ارسلان بیٹا میں سوچ رہی ہوں کہ اب آپ کی شادی کروادی جائے۔
شازیہ بیگم نے ارسلان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
امی آپ کو اچانک میری شادی کا خیال کیسے آگیا۔
ارسلان بولا۔
اچانک نھیں آیا میں کافی دنوں سے تم سے بات کرنے کا سوچ رہی تھی اچھا تمھیں کوئ لڑکی پسند ہے جس سے تم شادی کرنا چاہتے ہو۔
شازیہ بیگم نے جانچتی نظروں سے ارسلان کو دیکھا۔
شازیہ بیگم کی بات سن کر ارسلان کی نظروں کے سامنے نور کا مسکراتا ہوا چہرہ آیا لیکن وہ فورا سر جھٹک کر بولا۔
نھیں امی مجھے کوئ نھیں پسند۔
مطلب کے تمھیں میری پسند کی لڑکی سے شادی کرنے میں کوئ اعتراض نھیں۔
انھوں نے ایک بار پھر پوچھا ۔
نھیں امی جان آپ جہاں کہیں گی میں وہاں آنکھیں بند کر کے شادی کر لوں گا۔
ارسلان نے اپنی دل کی دہڑکنوں کو نظر انداز کیا جو چیخ چیخ کر نور کا نام پکار رہی تھیں۔
جیتے رہو میرے بچے ۔میں اب جلد ہی لڑکی والوں سے بات کرتی ہوں۔
شازیہ بیگم کہہ کر چلی گئی۔
کاش نور تم نے میری محبت کی قدر کی ہوتی۔
ارسلان نے آنکھوں میں آئ نمی صاف کی۔
********************¬********
نور بیٹا اتنی دیر ہو گئ ہے اور آپ ابھی تک اٹھی نھیں۔
مائرہ بیگم نے نور کے کمرے میں آکر کھڑکیوں سے پردے ہٹاتے ہوئے کہا۔
نور بیٹا۔۔۔۔۔۔
نور کا جواب نا پا کر وہ اس کے پاس آئ لیکن جیسے ہی انھوں نے نور کا ہاتھ پکڑا تو انھیں فورا جھٹکا لگا کیونکہ نور کا جسم بخار سے تپ رہا تھا۔
نور بیٹا آ نکھیں کھولو۔
مائرہ بیگم نے نور کے گال تھپکتے ہوئے کہا۔
امی۔۔۔۔
نور نے تھوڑی سی آنکھیں کھولتے ہوئے پکارا۔
بیٹا اگر آپ کی طبیعت ٹھیک نھیں تھی تو رات کو ہی بتانا چاہیئے تھا ۔
مائرہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔
امی میں ٹھیک ہوں۔
نور اپنے لیئے انکی فکر پر مسکرائ تھی۔
اتنا تیز بخار ہو رہا ہے اور کہہ رہی ہو کہ ٹھیک ہوں۔
چلو شاباش اٹھ کر بیٹھو میں تمھارے لیئے ناشتہ اور دوائ لاتی ہوں۔
نھیں آپ میرے پاس بیٹھی رہیں۔
مائرہ بیگم جب اٹھ کر جانے لگی تو نور نے انکا ہاتھ پکڑ کر اپنا سر انکی گود میں رکھ لیا۔
امی ایک بات پوچھوں؟
ہاں پوچھو میری جان۔
مائرہ بیگم نور کے بال سہلانے لگ گئ۔
امی اگر انسان سے کو غلطی ہوجائے تو اسے کیا کرنا چاہئیے۔
نور نے اپنے دل میں مچلتا سوال پوچھا۔
ہمم۔ نور غلطی کر کے اس غلطی کو مان لینا بھت بڑی بات ہے۔اگر آپ کی اس غلطی کی وجہ سے کوئ بندہ ہرٹ ہوا ہے تو آپ اس سے معافی مانگو اور اگر آپ نے اللہ کو ناراض کیا ہے تو
اس سے معافی مانگو۔
امی اللہ تعالیٰ معاف کر دیں گے نا؟
نور اس وقت کسی معصوم ڈرے ہوئے بچے کی طرح لگ رہی تھی جو غلطی کے بعد سزا کا سوچ کر گھبڑا رہا ہو۔
