف کرو۔
زاہرہ بیگم نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
امی پلیز میں آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اس گھر میں اسکی کوئ جگہ نہیں ہے۔
ازلان کہہ کر رکا نہیں ۔
یا خدا اس لڑکے کو ہدایت دے۔
زاہرہ بیگم نے افسوس سے کہا۔
********************¬*******
امی کیا سمجھتی ہیں کہ میں انکے کہنے پر اسے واپس لے آؤ گا ہنہہ۔
ازلان تیز ڈرائیو کرتے ہوئے آفس کی طرف جا رہا تھا۔
میں مر کر بھی اس لڑکی کو اپنے گھر نھیں لاؤ گا اور مجھے کون سا اسکی ضرورت ہے جو میں اسے لاؤ۔پڑی رہے ساری زندگی اپنے چاچا کے گھر۔زرا اسے بھی تو پتا چلے۔
"انسان اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔"
ازلان اپنی سوچو میں اس قدر گم تھا کہ سامنے سے آتا ہوا ٹرک بھی اسے نظر نہیں آیا ۔
جیسی ہی ٹرک ازلان کی کار سے ٹکرایا ایک دل خراش چیخ ازلان کے حلق سے نکلی۔
********************¬*******
یا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نایاب نے اپنے چکراتے سے کو تھامتے ہوئے دیوارکا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچایا۔
کیا ہوا نایاب بیٹا۔
مائرہ بیگم جو وہاں سے گزر رہی تھیں نایاب کو اس طرح دیکھ فورا اسکے پاس آئیں۔
کچھ نہیں چاچی وہ بس چکر آگیا تھا۔
زرا خیال نہیں ہے تمہیں اپنا ۔شکل دیکھو اپنی کیسی ذرد پڑ گئ ہے ۔
چلو تم کمرے میں، میں ابھی ڈاکٹر فہمیدہ کو کال کر کے بلاتی ہوں ۔
مائرہ بیگم نے نایاب کو سہارا دیتے ہوئے کہا۔
نہیں چاچی میں ٹھیک ہوں وہ بس ویسے ہی چکر آ گیا تھا۔
چپ چاپ چلو میرے ساتھ ورنہ مار کھاؤ گی تم مجھ سے۔دن با دن کمزور ہوتی جا رہی ہو اور کہہ رہی ہو کہ ٹھیک ہوں۔
مائرہ بیگم نے اسے ڈانٹا۔
مبارک ہو یہ ماں بنے والی ہیں۔
ڈاکٹر فہمیدہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
مائرہ بیگم نے نایاب کا ماتھا چوما۔
جب کے نایاب کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا
*******************¬**********
آج ازلان سے میں بات کر کے رہو گی ۔
یہ بھی کوئ بات ہے کہ بیوی کو ہی گھر سے نکال دیا اور بیوی بھی وہ جو اتنی فرمانبردار ہے۔
زاہرہ بیگم جو بیٹھی ہوئ سبزی بنا رہی تھی فون کی آواز پر انھوں نے کال اٹھائ۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے بندے کی بات سن کر فون چھوٹ کر انکے ہاتھ سے گر گیا۔
یا اللہ خیر کرنا میرے مالک۔
زاہرہ بیگم نے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔
********************¬**********
آپی آپ کو پتا ہے میں بہت خوش ہوں۔
نور نے نایاب کو گلے لگایا۔
بیٹا تم نے ازلان کو فون کر کے اس خوشخبری کے بارے میں بتایا۔
مائرہ بیگم نے نایاب سے پوچھا۔
چاچی میں انھیں فون کر رہی تھی لیکن انکا نمبر بند تھا ۔
نایاب نے بتایا۔
"جب نایاب کو اس بات کا پتا چلا تھا تو اس کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ ازلان کو کیسے بتائے۔اسکے کے کہے گئے الفاظ نایاب ابھی تک بھولی نہیں تھی لیکن پھر بھی اسنے ہمت کر کے ازلان کو فون کیا تھا تو اسکا نمبر بند تھا۔"
