ہم نشیں جب مرے ایام بھلے آئیں گے
بن بلائے وہ مرے گھر میں چلے آئیں گے
رشید کچھ نالائق جاہل بے وقوف بد وضع لڑکا نہ تھا کہ جس کا غم اس کے باپ کو نہ ہوتا اور حق تو یوں ہے کہ اولاد کیسی ہی ہو اس کا غم سب ہی کو ہوتا ہے۔ عبد المعز نے رشید کے بھاگنے والے دن کسی وجہ سے اس کے کمرہ کا معاینہ نہیں کیا۔ صبح کو نماز سے فراغت پاتے ہی وہ پیارے بیٹے کو دیکھنے چلا۔ کمرہ میں پہنچ کر رشید کے دروازہ کھول کر نکل بھاگنے کی اطلاع پا کر وہ بہت مضطرب ہوا۔ سارے شہر میں کئی دن تک تلاش کی۔ فیض آباد کو تار دیا، نینی تال بھی جوابی ٹیلی گرام دیا۔ مگر سب کہیں سے لاعلمی کا جواب آیا۔ جہاں تک اس کے امکان میں تھا ڈھونڈوایا مگر جب کہیں پتہ نہ چلا تو وہ تھک کر بیٹھ رہا۔ حامد بارہا ان سے ملا لیکن اپنی بدنامی کے خوف سے اس نے بھی کچھ ذکر رشید کا نہیں کیا مگر وہ خفیہ طور پر اناؤ گیا۔ وہاں ڈھونڈا اور جب کچھ سن گن نہ پائی تو پلٹ آیا۔
حامد کی محبت رشید کے ساتھ حد اعتدال سے بہت بڑھی تھی۔ اس وجہ سے حامد نے اخباروں میں اس کی گُم شدگی کے اشتہارات چھپوائے، سینکڑوں روپیہ اڈیٹروں کی نذر کیا لیکن سب بے سود ہوا۔ اور بموادے ‘‘کل امر مرہون باوقاتھا” کچھ پیش رفت نہ گئی۔ جس تاریخ کا ہم ذکر کر رہے ہیں اسی ہی تاریخ کے اخبار میں حامد نے یہ خبر چھپی ہوئی دیکھی:
‘‘اناؤ میں ایک نوجوان جو اپنا نام رشید اور وطن فیض آباد بتاتا ہے، پولیس ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ یہ شخص خلل دماغ کی وجہ سے پاگل خانہ بھیجا گیا تھا، وہاں کی سختیاں نہ برداشت کر سکنے کی وجہ سے سخت علیل ہے۔ صاحب کلکٹر نے اس کے جسم پر زد و کوب کے نشانات پا کر داروغہ پاگل خانہ کو ماخوذ کیا ہے۔ جدید سول سرجن کی راے ہے کہ یہ شخص عرصہ سے پاگل نہیں تھا اور نہ ایسا کوئی مرض اس کے دماغ میں پایا جاتا ہے۔ اس کو پاگل خانہ بھیجنے میں خدا جانے پولیس نے کون مصلحت دیکھی۔ یہ شریف نوجوان بے کسی اور غریب الوطنی کی حالت میں ایسی سخت بیماری میں گرفتار ہے۔ واللہ اعلم کوئی اس کے آگے پیچھے ہے یا نہیں۔ رحم دل کلکٹر کی توجہ اس طرف خاص مبذول ہے۔ صحت پانے پر شاید اس کے حالات کچھ زیادہ معلوم ہو سکیں”۔
اس کو پڑھتے ہی وہ مولوی عبد المعز کے پاس آیا اور ان کو بھی اخبار دکھایا۔ یہ راے قرار پائی کہ دو بجے کی میل ٹرین میں اناؤ چلنا چاہیے۔ حامد مولوی عبد المعز کے پاس ہی بیٹھا تھا کہ سید مبارک بھی آئے لیکن یہاں کے تذکرات سن کر وہ خاموش واپس چلے گئے۔ کچھ اچھا برا منہ سے نہیں نکالا۔ مولوی عبد المعز نے جلدی جلدی اناؤ کی روانگی کا سامان کیا۔ ساڑھے بارہ بجے آپ اور حامد کھانا کھا کر نمازِ جمعہ کو گئے، وہاں سے پلٹ کر بس سیدھے ریلوے اسٹیشن کو روانہ ہوئے اور اناؤ کا ٹکٹ لے کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ خدا خدا کر کے اناؤ اسٹیشن پر اترے اور بلا کسی سے ملے جلے براہ راست پولیس ہسپتال کو گئے۔ رشید کی طبیعت آج بالکل اچھی تھی۔ ضعیف و لاغر تو تھا مگر چوٹ چپیٹ کا اثر تک باقی نہ تھا۔ ڈاکٹر سے مل کر اور کچھ خرچ کر کے عبد المعز و حامد رشید سے ملنے کو اس کی بارک میں گئے۔ چونکہ عصر کا وقت آچکا تھا۔ رشید نمازِ عصر پڑھ کر دعا کے لیے سجدہ میں سر جھکائے مناجات کر رہا تھا: ‘‘خدایا! کاش ایک مرتبہ بھی میری دلی تمنا پوری ہو جاتی۔ کاش میرے والدین اور میری زہرہ کو مجھ پر رحم آجاتا۔ پروردگار! تو عالم و دانا ہے کہ میں نے ذرا بھی بد نیتی نہیں کی۔ نہ معلوم میرے والد مجھ سے کیوں ناخوش ہو گئے۔ اگر میری تقدیر میں زہرہ کا ملنا مقدر نہیں ہے تو خداوندا میری جان کو لے لے اور مجھے ان مصائب و آفات سے نجات دے۔ لیکن بار الہا! اپنی بڑی وسیع رحمت سے اتنا کر کہ ایک بار آخری وقت میں مجھے میرے باپ کی زیارت نصیب ہو جائے اور میں ان سے اپنا قصور دریافت کر کے بخشوالوں”۔
رشید کی فریاد و زاری سن کر حامد و عبد المعز رونے لگے اور دونوں اس سے لپٹ گئے۔ رشید بھی ان کو دیکھ کر خوب ڈھاڑیں مار مار رویا۔ یہ تینوں آدمی اس طرح سے روئے کہ ڈاکٹر خود دوڑا آیا اور بمشکل تینوں کو خاموش کرا کر حال پوچھا۔ حامد نے گول مال کر کے حالات بیان کیے اور یہ ظاہر کیا کہ رشید باپ کی ناخوشی کا خوف کر کے گھر سے بھاگ آیا تھا لیکن بجاے اس کے کہ بھاگنے سے اسے مفر ہوتا، اور مصیبت میں مبتلا ہو گیا۔ اس کے بعد حامد نے رشید کے خلاص کی درخواست کی جس کو ڈاکٹر نے دوسرے دن پر محوّل رکھا اور اگلی صبح کو رشید بخیر و خوبی شفا خانہ سے آزاد ہو کر اپنے باپ اور دوست کے ساتھ لکھنؤ آیا۔
ہم یہ لکھنا بھول گئے کہ رشید کی مفقود الخبری کے ایام میں حامد نے مفصل حالات مولوی عبد المعز صاحب سے کہہ کر ان کو اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ وہ رشید کی نسبت کا زہرہ کے ساتھ پیغام دیں۔ اب لکھنؤ پہنچنے کے دوسرے ہی دن حامد نے مولوی صاحب سے اس کا تقاضا کیا اور اس کے تقاضوں سے تنگ آکر مولوی صاحب نے خواجہ جمال سے اس کا ذکر چھیڑا۔ خواجہ صاحب رشید کو ہزار جان سے چاہتے تھے، انھوں نے بڑی عجلت و مستعدی سے اس کام میں کوشش کی۔ سید مبارک کو تو دل و جان سے منظور تھا لیکن اتنی شرط ان کی طرف سے پیش کی گئی کہ رشید ان کے گھر پر رہے جس کو مولوی عبد المعز نے بخوشی خاطر منظور کر لیا۔
رشید اول تو خود اعلی خیالات کا آدمی تھا، دوسرے مولوی عبد المعز بھی ایسے ہی دماغ کے تھے اور خواجہ جمال کی وجہ سے سید مبارک بھی انھیں کے مقلد بن گئے اور تکلفات دنیاوی کو بالاے طاق رکھ اگلے جمعہ کو مطابق شرع شریف رشید و زہرہ کا نکاح ہوا اور اسی طرح وہ دونوں کشتگانِ خنجرِ عشق اپنی مراد کو پہنچے۔
ختم شد