تمھیں پتا ہے نور بندے اتنی آسانی سے معاف نھیں کرتے جتنی آسانی سے اللہ معاف کرتا ہے۔کیونکہ وہ بہت رحیم ہے وہ تو بس اپنے بندے کی سچی معافی کی دیر میں ہوتا ہے جیسے بندہ اپنی غلطی کی دل سے معافی مانگ لے تو وہ فورا معاف کر دیتا ہے چاہے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نا ہو۔
مائرہ بیگم کی باتیں سن کر نور نے کمال مہارت سے اپنے آنسوں ضبط کیئے ہوئے تھے ورنہ تو اسکا دل چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر روئے اور اپنے رب کے سامنے اپنی غلطی کی معافی مانگے۔
اچھا چلو تم بیٹھوں میں ناشتہ لے کر آتی ہوں۔
مائرہ بیگم کے جانے کے بعد نور سر پکڑ کر بیٹھ گئ۔
سارے واقع کسے فلم کی طرح اسکی آنکھوں میں گھوم رہے تھے۔
اسکا راحیل سے باتیں کرنا۔اسکی جھوٹی محبت پر یقین کرنا۔اس پر اعتبار کر کے اس کے گھر جانا اور پھر وہ ہونا جس کا اسے بالکل اندازہ نھیں تھا۔
آپی سہی کہتی تھی کہ نامحرم کی محبت سوائے رسوائ کے کچھ نھیں دیتی کاش میں انکی یہ بات پہلے سمجھ جاتی۔
نور انھیں سوچو میں گم تھی جب اسے آذان کی آواز آنے لگی۔
اسے یاد نھی پڑھ رہاتھا کہ اس نے آخری بار کب نماز پڑھی تھی۔
بخار کی وجہ سے اسکا پورا جسم درد کر رہا تھا لیکن وہ اپنے درد کو بھلائے فورا نماز کے لیئے وضو کرنے چلی گئ۔
********************¬*******
پھوپھو یہ سوپ پی لیں۔
نایاب نے زاہرہ بیگم کو سہارا دے کر بٹھایا۔
میرا دل نھیں کر رہا۔
زاہرہ بیگم نے کہا۔
زاہرہ بیگم کو پچھلے کچھ سے دنوں سے بخار تھا اور نایاب نے سچے دل سے انکی بھت دیکھ بھال کی تھی جس کی وجہ سے انکا بخار بھی اتر گیا تھا لیکن وہ پہلے سے کمزور ہوں گئ تھیں۔
تھوڑا سا پی لیں پھر دوائ بھی لینی ہے۔
نایاب نے زبردستی انھیں سوپ پلایا۔
نایاب تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جاؤ۔
نایاب جب دوائ دے کر جانے لگی تو انھوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔
جی پھوپھو بولیں۔
مجھے معاف کر دو ۔
زاہرہ بیگم نے نایاب کے سامنے ہاتھ جوڑے۔
انکے جڑے ہاتھ دیکھ کر نایاب کو دھچکا لگا تھا۔
پھوپھو یہ کیا کر رہی ہیں آپ۔
نایاب نے فورا انکے ہاتھ پکڑ کر نیچے کیئے۔
بیٹا میں نے ساری زندگی تمھارے ساتھ بھت زیادتی کی ہے۔میں نے تمھیں پہچاننے میں غلطی کر دی۔
جس طرح تم نے دن رات میری خدمت کی ہے اگر میری اپنی بیٹی بھی ہوتی تو وہ بھی شاید ایسے نھیں کرتی۔
تم بھت اچھی ہو نایاب بس میں ہی عقل کی اندھی تھی۔
زاہرہ بیگم کی باتیں سن کر نایاب کے آنسوں بہہ رہے تھے۔
کیا تم مجھے معاف کر دو گی۔
انھوں نے امید بھری نظروں سے نایاب کو دیکھا۔
پھوپھو آپ مجھ سے معافی مت مانگیں کیونکہ میں آپ سے کبھی ناراض نھیں تھی۔