"اچھا میں نے بھی باجی کو فون کیا تھا ان کا بھی نمبر بند تھا ایک کام کرنا تم تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون کر کے دیکھ لینا۔"
جی۔۔۔۔۔
نایاب صرف اتنا ہی کہہ سکی۔
********************¬********
"کاش نور تم نے میری محبت کی قدر کی ہوتی تو آج سب کچھ کتنا اچھا ہوتا۔تم سے شادی یہ میری ہمیشہ کی خواہش تھی لیکن تمھاری وجہ سے یہ خواہش بھی میری دفن ہوگئ ہے۔"
ارسلان بیٹا صرف چند دن رہ گئے ہیں تمھاری شادی میں۔آج تم نور کو لے جا کر برائیڈل ڈریس لے لاؤ۔
ارسلان جو اپنی سوچو میں گم تھا شازیہ بیگم نے آکر اسے مخاطب کیا۔
کچھ کہا آپنے؟
ارسلان نے چونک کر شازیہ بیگم کو دیکھا۔
کیا ہو گیا ہے بیٹا میں کب سے تم سے بات کر رہی ہوں اور تم ہو کہ پتا نہیں کہا گم ہو ۔
شازیہ بیگم نے ناراضگی سے کہا۔
اچھا سوری میں نے سنا نہیں۔
شازیہ بیگم کا ناراض چہرہ دیکھ ارسلان
نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میں کہہ رہی تھی کہ تم نور کے ساتھ جا کر برائیڈل ڈریس لے آؤ۔
شازیہ بیگم کی بات سن کر ارسلان کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔
سوری امی میں آج کل بہت مصروف ہوں۔
ارسلان جانے کے لیئے کھڑا ہو گیا تھا۔
ارسلان کیا بات ہے بیٹا۔مجھے تمھارے چہرے پر اس شادی کو لے کر کوئ خوشی نظر نہیں آرہی۔
شازیہ بیگم نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا۔
جب انسان کا دل خوش نا ہو تو اسکے چہرے سے بھی خوشی نہیں جھلکتی۔
ارسلان نے صرف سوچا۔
ایسی کوئ بات نہیں ہے آپ پریشان مت ہو۔
ارسلان کہہ کر چلا گیا۔
********************¬**********
ڈ ۔ڈاکٹر م۔ میرا بچا ک۔کیسا ہے؟
زاہرہ بیگم نے بہت مشکل سے اپنی بات مکمل کی تھی۔
دیکھیے جب انکو یہاں لایا گیا تھا تو انکی کنڈیشن سیریس تھی مگر اب وہ خطرے سے باہر ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا؟
زاہرہ بیگم کو جہاں اس بات کی خوشی ہوئ تھی کہ ازلان اب خطرے سے باہر ہے وہیں ڈاکٹر کا لیکن سن کر انہیں ڈر لگا تھا۔
اس ایکسیڈنٹ میں انکی دونوں ٹانگیں بری طرح انجڑد ہو گئی ہیں۔
یا اللہ میرا بچہ۔
زاہرہ بیگم نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔
دیکھیں آپ ذیادہ پریشان مت ہوں اگر انھیں پھرپور توجہ ملی تو وہ جلد صحتیاب ہو جائیں گے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر نے انھیں تسلی دی۔
میں کب اپنے بیٹے سے مل سکتی ہوں؟
زاہرہ بیگم اپنے آنسوؤں کو ضبط کیئے کھڑی تھیں۔
دیکھیں ابھی وہ دوائیوں کے زیر اثر ہیں۔جب انھیں حوش آجائے گا تو تب آپ انسے مل سکتی ہیں۔
ڈاکٹر کہہ کر چلا گیا۔
یا اللہ میرے بچے پر رحم فرما۔
زاہرہ بیگم نماز پڑھنے چلی گئ۔
********************¬********
ہیلو۔۔۔۔۔
زاہرہ بیگم نے فون اٹھایا۔
کیسی ہیں باجی آپ ۔میں کب سے آپ کو فون کر رہی تھی لیکن آپ نے اٹھایا ہی نہیں۔
مائرہ بیگم نے کہا۔
ہاں میں وہ بس تھوڑی مصروف تھی۔
زاہرہ بیگم نے آنکھ میں آئ نمی صاف کی۔
اچھا ازلان کیسا ہے اور کہاں ہے۔