جیتی رہو میری بچی ۔مجھے پتا تھا کہ تم بھت بڑے دل کی مالک ہو۔
انھوں نے نایاب کو گلے سے لگا لیا۔
اچھا ازلان بھی آفس سے آگیا ہو گا تم جا کر اسے دیکھ لو۔
جی۔۔۔۔۔۔
نایاب کہہ کر کمرے سے چلی گئ۔
اس دن کے بعد اسکے اور ازلان کے درمیان کوئ بات نھیں ہوئ تھی لیکن وہ اسکے سارے کام کر رہی تھی۔
اپنی سوچوں میں گم جب اسنے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئ۔
********************¬*******
ارسلان جلدی سے تیار ہوجاؤ۔
شازیہ بیگم نے ارسلان کے کمرے میں آکر کہا جو ابھی آفس سے آیا تھا۔
کہاں جانا ہے۔
ارسلان نے تیار کھڑی شازیہ بیگم کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔
رفیق بھائ کے گھر۔
امی میں بھت تھکا ہوا ہوں پلیز آپ اکیلی چلی جائیں۔
ارسلان نے منہ بنا کر کہا۔
ارسلان میں تمھارا کوئ بھانا نھیں سنو گی ۔میں نیچے تمھارا ویٹ کر رہی ہوں جلدی سے آجاؤ۔
شازیہ بیگم بغیر ارسلان کی بات سنے کمرے سے چلی گئ۔
کیا مصیبت ہے ۔کیونکہ وہ ابھی نور کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا
ارسلان نے غصہ پر ضبط کیا۔
تھوڑی دیر بعد ارسلان جب نیچے آیا تو شازیہ بیگم لاؤنچ میں اسی کے انتظار میں بیٹھی ہوئ تھیں ۔
چلو پہلے ہی بھت دیر ہو گئ ہے۔
شازیہ بیگم جا کے کار میں بیٹھ گئ۔
وہ بھی سست قدموں سے چلتا کار میں بیٹھا۔
********************¬*******
وہ سب رفیق صاحب کے گھر میں بیٹھے بات چیت میں مصروف تھے۔
ارسلان کا بس نھیں چل رہا تھا کہ وہ یہاں سے چلا جائے۔
تھوڑی دیر جب وہ جانے کا سوچ کر کھڑا ہونے لگا تو اسے سامنے سے نور آتی نظر آئ۔
ایک پل کے لیئے تو ارسلان اسے دیکھ کر چونک گیا تھا۔
گلابی رنگ کے سادہ سے سوٹ میں گلابی رنگ کا ہی حجاب لیئے وہ خود بھی ایک گلاب لگ رہی تھی۔
ماشاءاللہ میری بیٹی تو بھت پیاری لگ رہی ہے۔
شازیہ بیگم کی آواز پر ارسلان ہوش میں آیا اور نفرت سے رخ مور لیا۔
بھائ میں آپسے کچھ مانگنے آئ ہوں۔
شازیہ بیگم نے سامنے بیٹھے رفیق صاحب کو مخاطب کیا۔
جی بہن بولیں کیا بات ہے ۔
بھائ صاحب میں آپکی بیٹی کو اپن بیٹی بنانا چاہتی ہوں ۔میں ارسلان کے لیئے نورکا ہاتھ مانگنے آئ ہوں۔
شازیہ بیگم کی بات سن کر دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
ایک کی نظروں میں ڈر تھا تو دوسرے کی نظروں میں نفرت۔
********************¬**********
اسنے ہاتھ میں پڑا گلاس کھینچ کر دیوار میں مارا ۔اس کا بس نھیں چل رہا تھا کے سب کچھ تہس نہس کردے ۔
ارسلان جب سے رفیق صاحب کے گھر سے آیا تھا اپنے کمرے میں بند تھا۔یہ تو اسنے بالکل نھیں سوچا تھا کہ شازیہ بیگم نور کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہیں۔
ارسلان بیٹا دروازہ کھولو۔
شازیہ بیگم نے دروازہ بجایا۔
ارسلان نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر خود کو ریلیکس کیا اور پھر اٹھ کر دروازے کھولا۔
بیٹا جب سے ہم گھر آئے ہیں تم تو کمرے میں بند ہو کر رہ گئے ہو ۔کوئ بات ہے تو مجھے بتاؤ۔
شازیہ بیگم نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
امی وہ بس سر میں زرا درد تھا تو سوچا تھوڑی دیر آرام کر لو۔
ارسلان نے بہانا بنایا۔
ہہم۔ارسلان وہ میں نے پوچھنا تھا کہ تمھیں اس رشتے سے کوئ اعتراض تو نھیں ۔مجھے پتا ہے کہ اعتراض والی کوئ بات ہو نھیں سکتی لیکن سوچا پھر بھی تم سے پوچھ لوں۔
ارسلان نے سوچھا کہ وہ منا کر دے لیکن اسے یقین تھا کہ شازیہ بیگم انکار کی وجہ لازمی پوچھے گی اور جو وجہ تھی وہ انھیں بالکل بھی نھیں بتا سکتا تھا۔
نھیں امی مجھے کوئ اعتراض نہیں۔
ارسلان نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔
مجھے یقین تھا کہ تم میری بات کا ضرور مان رکھو گے۔اللہ تم دونوں کا نصیب اچھا کرے۔
شازیہ بیگم کہتی ہوئ کمرے سے چلی گئ۔
ارسلان نے سر اپنے ہاتھوں میں گرا لیا۔
********************¬********
نایاب بھت مشکل سے اپنے پیر بچا کر کمرے میں داخل ہوئ تھی۔
پورا کمرہ بکھرا ہوا تھا۔ہر چیز زمین پر بکھری ٹوٹی پڑی تھی۔
نایاب ہر چیز حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئ طوفان آیا ہو اور ہر چیز تباہ کر کے چلا گیا ہو۔
نایاب نے جب سامنے دیکھا تو ازلان سرخ آنکھیں لیئے اسی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے نایاب کچھ کہتی ازلان کے پڑنے والے تھپڑ سے وہ زمیں بوس ہوئی تھی۔
نایاب منہ پر ہاتھ رکھے بے یقین نظروں سے ازلان کو دیکھ رہی تھی۔
آہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔۔
ازلان نے نایاب کے بالوں کو دبوچ کر اسے کھڑا کیا۔
درد کی وجہ سے نایاب کی سسکی نکلی۔
ازلان کیا ہو گیا ہے آپ کو چھوڑیں میرے بال۔
نایاب نے اپنا آپ چھڑانے کی کوشش کی لیکن مقابل کی گرفت بہت مظبوط تھی۔
چپ ایک دم چپ۔
ازلان بولا نھیں دھاڑا تھا۔
کیوں آئ تم میری زندگی میں آخر کیوں۔تمھاری وجہ سے میری زندگی جہانم بن گئ ہے۔
تمھاری وجہ سے صرف تمھاری وجہ سے میری محبت
مجھے چھوڑ کر چلی گئ ہے۔
میں کل اس سے شادی کرنے والا تھا لیکن وہ مجھے چھوڑ کر کسی اور سے شادی کر رہی ہے۔
ازلان نے غصے سے نایاب کا بازو دبوچتے ہوئے کہا۔
لیکن اس میں میری کیا غلطی ہے ازلان ۔آپ مجھے کیوں سزا دے رہے ہیں اس سب کی۔
نایاب نے روتے ہوئے اپنے بازو چھڑوانے کی کوشش کی۔
سارے فساد کی جڑ تم ہی ہو۔تم منحوس ہو میری ساری خوشیاں کھا گئ ہو تم۔میں اب تمھیں ایک منٹ کے لیئے بھی اس گھر میں برداشت نہیں کروں گا۔دفع ہو جاؤ میرے گھر سے۔