مائرہ بیگم نے پوچھا۔
وہ بھی بالکل ٹھیک ہے اور باہر ملک گیا ہوا ہے میٹنگ میں۔
"زاہرہ بیگم نے سوچا کہ وہ سب بتادیں لیکن دو دن بعد نور کی بارات تھی اور وہ اپنی ذات سے انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں اور نایاب کو وہ کس منہ سے واپس بلاتیں جبکہ انکے بیٹے نے ہی اسے دھکے دے کر گھر سے نکالا تھا۔"
اچھا آپ لوگ آئیں گے نا نور کی بارات میں؟
مائرہ ہمارا آنا مشکل ہے ازلان بھی میٹنگ کے سلسلے میں گیا ہوا ہے اور میری خود کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔
زاہرہ بیگم نے بہانہ بنایا۔
لیکن آپ لوگ آنے کی لازمی کوشش کرنا اور اچھا باجی مجھے آپ کو کچھ بتانا تھا۔
مائرہ بیگم انھیں نایاب کی خوشخبری کے بارے میں بتانے والی تھیں۔
اچھا مائرہ میں تم سے بعد میں بات کرتی ہو۔
جب نرس نے انھیں ازلان کے ہوش میں آجانے کی خبر سنائی تو انھوں نے فورا فون بند کر دیا۔
********************¬********
امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک درد بھری آواز ازلان کے منہ سے نکلی۔
جی میری جان میں یہی ہوں تمھارے پاس۔
زاہرہ بیگم نے پیار سے ازلان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
امی مجھے ب۔بہت تکلیف ہو رہی ہے۔
ازلان نے انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
بس میری جان خدا نے چاہا تو تم جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔
ازلان کی یہ حالت دیکھ کر زاہرہ بیگم کو تکلیف ہو رہی تھی۔
امی میری میری ٹا۔ٹانگیں نہیں ہل رہی امی۔
ازلان نے اپنے پیروں کو ہلانے کی کوشش کرتے ہوئے روتے ہوئے کہا۔
ا۔امی میری ٹانگیں با۔بالکل نہیں ہل رہی ۔امی یہ کیوں نہیں کام کر رہی ہیں۔
ازلان کی چیخیں سن کر ڈاکٹر بھی آگئے تھے۔
ڈا۔ڈاکٹر یہ مجھے کیا ہو گیا ہے ۔میں اپنی ٹانگوں کو موو کیوں نہیں کر پارہا ہوں۔
ازلان چیختے ہوئے اپنا سر تکیے پر مارنے لگا۔
ڈاکٹر نے جلدی سے نیند کا انجکشن ازلان کو لگایا جس سے تھوڑی دیر میں وہ پرسکون ہو گیا۔
یا اللہ میرے بچے پر رحم فرما۔
زاہرہ بیگم ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
********************¬********
آج نور کی بارات تھی۔
دلہن بنے وہ کوئ آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی۔
مائرہ بیگم نے نایاب کو بتادیا تھا کہ ازلان اور زاہرہ بیگم نہیں آئے گے جسے سن کر نایاب کو کافی دکھ ہوا تھا۔
ارسلان سپاٹ چہرہ لیئے نور کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھا تھا۔
نور کو بہت ڈر لگ رہا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد رخستی کا شور مچ گیا اور وہ رخست ہو کر ارسلان کے گھر آگئی۔
وہ ارسلان کے کمرے میں بیٹھی تھی۔
ڈر کی وجہ سے وہ ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی۔
یا اللہ پتا نہیں ارسلان کا رویہ کیسا ہو گا۔
وہ اپنی سوچو میں گم تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز آئ اور نور کی جان اسکے حلق میں آگئ۔
***********************