ازلان نے کہتے ہوئے نایاب کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر لایا۔
پلیز ازلان میرا ہاتھ چھوڑیں ۔میں کہی نھیں جاؤ گی۔
کیا ہو رہا ہے یہاں۔
زاہرہ بیگم جو شور سن کر باہر آئ تھیں سامنے کا منظر دیکھ کر انھوں نے حیرت سے کہا ۔
پھوپھو پلیز انھیں سمجھائیے۔یہ مجھے گھر سے نکال رہے ہیں۔
نایاب نے روتے ہوئے کہا۔
یہ کیا کہہ رہی ہے ازلان تم حوش میں تو ہو۔
نایاب کی بات سن کر زاہرہ بیگم نے غصے میں ازلان کو مخاطب کیا۔
میں بالکل حوش میں ہوں امی اور اب یہ لڑکی مذید اس گھر میں نھیں رہ سکتی۔
ازلان نایاب کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
میں کہتی ہوں چھوڑو اسکا ہاتھ۔
زاہرہ بیگم کہا۔
سوری امی لیکن اب میں اس لڑکی کو مذید اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتا۔
ازلان نے کہا اور نایاب کو دروازے سے باہر دھکا دے کر دروازہ بند کردیا۔
ازلان کیا ہوگیا ہے تمھیں ۔وہ بیوی ہے تمھاری۔تم اسکے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو۔
شازیہ بیگم کی آواز میں غصے کے ساتھ افسوس بھی تھا۔
میری طرف سے وہ بھاڑ میں جائے اور آئندہ اس گھر میں اسکا ذکر نا ہو۔
ازلان کہتے ہوئے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
********************¬*******
نور پریشانی میں کمرے میں تہل رہی تھی۔
آج شازیہ پھوپھو کی بات سن کر جب اسنے ارسلان کی طرف دی کھا تھا تو ان آنکھوں میں اپنے لیئے نفرت دیکھ کر وہ سہی معنوں میں ڈر گئ تھی۔
اگر میری ارسلان سے شادی ہو گئ تو وہ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔
یہ سوچ سوچ کر نور کے سر میں درد ہو رہا تھا۔
نھیں مجھے یقین ہے ارسلان شادی کے لیئے منع کردیں گے۔وہ مجھ سے اتنی نفرت کرتے ہیں تو وہ کیسے مجھے قبول کریں گے۔
نور اپنے آپ کو دلاسے دے رہی تھی جب مائرہ بیگم کمرے میں داخل ہوئ۔
کیا کر رہی ہو نور؟
مائرہ بیگم نے پوچھا ۔
کچھ نھیں امی ۔اپ بتائیں کوئ کام تھا۔
ہاں وہ میں کہنے آئ تھی کہ شازیہ باجی کا فون آیا تھا اور وہ تمھارے ابو سے جواب مانگ رہی تھیں تو تمھارے ابو نے ہاں کہہ دیا ہے۔
شازیہ بیگم نے نور کے سر پر پہاڑ توڑا۔
انکا تو بس ہی نھیں چل رہا تھا کے کل ہی نکاح خواہ کو لے کر آجاتی لیکن تمھارے ابو نے تیاریوں کے لیئے وقت مانگا ہے
اسی لیئے اس مہینے کے آخر میں تمھاری رخستی ہے۔ شازیہ بیگم بغیر نور کے دل کا حال جاننے بولے جا رہی تھیں۔
اچھا وہ میں نے چولہے پر ہانڈی رکھی تھی وہ دیکھ آؤ زرا۔
شازیہ بیگم کہہ کر چلی گئی۔
یااللہ میں کیا کروں۔
نور نے اپنا سر تھامتے ہوئے کہا۔
********************¬*******